وزیرِ دخل در معقولات
از، وارث رضا
تھرکتے اور کمریا ہلاتے رنگیلا شاہ کے ہرکارے مانند رنگیلا شاہ کی ابرو پہ حکم بجا لانے والے مصاحب جب مظلوم و بے خطا خون کے دھبوں کو منٹوں میں صاف کروا کر قتل عَمد ثبوت کے تمام نشانات مٹوا سکنے کے ماہر قرار دیے جائیں، اور پھر ان کی اسی فرماں بردار کارکردگی پر انہیں نوازنے واسطے عوامی نمائندگی بخش دی جائے تو اس بے حیائی پر ہی شاید اس کہاوت کا وجود ہوا ہو: “کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا۔”
سوال کریلے کے نیم چڑھے ہونے سے زیادہ اس کے اندر پھپھوند لگنے کا ہے، وزارتِ داخلہ جس کے دخل کا انتظام پنڈی کے راستے ہوا، کبھی یہ وزارت عوامی احتجاج پر ٹانگیں تڑوانے کی ہانکتے نہیں تھکتی تو کبھی یہ دخل در معقولات کے اصول تحت ہر اس کام میں ٹانگ پھنسا بیٹھتے ہیں کہ جو ان کے بس کی بات ہی نہ ہو، ابھی اکتوبر میں ہی فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے حوالے سے اس وزیر در دخل معقولات بے پر کی کہہ بیٹھے کہ آزادی مارچ کو اسلام آباد تک پہنچنے ہی نہیں دیا جائے گا اور اس مارچ کے حوالے سے مارچی افراد کو حکومت کے صدر مقام تک رسائی نہیں دی جائے گی وغیرہ۔
مگر ڈھاک کے تین پات کی طرح موصوف کو دخل در معقولات کی ایسی پٹخنی دی گئی کہ مولانا اپنے کارکنوں کے ہمراہ لاؤ لشکر سمیت اسلام آباد میں نہ صرف داخل ہوئے بَل کہ تیرہ روز وزارتِ داخلہ کی عمارت کے ارد گرد ان کی موجودگی میں حکومتی نا اہلی پر خوب “دلیہ دلتے” رہے اور یہ موصوف دم دبائے اسلام آباد میں چیں بہ چیں ہی کرتے رہے۔
وہ تو بھلا ہو حالات کا کہ مولانا چند ضمانتیوں کی وجہ سے اسلام آباد سے بوریا بستر سمیٹ گئے وگرنہ کچھ بعید نہ تھا کہ مولانا کا غصہ موصوف کا ہی بوریا بستر لپٹوا دیتا۔
ابھی موصوف وزیر کی مکمل گلو خلاصی ہی نہیں ہوئی تھی کہ پخون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین گلے پڑ گئے اور وزیرِ موصوف نے اپنی کارکردگی دکھانے کی کوشش میں ہڑ بڑا کر منظور پشتین پر غداری اور دہشت گردی کی دفعات کا سہرا لے کر منظور پشتین کو غدارِ وطن کہہ دیا۔ بل کہ منظور پشتین کی رہائی اور ان سے اظہارِ یک جِہتی کی خاطر احتجاج کرنے والے روشن خیال اعلیٰ تعلیم یافتہ ترقی پسند خیالات کےخواتین و نو جوانوں پر دہشت گردی کی دفعات لگا کر انہیں بندی خانے کی مشقتی سزا دلوانے کی سوچتے رہے۔
وہ تو بھلا ہو اسلام آباد کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہ انہوں نے نہ صرف نو جوانوں کی ضمانت منظور کر لی، بل کہ وزارت دخل در معقولات کے ہرکاروں کے غیر قانونی اقدامات کی ایسی کھچائی کی کہ وزیرِ موصوف دُم دبا کر ایسے نکلے کہ نظر ہی نہ آئے۔
اب آپ خود جائزہ لیجیے کہ وزارت دخل در معقولات کی پھپھوند زدہ سوچ کے وزیر ایسے خوابِ خرگوش ہوئے کہ انہیں پتا ہی نہ چلا کہ اے پی ایس پشاور کے بچوں کا قاتل احسان اللہ احسان ان کی وزارت کی آنکھ میں دھول جھونک کر ان کے محفوظ بندی خانے سے بیرونِ ملک رفو چکر ہوگیا اور وزیر بھونچکا سے آسمان کو تکتے اپنی بغلیں بجانے پر ہی شرمندہ شرمندہ کبھی پارلیمان کی پچھلی راہ دریوں سے پارلیمان آتے جاتے رہے اور کبھی چھپتے پھرے۔
آخرِ کار ایک روز راہ دری سے خاموشی کے ساتھ گذرتے ہوئے رپورٹر کے ہاتھوں دھر لیے گئے۔
اب موصوف وزیر سے جب پوچھا گیا کہ جناب احسان اللہ احسان آپ کی محفوظ پناہ گاہ سے آخرِ کار کیسے رفو چکر ہوئے، جب کہ آپ کی حفاظت خاصی محفوظ سمجھی جاتی ہے تو اس پر موصوف وزیر نے یہ کہہ کر جان چھڑائی: “احسان فرار ضرور ہوئے ہیں مگر جلد آپ اس سلسلے میں اچھی خبر سنیں گے۔”
کیا یہ موصوف وزیر سماج کے اس المیے سے واقف ہیں جو راول پنڈی کی ایک معصوم بچی کے ساتھ کئی ماہ تک مسلسل چار درندے درندگی کرتے رہے، جس کے نتیجے میں وہ سات آٹھ ماہ کا حمل برداشت کر کے ایک بے اولاد جوڑے کے پاس پناہ گزین ہے جنہوں نے متوقع بچے کو گود لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اس جوڑے کے مطابق یہ کم سِن بچی اتنی معصوم ہے کہ پیپسی اور چپس کی فرمائش کرتی اور ٹی وی پہ کارٹونز دیکھتے دیکھتے سو جاتی ہے۔
لگتا ہے ہمارے مذکورہ وزیر نے دوران سروس اس قدر سلیُوٹ مارے ہیں کہ ان کی مت ہی مر چکی ہے۔ ہمارے ایک سینئر صحافی ساتھی اکثر کہا کرتے تھے، “آپ یقین رکھیں کہ دنیا کی تمام سپاہ کے کارندوں کا “اپر چیمبر” یعنی دماغ یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت فرماں ردار سلیوٹ میں مکمل ختم کر دی جاتی ہیں سو ان سے کسی عقلی فیصلے کی امید عوام کی حماقت ہو گی، وگرنہ جو بندوق کی طاقت پر خود کو بہادر سمجھتا پھرے تو پھر اس کا نہیں عوام کے شعور کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ سو وہ امتحان اس قوم کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔