پس ماندگی، غربت اور جہالت کے مسلمانی کمفرٹ زون
از، محمد عاطف علیم
ہمیں اپنے طور پر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنا ہوگی کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان موجود ہیں وہ اپنے ارد گرد بستی نظام الدین اولیاء کیوں بسا لیتے ہیں اور کیوں ان کے لیے پس ماندگی، غربت اور جہالت ایک کمفرٹ زون کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ سلسلہ کہاں تک چلے گا؟
بستی نظام الدین اولیاء پرانی دہلی میں مسلمانوں کی غالب اکثریت پر مشتمل علاقہ ہے جو ایک طرح سے ghetto اور slum کا منظر پیش کرتا ہے۔ جس عظیم شخصیت سے یہ بستی منسوب ہے وہ برِّ صغیر میں مذہبی تنگ نظری، جہالت اور ہر طرح کی پس ماندگی کو مسترد کر کے ایسے روشن افق تراشتی رہی تھی جو انسانی ایکتا، سماجی ذمے داری، انسانی مساوات اور روشن فکری سے عبارت تھے۔
یہی وہ درگاہ ہے جس نے کٹر عقیدہ پرستی کے خلاف تخلیقی ردِ عمل پیش کیا تھا۔ یہاں ہندوستانی موسیقی کی عظیم روایت نے جنم لیا تھا جس کی سب سے توانا صورت قوالی کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔
یہی وہ درگاہ ہے جس نے فارسی کے ساتھ ساتھ ہندوی زبان میں شاعری کی روایت کو جنم دیا جو مقامی بول چال کی زبان تھی۔ خود خواجہ غریب نواز نے امیر خسرو سے فرمائش کی تھی کہ ہندوی زبان میں بھی شاعری کیا کرو تا کہ تمہاری بات عام لوگوں تک پہنچ سکے۔ یہی وہ انسانیت کی مَثبت اقدار کا گہوارہ تھا جہاں بلا لحاظِ مذہب ہر خاک نشین اپنے درد کی دوا پاتا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی کی سلطنت اپنے کروفر کے ساتھ موجود تھی، ایک دربار وہ تھا جہاں ترک نسل کے سلاطین اور اس کے اُمَراء عوام کے انبوہ کے افلاس اور پس ماندگی سے بے گانہ تھے اور جبر کے زور پر ان کی محنت کو لوٹ کر اپنے خزانے بھر رہے تھے اور ایک دربار وہ تھا جو ہر کس و نا کس کے لیے کشادہ تھا۔ اس دربار کا بادشاہ حقیقی معنوں میں دلوں کا بادشاہ تھا۔
اس عظیم صوفی کی درگاہ میں دو اور عظیم ہستیاں آسودۂِ خاک ہیں: ایک ان کے مرید حضرت امیر خسرو جن کے بارے میں میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ ہندوستان کی سَر زمین میں ان سے بڑی اور ہَمہ پہلو شخصیت پیدا نہیں ہوئی اور دوسری تاج مغلیہ کا دمکتا ہیرا جہاں آرا بیگم جو اپنے دیگر غیر معمولی اوصاف اور خدمات کے علاوہ بر صغیر میں عورت کی آزادی کی پہلی بڑی علامت تھی۔
اس مقدس مقام سے کئی نادرِ روزگار ہستیوں نے روشنی اور ذہنی بالیدگی پائی اور ہندوستان کے گوشے گوشے میں فیض کا سلسلہ جاری کیا۔ ان میں ایک حضرت نظام الدین اولیاء کے چہیتے خلیفہ شاہ چراغ دہلوی بھی شامل ہیں جو یہاں سے کچھ فاصلے پر ابدی راحت کی نیند سو رہے ہیں۔
اور پھر اسی دِلّی میں قطب الدین بختیار کاکی بھی آسودۂِ خاک ہیں جو محبت اور انسان دوستی کی روشن ترین علامتوں میں سے ایک ہیں۔ ان میں سے ہر ہستی تہذیب، آشتی اور فکر و فن کا روشن چراغ ہے ان ہستیوں کی ایک ہی جگہ موجودگی ہندوستانی مسلمانوں کے درخشاں ماضی کی گواہ ہے۔
یہاں ایک اور ہستی کا ذکر تو رہا جاتا ہے جو یہیں کہیں محلہ بلی ماراں میں ایک کرایے کی حویلی میں زندگی بسر کیا کرتی تھی اور وہیں ایک چھوٹے سے مزار کی صورت ہندوستانی مسلمانوں کی فکری سطوت کی درخشاں ترین علامت بن کر اردو شاعری کے ہر رَسیا کے دل و دماغ کو اپنی جانب کھینچتی ہے؛ نام ہے اس ہستی کا مرزا اسداللہ غالب جو زمانی فاصلے کے با وُجود مذکورہ بالا ہستیوں کے ساتھ ایک معنوی نسبت رکھتی ہے۔
بستی نظام الدین اولیاء جہاں سے کبھی مسلم ہندوستان کی تہذیب نے جنم لیا تھا اور جہاں کبھی ہندوستان کے گوشے گوشے سے ہر مذہب کے لوگ روشنی پانے کے لیے آتے تھے، اس بستی کی پُر پیچ گلیاں پس ماندگی، غربت اور جہالت کا گڑھ سمجھی جاتی ہیں اور وہ مزار جہاں سے پھوٹتی فکری روشنی پورے ہندوستان کو جگ مگایا کرتی تھی آج وہ لالچ، جھوٹ اور فریب کا مرکز بن چکا ہے۔
یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر تبلیغی جماعت کا مرکز بھی ہے جہاں سے اس تبلیغی تحریک نے جنم لیا جو آج اپنے وُجود کے جواز سے محروم ہونے کے با وُجود پاکستان کی ریاستی سرپرستی میں پھل پھول رہی ہے اور اس ریاست پر قابض حکم رانوں کے مقاصد کو خشوع و خضوع کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔
مارچ کے مہینے میں جب کہ کرونا وائرس کی وبا ایک خیال رفتہ کی بَہ جائے سامنے کی خوف ناک حقیقیت میں بدل چکی تھی اور دیگر دنیا کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی سماجی تنہائی اور لاک ڈاؤن نا گزیر قرار پا چکا تھا، ان دونوں جگہوں میں مسلمانوں کے بھاری اجتماعات انسانیت کو درپیش عظیم ترین چیلنج کو سنگین تر بنانے کا باعث بن رہے تھے۔
ظاہر ہے کہ ہندوستان میں اس پر سخت رد عمل آنا نا گزیر تھا اور پھر رام راجیہ والے سیاہ باطن جن سنگھی اور راشٹریہ سیوک کہاں چوکنے والے تھے۔ انہوں نے ان عاقِبَت نا اندیش مسلمانوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ پورے ہندوستانی میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف طوفان اٹھ کھڑا ہوا جو یَک سَر بلا جواز نہیں تھا۔
سوال یہ ہے کہ آخر کیوں دنیا کے بیش تر حصوں میں مسلمان پس ماندگی، غربت اور جہالت کو اپنا کمفرٹ زون بنائے رکھنے پر تلے ہوئے ہیں اور کیوں یہ دیگر دنیا سے الگ اپنا منڈپ سجائے بیٹھے ہیں۔ ان مسلمانوں کی حرکتوں کو اسلام کے ساتھ منسوب کر دیا جاتا ہے جب کہ ہر گز ایسا نہیں ہے۔
اسلام روشن خیالی کا دین ہے۔ اس کا جہالت اور پس ماندگی سے ہر گز کوئی علاقہ نہیں ہے۔ تو پھر یہ تاریک کونوں میں منھ چھپائے عقیدہ پرست مسلمان کون ہیں اور انہوں نے کہاں سے اپنی مخصوص ذہنی ساخت کا جواز پایا ہے اور ان کا یہ کمفرٹ زون کب اور کیسے تشکیل پایا ہے؟
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان بنیادی سوالوں کا جواب تلاش کریں اور اس شُعُور کو عام کریں کہ مسلمان ہونے کا لازمی پس ماندہ ہونا نہیں ہے کیوں کہ وہ بھی مسلمان ہی تھے جو کبھی سائنس، فلسفہ اور شاعری کے افق پر تابندگی کا باعث تھے اور وہ بھی جنہوں نے اس دنیا کے زلفِ گرہ گیر کی علمی گتھیاں سلجھانے میں عمریں بسر کر دیں۔