دیولی سٹیشن اور رات کی ٹرین
مصنف (انگریزی)، رسکن بونڈ
مترجم، جنید جاذب
کالج کے زمانے میں میری گرمیوں کی چھٹیاں دہرہ دون میں گزرتیں جہاں میری نانی رہتی تھیں۔ مئی کے اوائل میں ہی میں کالج کو الوداع کہہ دیتا اور جولائی کے آخر میں کہیں واپس لوٹتا۔ دیولی ایک چھوٹا سا سٹیشن تھا جو، دہرہ دون سے کوئی تیس کلو میٹر کے فاصلے پر اس جگہ پڑتا تھا جہاں سے شمالی ہند کے گھنے جنگلوں کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔
صبح کے تقریباً پانچ بجے جب ٹرین یہاں پہنچتی تو سارا سٹیشن برقی لیمپوں اور چراغوں کی مدھم روشنی میں نہا رہا ہوتا۔ ہلکی روشنی میں ریلوے پٹریوں کے اس پار کا جنگل بَہ مشکل دکھائی پڑتا تھا۔ ریلوے سٹیشن کیا تھا، بس ایک پلیٹ فارم، سٹیشن ماسٹر کا دفتر اور ایک ویٹنگ روم ۔ اس کے علاوہ ایک چائے کےسٹال، پھلوں کی ریڑھی اور کچھ آوارہ کتے سٹیشن کی ساری رونق ہوتے تھے۔ ٹرین صرف دس منٹ کے لیے یہاں رکتی اور پھر گھنے جنگلوں میں رُو پوش ہو جاتی۔
آخر ٹرین یہاں رکتی ہی کیوں تھی، یہ بات کبھی میری سمجھ میں نہ آئی۔ یہاں کسی کو اترنا ہوتا تھا نہ چڑھنا۔ پلیٹ فارم پہ کوئی قلی تک نہیں تھا۔ لیکن اس کے با وُجود ٹرین یہاں پورے دس منٹ تک رکتی۔ ٹھیک دس منٹ بعد گارڈ کی سیٹی سنائی دیتی اور ٹرین نکل پڑتی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دیولی سٹیشن کہیں دور رہ جاتا۔
مجھے ہمیشہ حیرت ہوتی کہ آخر سٹیشن کی دیواروں کے عقب میں ایسا کیا ہوتا ہو گا جو اس دس منٹ کے دورانیے میں ہو بھی جاتا اور مجھے خبر تک نہ ہوتی۔ اس ویران سٹیشن اور ارد گرد کے علاقے پر مجھے ترس آتا کہ یہاں کبھی کوئی آتا جاتا نہیں۔ میں نے یہ ٹھان لیا کہ ایک روز میں، صرف اس جگہ کی خاطر،یہاں اتروں گا اور پورا دن ملحقہ قصبے میں گزاروں گا۔
میں کوئی اٹھارہ برس کا رہا ہوں گا، جب اپنے ننھیال جاتے ہوئے پہلی بار میرا یہاں سے گزر ہوا تھا۔ ہماری شبانہ ٹرین حسبِ معمول یہاں رکی تو اچانک ٹوکریاں بیچنے والی ایک لڑکی پلیٹ فارم پہ نمُو دار ہوئی۔ یہ ایک سرد شام تھی اور اس نے اپنے شانوں کے گرد ایک شال لپیٹ رکھا تھا۔ اس کے پاؤں ننگے تھے اور لباس پرانا لیکن کم سِنی کے با وُجود وہ وقار سے چلتی تھی۔
میری کھڑکی کے پاس پہنچ کر وہ رک گئی۔ حالاں کہ وہ بھانپ گئی تھی کہ میں پورے انہماک سے اسے دیکھ رہا ہوں لیکن یہ تاثر دیا جیسے اس نے میرا کوئی نوٹس نہ لیا ہو۔ زردی مائل رنگت، چمک دار بال اور جیسے درد سے بھری ہوئی آنکھیں… اور پھر وہ متجسس اور کھلی کھلی آنکھیں بِالآخر میری آنکھوں سے ٹکرا گئیں۔
کچھ دیر وہ میری کھڑکی کے سامنے چپ چاپ اور ساکت کھڑی رہی، لیکن جب وہ وہاں سے چلی گئی تو میں اپنے آپ کو روک نہ سکا اور خود کو دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے پایا۔ چند لمحوں بعد میں پلیٹ فارم پر تھا اور کسی کا منتظر تھا۔ پلیٹ فارم سے ہوتا ہوا میں چائے کے سٹال تک جا پہنچا۔ آگ پہ رکھی ایک چھوٹی سی کیتلی میں چائے ابال کھا رہی تھی لیکن چائے والا کسی کو چائے دینے ٹرین کے اندر گیا ہوا تھا۔ لڑکی بھی، میرے تعاقب میں، ٹی سٹال تک آ پہنچی تھی۔
“ٹوکری لو گے؟” وہ مجھ سے مخاطب ہوئی۔ “بہت مضبوط ہیں ی… سب سے اچھے بانس کی بنی ہیں۔”
“نہ،” میں نے جواب دیا، “مجھے نہیں چاہیے۔”
ایسا لگا جیسے بہت دیر تک، ہم ایک دوسرے کو تکتے رہے۔ پھر وہ اچانک بولی “کیا واقعی آپ کو ٹوکری نہیں چاہیے؟”
“چلو دے دو ایک، ” میں نے اوپر سے ایک ٹوکری اٹھالی اور ایک روپیہ اسے تھما دیا۔ بچتے بچتے بھی میری انگلیاں اس کی انگلیوں سے چھو گئیں۔
مزید دیکھیے:
کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ اوّل) ترجمہ، نصیر احمد
جولین بارنز، Julian Barnes، اور فکشن کا منصب از، یاسر چٹھہ
وہ کچھ بولنے ہی والی تھی کہ گارڈ نے سیٹی بجا دی۔ اس نے کچھ کہا ضرور لیکن اس کی آواز سیٹی اور انجن کے شور میں کہیں دب کر رہ گئی۔ میں بھاگ کر اپنے کَمپارٹ-مَنٹ تک پہنچا اور ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ چل دی۔
پلیٹ فارم پیچھےچھوٹتا جا رہا تھا اور میری نظریں لڑکی پر ٹِکی تھیں۔ پلیٹ فارم پر وہ اکیلی تھی لیکن دیر تک وہیں کھڑی مجھے دیکھتی رہی اور مسکراتی رہی۔ وہ اس وقت تک مجھے دِکھتی رہی جب تک کہ سِگنل ٹاور ہمارے درمیان حائل نہیں ہو گیا۔ اور اس کے بعد گھنے جنگلوں میں سٹیشن کہیں رُو پوش ہو گیا، لیکن مجھے وہ وہیں جُوں کی تُوں کھڑی دکھائی دیتی رہی۔
باقی سفر میں میں نے اپنے آپ کو کچھ کچھ سنبھال لیا، لیکن پھر بھی اپنے ذہن کو اس لڑکی کے چہرے اور اس کی سیاہ اور بے چین آنکھوں کے سِحَر سے آزاد نہ کر پایا۔
دہرہ دون میں، جہاں کئی دوسری مصروفیات میری منتظر تھیں، یہ قصہ دماغ سے تقریباً محو ہو گیا لیکن دو ماہ بعد جب میں نے واپسی کی ٹرین پکڑی تو وہ لڑکی ایک بار پھر میرے ذہن میں آ دھمکی۔
دیولی سٹیشن پر پہنچتے ہی میری آنکھیں پھر اس کو تلاشنے لگیں۔ غیر متوَقُّع طور پر اسے پلیٹ فارم پر پا کر میں جھوم اٹھا۔ ٹرین سے اترتے ہوئے میں نے اس کی طرف ہاتھ ہلایا۔
اس نے مجھے دیکھا اور مسکرائی۔ وہ خوش تھی کہ میں اسے بھولا نہیں۔ اور میں خوش تھا کہ اس نے بھی مجھے یاد رکھا۔ ہم دونوں خوش تھے اور باہم ایسے پیش آ رہے تھے جیسے کوئی پرانے دوست مل رہے ہوں۔
اس روز وہ ٹوکریاں بیچنے کے لیے ٹرین میں نہیں گئی، بَل کہ سیدھے چائے کے سٹال کے پیچھے آ گئی۔ اس کی سیاہ آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔ کچھ دیر تک ہم چپ چاپ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے رہے، بِنا کچھ بولے، بِنا کچھ سنے۔ لیکن اس خاموش مراسلت کا بدل کوئی گفتگو کبھی نہیں ہو سکتی تھی۔
دل میں آیا کہ اسے اسی وقت ٹرین میں بٹھاؤں اور ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے جاؤں۔ سٹیشن پراسے کیلا چھوڑ جانے کے خیال سے مجھے ہول آنے لگا۔ میں نے ٹوکریاں اس کے ہاتھ سے لے کر زمین پر رکھ دیں۔ اس نے ایک آدھ ٹوکری ہاتھ میں اٹھائے رکھنے کی کوشش کی لیکن میں نے اس کا ہاتھ کھینچ کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
“میں دہلی جا رہا ہوں،” میں نے کہا۔
“میں کہیں نہیں جا رہی،” اس نے سَر جھکا لیا۔
گارڈ نے ایک بار پھر سٹی بجا دی؛ اور اپنی اس حرکت کی وجہ سے وہ مجھے کتنا برا لگا تھا، میں بتا نہیں سکتا۔
“میں پھر آؤں گا۔ کیا تم یہیں ملو گی؟”
اس نے پھر سَر جھکا دیا۔ اور جیسے ہی اس نے سر جھکایا ایک گھنٹی بجی اور ٹرین آگے کھسکنے لگی۔
اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر میں ٹرین کی طرف بھاگا۔
اس بار سفر کے دوران میں اسے بالکل بھی بھلا نہ سکا۔ ٹرین کے سارے سفر میں بَل کہ اس کے بعد بھی وہ میرے ساتھ رہی۔ اس سال ہر لمحہ وہ میرے خیالوں میں روشن اور متحرک رہی۔ جب کالج پھر سالانہ چھٹیوں کے لیے بند ہوا تو میں نے جلدی جلدی سامان پیک کیا، اور معمول سے کچھ وقت پہلے ہی، دہرہ دون کے لیے نکل پڑا۔ میری نانی بھی مقررہ وقت سے ایک آدھ روز پہلے ہی مجھے اپنے پاس پا کر یقیناً بہت خوش ہونے والی تھیں۔
جوں جوں ٹرین دیولی سٹیشن کی جانب بڑھ رہی تھی، گھبراہٹ اور بے چینی مجھ پرحاوی ہوتی جا رہی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ہم کس طرح ملیں گے؟ مجھے کیسے پیش آنا چاہیے؟ میں کیسے بات کروں؟ کیا بات کروں؟ بَہ ہر حال میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ میں ایسے چپ چاپ اور بے بس سا اس کے سامنے کھڑا نہیں رہوں گا کہ اپنے احساسات کا اظہار ہی نہ کر پاؤں۔
ٹرین دیولی سٹیشن پر پہنچ کر رک گئی اور میں نے بے قراری میں پلیٹ فارم پر نظریں دوڑائیں۔ لیکن وہ مجھے کہیں نظر نہ آئی۔ میں اپنے کَمپارٹ-مَنٹ کا دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔ وہ کہیں نہیں تھی۔ گہری مایوسی کے عالم میں مجھے خدشات نے گھیر لیا۔ میں نے سوچا کہ اسے ڈھونڈنے کے لیے کچھ تو کرنا ہو گا اور سیدھا سٹیشن ماسٹر کے پاس جا پہنچا۔
“وہ لڑکی جو یہاں ٹوکریاں بیچا کرتی تھی… یا آپ اسے جانتے ہیں؟”
“نہیں، میں نہیں جانتا۔ بہتر ہے کہ تم اپنی ٹرین میں چلے جاؤ، اگر تمھیں پیچھے نہیں چھوٹنا تو…”
میں سٹیشن پر ادھر ادھر بھاگا۔ ریلینگ کے اس طرف جھانک کر سٹیشن یارڈ میں دیکھا لیکن وہ کہیں نظر نہ آئی۔ وہاں ایک آم کے درخت اور جنگل میں جاتی گرد آلود سڑک کے سوا کچھ نہیں تھا۔” یہ سڑک کہاں جاتی ہو گی؟” میرے ذہن میں سوال اٹھا۔
ٹرین سٹیشن سے کھسکنے لگی تھی۔ مجھے دوڑ کر پلیٹ فارم پر پہنچنا تھا اور اپنے ڈبے کی طرف بھاگنا تھا… ۔
اور پھر جب ٹرین نے رفتار پکڑی اور جنگل میں بھاگنے لگی تو میں نے اپنے آپ کو سوچوں میں گم کھڑکی کے پاس بیٹھا ہوا پایا۔
میں اس لڑکی کو کیسے ڈھونڈتا جس سے اب تک صرف دو بار ملاتھا، جو بَہ مشکل چند لفظ بولی تھی اور جس کے بارے میں میں بالکل کچھ بھی نہیں جانتا تھا… لیکن جس کے لیے میرے دل میں ایسی نرمی اور احساسِ ذمے داری جاگ گئی تھی جو میں نے اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔
میری نانی میرے واپس آنے پر بہت زیادہ خوش اس لیے نہیں تھی کہ میں چند ہفتوں سے زیادہ ان کے پاس ٹکنے والا نہیں تھا۔ دہرہ دون میں جلدی ہی میں بے چینی اور بوریت کا شکار ہونے لگا اور ایک دن میں نے واپسی کی ٹرین پکڑ لی۔ مقصد یہ بھی تھا کہ میں سٹیشن ماسٹر سے اس لڑکی کے متعلق مزید کوئی معلومات حاصل کر سکوں۔
لیکن دیولی سٹیشن پر اب نیا سٹیشن ماسٹر تعینات تھا۔ پرانے سٹیشن ماسٹر کی منتقلی پچھلے ہفتے ہی کسی دوسری جگہ ہو گئی تھی اور ظاہر ہے، نیا سٹیشن ماسٹر، ٹوکریاں بیچنے والی کسی لڑکی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ میں نے میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس، دبلے پتلے، پستہ قد چائے والے سے لڑکی کے بارے میں استفسار کیا۔
“ہاں جی ہاں … ایسی ایک لڑکی ہوتی تھی یہاں، مجھے یاد ہے،” اس نے کہا “لیکن اب وہ نہیں آتی۔”
“کیوں” میں نے پوچھا۔” اس نے یہاں آنا کیوں بند کر دیا؟”
“مجھے کیا پتا۔ وہ میری کوئی رشتے دار تھوڑی نا تھی!”
اور ایک بار پھر مجھے سٹیشن سے باہر نکلتی ٹرین پکڑنا تھی۔
جب دیولی سٹیشن میری نظروں سے اوجھل ہوتا جا رہا تھا تو میں یہ ارادہ کر رہا تھا کہ ایک دن مجھے اپنا سفر یہاں موقُوف کر کے پورا دن قصبے میں گزارنا ہو گا اور اس لڑکی بارے پوچھنا اور اسے کھوجنا ہو گا جس کی سیاہ، بے چین آنکھوں کی ایک جھلک نے میرا دل اڑا لیاتھا۔ اسی خیالی منصوبےنے کالج کے آخری سال میری ڈھارس بندھائے رکھی۔
گرمیوں میں دو بارہ میں دہرہ دون کے لیے نکل آیا اور جب صبح سویرے ٹرین دیولی سٹیشن پر رکی تو، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ لڑکی ملنے والی نہیں، میری نظریں اس کی تلاش میں پلیٹ فارم پر گھومنے لگیں۔
لیکن جانے کیوں میں نے اپنے آپ کو اس بات کے لیے تیار نہ پایا کہ اپنا سفر توڑ کر ایک دن کے لیے قصبے میں رک جاؤں اور لڑکی کو ڈھونڈوں … (میں نے سوچا اگر یہ کوئی کہانی یا فلم ہوتی تو میں یہ پہیلی حل کر تے ہوئے، قصے کو ایک مناسب موڑ دے کر ختم کر دیتا) … ایک خوف، کچھ خدشات مجھے روک رہے تھے۔ شاید میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ مجھے پتا چل جائے کہ آخر اس لڑکی کے ساتھ ہوا کیاتھا … ہو سکتا ہے وہ اب دیولی میں نہ رہتی ہو … ممکن ہے اس کی شادی ہو گئی ہو یا … یا کہیں وہ بیمار نہ پڑ گئی ہو …!
پچھلے چند برسوں میں کئی بار میں دیولی سے گزرا ہوں۔ ہر بار، امید اور نا امیدی کے بیچ، میری نظریں پلیٹ فارم پر اسے مسکراتے دیکھنے کی تمنائی ہوتی ہیں۔ میں اب بھی محوِ حیرت ہوں کہ آخر دیولی میں سٹیشن کے عقب میں کیا ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن اب میں یہاں کبھی اپنا سفر نہیں توڑوں گا۔ کیوں کہ ایسا کرنا میرے تصوراتی کھیل کو ختم کر دے گا۔ میں خواب اور امید میں رہنا پسند کروں گا۔ میں یہ پسند کروں گا کہ کھڑکی سے باہر ویران پلیٹ فارم پر ادھر ادھر نظریں دوڑاتا رہوں اور ہمیشہ ٹوکریاں بیچنے والی لڑکی کا انتظار کروں۔
میں اب کبھی دیولی سٹیشن پر نہیں رکتا، لیکن جب بھی ممکن ہو وہاں سے ہو کر گزرتا ہوں۔