کرونا سیاست کا لاک ڈاؤن
از، وارث رضا
کرونا وائرس جیسے جیسے عالم گیر وبا بنتا جا رہا ہے اسی طرح کرونا وائرس کے بطن سے عالمی اور ملکی سیاست پر پڑنے والے اثرات کی پرتیں بھی عام فرد پر آہستہ آہستہ عیاں ہو رہی ہیں، جب کہ کرونا وبا کی چند پرتوں پر سیاسی مبلغین سوچ و بچار میں مصروف عمل ہیں۔ دوسری جانب اس وبا نے دنیا کے سائنس دانوں کو ایک ایسی حیرت کا شکار کر دیا ہے جس سے سائنسی علم کی تحقیق کے دانش کدے میں اب تک اضطراب اور نیم شرمندگی کے عُنصر نمایاں دکھائی دیتے ہیں کہ اب دنیا ان کی تحقیق یا اس وبا کے بارے میں ان کی جان کاری پر سوال اٹھا رہی ہے، اور اب تک یہ سائنسی محقق عام فرد کو تسلی بخش جواب نہیں دے پائے ہیں۔
اسی طرح دنیا بھر کے معیشت دان بھی اس عالمی کرونا وبا کے معاشی اثرات اور اس کے منفی تانوں بانوں کی کَڑیاں ملا کر عالمی معاشی کساد بازاری یا عالمی سرمایہ کاری کے سازشی تال میل تلاش کرنے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔
کرونا وائرس نے سازش، سرمایہ دارانہ خر مستی اور جہاں عوام کی معاشی و سیاسی مشکلات میں اضافہ کیا ہے وہیں انسانوں کے عقیدے کی شکست و ریخت بھی ایک چیلنج کے طور پر عام انسانی ذہن کا ایک مضبوط سوال بنتی جارہی ہے، جس میں سب سے زیادہ مذہبی مبلغین پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ جنہوں نے صدیوں سے مذہبی روایات اور عقیدے کو سنبھالنے میں محنت کی اور عام فرد کو مذہبی فرماں برداری کا ٹیکہ لگایا جس کو کرونا وائرس کم زور اور عقیدے کو متزلزل کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
آج کی جدید ٹیکنالوجی میں کرونا وائرس سے عقیدے پر پڑنے والی کاری ضرب سے ابھی مذہبی افراد نکل ہی نہ پائے تھے کہ کرونا وائرس کی طاقت ان کے محراب و مَنبر تک کو بند کروانے پر تل گئی ہے۔ سماج کے اس شکست و ریخت کے عمل میں عام فرد سے لے کر سیاست دان، معاشی ماہر، سائنس دان اور مذہبی اسکالر سب ہی اپنی اپنی جگہ نہ صرف مضطرب ہیں بَل کہ عجیب سے بھونچکا سے بنے بیٹھے ہیں۔ کسی کو کچھ سُجھائی نہیں دے رہا جب کہ کرونا وائرس ہے کہ پوری دنیا کے سو سے زائد ممالک میں بَہ غیر پیشگی اجازت کے دندناتا ہوا داخل ہو رہا ہے اور فرد کی جان کو ہڑپ کرنے میں خاموش سفاکی سے اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے، اور ساری حکومتیں کرونا وائرس کے سامنے بے بس سی نظر آتی ہیں۔
کرونا وائرس کی وبا سے دنیا فروری کے وسط میں اس وقت واقف ہوئی جب یہ پہلی مرتبہ عالمی خبروں کی زینت بنا۔ سب جانتے ہیں کہ عالمی معیشت پر راج کرنے والے سوشلسٹ چین میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے اور معاشی طور سے مستحکم شہر ووھان میں کرونا وائرس کے انکشاف پر امریکی صدر ٹرمپ کا یہ بیان کہ چین سے دنیا اپنا رشتہ جوڑنے میں احتیاط کرے کہ چین اب ایک مہلک وبا میں گرفتار ملک ہے جس کے اثرات دنیا کی دیگر معیشتوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ جس کے بعد چین نے ووھان کو لاک ڈان کر کے اسے وہیں تک محدود رکھا اور اس طرح کرونا وائرس کی یہ جان لیوا وبا چین کے دیگر شہروں تک نہ پہنچ پائی۔
تاہم امریکہ سمیت دیگر یورپی ممالک چین میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کا اندازہ 90ہزار تک لگائے بیٹھے تھے جو چینی اقدامات سے غلط ثابت ہوئے۔ اس وبا کے خلاف چینی حکومت نے بر وقت اقدامات سے ووھان شہر میں ہی کرونا وائرس کو دبوچ لیا اور اسے چین کے دیگر حصوں میں جانے سے روکے رکھا۔ جس میں چین کی سوشلسٹ حکومت کے بر وقت اقدامات سے یہ وبا چین کے دو ہزار سے زائد افراد کو ہی نگل پائی جب کہ دیگر افراد تک پہنچتے پہنچتے بے جان اور بے بس بنادی گئی۔
آج کی دنیا میں چین اس مشکل گھڑی سے خود کو بچانے میں کسی حد تک کام یاب رہا اور اب چینی معیشت اور سماجی زندگی میں دو بارہ ربط شروع کیا جا چکا ہے۔
کرونا وائرس کے خلاف چین کے بَر وقت اقدامات نے دنیا کو جہاں وَرطۂِ حیرت میں ڈالا، وہیں چین دنیا کے سامنے ایک تجربہ کار اور ماہر لڑاکے کے طور پر سامنے آیا کہ جس کے تجربات سے دنیا اس مُوذی وبا سے نمٹنے میں مدد لے رہی ہے اور دوسری جانب چین نے دنیا کو اپنی ماہرانہ خدمات کی پیش کش بھی کر دی ہے۔
چین نے وزارتِ خارجہ کے تحت امریکی پروپیگنڈے پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے چینی معیشت کو نقصان پہنچانے والی ایک سازش قرار دیا ہے۔ دوسری جانب روس اور چین نے یہ خبر بھی اہلِ نظر و عوام کے لیے عام کر دی ہے کہ کرونا وائرس سرمایہ دارانہ سفاکیوں کی ایک ایسی بائیولوجیکل جنگ ہے جس میں امریکہ، برطانیہ اور یورپین ممالک کے ساتھ دنیا میں انسانی ہم دردی کے امیر ترین ٹھیکے دار بل گیٹس نے مل کر چین اور دنیا کی آگے بڑھتی ہوئی معیشت کا مقابلہ کرنے کے بَہ جائے اس کو سازشی انداز میں بائیولوجیکل حملے سے کم زور کرنے کی کوشش کی ہے۔
سرمایہ دارانہ سفاکیوں کے پیشِ نظر مذکورہ دلیل اور خبر کی تصدیق آنے والا وقت شاہد ضرور کرے گا، مگر روس اور چین کی اس امریکی سازش کے انکشاف سے مکمل اختلاف کرنا بَہ ظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔
مذکورہ سیاق سباق کی روشنی میں پاکستان میں کرونا وبا کا جائزہ لیتے وقت ہم ملک میں تین قوتیں، یعنی وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور جرنیلی اشرافیہ کے کردار کو قطعی طور فراموش نہیں کر سکتے۔ جس میں اس مرتبہ اٹھارہویں ترمیم کا سہارا لیتے ہوئے صوبائی خود مختاری کو استعمال میں لایا گیا ہے جو کہ فی الوقت بنیادی طور پر جرنیلی اشرافیہ کے لیے فائدے مند ہتھیار دکھائی دے رہا ہے۔
اسی واسطے ایک منصوبہ بندی کے تحت صوبائی خود مختار بیانیے کو تازہ اور طاقت ور بنایا گیا تا کہ صوبے کے عوام کو صوبائی خود مختاری کے واہمے میں مبتلا کر کے صوبے کے فنڈز یا بیرونی امداد میں اپنا حصہ لیا جا سکے۔ یہی وجہ رہی کہ اٹھارہویں ترمیم کی شدید مخالف ملکی طاقت ور اشرافیہ نے پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لے کر اٹھارہویں ترمیم کی خود مختاری کا نیا بیانیہ دیا ہے۔
کرونا وائرس کے جان لیوا مُضر اثرات کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اس کے مُضر اثرات سے عام فرد کی زندگی بچانے کے اقدامات پر بَہ ظاہر وفاق اور خاص طور پر سندھ کی صوبائی حکومت کو تضادات کا شکار دکھانے کی کوشش در اصل عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے مترادف بات ہے۔ جب کہ وفاق صوبہ اور طاقت ور اشرافیہ کرونا وائرس کے ضمن میں بیرونی امداد لینے اور حصے بخرے کرنے پر متفق ہیں۔
مگر طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت سندھ میں پی پی نے اور وفاق نے اپنے اپنے سیاسی بیانیے پر بر قرار رہتے ہوئے اپنے ووٹر کو مطمئن کرنا ہے۔ اسی لیے سندھ حکومت کی کارکردگی کا پروپیگنڈہ ایک زیرک حکمت عملی سے میڈیا کے تعاون سے مثبت کروایا گیا۔ جب کہ دوسری جانب بیرونی امداد کے حصے خاطر آئینی ایمرجنسی اور طبی سہولیات میں سہولت کار کی حیثیت سے صوبے کے فنڈز کی ترسیل کو آسان اور عوامی قبولیت کا ضامن بنایا گیا۔
دوسری جانب اٹھارہویں ترمیم کی مشکلات کے پیشِ نظر صوبائی حق کو استعمال کرتے ہوئے لاک ڈاؤن عوام میں قابلِ قبول بنا کر سندھ صوبے میں خود مختاری کے لولی پوپ کو پی پی کی آئندہ سیاست کو جاری رکھنے کے لیے زندہ کیا۔
وفاقی سطح پر تمام تر اختیارات کی حامل اشرافیہ نے وفاق کے کم ہوتے فنڈز کے بیانیے کو بیچنے کے لیے عمران خان کو متحرک رکھا۔ جنہوں اپنی دونوں تقریر میں ملکی لاک ڈاؤن کو فنڈز کی عدم فراہمی پر مسترد کر دیا۔ جس نے ایک طرف پی ٹی آئی کی سیاست کو نقصان پہنچایا تو دوسری جانب صوبوں کی امداد ہاتھ سے نہ جانے کو بھی ذہن میں رکھا۔
طاقت ور اشرافیہ نے اس مقصد کے خاطر بد عنوان قرار دی جانے والی پی پی کو بہترین کارکردگی کا سرٹیفیکیٹ دلوا دیا۔ جسے عوام نے اپنی سیاسی سادہ لوح طبیعت کے تحت قبول بھی کر لیا۔ اور عوام میں عمران خان کی کارکردگی کو دو بارہ نیچا دکھا کر وفاق کی ذمے داری خوب صورتی سے سر سے اتار پھینکی۔
سوال یہ ہے کہ ملکی طاقت ور اشرافیہ مذکورہ کھیل سے صرف بیرونی فنڈز میں حصہ چاہتی ہے، یا سیاست کو بھی ماضی کے مانند اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے؟ اگر کسی کا خیال ہے کہ منفی سیاسی اثرات کے بعد طاقت ور اشرافیہ سیاست سے مکمل دست بردار ہو جائے تو یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔
سرِ دست کرونا وائرس کے ضمن میں اشرافیہ فی الحال ایک مقصد کی تکمیل چاہتی ہے کہ وفاقی اور صوبائی بیرونی امداد اس کے قبضے میں رہے، یا کم از کم اس امداد کا حصہ ہر صورت طاقت ور اشرافیہ کو ملتا رہے اور عوام اپنی اپنی سیاسی حمایت اور مخالفت میں بیرونی امداد کے اصل مسئلے تک نہ پہنچ سکے۔
یہی وجہ ہے کہ تینوں قوتیں اپنے اپنے کام ایک خاص حکمتِ عملی سے انجام دے رہی ہیں جب کہ عالمی ایجنڈے کے سب سے بڑے فریق فارما مافیا کو موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مزید رعایت دینے پر آمادہ ہیں تا کہ عالمی بائیولوجیکل جنگ میں فارما کے کردار کو عالمی وعدے کے تحت فائدہ پہنچایا جائے۔