تعلیم، سماج، ادب و تنقید کرونا وبا سے بچ نکلنے کے بعد
از، فرحت اللہ کشیب
اِتوار کی شام واک کرتے سَمے گندم کے وُسعت پہ پَھیلے کھیتوں میں لوگوں کی ٹولیوں کو پگ ڈنڈیوں پہ ٹہلتے، مُنڈیروں پہ براجمان، نہر کَنارے بَیٹھتے، پھول پودوں کے ساتھ تصاویر لیتے دیکھ کر کچھ عجیب خَیالات دماغ میں آنے شروع ہُوئے، جن کو یاد رکھنے کی خاطِر اپنے دوست عمران سے ان کا ذکر کیا۔ وہ خیالات کچھ یُوں ہیں۔ (افسوس کہ مَیں اِن خیالات کی بے ترتیبی مَحسوس کرتے ہُوئے بھی ترتیب میں نہ لا سکا۔)
اگر وَبا کا یہ مسئلہ نَو مہینے یا اِس سے زیادہ چلا اور یورپ جیسی شَرحِ اَموات لایا تو یہاں پاکستان میں نئے اَخلاقی و سَماجی اَقدار یا اخلاقیاتی معمولات کا دَور شروع ہوا چاہتا ہے۔
لوگوں کو نارمل سے کہیں زیادہ فراغت ملے گی، جس کو اِستعمال میں لاتے ہُوئے وہ شُعوری یا لا شُعوری طور سے نئی اقدار تراشیں گے۔ نئے تعلقات کی بُنیادیں ڈالی جائیں گی۔ پرانے تعلقات میں کئی جگہوں سے دراڑیں پڑنی شروع ہوں گی، کُچھ رِشتوں کی تجدید ہو گی۔ خود سے بات چیت کے سبب خود دریافتی کے بھی کافی سارے امکانات موجود ہیں۔
خوفِ مرگ، اُکتاہٹ (boredom/ennui)، فراغت، بے روزگاری اور جنسی نا آسُودگیوں کے آپسی مختلف تراکیب مختلف طرح کے نئے نفسیاتی مسائل، ذہنی صِحت کے خطرات اور بیماریاں پیدا کریں گی۔ جس سے صحت کے نظام پہ بوجھ پڑنے، اور آبادی کی وسیع اکثریت کے مَجہول ہو جانے کا خطرہ ہے۔
رومانیت (وسیع معنوں میں) کے معاملات ابھی تک خوشیوں میں پروان چڑھتے رہے، مگر اب وبائی فوتیدگی میں بھی نئے رومانی اقدار اور رشتوں کی نِیو رکھی جائے گی۔ غُربت کے سبب مشترکہ خاندانی نظام (joint family system) میں سے بہت سے رشتے داروں کا پتا کاٹ دیا جائے گا۔ جس کے سبب یہ نظام صنعتی دَور کے آغاز سے شروع ہونے والے اپنے اِنحطاط (decay) کے آخری مرحلے پہ پہنچنا شروع ہو جائے گا۔ نئی نسل کی پیدائش میں غیر عُمومی اِضافے (abnormal growth) کے سبب بھی خاندانی وسائل کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل پہ ایک دم بے تحاشا بوجھ پڑنے والا ہے۔
مجبوریوں سے فائدہ اُٹھانے والا سرمایہ دار طبقہ یہاں بھی اپنی کمائی کی سوچے گا، جس کے نتیجے میں مکمل بے روزگاری کی وجہ سے غریب طبقے میں طبقاتی شُعور کہیں گہرا ہوتا چلا جائے گا، جو آئندہ کے سیاسی معاملات یعنی انتخابات اور قانون سازی میں غریب کو اپنے مفادات کے لیے واضح طور پر سوچنے اور اُٹھ کھڑے ہونے پہ مجبور کرے گا۔
اِسی طرح سرمایہ دار ریلیف دینے کے بَہ جائے نئے ہتھکنڈوں کی ایجاد کرے گا۔ جن سے نمٹنے کےلیے عالمی سطح پہ ایک نو نو مارکسیت کے ظُہور کا انتظار کیا جائے گا۔ اِس طرح ایک نیا سیاسی و سماجی شُعور بھی پیدا ہوتا جائے گا۔
تعلیمی نظام کو بھی خاصا جھٹکا لگنے کے آثار ہیں اور اس کے نتائج سے نمٹنے کےلیے بچّوں سے زیادہ والدین کے رَویّوں میں انقلابی آثار پیدا ہوں گے، جن کے مثبت یا منفی اثرات پلٹ کر بچوں پہ پڑنے والے ہیں۔
ہمارے ہاں کے اکثریتی والدین بچّوں کو موبائل دینے میں متامل ہیں، یا اس کے سخت خلاف ہیں، اس سوچ پہ اب نظرِ ثانی ہو سکتی ہے، اور نئے تعلیمی اداروں، ٹیلی یا ای ایجوکیشن اور ہوم سکُولنگ (اگر چِہ باہر کی دنیا میں کسی حد تک کام کر رہے ہیں) کو قُبول کیا جائے گا۔ اُستاد نامی اِدارے کی تکریم پہلے سے بھی زیادہ گَھٹنے کا اندیشہ ہے کیوں کہ یہ پہلے ہی سکول کے زیرِ اثر سمجھا جاتا تھا، جو آگے جا کر مزید زوال پذیر ہونے کا امکان رکھتا ہے۔
بچّوں کےلیے مُروَّجہ نِصاب میں بھی اگلے چند سالوں میں وبائی حالات سے نمٹنے کے لیے مواد شامل کیے جانے کا بھی امکان ہے، جس میں وبائی، حادثاتی اور جنگی معاملات سے نمٹنے کی عملی تربیت دی جا سکتی ہے، جس کا رُخ ہمارے جیسے عسکری ذہنیت والے مُعاشروں میں مزید آسانی سے جنگی جُنون کی طرف پَلٹایا جا سکے گا۔
تعلیم کے میدان میں، اِن رجحانات سے پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں پہ معاشی بُحران کا بھی خطرہ پیدا ہونا ممکن ہے اور اِس معاشی بحران سے نکلنے کے لیے اِن اداروں کے ہاتھ پیر مارنے کے نتائج بھی اپنی جگہ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
ملکی وسائل کو چلانے والے (operators) کی مَوت بھی نا تجربہ کاروں کی فوج کی بَھرتی کی صورت میں نئے مسائل کا سبب بنے گی، نتیجتاً نچلے طبقے پر مزید بوجھ پڑنے کے ساتھ ساتھ اوپری طبقے پہ بھی زَد پڑنے کا اندیشہ ہے، جس سے پیدا ہونے والی بے یقینی اور ٹھوس بے چینی ملکی و سماجی قوانین میں تبدیلی کا باعث بنے گی۔
وبا کے دنوں میں زندگی کا انسانوں سے غیر ہم دردانہ، کُلّی بے رُخی پہ مبنی رَویّے کا سامنا کرتی اَدبی دنیا میں زندگی کو دُرست طور پر پیش کرنے کا رُجحان اُبھر کر سامنے آ سکتا ہے، یا کہیں زیادہ رُومانی و عَینی اَدب سامنے آ سکتا ہے، جو ”لُغوِیت، عَدمِیت، قُنوطیت اور مقصدیت “ کی مختلف تراکیب پہ مبنی تار و پود (textures) کا حامِل ہو گا۔
ہمارے تَنقیدی میدان میں، نقّادوں کا اُکتاہٹ اور سماج کے مجموعی رُخ پہ اعتراض کے سبب لا تعلقی کا رَویّہ بھی سامنے آ سکتا ہے، جو ادب کےلیے سررئیل ازم اور ڈاڈا اِزم کا اپ ڈیٹڈ ورژن ثابت ہو سکتا ہے۔ چیزوں کو ہلکا لینے کے پاپ کلچر بَہ شمولِ ادب پہ سنجیدگی سے غور کرنا ممکن ہے۔ (کہ تب سے اب تک پُلوں کے نیچے کافی پانی گُزر چکا ہے!)
الغرض، یہاں زندگی کی طرف انسانی رَویّے میں واضح تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔