رکشا ڈرائیور 

Iftikhar Baloch

رکشا ڈرائیور 

کہانی از، افتخار بلوچ

اُسے اپنے کپڑوں پر ایک خاص قسم کا فخر محسوس ہو رہا تھا۔ تھری پیس سوٹ کی گواہی تو آج اس کا کوئی دشمن بھی دے دیتا۔ رنگوں کے تناسب نے سر چڑھ کر اس کی صلاحیت کو داد دی تھی۔ اُسے اپنے دفتر کے دروازے پر لگی ہوئی تختی نے خاص طور پر متوجہ کیا تھا۔

سنہرے رنگ میں اُسے لکھا ہوا اپنا نام “راشد کمال” کسی دلہن کے ماتھے کا جھومر محسوس ہوا تھا۔ آج اس نے اپنے سارے خواب پورے کر لیے تھے۔ جدید فرنیچر سے سجا ہوا اسے اپنا دفتر دارالسکون لگا تھا۔ اس نے میز کے پیچھے رکھی مہنگی کرسی پر بیٹھتے ہوئے محسوس کیا تھا کہ آج اس کے پاس وسیع تر اختیارات آ گئے تھے۔ اس کو ہر مہنگی چیز ہیچ محسوس ہو رہی تھی۔ اسے خیال آ رہا تھا کہ وہ مہنگے گھر میں رہ سکتا ہے مہنگی پینٹنگز خرید سکتا ہے اپنی بیوی کو زیوروں کی دیوی بنا سکتا ہے مرسیڈیز جیسی گاڑیوں میں گھوم سکتا ہے۔

یہی تو آخر زندگی ہے! اس کے علاوہ زندگی اور کیا ہے؟ زندگی تو آسائش کا نام ہے عیاشی اور آرام کا نام ہے۔ زندگی وہ نہیں جو مزدور یا رکشا ڈرائیور گزارتے پھرتے ہیں۔ وہ تو بس پیٹ کی جنگ لڑتے لڑتے شہید ہو جاتے ہیں اور یہ بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ فاتح رہے ہیں یا مفتوح۔

اس کے دماغ نے فوراً اڑان بھر کر کہا تھا، ” راشد! یہ تو زندگی نہیں، یہ کوئی زندگی نہیں! یہ تو موت ہے کالی موت جو اماوس کی کالی راتوں میں آندھی کی طرح خوف ناک ہے! زندگی تو یار تو جی رہا ہے اپنا دفتر دیکھ یہ لوگ دیکھ اس کمپنی کی پہچان محسوس کر سب چھوڑ وہ استقبالیہ پر براجمان لڑکی کو دیکھ جس نے سر جھکا کر تجھے اپنی وفا کی ڈور تھما دی یہ زندگی ہے۔”

اس کے خیالات تب ٹوٹے جب خانساماں چائے لے کر حاضر ہوا۔ راشد نے آنکھوں کی جنبش سے خانساماں کو اجازت دی اور چائے رکھنے کے بعد ہلکی سی مسکراہٹ خانساماں کی بوڑھی آنکھوں کو سونپ دی جن میں صدیوں کا تغیر امڈ آیا تھا!۔

ظلم ہی انسانی نفسیات کا یہی ہے کہ جب تغیر کو حیرت کی آنکھ دیکھے تو انسان اپنی منزل نہیں طے کر سکتا اور کھو جاتا ہے۔ خانساماں بھی شاید اسی کرب کا مجسمہ تھا۔ راشد کو اپنے انسان شناس ہونے پر بھی فخر محسوس ہوا تھا۔ مگر ساتھ اسے یہ خیال بھی آ گیا تھا، ” میں نے تغیر کے زہر کو اپنا خون نہیں چوسنے دیا میں نے منزل طے کی اور مقصد پا لیا میں نے وقت کی کم ظرفی کو شکست دے دی۔ وقت نے مجھے بدلنا چاہا مگر میں نے وقت کو بدل ڈالا۔”

اب خیالوں کا دریا ماضی کی سمت ہلکی چال چلنے لگا اسے اپنے بھوکے دن یاد آنے لگے بے یار و مدد گار دن۔ منظور کالونی کی گندی گلیاں اور میلے لوگ جہاں اس کا دو کمرے کا گھر تھا کرایہ پر۔ مالک ہر دوسرے دن اسے کرایہ بڑھانے کا کہتا اور نکال باہر کرنے کی دھمکی دیتا مگر مالک کی بیوی بڑی خدا ترس عورت تھی۔ اس نے مالک کو ایسا کبھی نہیں کرنے نہیں دیا تھا۔

ایک بار تو مالک نے اپنی بیوی کو ڈانٹ پلا دی تھی اور راشد کا سامان نکالنے آ گیا تھا اس کے ساتھ یونین کا صدر بھی تھا جو راشد کو بڑی خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ مجبوراً راشد کو مالک کے پاؤں پکڑنے پڑے تھے اور اگلے مہینے ہزار روپے اضافی دینے کا وعدہ کیا تھا۔ راشد کو خیال آ رہا تھا کہ کیسی مشکل سے اس نے اگلے مہینے کا کرایہ ادا کیا تھا جس کی وجہ سے اسے تیس دنوں کے لیے رہائشی سکون حاصل ہوا تھا مگر ذہنی جنگ تو جاری تھی۔ بچوں کی پڑھائی اور شہناز کی بیماری نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔


متعلقہ تحریر:

شہر میں میلہ  کہانی از، حسین خالد مِرزا


شہناز اس کی بیوی تھی جس سے راشد بہت محبت کرتا تھا۔ شہناز کو خوب صورت نین عطا ہوئے تھے مگرغربت تو حسن کی معصومیت کو زہر پلا دیتی ہے اس کو شہناز پر بہت ترس آ رہا تھا۔ اس کا بیٹا نجم اور بیٹی لیلیٰ تیسری اور دوسری جماعت میں پڑھتے تھے۔ یونیفارم کی خرابی پر دونوں  اسکول سے طعنے سن کر آتے تھے مگر کیسے شکوہ کرتے۔ بیچارے اپنا غم آنسوؤں کی صورت میں تکیوں کے حوالے کرتے اور سو جاتے۔ یونہی صبح ہوتی زندگی کوئی اور دکھ لے کر حاضر ہو جاتی اور شام ڈھلنے لگتی۔

آج عالی شان دفتر میں بیٹھے ہوئے اسے یہ دن کتنے بے وقعت نظر آ رہے تھے۔ گو کہ راشد نے وقت بدل ڈالا تھا مگر خیال وقت کی طرح تھوڑی ہوتے ہیں۔ یہ تو صبح کو شام دکھا دیتے ہیں اور شام کو صبح۔

دفتر کی ہر چیز مناسب جگہ پر ٹکی ہوئی تھی راشد بھی حسین چھت دیکھنے میں مصروف تھا مگر خیال اس کو ماضی میں دھکیل رہے تھے۔ اسے انہی میلے لوگوں میں سے ایک دوست بابر یاد آیا جسے وہ ببو کہتا تھا۔

بابر کے بکھرے ہوئے بال اور پتھرائی ہوئی آنکھیں اسے یاد آ رہی تھیں۔ یہ سب کچھ راشد کو وقت کی ستم ظریفی کا ادراک کروانا چاہتا تھا، مگر راشد تو وقت کو شکست فاش دے آیا تھا۔

اسے بابر کے بے ربط جملے یاد آ رہے تھے۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے دستِ قدرت نے بابر کے خمیر میں تنظیم نام کا کوئی عنصر ڈالا ہی نہیں تھا۔

اسے یاد آ رہا تھا کہ ایک بار بابر نے چرس کے نشے میں غرق ہو کر کہا تھا:

“دنیا امیروں کی داداگیری کا نام ہے۔ یہ بخیل ہے یہ تو ہم جیسوں کو سانس بھی ادھار نہ دے۔ اللہ مجھ سے پوچھے گا تو میں بول دوں گا کہ تو نے مجھے بے توقیروں کے حوالے کیا تھا۔ اگر تو مجھے فرشتہ بناتا تو دیکھتا کہ تو میری عبادت سے کیسا خوش ہوتا”

اس نے سوچا کہ بابر کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ فرشتوں کا کام ہی عبادت ہے۔ یہ تو انسان ہے جسے مجبوری اور اختیار کے درمیان مضطرب رہنا ہے جسے زندگی کہتے ہیں۔ راشد یہ بات سوچ کر مضطرب سا ہوگیا کہ وہ خود اس اضطراب کا انکاری ہے!

دفتر کا دروازہ ایک بار پھر بجنے لگا تھا۔ اس کی سیکرٹری اندر آنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔ راشد نے اسے اندر بلا لیا۔ وہ ایک دبلے جسم کی سانولی رنگت والی لڑکی تھی۔ جس کا نام ذکیہ تھا۔

“سر! یہ کل کا ٹائم ٹیبل ہے پلیز دستخط کر دیں،” ذکیہ نے کہا۔

یہ کہہ کر اس نے ایک فائل راشد کے آگے رکھ دی اور دم سادھ کر کھڑی ہو گئی۔ شاہد اسے اپنے باس کی نفسیات کا اندازہ تھا۔ راشد دستخط کرنے لگا۔ دستخط کرنے کے بعد ذکیہ نے فائل اٹھائی اور پلٹ گئی مگر کچھ چلنے کے بعد مڑی اور کہنے لگی،

“سر! ڈی ایم صاحب آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔”

“جی! انہیں تین بجے میرے آفس آنے کا کہ دیجیے،” راشد نے کہا۔

“او کے سر! شکریہ، ” یہ کہتے ہوئے ذکیہ چلی گئی۔

لڑکی چلی گئی تھی۔ راشد کو یہ لڑکی پسند نہیں آئی اس نے سوچا کیوں نہ استقبالیہ پر بیٹھی ہوئی لڑکی کو سیکرٹری رکھ لے۔ پھر اس نے سوچا وہ ایسا کر سکتا ہے وہ مینیجر ہے۔ اس نے فون اٹھایا اور استقبالیہ کا نمبر ملانے لگا۔ آگے ایک نسوانی آواز ابھری، “السلامُ علیکم سر!”

راشد نے اسے اپنے آفس بلا لیا۔

چند لمحوں کے بعد لڑکی اس سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔ راشد نے اجازت دے دی۔

“السلامُ علیکم سر!” لڑکی نے کہا۔

“وعلیکم السلام۔ آپ کا نام کیا ہے؟” راشد نے کھوجنے والی نظروں سے اس سے پوچھا۔

“ندا اختر، سر!”

“او کے! آج سے آپ میری سیکرٹری ہوں گی اور ذکیہ کو بتا دیں کہ وہ ڈی ایم اسد خواجہ کی سیکرٹری ہوں گی اور پلیز متعلقہ حکام کو بتائیں کہ وہ استقبالیہ کے لیے کسی میل کو بھرتی کریں اور آپ اپنا ٹرانسفر لیٹر بنوا کر مجھ سے دستخط کروا لیں میں خود بھی ویسے انہیں بتا دیتا ہوں،” راشد نے مسلسل لڑکی کو دیکھتے ہوئے کہا۔

“تھینک یو سر!”  ندا نے تشکر آمیز لہجے میں بولا۔ راشد کو اسی کی آنکھوں کی وفا پر اور بھی بھروسا آ گیا۔ راشد نے ہلکی سی مسکراہٹ ندا کی طرف بکھیری اور کہا:

“او کے! آپ جا سکتی ہیں اور یاد رہے کہ میں کام میں بد دیانتی برداشت نہیں کر سکتا اور یہ تو ہرگز گوارا نہیں کرتا کہ سیکرٹری کو اندازہ نہ ہو کہ اس کا اپنے باس کے ساتھ کیسا تعلق ہونا چاہیے۔”

ندا کا ذہن کئی زاویوں پر کمندیں پھینکنے لگا۔ ندا نے “جی سر آپ کو شکایت نہیں ہوگی،” کہا اور چلتی بنی۔

راشد کو ندا کی آنکھوں نے متاثر کیا تھا مگر وہ صرف حسن کو اپنے قریب دیکھنے کا قائل تھا ویسے تو اس کی شہناز کسی سے کم نہیں تھی۔ شہناز کا خیال آتے ہی راشد کو اپنے فیصلے پر حیرانی ہوئی مگر فطرت نے اس حیرانی کو ایک خام خیال ہی رکھا۔

راشد نے کرسی پر ٹیک لگا دی اور گھڑی پر نگاہیں مرکوز کر لیں تین بج رہے تھے۔ اس نے ساتھ رکھے پانی کے گلاس سے دو گھونٹ پانی پیا اور ائیر کنڈیشنر کے ریموٹ سے کھیلنے لگا۔ اسے سب بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا۔

چند منٹوں بعد ڈی ایم اسد خواجہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ اسد خواجہ کی آواز اور آنکھوں میں دلیل اور مقصد بولتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ اسد خواجہ نے اس کمپنی کو بیس سال دیے تھے مگر ڈی ایم ہی بن سکا تھا۔ شاید اسے لوگوں کو چلانا نہیں آتا تھا۔ ورنہ قابلیت کے اعتبار سے تو وہ راشد کو کوئی مشین ہی لگتا تھا کہ نہ جس کے جذبات ہوں اور نہ جو تھکے بس کام کام اور کام!

“السلامُ علیکم سر!” اسد خواجہ نے کہا۔

“وعلیکم السلام! کیسے ہیں آپ خواجہ صاحب،” راشد نے استفسار کیا۔

خواجہ نے بغیر کسی توقف کے اپنا حال بیان کیا اور کہا:

“سر! ہماری پروڈکٹ کی ڈیمانڈ زیادہ ہوگئی ہے مگر ہم مطلوبہ مقدار بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔”

اس بات سے راشد کو بڑی کراہت محسوس ہوئی۔ اسے لگا جیسے کسی نے اس کی خود اعتمادی کی فصیل میں شگاف ڈال دیا ہو۔ اسے اپنے اندر کے خلاؤں کا کبھی یقین نہیں ہوا تھا۔ وہ خلاؤں سے بھری زندگی کو بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ آخر وہ کیسے اس بات کو ہضم کرتا کہ اس کی موجودگی میں کمپنی لوگوں کا تقاضا نہیں پورا کر سکتی۔

“خواجہ صاحب! کیا مسئلہ ہے جو ہم مطلوبہ مقدار نہیں بنا سکتے؟” راشد نے چڑتے ہوئے کہا۔

“سر! ہماری مشینیں چوبیس گھنٹے چلتی ہیں لوگ دن رات کام میں مصروف رہتے ہیں۔”

ایک بار پھر وقت کی قید نے راشد کے منہ پر طمانچہ رسید کر دیا۔ گھنٹے تو چوبیس ہی رہنے تھے وہ سورج کو ابھرنے سے تو نہیں روک سکتا تھا!

راشد نے چڑتے ہوئے کہا: “خواجہ صاحب! آپ نے اس مسئلے کا حل سوچا ہے؟”

“جی سر! ہمیں مشینوں کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑے گا جس کے لیے زیادہ جگہ کی ضرورت ہوگی۔ اس سب کا تخمینہ بھی میں نے لگایا ہے” یہ کہتے ہوئے خواجہ نے ایک فائل راشد کے آگے رکھ دی۔ راشد فائل دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے خواجہ کو کہا، ” خواجہ صاحب! اس فائل کے لیے مجھے کچھ وقت درکار ہوگا میں بجٹ دیکھ کر آپ کو بلا لوں گا آپ جا سکتے ہیں۔”

خواجہ اٹھ کر چلا گیا مگر راشد کی طبیعت کو مکدر چھوڑ گیا۔ اس تکدر کا حل راشد کو ندا کی آنکھوں میں نظر آیا۔ اسے حسن کے طواف کی ضرورت تھی۔

اس نے گھنٹی بجائی تو چند لمحوں بعد ندا کمرے میں آ گئی۔

“السلامُ علیکم سر!” ندا نے کہا۔

“وعلیکم السلام! کیسا لگا آپ کو اپنا آفس؟” راشد نے استفہامیہ نظروں سے ندا کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

“بہت اچھا سر! یہ سب آپ کی مہربانی ہے،” ندا نے دل فریب مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا۔

“اچھا! امید ہے اب آپ کو استقبالیہ والے خلجان سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ میں جانتا ہوں کہ کس بندے سے کون سا کام لیا جاتا ہے اور کیسے لیا جاتا ہے،” راشد نے ندا کے چہرے پر آنکھیں جماتے ہوئے کہا۔ اسے کہیں کوئی غازے کی لہر نظر نہیں آئی۔ مجسم حسن خالص حسن! یہی تو وہ چاہتا تھا اسی اثناء میں کسی نے راشد کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور درشت آواز میں کہا۔

“اوئے کہاں گم ہے ادھر لا رکشے کے کاغذ دکھا اور ڈرائیونگ لائسنس بھی دکھا۔ ایسے جگہ پر آدھی رات کو کھڑے ہو جاتے ہیں سواریوں کی امید میں جہاں جن بھوت آنے سے ڈرتا ہے ادھر لا کاغذ دکھا؟”

راشد مبہوت ہو کر رہ گیا۔ اس کو پولیس والے نے چونکا دیا تھا۔ اس نے بڑی مغموم آواز میں کہا

“جی ابھی دکھا دیتا ہوں۔”

راشد نے کاغذ آگے کر دیے اسی وقت سڑک سے ایک تیز رفتار گاڑی زناٹے سے گزری۔ ایسی چپ میں جس کی آواز نے کمپنی، دفتر، خواجہ صاحب اور ندا کو ہوا میں تحلیل کردیا اور رکشا ڈرائیور راشد رہ گیا۔

شہناز اور اس کے بچے اس کے گھر جلدی آنے کی امید میں دو کمروں والے مکان میں محوِ خواب تھے۔