فطرتی ماحول، ماحولیاتی مسائل اور عصری اردو ناول
از، یوسف نون
آج دنیا کو جن بڑے مسائل سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے، ان میں سے ایک اہم مسئلہ ماحولیات کا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور بگاڑ ایک عِفرِیت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ زمین تمام سیاروں میں وہ واحد کُرۂِ حیات ہے، جہاں زندگی کا وجود ہے۔ انسان اور دیگر حیاتیات اور نباتات کے لیے یہ کرۂِ حیات (biosphere) وہ واحد قطعہ بحر و بَر ہے، جہاں روئیدگی ہے، نشو و نما ہے، پناہ اور بقاء ہے۔ بَہ صد افسوس یہ کہنا پڑتا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہو کر دیگر مخلوقات کو یک سر نظر انداز کر چکا ہےـ
اشرف المخلوقات ہونے کے زعم میں بیماری کی حدتک مبتلا ہو کر اپنے ہی ہاتھوں سے اس کرۂِ حیات کو برباد کرنے پر کمر بستہ ہےـ یہ انسان کا ایک ایسا خود کش عمل ہےجس کے مہلک نتائج مختلف صورتوں میں جلد یا با دیر سامنے آ رہے ہیں۔
شاید اسے بالکل ہی ادراک نہیں کہ اس کی دیگر مخلوقات میں کیا حیثیت ہے؟ اس کرۂِ ارض پر اگر ایک پھپھوندی بھی نا پائید ہو جائے تو بہت سے نباتات اور حیوانات کے ساتھ انسان کی بقاء بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ مگر انسان کے ختم ہونے سے شاید اس کرۂِ حیات کی کسی بھی مخلوق کو کوئی فرق بھی نہ پڑےـ
انسان غلبے کی منطق کے خبط میں بیماری کی حد تک مبتلاء ہو کر اس کائنات کو مُسخّر کرنے کا سودا من میں سمائے، اپنے تخریبی عمل و تعامل کی بناء پر پورے کرۂِ حیات پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ آج ہم اور ہمارا ماحول جن مسائل سے نبرد آزماء ہے ان میں عالم گیر ایٹمی دوڑ اور اس کے تباہ کن اثرات، تاب کاری کا سست رو زہر، حد سے بڑھتا جنگی جنون اور کیمیاوی و جراثیمی ہتھیاروں کا استعمال، عالمی آبادی میں خطرناک حد تک اضافہ، اس اضافے سے بڑھتے غذائی مسائل، ان مسائل و ضروریات سے نمٹنے کے لیے اپنائے گئے غیر فطرتی ذرائع کاشت و پیداوار، کیمیاوی کھادوں اور زہروں کا بے دریغ استعمال، ان کیمیاوی عناصر کا حیاتیات و نباتات اور فضا میں نفوذ، عالمی درجۂِ حرارت میں ہوش رُبا حد تک اضافہ، زمین کا روز بہ روز بڑھتا بخار، اس قدر بڑھتے درجۂِ حرارت سے پگھلتے گلیشئرز، مرتے دریا، چڑھتے سمندر، سمندروں کے چڑھنے اور بڑھنے سے زمین کا سکڑنا اور نمکیات کی تہہ کا چڑھنا، سمندروں کا بڑھتا زہریلا پن، سمندری حیات کی بقاء کو لاحق خطرات، فضا میں اوزون اور زمین کے حفاظتی زون کی تباہی، موسموں کی شدت اور مدت میں تغیر و تبدل، ماحولیاتی اختصار کے باعث جنگلات دریاؤں اور ان میں پناہ گزیں حیاتیات و نباتات کی معدومیت، درختوں کے کٹنے سے بارشوں میں خطرناک حدتک کمی، زمین کا کٹاؤ اور لینڈسلائیڈنگ، اس سبب زیریں اور بالائے زمیں مٹی کا ضیاع، ٹریفک کے اِزدِحام اور مشینری کی بڑھتی عمل داری سے ماحولیاتی و صوتی آلودگی، ہوا و فضا میں زہریلی گیسوں کی بھرمار، زمین پر کوڑا کرکٹ کے لگے انبار اور ان سے پھوٹنے والی نت نئی بیماریاں شامل ہیں۔
فلسفۂِ ماحولیات (deep ecology) فطرتی دنیا اور اس کی تمام مخلوقات کے بیچ باہمی رشتے کو تسلیم کرتے ہوئے بشر مرکزیت کے حامل فلسفے کو رد کرتا اور انسان سمیت تمام مخلوقات کو برابر کا درجہ دیتا ہے۔
یہ فلسفہ زندگی کی تمام صورتوں کو زندہ اور برقرار دیکھنا چاہتا ہےـ فلسفۂِ ماحولیات کا دعویٰ اور مطالبہ ہے کہ انسان کی مانند غیر انسانی مخلوق، خواہ وہ نباتاتیہ، جماداتیہ ہوں یا پھر حیواناتیہ، ان سب کا احترام لازم ہے، بَل کہ ان کو زندہ رہنے، بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا قانونی اور آفاقی حق ملنا چاہیے۔
جہاں تک اردو ناول کا تعلق ہے، اس کے وسیع کینوس میں فطرت، قدرتی ماحول، ماحولیاتی حسن، مختلف خطوں کا لینڈسکیپ، بن نگاری، راعیانیت (pastoral) ایسے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا وسیع تر اور بد ترین مسائل کو بھی کو زیرِ موضوع لایا گیا ہے۔
اردو ناول میں فطرتی مرقعوں، ماحولیات کی عکاسی اور منظر نگاری کی بہت سی مثالیں ہیں: جمیلہ ہاشمی کے ہاں روہی کا لینڈسکیپ ہو، قرۃالعین حیدر کے ناول آخرِ شب کے ہم سفر میں سند ربن کے مناظر یا پھر شوکت صدیقی کے جانگلوس کا وسیع کینوس پر پھیلا ماحول اور مختلف خطوں کی منظر نگاری، کسی نہ کسی طور یہ ماحول اور ماحولیات ہمارے ناول کا حصہ بنتا نظر آتا ہےـ
اس کے علاوہ ماحولیات کے موضوع پر با قاعدہ ناول بھی لکھا گیا، ایسے ناولوں کا پلاٹ اور کہانی طبعی ماحول، ماحول میں قدرتی یا مصنوعی عمل و تعامل سے در آنے والے تغیر و تبدل اور آج کے ماحولیاتی مسائل پر استوار ہے۔
جہاں تک اردومیں ماحولیاتی موضوع پر با قاعدہ ناول نگاری کا تعلق ہے بہاؤ (١٩٩٢) کو پہلے با قاعدہ ماحولیاتی ناول کے طور پر دیکھا جا سکتا ہےـ بہاؤ یقیناً اب تک کے ماحولیاتی ناولوں میں ایک بڑا ناول ہے، جہاں اس ناول کی کئی تاریخی، تہذیبی، ثقافتی، لسانی اور آرکیالوجیاتی جہتیں ہیں، وہیں اس ناول کا ایک غالب پہلو اِکالوجی بھی ہےـ بہاؤ کا پلاٹ بشر مرکزیت دائروں میں کہانی کو آگے بڑھاتا ہے۔
تارڑ صاحب نے اپنے تخیل کے زور پر پلاٹ کی بنیاد پانچ ہزار سال پہلے کے ماحول اور اس زمانے میں وقوع پذیر ماحولیاتی تبدیلوں پر رکھی ہےـ اچانک رُو نما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں اور اختصارات سے انسان تو کسی نہ کسی طور بچ نکلتا ہے، مگر دریائے سرسوتی، ہاکڑائی تہذیب و تمدن اور ثقافت، شہر، جنگل، آبی و خاکی جانور اور چرند پرند سبھی ماحولیاتی اختصار (ecological shortness) کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
تارڑ صاحب نے دریاؤں کے خشک ہوتے سوتوں کو تہذیب کے ساتھ ساتھ پورے کرۂِ حیات کی موت کی علامت کے طور پر پیش کیا ہےـ دریا کاخشک ہونا کوئی چھوٹا یا معمولی عمل ہر گز نہیں، خشک ہوتا دریا نا صرف زمین کی تخلیقی کوکھ کو بانجھ کر دیتا ہے، بل کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پورے کرۂِ حیات کو بھی موت کے مُنھ میں دھکیل دیتا ہےـ
بہاؤ کی ماحولیاتی جڑت ہمیں ماحولیاتی تنوع، ماحولیاتی تانیثیت، ماحولیاتی مارکسیت اور سماجی ماحولیات، ماحولیاتی ما بعد نو آبادیات، منظر نگاری، بَن نگاری اور رعایانیت ایسے پہلوؤں سے رُو شناس کراتی ہےـ تارڑ صاحب اس دور کے ماحول اور ماحولیاتی تبدیلوں کو تو بَہ خوبی دکھاتے ہیں مگر اس قدر بڑے پیمانے پر رُو نما ہونے والے ماحولیاتی تغیر و تبدل کے اسباب و علل سےپردہ چاک نہیں کر پاتے، شاید اس کا سبب مشاہدے سے کہیں زیادہ تخیل کی کارِ فرمائی ہے۔
زمانی ترتیب سے ماحولیاتی موضوع پر دوسرا باقاعدہ ناول ارشد چہال کا بیاڑ گلی (٢٠٠٤) ہےـ ناول کا پلاٹ کہانی کو ماحولیاتی دائروں میں چلا کر بشر مرکز فلسفے اور انسانی غلبے کی منطق کی رد تشکیل کرتے ہوئے کہانی کی تکمیل کرتا ہےـ بیاڑ گلی کا مرکزی کردار نو جوان فاریسٹ آفیسر، سلیمان ہے، جسے قدرتی ماحول اور فطرت سے محبت ہےـ وہ پیشہ وارانہ ذمے داری پورے خلوص سے نبھانے کے ساتھ، ماحول اور فطرت سے محبت و جڑت کا ثبوت دیتے ہوئے جنت ایسی حسین اور پُر فضا وادی بیاڑ گلی کے جنگلات کو بچانا چاہتا ہےـ
مقامی ٹمبر مافیا اور محکمۂِ جنگلات جو کمیشن مافیاکی شکل اختیار کر چکا ہے، سلیمان کا یباڑ گلی سے تبادلہ کرا کے دم لیتاہے۔ اپنے پیشے سے مخلص اور ماحول دوست شخص ایسا پتھر، سلیمان فاریسٹ آفیسرجب راستے سے ہٹتا ہے تو ٹمبر مافیا بیاڑ گلی کے صنوبر کے قیمتی جنگل کو اجاڑ کے رکھ دیتا ہے۔
فطرت سے اس بہیمانہ کھلواڑ کا نتیجہ لینڈسلائیڈنگ کی بد ترین شکل میں سامنے آتا ہےـ کاٹے گئے جنگلات کے سبب پیدا شدہ ماحولیاتی عدم توازن سے لینڈسلائیڈنگ ہوتی ہے اور تودے نالے میں گر کر اسے بند کر دیتے ہیں، جس کے نتجے میں نالے میں سیلاب آ کر پوری بیاڑ گلی کو ڈبو دیتا ہےـ ٹمبر مافیا تو جان سے جاتا ہی ہے، مگر اس وادی کے دیگر باسیوں کوبھی اچھا خاصا مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہےـ
ناول ٹمبر مافیا کے علاوہ محکمۂِ جنگلات کی بے ضابطگیوں اور جنگلات سے متعلق قوانین میں جان بوجھ کر رکھے گئے سقم کی بَہ یک وقت قلعی کھولتا ہےـ
یہ ناول ایکوفیمنزمی حوالے سے بھی اہم ہے۔ راسب خاں، شمریز خاں، مہابت خاں اور تاج خاں ایسے کردار جو ایک مضبوط ٹمبر مافیا گروہ ہے۔ بہ یک وقت فطرت اور فطرت کے بہت اہم اور خوب صورت جزو عورت کا استحصال بھی کرتا نظر ہےـ
محمد عاطف علیم کا ناول مشک پوری کی ملکہ (٢٠١٥) کا موضوع، فطرت، فطرتی مخلوقات اور انسان میں پیدا کردہ مغائرت کارشتہ ہے۔ اس مغائرت کا سبب خود انسان ہی ہےـ اس ناول میں فطرت، قدرتی ماحول اور اس ماحولیاتی نظام میں پیدا کردہ انسانی بگاڑ کو بَہ خوبی پیش کیا گیا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک مادہ گلدار ( لیپرڈ) ہےـ
انسان کی بربریت اس گلدار کو اس کی فطرت کے بر عکس آدم خور بنا دیتی ہےـ انسان کو جس کا خمیازہ کئی جانوں کے نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ گلدار کو گولی مار کر زخمی کر دیا جاتا ہے اور اس کے بچے اغواء کر لیے جاتے ہیں۔ گلدار ملکہ اس واقعہ کا خونی انتقام آدم خوری کی وارداتوں سے لیتی ہے۔
اس ناول میں ایک جانور مامتا کی اپنے بچوں سے محبت میں انسان اور ایک عاشق کی اپنی محبوبہ کی محبت میں ایک جانور سے انتقام کی سلگتی آگ کو پیش کیا گیا ہے۔ ناول میں منظر نگاری کمال پر ہے، قدم قدم پر اَن چھوئے اور حسین بن کے مرقعے جزئیات کے ساتھ ملتے ہیں۔
فطرتی ماحول اور جنگل کے مناظر کو بہت عمدگی سے پینٹ کیا گیا ہے۔ ماحولیاتی تنقید میں فطرت نگاری سے زیادہ منظر نگاری کو اہمیت حاصل ہےـ فطرتی نگاری میں فطرت اور منظر نگاری میں وہ سب کچھ دِکھتا ہے جو ایک تخلیق کار کی آنکھ دیکھ سکتی ہے، یہ ناظر پر ہے وہ کیا کچھ دیکھتا ہےـ ناول نگار نے ایک جانور کے احساسات و جذبات کی عکاسی سے بشر مرکزیت فلسفے کی ردِ تشکیل کی ہے۔ مگر آخر میں نور محمد اور گلدار کی وحشیانہ لڑائی میں نور محمد کی فتح اور ایک جانور مامتا کی شکست سے بشر مرکز فلسفے کو تقویت ملتی ہےـ ناول میں منظرنگاری، فطرت نگاری، بن نگاری، راعیانیت کے حسین مرقعے ملتے ہیں۔ ناول میں قدم قدم پر سسپنس، مہمات اور شکاریاتی معرکے قاری کو اپنی جکڑ میں لیے رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ ناول کو سماجی و مارکسی ماحولیات کےحوالے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ حاجی ایسا مال دار اور فیوڈل کردار ملکہ کے بچوں سمیت دیگر جانوروں کو پنجروں میں قید رکھ کر اور درخت کاٹ کر فطرت کا اور لوگوں میں توہم پرستی اور دہشت پھیلا کر مال و جائیداد ہتھیا کے انسانوں کا استحصال کرتا نظر آتا ہے۔ ناول نگار نے ناول کے جن حصوں میں ملکہ کے حسی ادراک، سمجھ بوجھ شعور و لا شعور اور نفسیات کو پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
خالدفتح محمد کا ناول کوہِ گراں (٢٠١٧) بھی ماحولیاتی حوالے سے خاصا اہم ہے۔ انہوں نے پانی کو ماحول اور زندگی کے استعارے کے طور پر پیش کیا ہے۔ چوہدری حلیم کا گاؤں پانی کی عدم دست یابی کے سبب اجڑ کر بیاباں میں بدل جاتا ہے۔ ایسی صورت میں انسان تو انسان جانور بھی اس گاؤں سے مُنھ موڑ جاتے ہیں۔
چوہدری حلیم کی مدتوں بعد اپنی ملازمت اور بچوں سے سبک دوش ہو کر اپنے گاؤں کی طرف خالی ہاتھ مراجعت، پانی لا کرگاؤں کو اَز سرِ نو آباد کرنے سے زیادہ کسی وجودی تشنگی کی تکمیل کا شاخسانہ لگتا ہےـ
اس گاؤں میں بقاء کی جنگ لڑتے تین نفوس جن میں ایک عورت بھی ہے، وہ ان تینوں کو اپنے عزائم کی خاطر سیڑھی بنانے کے لیے ان پر چودھراہٹ جما لیتا ہےـ ناول کے واحد خاتون کردار گڈو سےاپنی جنسی تکمیل پاتا ہےـ اپنے اثاثوں اور جمع پونجی سے گاؤں میں ان باقی ماندہ بے حال افراد کی مدد کرنے کی بَہ جائے دیگر دو افراد کی طرح مادو کی بھیک کے سہارے روح اور جسم کا ناتہ جوڑے رکھتاہےـ دیسو ٹنڈا اور اس کے جرائم پیشہ ساتھیوں کی مدد سے ہیڈ مرالہ توڑوا کر اپنے کھیتوں تک پانی لانے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔
پانی تو کھیتوں تک پہنچ جاتاہے مگر پانی لانے والے تمام کے تمام افراد کام آتے ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک دفعہ کے لائے جانے والے پانی سے گاؤں دو بارہ آباد ہو کر ہمیشہ کےلیے بس بھی سکے گا؟
خالد فتح محمد صاحب مرکزی کردار کی تشکیل و تکمیل اچھے طور نہیں کر پائے، چوہدری حلیم کا کردار ایک طفیلیہ سے بڑھ کر ہر گز کچھ نہیں، اور پلاٹ میں بھی کئی سقم کئی سقم نظر آئیں گے۔
نوٹ از مدیرِ ایک روزن:
ہر چند کہ تفہیم و تشریح پر کسی بھی شعور و قرات کا اجارہ نہیں، لیکن بَہ ظاہراً مکمل تردید کرتے سَمے متعلقہ متن سے شہادت پیش کیا جانا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ صاحبِ مضمون اپنے مضمون کی نوعیت کی بناء پر شہادت پیش نہیں کر سکتے کہ ان کا مضمون meta-analysis کی ذیل میں آتا ہے۔ البتہ ہمیں بۃ طور قاری اس characterisation کی جامعیت پر اشکال ہیں۔ ایک روزن پر کوہِ گراں پر ایک اور متبادل رائے بِالتّفصیل موجود ہے۔ اس کو ملاحظہ کیا جانا، سُود مند ہو سکتا ہے:
بنجر زمینوں کو سیراب کرتا خالد فتح محمد از، خلیق الرحمٰن
اسی مضمون میں سے یہ متنی اقتباس چودھری حلیم کے ذہن کے متعلق شاید کوئی دیگر اور مختلف تصویر بناتا نظر آتا ہے:
گاؤں میں پانی لانے کی حلیم کی اس مُنھ زور خواہش کو ناول نگار نے ایک پیرے میں یوں بیان کیا ہے:
’’گلوبل وارمنگ سے گلیشیئر پگھل رہے تھے۔ سائنس دان اور ماحولیات کے ماہر گلیشئروں کو پگھلنے سے روکنے کے طریقوں اور ذرائع پر غور کر رہے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ ان کی کوشش نا کام ہو جائیں اور گلیشئر راتوں رات پگھل کر اس کی نہر کو پانی سے بھر دیں تا کہ اس کا گاوں پھر اسے آباد ہو جائے۔ وہ گلوبل وارمنگ کا واحد حامی تھا۔ اگر گلیشئروں کے پگھلنے سے برفانی ریچھ اور دوسری برفانی مخلوق ختم ہو جائے گی تو ان کے نہ پکھلنے سے گڈو، مراد علی اور دیسو ٹنڈا زندہ نہیں بچیں گے۔‘‘
آمنہ مفتی کا ناول پانی مر رہا ہے (٢٠١٨) در اصل مرتے دریاؤں کا نوحہ اور نو باز یافت ہے۔ آمنہ مفتی نے اس ناول کو بشر مرکزیت اور انسانی غلبے کی منطق کے منافی دائروں میں چلاتے ہوئے مذہب و دھرم کی بناء پر انسان اور زمین کے بٹوارے کے بعد فطرت اور فطرت کے منبعوں یعنی دریاؤں کی غیر فطرتی تقسم اور ان دریاؤں کی قدرتی گزر گاہوں میں مقیم غیر انسانی اور پُر اسرار مخلوق کی بقاء کو در پیش خطرات کو موضوع بنایا گیا ہےـ حکم رانوں نے دریاؤں کے سودے کر کے انہیں موت کے مُنھ میں دھکیلا، باقی ماندہ کسر ڈیم بنا کر اور نہریں نکال کر پوری کر دی گئی۔ انسان نے دریاؤں کی تسخیر پر بس نہیں کی، بل کہ ان دریاؤں کی قدرتی گزر گاہوں کو اپنے تصرف میں لانا شروع کر دیاـ ایسا کرنے والوں کا انجام چوہدری اللہ یار اور اس کے خاندان سے ہر گز مختلف نہ ہےـ
ناول پُر اسرار اور مافَوق الفطرت مخلوق کا راج ہے جو انسان کی اپنی چھیڑی ہوئی جنگ سے انسان کا خاتمہ اور دنیا کو دو بارہ فطرت سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتی ہے کیوں کہ اسی سے سب کی بقاء جڑی ہےـ ناول کاپلاٹ دو حصوں میں بٹا ہوا ہے؛ ایک طرف گاؤں اور دریاؤں کی گزر گاہوں کا فطرتی ماحول اور دوسری طرف شہر کا غیر فطرتی اور مصنوعی ماحول ہے، جس سے عرفان شاہ ایسے دیگر کردار پُر اسرار طور پر فرار حاصل کر کے دریا کی قدرتی گزر گاہوں، جنگلی بھوریوں میں زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔
ناول کا گنجلک پلاٹ، فینٹسی، سرئیلزم ، جادوئی حقیقت نگاری، نو گو ایریاز، محیر العقول اور مافوق الفطرت کردار اور روحانیت کا وفور ناول کے ماحول کو مزید گنجلک اور پُر اسرار بنا دیتے ہیں۔
صفدر زیدی کا ناول بھاگ بھری (٢٠١٨) استعماریت اور اس کے تحت فروغ پذیر مذہبی شدت پسندی و دہشت گردی اور جنگی جنون کے ماحولیاتی اثرات کو بَہ خوبی پیش کرتا ہےـ پاک و ہند کا مذہبی و جنگی جنون دونوں ملکوں کو عالمی ایٹمی دوڑ میں لا کھڑا کرتا ہےـ ایسے حالات میں شدت پسند عناصر اپنی تخریبی کار روائیوں سے جلتی پر ایندھن کا کام لیتے ہوئے ایٹمی جنگ کے لیے راہ ہم وار بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس ایٹمی جنگ سے مذہبی شدت پسندوں کا غزوۂِ ہند برپا کر کے سارے دنیا کو نگوں کرنے کا خواب تو پورا نہیں ہو پاتا مگر پورے برّ صغیر میں انسان سمیت تمام کرۂِ حیات کاخون ضرور ہوتا نظر آتا ہےـ اس ایٹمی جنگ کے نتیجے میں ایٹمی تاب کاری اور اس تاب کاری کے سبب گلوبل وارمنگ، اس گلوبل وارمنگ سے گلیشرز کا پگھل کر برپا کردہ سیلابی و تاب کاری طوفان قوم و مذہب اور ملکی سرحدوں کے امیتازات جن کی بنیاد پر جنگ برپا ہوئی تھی وہ سب کےسب مٹ جاتا ہےـ انسانیت تو کب کی مر چکتی ہے، اس دوران بے گناہ انسانوں اور دیگر تمام انواع و اقسام کے جان داروں کی اندوہ ناک موت، اس خود ساختہ آفت سے بچنے والی زندگیاں اور ما بعد واقعہ نو مولود زندگیوں پر تاب کاری کے اثرات کے سبب زندگی اور موت کی درمیانی کیفیت کا کرب، کسی المیے سے ہرگز کم نہیں۔
ناول میں ایٹمی جنگ کے بعد کے تاب کاری کے اثرات، ان اثرات سے ماحول اور تمام حیاتیات و نباتات کی تباہی اور نئی پیدا شدہ زندگیوں میں ان عناصر سے در آنے والی معذوری کو پورے طور پر دکھایا گیا ہےـ اس کے علاوہ ستلج کی ایک آمر کے ہاتھوں نیلامی، راوی کو گندے نالے میں بدلنے کی سازش، زمین، دریا، اور فطرت کے بہیمانہ قتل، بھوک افلاس، مذہبی شدت پسندی، ملائیت، آمریت اور فیوڈل ازم کو بھی موضوع بنایا گیا ہےـ
بھاگ بھری کی کہانی اور ناول پن سے لاکھ اختلاف، اور پلاٹ پر اعتراض ہی کیوں نہ ہوں، مگر ناول کے موضوع کی اہمیت سے احتراز ہرگز ممکن نہ ہے۔
ماحولیات کے موضوع پرایک اور ناول کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی سائنس سکالر صادقہ خان کا دوام (٢٠١٩) ہےـ ناول کا موضوع بَہ قول مصنفہ، اپنے ماحول، زمین اور دھرتی سے جڑت ہے، جس کا ثبوت ناول کا مرکزی کردار منتہا عالمی خلائی ادارہ ناسا کو خیر باد کہہ کر اپنی دھرتی کی طرف مراجعت اور ملک و قوم کی خدمت سے پیش کرتی ہے۔ منتہا اپنی ریسرچ اور ناسا کے دریافت کردہ ریکارڈ سے امریکہ کے عالمی ماحولیات پر اثر اندازی کی سازش کو فاش کرتی ہےـ
امریکہ زیرِ زمین برقی و تاب کاری لہریں اور ارتعاش پیدا کر کے زلزلہ اور کئی دیگر آفات برپا کر کے ماحولیات پر اثر انداز ہو کر ہم ایسی تیسری دنیا کی ریاستوں کو ماحولیاتی دہشت گردی کانشانہ بناتا رہتا ہےـ انہوں نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں وقوع پذیر زلزلوں کے سانحوں کو اسی طرح کی عالمی سازش سے جوڑا ہے۔ دوام کو سائنسی و ماحولیاتی فکشن کے بہ یَک وقت دونوں شعبوں میں رکھا جا سکتا ہےـ ناول نگار ناول میں پیش کردہ سائنسی مفروضات و نظریات کو اپنی اختراع قرار دیتی محسوس ہوتی ہیں۔
ناول کے کرافٹ میں کئی کم زوریاں اور املاء کی بے شمار اغلاط ہیں، بالکل بیسوں جگہوں استعمال ہوا ہے، ہر جگہ بلکل کے املاء سے ملے گاـ اس کا سبب ان کا ادب کا با قاعدہ طالب علم نہ ہونا گردانا جا سکتا ہے، مگر یہ عذر خواہی عبث ہی ٹھہرے گی۔ اس سب کےبا وُجود صادقہ خان نے شمالی علاقہ جات کے دل کش مناظر اور لینڈسکیپ کو بَہ خوبی پینٹ کیا ہےـ
ان کے علاوہ اختر رضا سلیمی کے دونوں ناول جندر اور جاگے ہیں خواب میں اور وحید احمد کےدو ناول زینو اور مندری والا کو جزوی طور پر فلسفۂِ ماحولیات کے زیرِ اثر لکھے گئے ناولوں میں شمار کیا جا سکتا ہےـ مذکورہ ناولوں میں فطرت اورفطرتی ماحول کی منظر نگاری، قدرتی ماحول میں اختصار و بگاڑ کو موضوع بنایا گیا ہےـ
زینو ماحولیاتی حوالے سے اہم ناول ہےـ جس میں ناول نگار نے زینو کی ہزاروں سال پہلے ایک گلیشیئر میں منجمد کر کے سائنس کی کرشمہ سازی سے عہدِ موجود میں زندہ کر کے قدیم و جدید ماحول کا امتیاز پیش کیا ہےـ آج کا صحت افزا جزیرہ اور اس کاان چھوا پن جہاں زینو آنکھ کھولتا ہے، وہ آج کا پر فضا ماحول اسے دھندلا اور آلودہ لگتا ہے۔ اس جزیرہ کے درخت اور جانور بیمار نظر آتے ہیں۔ زینو کی آنکھ کا شفاف عدسہ جو ہزاروں سال پہلے کے ماحول کا عادی تھا، اسے آج کے ماحول کا بیمار نظر آنا کوئی بعید اَز قیاس نہیں۔
زینو کی آنکھ وہ کچھ دیکھ سکتی ہے، جسے آج کا انسان دیکھنے سے قاصر ہےـ یہ ایک حقیت ہے کہ زمانۂِ قدیم کا انسان اگر آج کے دور میں اٹھ آئےتو وہ اس دنیا میں تیزی سے در آنے والی ترقی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی تاب نہ لا سکے اور مبہوت ہو کر رہ جائےـ
وحید احمد نے صدیوں پہلے اور عہدِ موجود کے ماحولیاتی افتراق کو ایک ہی کردار کی وساطت سے آشکار کیا ہے۔ ایسے ناولوں کی فہرست تو خاصی طویل ہے جن میں قدرتی ماحول اور ماحولیاتی مسائل کی طرف اشارے ملتے ہیں۔
جہاں تک ماحولیاتی مطالعوں کا تعلق ہے، ماحولیاتی تنقید نہ تو کوئی تِھیئری ہے اور نہ ہی نظریہ، بل کہ ادب کی پڑھت کے کئی انداز میں سے ایک انداز اور عہدِ موجود کے ماحول اور اس کے مسائل سے جڑا ایک مطالَعہ ہے۔