سچ کہانی مانگتا ہے
ترجمہ از، نیّر عباس
معلومات ہمیشہ بحث کرنے پر اکساتی ہیں۔ یہ سیکھنے پر مائل نہیں ہوتیں۔ یہ سیکھنے کو توہین سمجھتی ہیں۔ اس لیے صورتِ حال مزید مشکل ہوتی جاتی ہے: جس قدر آپ کی عمر بڑھتی ہے اتنا ہی سیکھنے کا امکان کم ہوتا جاتا ہے۔ بچے سیکھ سکتے ہیں کیوں کہ ان کے اندر انا نہیں ہوتی، وہ تیزی سے سیکھتے ہیں، اور وہ آسانی سے سیکھتے ہیں۔ اگر وہی چیز تم سیکھتے ہو جب تمہاری عمر پینتیس سال ہو یا چالیس پچاس سال تو پھر یہ انتہائی مشکل ہے، تقریباً نا ممکن۔ اس وقت تمہاری ذہانت کو کیا ہو جاتا ہے؟
تمہاری ذہانت پچاس سال کے تجربے کے بعد پہلے سے زیادہ ہو جانی چاہیے؛ لیکن ایسا نہیں ہے۔ راستے میں تم نے بہت فضولیات اکٹھی کر لی ہوتی ہیں۔ ذہانت کا عمل آزاد نہیں رہ جاتا؛ یہ حد سے زیادہ دباؤ میں آ جاتا ہے۔ لغویات کے دباؤ میں۔ اور کوئی چیز سیکھنا تمہیں توہین محسوس ہوتی ہے۔ اور تم جھک نہیں سکتے۔ تم یہ نہیں کہہ سکتے، میں نہیں جانتا۔ اور پیرو کار وہ ہے جو یہ کہہ سکے، میں نہیں جانتاـ مجھے سکھاؤ۔ میں سیکھنے کے لیے تیار ہوں۔ میں آپ کے پاس حتمی نتائج لے کر نہیں آیا۔ میں کسی قسم کی معلومات لے کر نہیں آیا۔ میں خالی آیا ہوں! مجھے سیراب کر دیجیے۔
حقیقی تلاش یہ ہے کہ اپنے آپ کو پیرو کار کیسے بنایا جائے، اپنے من کے ظرف کو کیسے خالی کیا جائے، تا کہ جب آپ کی ملاقات کیسے ایسے انسان سے ہو جو خدا سے لب ریز ہو تو آپ بھی سیراب ہو جائیں۔ اتنے سیراب ہوں کہ آپ کو اطمینانِ قلب حاصل ہو جائے۔ لیکن لوگ پیر کو تلاش کرتے ہیں وہ مریدیت کو تلاش نہیں کرتے۔ اور اسی جگہ وہ نا کام ہوتے رہتے ہیں۔
پھر تم بہت سے لوگوں سے ملو گے لیکن ہمیشہ حالتِ اضطراب میں رہو گے۔ اور اس اضطراب کی وجہ تمہارے باہر نہیں، بَل کہ اس کا مَنبع تمہارا اپنا ذہن ہے۔ تم اپنے ساتھ حتمی نتائج لاتے ہو۔
اس دن میں ایک بہت خوب صورت ہاسِد1 صوفی لیوی یٹزک 2 کے بارے میں پڑھ رہا تھا۔ اس کا من خدا سے، اور نغمہ خدا سے، اور رقص خدا سے اتنا بھر پُور تھا کہ جب وہ عبادت کرتے یا دعا کرتے تو وہ مست ہو جاتے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خدائی رقص کا مظاہرہ کرتا ان کی کامل بے خودی کے ساتھ۔ وہ اس قدر بے خود ہو کر عبادت کرتے کہ خوف زدہ مرید بھاگنے پر مجبور ہو جاتے۔ اگر وہ مندر میں عبادت کر رہے ہوتے تو لوگ اپنے گھروں کی طرف فرار ہو جاتے، کیوں کہ ان کی عبادت بہت دیوانہ وار ہوتی۔
یہ بھی ملاحظہ کیجیے:
علم کا حصول اپنے اندر خلا کا خلق مانگتا ہے ترجمہ از، نَیّر عباس
وہ اشاروں کی زبان میں پیغام پہنچاتے، چیختے اور رقص کرتے، چھلانگیں لگا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے اور جو چیز ان کے راستے میں آتی اسے دھکیلتے اور الٹ پلٹ کرتے جاتے۔ ان کے لیے لوگوں کا وجود بے معنیٰ ہو جاتا۔
جب وہ دعا کرتے تو بے خود ہو جاتے۔ اب اگر تم پہلے ہی کوئی حتمی رائے قائم کر کے آئے ہو کہ رہ نما کو کیسا ہونا چاہیے تو پھر تم انہیں ایک پاگل آدمی ہی سمجھو گے۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ کہ رہ نمائے کامل کو بدھا کی ایک پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھا ہونا چاہیے، اور یہ پاگل آدمی، یہ تو چیزوں کو خلط ملط کر رہا ہے اور ادھر سے ادھر جا رہا ہے، اور اس نے عبادت گزاروں کو خوف زدہ کر دیا ہے، وہ سب بھاگ گئے ہیں کیوں کہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا کرنے والے ہے۔ لیکن (حقیقت میں) رہ نمائے کامل تھے۔
خدا کا نزول کئی صورتوں میں ہوتا ہے۔ کبھی بدھا کی صورت میں، کبھی کرشنا، کبھی مہاور اور کبھی محمدﷺ کی صورت میں۔ خدا ہمیشہ نئی صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے، اور تمہاری حتمی رائے پرانے نظریات کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ اگر تم بدھ مت خاندان میں پیدا ہوئے ہو تو پھر تم کیسے یہ سوچ سکتے ہو کہ یہ پاگل ہاسِد صوفی بھی بدھا ہو سکتا ہے۔ نا ممکن!
اگر تم حتمی نتیجے کے ساتھ جاؤ گے تو تم مشکل میں پھنسو گے۔ جیسا کہ اس پاگل ہاسِد کے بہت سے مرید تھے۔ لیکن اگر وہ بدھا سے ملیں گے تو وہ اس کا انکار کر دیں گے، وہ بدھا سے مطمئن نہ ہوں گے۔ وہ کہیں گے،”اس کا رقص کہاں ہے؟ یہ چنگھاڑ کیوں نہیں رہا؟ یہ خاموشی سے پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھا ہے۔ یہ کس طرح کا رہ نما ہے؟ لیکن ہم اپنے اندر گہرے تعصبات لیے پھرتے ہیں۔
اور یاد رکھو! یہ تعصبات تمہیں انتہائی منطقی نظر آئیں گے۔ اس دن عدی نے ایک سوال پوچھ:؛”اوشو، میں آپ پر مزید اعتماد نہیں کر سکتا۔” عدی کو کیا ہوا؟ وہ مجھ پر مزید اعتماد کیوں نہیں کر سکتےا۔ یہ بڑی سادہ چیز ہے۔ میں نے کہا کہ بودھ گایا 3 میں وہ درخت ابھی بھی موجود ہے جس کے نیچے بدھا کو شرف حاصل ہوا، اور وہی درخت اب بھی بدھا کی خوبیوں کے ساتھ حالتِ ارتعاش میں ہے، اس صبح کی خوبیاں لیے جب بدھا غائب ہوئے اور بدھا میں خدا کا ظہور ہوا۔ اب وہ (عدی) تاریخ کی ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تاریخ کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ اس درخت کو ایک ہندو بادشاہ نے کاٹ کر تباہ کر دیا تھا، اور مندر کو ایک ہندو مزار میں تبدیل کر دیا گیا۔ تو وہ درخت کیسے باقی رہ سکتا ہے؟
اگر تاریخ کی کتابیں درست ہیں تو پھر میں غلط ہوں۔ اور عدی مجھ پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں جب میں تاریخ کی کتابوں کے خلاف جاتا ہوں۔
بد اعتمادی نہ کرو، اور جلدی نہ کرو۔ اگر میں کچھ کہتا ہوں تو انتظار کرو، تلاش کرو اور تم راستہ پا لو گے۔ تاریخ کی صرف ایک کتاب پڑھنے سے تمہارا اعتماد ختم ہو گیا۔ میں ابھی بھی یہی کہتا ہوں کہ یہ وہی درخت ہے اور تاریخ کی کتابیں بھی صحیح ہیں۔ مزار کو ہندو مزار میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور درخت کو تباہ کر دیا گیا۔ لیکن درخت کے تباہ ہونے سے پہلے، اشوکا نے درخت کا ایک حصہ، ایک شاخ، سیلون (سری لنکا) بھیجی تا کہ اسے وہاں لگا دیا جائے۔ تو درخت سیلون میں لگ گیا۔ پھر جب مزار کو دو بارہ بدھ مت مندر میں تبدیل کیا گیا تو اس درخت کی ایک شاخ سیلون سے واپس منگوا کر یہاں لگا دی گئی۔
یہ وہی سلسلہ ہے۔ یہ وہی درخت ہے۔ اور بدھا کے بیان کے مطابق کوئی درخت دو لمحوں کے لیے بھی ایک جیسا نہیں رہتا، یہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ تمہارا جسم بھی مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ سات سال کے عرصے میں تمہارا جسم نئی ساخت اختیار کر لیتا ہے؛ پرانی ساخت ختم ہو جاتی ہے اور نئی ساخت اس کی جگہ لے چکی ہوتی ہے۔ ایک بھی پرانا خلیہ باقی نہیں رہتا۔
لیکن یہ ایک تسلسل ہے، اگر تسلسل کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ ایک ہی چیز ہے۔ سائنسی اعتبار سے یہ بدھ مت کا وہی درخت ہے۔
لیکن جلدی نہ کرو۔ اگر تم اتنی تیزی اور اتنی جلدی اور آسانی سے اپنا اعتماد ختم کر دیتے ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ حقیقتاً یہ اعتماد ہے ہی نہیں۔ تم پس منظر میں تعصبات لیے پھرتے ہو اور اس تلاش میں رہتے ہو کہ کب تمہیں کوئی ایسی چیز ملے جس پر تم اعتماد نہ کر سکو۔ تم اعتماد سے زیادہ بد اعتمادی میں دل چسپی رکھتے ہو۔ تمہارا اعتماد تمہارے ساتھ نہیں۔ تمہارا جھکاؤ بد اعتمادی اور شک کی طرف ہے۔ اگر تم حالتِ شک میں ہو گے تو بہت اچھا محسوس کرو گے۔
اگر تمہیں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی کہ جس پر تم شک کر سکو تو تمہارا دَم گُھٹنے لگے گا، کیوں کہ شک کرنے سے تمہاری انا کی تسکین ہوتی ہے۔ لیکن اعتماد کرنے سے تمہاری انا کو خود کشی کی موت مرنا پڑتا ہے۔
یہ ایک خوب صورت اخلاقی حکایت ہے، اور صوفی پرانی اخلاقی حکایات کے ماہر ہوتے ہیں۔ صوفی جانتے ہیں کہ نہ کہی جا سکنے والی باتوں کو اخلاقی کہانیوں کے ذریعے کیسے بیان کیا جائے۔ انہوں نے دنیا کو بہترین اخلاقی کہانیاں دی ہیں۔ اس اخلاقی کہانی کو آہستہ آہستہ سمجھو۔ یہ چھوٹی مگر انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
اخلاقی کہانی بالواسطہ طریقے سے بات کہنے کا ذریعہ ہے۔ سچ کو بلا واسطہ طریقے سے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ طریقہ زیادہ شدید، زیادہ جارحانہ، زیادہ انسانی ہے۔ سچ کو بالواسطہ طریقے سے ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسےصرف اشارے کنایے سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ تمہیں سچائی پر قائل نہیں کیا جا سکتا: تمہیں صرف مائل کیا جا سکتا ہے۔
اور تمہارا رہ نما وہ ہے جو تمہیں سچائی پر قائل نہیں کرتا بَل کہ وہ تمہیں مائل کر کے سچائی کی طرف لے جاتا ہے۔
اخلاقی کہانیاں بہت قائل کرنے والی ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ وہ جو سچائی کی تلاش میں نہیں ہوتے، انہیں بھی کبھی کوئی ایسی ہی کہانی سننے کو ملتی ہے اور ان کے سامنے سچائی کا کوئی باب روشن ہو جاتا ہے۔
لوگ کہانیاں پسند کرتے ہیں۔ اور کہانیوں میں ایک صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ انسانی شعور کا حصہ بن جاتی ہیں۔ انہیں بھلانا مشکل ہوتا ہے اور یاد رکھنا بہت آسان۔ یہ تمہارے وجود کی اتھاہ گہرائیوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ اس لیے صوفیاء کہانیوں کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ زن، تاؤ، یوگا اور تنترا کی یہ دنیا بہت مختلف ہے۔
میں آج تمہیں صوفیاء کی دنیا میں خوش آمدید کہتا ہوں، یہ فن سے بھر پُور، زیادہ شاعرانہ، زیادہ جمالیاتی ہے اور اس کے راستے بہت پیچیدہ ہیں۔
ایک شخص نے فیصلہ کیا کہ وہ رہ نمائے کامل کو تلاش کرے گا۔ سو اب، فیصلہ کر لینا غلط ہے، کیونکہ فیصلہ تمہارے ماضی کے تجربات کی بنیاد پر ہو گا۔ کوئی بھی شخص رہ نمائے کامل کو تلاش کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ ایک شخص غیر متحرک رہتے ہوئے صرف خود کو دست یاب رکھ سکتا ہے۔ تلاش، فیصلہ متحرک طریقے ہیں۔ انسان کے اندر نسوانیت ہونی چاہیے اور اسے جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ ایک شخص کو اس چیز کے بارے میں کہ جو وہ کر رہا ہے زیادہ ہوشیار اور زیادہ تیار رہنا چاہیے۔
کیا تم پہلے کسی رہ نما کو جانتے ہو؟ کیا تمہیں رہ نما کا کوئی تجربہ ہے؟ جو کچھ تم نے سنا ہے وہ مستعار لیا ہوا ہے۔ تم یقین کی منزل پر نہیں ہو، تم اس کے سچ ہونے کا یقین نہیں کر سکتے۔ تم کیسے فیصلہ کر سکتے ہو؟ اور تم رہ نما کو کیسے تلاش کرو گے؟ فیصلے کا معیار کیا ہو گا؟ تم کیسے پرکھو گے کہ یہی رہ نمائے کامل ہے؟ کیا تم ایک رہ نمائے کامل کو پرکھ سکتے ہو یا اس کے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہو؟
پھر تم تو بالا ہو، پہلے ہی رہ نمائے کامل سے بلند ہو۔ تم ایک جج کی کرسی پر براجمان ہو۔ تم ایک منکسر المزاج اور غیر متحرک مرید نہیں ہو۔ اور رہ نما تمہارے غیر متحرک ہونے، تمہاری انکساری اور سادگی کے وقت ظاہر ہوتا ہے۔
ایک شخص نے فیصلہ کیا کہ وہ رہ نمائے کامل کو تلاش کرے گا۔
اور رہ نمائے کامل ہی کیوں؟ انسان کی انا ہمیشہ کاملیت کو تلاش کرتی ہے۔ اگر تم دولت کی تلاش میں ہو تو تمہاری انا تمہیں دنیا کا امیر ترین شخص دیکھنا چاہتی ہے، (پیسے کے حساب سے) دنیا کا کامل ترین انسان۔ اگر تم اخلاقیات کی تلاش میں ہو تو تم ایک کامل درویش بننا چاہتے ہو۔ انسانی انا کے اندر کاملیت کی شدید ترین خواہش موجود ہے۔ تمام انا پرست کاملیت پسند ہیں اور تمام کاملیت پسند خللِ اعصاب کے مریض ہیں۔ کاملیت کا خیال لوگوں کو مجنون بنا دیتا ہے۔
ایک منکسر المزاج شخص عیبوں سے واقف ہوتا ہے اور ایک عاجز شخص اپنی خامیوں کو تسلیم کرتا ہے۔ ایک منکسر المزاج شخص نا ممکن چیز کا مطالبہ نہیں کرتا۔ یہ انا ہے جو نا ممکن چیز کی خواہش رکھتی ہے اور نا کام ہوتی ہے۔ اور پھر وہ ہیجانی کیفیت کا شکار ہوتی ہے، اور محسوس کرتی ہے کہ اس سے غداری کی گئی ہے اور دھوکا دیا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ اسی چیز کا مطالبہ دُہراتی ہے۔
تمہیں رہ نمائے کامل کی ضرورت کیوں ہے؟ تم نے ایک چیز تو یقینی تصور کی ہوئی ہے کہ تم عظیم انسان ہو اور اس سے کم کوئی چیز تمہارے قابل ہے اور نہ تمہیں مطمئن کر پائے گی، اس سے کم کوئی بھی چیز تم سے کم تر ہو گی۔ تم انسانِ کامل ہو اور تمہیں رہ نمائے کامل کی ضرورت ہے۔ عام رہ نما کام کا نہیں، کوئی غیر معمولی رہ نما ہونا چاہیے۔ تم صرف غیر معمولی میں دل چسپی رکھ سکتے ہو۔
اور متناقض بات یہ ہے کہ غیر معمولی چیزیں عمومی انداز میں موجود ہوتی ہیں۔ غیر معمولی چیز غیر معمولی انداز میں موجود نہیں ہوتی؛ کیوں کہ غیر معمولی ہونے کے تمام دعوے احمقانہ اوربے وقوفانہ ہیں۔
ایک حقیقی شخص، ایک آزمودہ شخص کبھی یہ خیال نہیں رکھتا کہ وہ کسی اور شخص سے کسی لحاظ سے بھی اعلیٰ نہیں ہے۔ وہ ایسی دنیا میں رہتا ہے جہاں تقابل کا وجود نہیں ہے۔ اب رہ نمائے کامل کو تلاش کرنے کے نظریہ کی بنیاد تقابل پر مبنی ہے۔
1Hasidic
2Levi Yitzchok
ہندوستان کی ریاست بہار میں ایک گاؤں 3