مظفر گڑھ میں ایک باپ کی خود کشی اور لاک ڈاؤن
از، عمران احمد
معاشرے میں فساد اور بگاڑ کو روکنے کے لیے انسان نے قوانین بنائے ہیں اور یہ سلسلہ جدید مذاہب کے ظہور سے بھی بہت پہلے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ جو بھی ان قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے ایک پورا نظام اور ادارے موجود ہیں جو تمام پہلو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ سزائیں مقرر کی گئی ہیں تا کہ عوام ان قوانین کی حدود میں رہیں۔
اسی طرح کا انصاف کا ایک نظام انسانوں نے اپنے دماغ میں بھی بنایا ہوا ہے جس سے وہ دوسرے انسانوں کے اعمال دیکھ کر ایک فیصلہ کرتے ہیں۔
لیکن اس میں ایک مسئلہ ہے کہ انسان بغیر سِکّے کے دونوں رخ دیکھے فوری طور پر فیصلہ کر لیتے ہیں، یا ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ظالم اور مظلوم کا فیصلہ ہمارے ذہن میں پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے۔
ایک خبر آتی ہے کہ ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو قتل کر دیا۔ خبر پڑھتے ہی ہم قاتل کو ظالم اور مقتول کو بے گناہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یہ دیکھے بغیر کہ مقتول کی کیا حرکات تھیں جو اس کے قتل کا سبب بنیں۔ بس ہمارا فیصلہ جاری ہو جاتا ہے۔ ہم دردی مقتول کے کھاتے میں، نفرت اور غصہ قاتل کے حصے میں۔
پچھلے دنوں ایک خبر چلتی ہے کہ ایک باپ نے بیٹے کا صرف پانی سے روزہ افطار کرنے کے غم میں خود کشی کر لی کہ وہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھلا سکا۔ یہ کسی بھی مہذب معاشرے میں ایک درد ناک واقعہ ہے کہ غربت کی وجہ سے کوئی اپنی جان لے بیٹھا۔
خبر پڑھتے ہی کسی نے اسے حکومت کی نا اہلی سے کسی نے کرونا لاک ڈاؤن سے جوڑا اور فیصلہ صادر کر دیا یہ جانے بغیر کہ نوبت خود کشی تک کیوں پہنچی۔ میں اس شخص کی پوری کہانی آپ کی سامنے رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
اس آدمی کے دو بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ کھاتے پیتے گھر کے تھے۔ ماں باپ کے بہت لاڈلے تھے۔ کبھی بھی کوئی کام دھندہ محنت مزدوری کی نوبت نہیں آئی تھی۔ ان کا زرعی رقبہ بھی تھا جو والدین کی زندگی میں ہی انھوں نے بیچنا شروع کر دیا تھا۔
ان کی شادی ہوئی، 5 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ دو بیٹیوں کی شادی بھی ہو چکی تھی لیکن کوئی کام دھندہ نہیں تھا۔ بس زمین بیچ بیچ زندگی گزارتے رہے۔ پھر والدین فوت ہوئے۔ زمین بھی ختم ہوئی۔ صرف ایک مکان بچ گیا۔
جب انھیں کچھ نظر نہیں آیا تو اپنے بھانجے کے کہنے پر مکان بیچ کر بورنگ کا سیٹ اپ خرید لیا۔ تجربہ تھا نہیں کبھی محنت کی نہیں تھی۔ بھانجا بے وقوف بناتا رہا اور کاروبار ختم ہو گیا۔
کرایے کے مکان میں رہتے تھے، ہنر کوئی تھا نہیں، لاڈوں سے پلا جسمانی مشقت کے قابل نہیں تھا۔ ان کے دو بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ کھاتے پیتے گھر کا تھا۔
جب کرایہ کافی مہینے سے ادا نا ہوا تو مالکِ مکان نے مکان خالی کرنے کو کہا۔ ان کے داماد کا ایک گھر شہر میں خالی پڑا تھا، بیٹی نے وہ دلوا دیا کہ کرایے سے تو بچیں گے۔
کرایے کے علاوہ بھی خرچے تھے لیکن کہاں سے پورے کرتے۔ بارہ سال کے بیٹے نے روزہ رکھا۔ افطار کے وقت صرف پانی تھا۔ اس نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا۔ صبح ہوتے ہی شہر سے گندم میں رکھنے والی گولی لی، کھائی اور شام تک ہر غم سے نجات پا کر بَہ قول عمران خان قبر میں سکون سے جا سویے۔
اب آپ فیصلہ کریں کس کا قصور تھا: والدین کا، حکومت کا، لاک ڈاؤن کا، قریبی رشتے داروں کا، بھانجے کا، یا اس شخص کا اپنا۔