اکیسویں صدی کی وضاحت کرتے مارکسزم کے دس خیالات
از، سرگئی الیجاندروگومز، ترجمہ از، شاداب مرتضیٰ
نوٹ: یہ مضمون کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے ترجمان رسالے دی گرانما میں مئی 2018 میں کارل مارکس کی پیدائش کے دو سو سالہ جشن کے موقع پر لکھا گیا تھا۔
سرمایہ داری کی پروپیگنڈہ مشین نے مارکس کے تجزیے کو جھٹلانے کی کتنی بھی کوشش کی ہو لیکن ان کے خیالات کو تاریخ نے درست ثابت کیا ہے۔
ہر بار جب اقتصادی بحران کے خطرے کی گھنٹیاں بجتی ہیں، کارل مارکس کی کتابوں کی فروخت آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے۔ انیسویں صدی کے ان جرمن مفکر کی طرح چند ہی لوگ ہوں گے جنہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے افعال کو اور انسانیت کے لیے اس کے نتائج کو سمجھا ہو گا۔
سرمایہ داری کی اجارہ دارانہ پروپیگنڈہ مشین نے اس کے تجزیے کو جھٹلانے کی اور ان خیالات کے خلاف موت کا فیصلہ صادر کرنے کی کتنی ہی جان توڑ کوشش کی ہو جن کے لیے اس نے اپنی زندگی وقف کر دی لیکن مارکس ازم وقت کے معیار پر کھرا اترا اور نہ صرف دنیا کو سمجھنے کے ایک طریقۂِ کار کے طور پر، بل کہ اسے تبدیل کرنے کے ایک آلے کے طور پر بھی، اس کی درستی ثابت ہوئی۔
اس کی پیدائش کی دو صدیوں بعد، گرانما انٹرنیشنل، مارکس کی ان دس پیش گوئیوں کو پیش کر رہی ہے جو اکیسویں صدی کا احاطہ کرتی ہیں۔
1۔ سرمائے کا ارتکاز اور مرکزیت
اپنے شاہ کار سرمایہ میں مارکس نے سرمایہ داری میں معاشی پیداوارِ نو کی وضاحت کی اور سرمائے کے ارتکاز اور مرکزیت کے رجحان کی پیش گوئی کی۔ ان میں سے اولُ الذّکر پہلو کا تعلق قدرِ زائد کے اجماع سے ہے، یعنی وہ قدر جو مزدور کی قوتِ محنت سے تخلیق ہوتی ہے لیکن جسے سرمایہ دار منافعے کی حیثیت سے اپنے تصرف میں لاتا ہے۔ دوسری اصطلاح سرمائے میں ہونے والے اس اضافے پر مشتمل ہے جو کئی مختلف سرمایہ داروں کے ملاپ کا نتیجہ ہوتا ہے اور ہمیشہ معاشی دیوالیوں اور اقتصادی بحرانوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
اس تجزیے کے مضمرات ان لوگوں کے لیے تباہ کن ہیں جو دولت کی تقسیم میں مارکیٹ کے نا دیدہ ہاتھ کی خوبی کا دفاع کرتے ہیں۔ جیسا کہ مارکس نے پیش گوئی کی تھی، اکیسویں صدی میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی خاصیتوں میں سے ایک خاصیت یہ ہے کہ امیر اورغریب کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ آکسفیم Oxfam کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، 2017 میں دنیا بھر میں پیدا ہونے والی 82 فی صد دولت دنیا کی آبادی کے امیر ترین 1 فی صد لوگوں کی جیبوں میں گئی، جب کہ 3.7 ارب لوگ، جو دنیا کے نصف غریب ترین افراد ہیں، ان کی دولت میں سرے سے کوئی اضافہ ہی نہیں ہوا۔
2۔ سرمایہ دارانہ نظام کا عدم استحکام اور بحرانوں کا دہراؤ
یہ جرمن مفکر دنیا میں پہل6 شخص تھے جنھوں نے یہ بات سمجھی کہ اقتصادی بحرانات سرمایہ دارانہ نظام میں کسی خرابی کا نتیجہ نہیں بل کہ اس کی دائمی خاصیت ہیں۔ سرمایہ دارانہ ماہرینِ معاشیات کی جانب سے آج بھی یہ کوشش کی جاتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اقتصادی بحرانوں کے بارے میں اس سے مختلف کوئی خیال سامنے لایا جائے۔
تاہم، 1929 کے اسٹاک مارکیٹ کریش سے لے کر 2007-2008 تک، سرمایہ دارانہ معیشت نے جو سفر طے کیا ہے اس کا نقشہ وہی رہا ہے جس کی نشان دَہی مارکس نے کی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ وال اسٹریٹ کے بڑے ساہُوکار بھی اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے مارکس کی تصنیف سرمایہ کے صفحے الٹ پلٹ کرتے رہتے ہیں۔
3۔ طبقاتی جد و جہد
غالباً ایک سب سے زیادہ انقلابی مارکسی خیال اس سمجھ بوجھ میں پنہاں تھا: “اب تک دنیا کی تمام تاریخ طبقاتی جد و جہد کی تاریخ ہے،” جیسا کہ ہم مارکس اور ینگلز کی جانب سے 1848 میں لکھے گئے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں پڑھتے ہیں۔ اس دعوے نے لبرل فکر کو بحران سے دوچار کر دیا۔
مارکس کے نزدیک، سرمایہ دارانہ ریاست بھی اپنی اقدار اور اپنے طبقے کی پیداوارِ نو کے ذریعے دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے بالا دست طبقے کا ایک ہتھیار ہے۔ ڈیڑھ صدی بعد، 99 فی صد لوگ1 فی صد افراد کے تسلط کے خلاف سماجی جد و جہد کر رہے ہیں۔
4۔ صنعتی اضافی فوج
مارکس کے مطابق، سرمایہ دار کو منافع کی شرح زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیے اجرتوں کو کم رکھنے کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے، اوریہ مقصد اسی وقت تک حاصل کیا جا سکتا ہے جب تک ایسے مزدور موجود ہوں جو ان مزدوروں کی جگہ لینے کے لیے دست یاب ہوں جو روز گار کی شرائط ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اسے انھوں نے صنعتی اضافی فوج کا نام دیا۔ حالاں کہ انیسویں صدی سے لے کر اب تک سماجی اور ٹریڈ یونین تحریکوں نے اس صورتِ حال کے عناصر میں تبدیلی پیدا کی ہے، خصوصاً ترقی یافتہ ملکوں میں۔ لیکن کم سے کم اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی تلاش آج بھی کاروباری شعبے کا لازمی عُنصر ہے۔
بیسویں صدی کے دوران، یورپ اور امریکہ میں موجود بڑی مینوفیکچرنگ کمپنیاں کم اجرت پر کام کرنے والے ہنر مند مزدوروں کی تلاش میں ایشیاء منتقل ہو گئیں۔ حالاں کہ حالیہ حکومتیں اس عمل کے دوران ملازمتوں میں کمی کی نشان دَہی کرتی ہیں، جیسے کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے کی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کمپنیوں نے سستی محنت کا استحصال کر کے منافعے کی اونچی شرح قائم رکھی ہے۔
اجرتوں کے معاملے میں موجودہ تحقیق دکھاتی ہے کہ مغربی ملکوں میں قریباً 30 سال سے مزدور طبقے کی قوتِ خرید کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایگزیکٹو اور نچلی سطح کے ملازموں کے درمیان یہ خلیج اور زیادہ بڑھی ہے۔ دی اکنامسٹ کے ایک آرٹیکل کے مطابق امریکہ جیسے ملکوں میں گزشتہ بیس سالوں میں تنخواہیں ساکت ہو گئی ہیں، جب کہ اونچی ترین سطح کے ایگزیکیٹو ملازموں کی تنخواہ میں خاصا اضافہ ہوا ہے: وہ اوسط آمدنی کے مقابلے میں 40 سے 110 گنا زیادہ کما رہے ہیں۔
5۔ مالیاتی سرمایے کا منفی کردار
مارکس نے سرمایے کے اجماع میں استحصال کی ترکیبوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ مالیاتی سرمایے پر انھوں نے خصوصی تنقید کی ہے جس کا معیشت میں بَہ راہِ راست مادی کردار نہیں ہوتا، بل کہ اسے افسانوی انداز سے جمع کیا جاتا ہے، جیسے پرامسری نوٹ، promissory note، یا بونڈ کی شکل میں۔
اس کے دور میں کوئی معیشت کے اس شعبے کی جدید ترقی کا تصور نہیں کر سکتا تھا جو آج کمپیوٹر کے ذریعے مالیاتی لین دین کو روشنی کی رفتار سے انجام دینے کی وجہ سے ممکن ہے۔
بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری اور پیچیدہ مالیاتی نظاموں کی صراحت، جیسے کہ قرض نا دہندہ افراد کو زیادہ شرحِ سود پر قرض دینا، جس نے 2007-2008 کے بحران کو جنم دیا، یہ سب مارکس کے تحفظات کی ٹھوس انداز سے تصدیق کرتے ہیں۔
6۔ جھوٹی ضرورتوں کی تخلیق
انیسویں صدی نے ٹی وی اور ریڈیو پر کمرشل تشہیر کی ترقی کو اور انٹرنیٹ پر ذاتی اشتہارات کے جدید طریقوں کو بھی نہیں دیکھا تھا، لیکن مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام میں لوگوں میں جھوٹی ضروریات اوربے گانگی پیدا کرنے کی صلاحیت کے بارے میں پہلے سے ہی خبر دار کیا تھا۔ اس نے ڈیڑھ سو سال پہلے پیش گوئی کی تھی:
“اشیائے صرف اور ضروریات کا پھیلاؤ غیر انسانی، مصنوعی، غیر فطری اور تصوراتی مَیلانات اور رغبتوں کی تخلیق اور ہمیشہ بڑھتی تابع فرمانی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔”
آج کی دنیا میں، موبائل فون چند مہینوں میں ہی پرانے ہو جاتے ہیں اور اشتہاروں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ صارفین کو جدید ترین ماڈل خریدنے پر قائل کریں۔ اسی دوران، گھریلو استعمال کے آلات کو منصوبہ بندی کے ساتھ اس طرح بنایا جاتا ہے کہ وہ چند سالوں میں ہی کام کرنا چھوڑ دیں اور یوں انہیں تبدیل کرنے کی ضرورت پیدا کی جاتی ہے۔
7۔ عالم گیریت
مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا: “اپنی مصنوعات کے لیے مستقل بڑھتی ہوئی منڈی کی ضرورت پورے کرۂِ ارض پر سرمایہ داروں کا پیچھا کرتی ہے اور انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ ہر جگہ اپنا گھونسلا بنائیں، ہر جگہ سکونت اختیار کریں اور ہر جگہ اپنے روابط قائم کریں۔”
منڈیوں کی عالم گیریت اور اس کے لیے صارفیت سے متعین ہونے والے کلچر کے تسلط کی انہوں نے جو تصویر کشی کی تھی وہ اس سے زیادہ درست نہیں ہو سکتی تھی۔
8۔ اجارہ داریوں کی اہمیت کا ابھار
عالم گیریت کا یہ رجحان بین الاقوامی اجارہ دار کمپنیوں کی تخلیق کا راستہ اپناتا ہے۔ کلاسیکی اقتصادی نظریے کا مفروضہ یہ تھا کہ مسابقت کے نتیجے میں ملکیت میں حصے داری بڑھے گی لیکن مارکس نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر طاقت ور ترین کے قانون کی بنیاد پر منڈی میں اختلاط کے رجحان کی نشان دَہی کی یعنی منڈی میں مسابقت کے نتیجے میں ملکیت میں حصہ داری بڑھنے کے بَہ جائے اس لیے گھٹی چلی جائے گی کہ طاقت ور ترین سرمایہ دار کارپوریشنز معیشت پر قابض ہو جائیں گی۔ میڈیا، ٹیلی کمیونی کیشن اور تیل کی بڑی اجارہ داریاں مارکس کے بیان کردہ اس عمل کی چند تازہ مثالیں ہیں۔
9۔ سرمایہ داری نظام کی خود کشی کا رجحان
کمیونسٹ مینی فیسٹو میں سرمایہ داری کے بارے میں سب سے زیادہ بصیرت افروز خیالات میں سے ایک یہ ہے:
“وہ سب کچھ جو ٹھوس ہے، ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے۔”
مارکس اور اینگلز سرمایہ داری نظام کی بَہ یک وقت تخلیقی اور خود کو تباہ کر دینے والی دونوں قسم کی فطرت سے واقف تھے، جس میں ہر قیمت پر محنت کی افزودگی کی جستجو پیدا وار کی غیر انسانی تال اور نا پائیدار استعمال کو معاشرے پر مسلط کر دیتی ہے۔
یہی وہ رجحان ہے جس نے ہمارے سیارے کو تباہی کے دھانے پرلا کھڑا کیا ہے۔ عالمی درجۂِ حرارت میں اضافے پر انسانوں کے اثرات سائنسی طور پر ثابت شدہ ہیں حالاں کہ کچھ ملکوں کے صدور، جیسا کہ امریکہ وغیرہ، اس سے مسلسل انکار کر رہے ہیں۔
10۔ مزدور طبقے کی انقلابی صلاحیت
تاریخ پر مارکس کے زبر دست اثر کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اس نے سرمایہ داری نظام کے تضادات کا گہرائی سے تجزیہ کیا، بل کہ اس کا سبب، کمیونزم کی بنیاد پر، ایک نئے سماج کی تخلیق کے لیے دی جانے والی اس کی صدا تھی۔
اس کے اس پیغام نے کہ مزدور طبقے میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ خود کو ہمیشہ کے لیے استحصال اور نا برابری سے آزادی حاصل کر سکتا ہے، بیسویں صدی کو بدل ڈالا اور روس، چین، ویتنام اور کیوبا سمیت دیگر ملکوں میں انقلابات کو جنم دیا۔ مزدور طبقے کے اتحاد کے لیے اس کی صدا اکیسویں صدی میں بھی مکمل طور پر درست ہے۔