ابنِ قاسم، راجہ داہر اور لعنت پاؤ، لعنت
از، یاسر چٹھہ
ہر سال بحث چلتی ہے کہ ہمارا ہیرو ابنِ قاسم کا صنم ہے، یا راجہ داہر نام کا مقامی ناتے دار … گو کہ اس بحث میں، مجھ سے حصہ نہیں ڈَل سکا… کہ کچھ چیزوں سے بوریت ہو جاتی ہے؛ حیرانی کی وفات ہو جانے کا وقوعہ وجہ ہوتی ہے، یا وجہ بن جاتی ہے۔
ہم بہت سے کام نا، نا، نا کرتے ہوئے بھی کرتے ہیں، بَل کہ کرنے پر بھی مجبور ہوتے۔ سو مختصراً عرض کی پھر بھی اجازت ہے۔
یہ بحث لغو ہے؛ یہ بحث ضروری ہے۔
(دونوں فقروں کی متوازن ساخت سے اخذ معانی کو برابر نمبر دیتا ہوں۔)
(You guess, I say I love contradictions of mine, of others, and of political and cultural entities. This is quite human and quite acceptable; any false consciousnesses dismissed.)
نسبتیں اور جُڑتیں اہم ہوتی ہیں؛ کم از کم شناخت کے تعین میں تو یہ بات اہم ہوتی ہے۔
میں گِھسے پٹے جملے نہیں دُہراؤں گا۔ شناختیں سیال، fluid، ہوتی ہیں؛ بَہ غیر پوچھے بتائے رَد و قبول کی جاتی ہیں۔
تھوڑا سا اثر نفوذ بنائیے اور جو شناخت چاہیے، سیال حالت سے اِسے عبوری طور پر ٹھوس کر لیجیے؛ زید اور بکر دنوں کو آپ کے اثر نفوذ سے دل چسپی ہے، باقی جائے بھاڑ میں، اور بس… ۔
سو نسبتیں اور جڑتیں سیاسی و سماجی طور پر اہم بھی ہو جاتی ہیں۔
پاکستان کے سیاق میں یہی نسبت اگر راجہ داہر سے ہونی ہے، یا کسی قسم کے در آمد شدہ معین قریشیوں سے، (اوہ) ابنِ قاسم سے، (یہ tweaking and twist کیوں کیا ہے، اے کاش اس کی کاٹ اور چھلنی کے سوراخوں کا سائز سمجھانا نا پڑے) یہ نسبت اور جڑت کسی کی سیاسی و شناختی ontology میں کوئی چھوٹا سوال بھی ہر گز نہیں کہلا سکتا۔
(یہ میں بھی کیا سوال لے بیٹھتا ہوں، خلا میں اذانیں دینے سے کون سی سَحَر ہو جانی ہے…۔)
(It’s just another aside dear!)
ملاحظہ کیجیے:
شناخت، حب الوطنی اور آزمائشِ ایمان، اداریہ ایک روزن
دو قومی نظریہ اور پاکستان قومیت (حصۂِ سوم) از، اسد رحمٰن
تو اب جس نے جہاں بیعت ہونا ہے، یہ ہر اُس کے لیے اہم سوال ہے۔
مکتب و مدرسہ موجودہ 712 ملی گرام کے ‘بابِ اسلام شناختی کیپسول’ کے طور پر پچھلی کچھ دھائیوں سے ابنِ قاسم کو جَپھی ڈالنے کا حکم جاری کر رہے ہیں، تو رب کی اس دھرتی میں کبھی راجہ داہر کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
پاکستانی سیاسی شناخت کی تاریخ کبھی زمین زاد، territorialised بھی رہی، اور کبھی تجرید ریز (بَہ وزن سجدہ ریز)، کبھی اس پر اسلام کے قَلعہ کی دیواریں اٹھ آتی ہیں، تو کبھی یہ ‘آزاد دنیا’ کی آزادی کی کلھاڑی کا ہراول ‘دستہ’ بھی بن جاتی ہے… ۔
بس یہ سب کچھ “عزیز ہم وطنو” کے تین لفظوں کی “ہلکی پھلکی سی” مار ہوتی ہے، پاکستانی ریاستی قومی شناخت کی یہ باندی…
لہٰذا لعنت پاؤ، لعنت
لفظ لعنت بولنے سے چار حرفوں، یعنی چالیس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔
ثواب لیجیے، ثواب…۔