منٹوکے افسانے اور جلیانوالہ باغ کا واقعہ (۲)
از، پرویز انجم
(گذشتہ سے پیوستہ)
قتل و غارت اور آتش زنی کے بعد اگلے دن ۱۰؍ ۱پریل کو امرتسر میں خاموشی کا عالم تھا۔ حتیٰ کہ معمولی جرائم تک نہیں ہوئے تھے۔ حکام نے بھی کافی لیت و لعل کے بعد لوگوں کو اپنے مردے دفن کرنے اور ان کی چتاؤں کو آگ لگانے کی اجازت دے دی تھی، لیکن ہدایت یہ تھی کہ وہ دو بجے تک اپنی آخری رسوم سے فارغ ہو کر گھر واپس پہنچ جائیں تاہم سزا کے طور پر بجلی اور پانی کی فراہم معطل رکھی۔ مرنے والے ہندوستانیوں کی لاشیں ورثا کے حوالے کر دی گئیں۔ طفیل عرف تھیلے کی لاش جب کفن دفن کے لیے اُس کے گھر لائی گئی تو محلے میں کہرام مچ گیا۔ اُس کا بدن گولیوں سے چھلنی تھا۔ اپنی برادری میں وہ مقبول نہیں تھا لیکن اُس کی لہو لہو لاش دیکھ کر سب دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ اُس کی بہنوں شمشاد اور الماس پر بار بار غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ جب جنازہ اُٹھا تو اُن بہنوں نے ایسے بین کیے کہ سننے والے بھی لہو کے آنسو روتے رہے بہت افراتفری کے عالم میں اُس غریب تھیلے کو جلدی جلدی دفن کیا گیا۔ یہی صورتِ حال دوسری میّتوں کی تھی ، جیسے اِن کی موت اُن کے سوگوار عزیزوں کا کوئی سنگین جرم تھی۔ جنرل ڈائر نے فوجیوں کے ساتھ شہر میں مارچ کیا۔ سخت ہنگامی دن تھے۔ فوج کا دور دورہ تھا۔ وہ دیو جسے مارشل لاء کہتے ہیں شہر کے گلی گلی کوچے کوچے میں ڈکارتا پھر رہا تھا اور مسلح پولیس کا گشت ایک عجیب ہیبت ناک سماں پیش کر رہا تھا۔ وہ بازار جن میں چہل پہل رہتی تھی اب کسی نامعلوم خوف کی وجہ سے سونے پڑے تھے۔ گھروں میں بھی ایک پُراسرار خاموشی تھی۔ بھیانک خوف کا راج تھا۔
منٹو بھی گھر کے آنگن کی سہمی فضا میں اپنے والد کے پاس بیٹھا تھا اور پوچھ رہا تھا کہ ’’اباجان آپ مجھے سکول کیوں نہیں جانے دیتے؟‘‘
اُس کے باپ غلام حسن نے اُس سے کہا ’’بیٹا سکولوں میں چھٹی ہے۔‘‘
منٹو بولا ’’ماسٹر صاحب نے تو ہمیں نہیں بتایا۔ وہ تو کہتے تھے جو لڑکا سکول کا کام ختم کر کے اپنی کاپی نہ دکھائے گا اُسے سخت سزا دی جائے گی۔۔۔ کل بھی آپ نے جانے نہیں دیا تھا۔‘‘
’’سکول میں چھٹی ہے۔ ہمارا دفتر بھی بند ہے۔‘‘ والد نے اُسے سمجھایا۔
’’اچھا پھر ٹھیک ہے۔۔۔ چلو آج میں آپ سے کوئی اچھی سی کہانی سنوں گا۔‘‘
’’نہیں بھئی، آج نہیں کل سناؤں گا۔‘‘
’’مجھے باہر بھی نہیں جانے دیتے، اگر گھر میں رہوں گا تو آپ سے کہانی سنوں گا۔‘‘ منٹو بضد تھا۔ اسی اثنا میں اچانک تین طیارے چیختے ہوئے سروں سے آسمان پر گزرے۔ دونوں نے خوفزدہ ہو کر اوپر دیکھا۔ منٹو کو خیال آیا کل بھی جہاز سارا دن دھوپ میں چکر لگاتے رہے تھے۔ وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچا تو باپ سے کہا۔
’’ابا جان ان جہازوں کی آواز سے مجھے سخت خوف آتا ہے۔۔۔ جو یہ چلاتے ہیں اُن سے کہہ دیں کہ وہ ہمارے گھر پر سے نہ گزرا کریں۔‘‘
’’تم تو پاگل ہو۔‘‘
’’ابا، یہ جہاز بہت خوفناک ہیں، کل امی جان کہہ رہی تھیں کہ ان جہاز والوں کے پاس بہت سے گولے بھی ہوتے ہیں۔۔۔ یہ کسی دن ہمارے گھروں پر گولہ نہ پھینک دیں۔‘‘
منٹو کے والد غلام حسن اپنے لڑکے کی اس بات پر ہنس پڑے۔ ’’تمہاری ماں تو پاگل ہے میں اُس سے دریافت کروں گا کہ وہ گھر میں ایسی باتیں کیوں کرتی ہے۔۔۔ اطمینان رکھو، ہرگز ایسی بات نہیں۔‘‘
’’اگر جہازوں نے اس قسم کی کوئی شرارت کی تو یاد رکھیں میرے پاس بھی ایک بندوق ہے۔ وہی جو آپ نے پچھلی عید پر مجھے لے کر دی تھی۔‘‘ اور انگلی سے ہوائی بندوق کا نشانہ لگانے کی مشق کرتا کرتا منٹو اپنے کمرے میں چلا گیا اور کمرے کی کھڑکی جو بازار کی طرف کھلتی تھی، اُس کھڑکی میں بیٹھ کر بازار کی طرف جھانکنے لگا جہاں ہر سو سنسانی تھی۔ اُس نے سوچا ہنگامے والے دِن تو بازار بند ہوگئے تھے لیکن کل اور آج بھی دکانیں کیوں بند ہیں؟ باہر کوئی ہنگامہ آرائی نہیں، مگر وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔
نو عمر منٹو گھر کی چار دیواری کے باہر یہ کیسے جان سکتا تھا کہ پورا پنجاب انگریز کے روح فرسا مظالم تلے سسک رہا تھا۔ شہر میں اندھا دھند گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ اس سلسلے میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ کس کا کیا رتبہ ہے اور وہ کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ لوگوں کو سرِ عام کوڑے مارے گئے۔ شہریوں کو ذلیل کرنے کے لیے یہ حکم جاری کیا گیا کہ وہ جب بھی کسی انگریز کو دیکھیں اُسے جھک کر سلام کریں، جس پتلی گلی میں شیروڈ کا قتل ہوا اُسے لوگوں کو کوڑے لگانے کے لیے مختص کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تضحیک آمیز سلوک یہ کہ وہاں سے گزرنے والے ہر ہندوستانی کے لیے لازم تھا کہ وہ پیٹ کے بل رینگ کر گلی عبور کرے۔ اس ’’رینگنے والی‘‘ گلی کے دونوں طرف دو دو منزلہ مکان تھے۔ گلی بے حد تنگ، گندی اور گنجان آباد تھی۔ یہ وہاں کے رہائشی افراد کے لیے بھی ذلت اور دشواریوں کا باعث بنی۔ وہ بازار سے سودا سلف اور اشیائے ضرورت نہیں لا سکتے تھے اور گھر کی صفائی کا بندوبست بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہاں انتظامیہ نے پولیس تعینات کر رکھی تھی تاکہ کوئی بھی رینگ کر گزرنے کی سزا سے نہ بچ سکے۔ جہاں انگریز عورت کو بربریت سے ہلاک کیا گیا، عین وہی جگہ کوڑے لگانے کے لیے مخصوص کی گئی اور جو تھوڑا سا بھی سر اوپر اُٹھاتا اس کے لیے کوڑوں کی سزا سنا دی جاتی۔ ہر عمر کے لوگوں کو یہ سز جھیلنی پڑتی۔ کوڑے اس قدر سفاکی سے لگائے جاتے کہ اکثر لوگوں کے جسم زخمی ہو جاتے۔ یہ سزائیں پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنیں۔ حتیٰ کہ گورنر اڈوائر کو بھی جنرل ڈائر کو ٹوکنا پڑا کیونکہ اس سے دنیا بھر میں برطانوی حکومت کی بدنامی ہو رہی تھی۔
امرتسر کے حالات کی خبریں دوسرے شہروں میں پہنچ گئی تھیں۔ وہاں بھی لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ دہلی میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔۱۱؍ اپریل کو قصور میں ہڑتال ہو گئی۔ لوگ مشتعل ہوئے اور انہوں نے ایک ہجوم کی شکل اختیار کر لی۔ اس ہجوم کے شرکا نے چند یورپی لوگوں کو قتل کر دیا۔ ریلوے اسٹیشن اور دیگر سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔ تار اور ٹیلی فون کا نظام درھم برھم کر دیا۔ فوج بلالی گئی۔ انگریز انتظامیہ نے لوگوں کو کوڑے لگائے اور گرفتاریاں کیں۔ امرتسر کے بعد سب سے زیادہ سختی لاہور میں آئی۔ مارشل لاء کے نگران اعلیٰ جنرل جوہنسٹن نے وہاں بھی ایجی ٹیشن کرنے والوں کو کوڑے لگائے ۔ اس دوران لاہور میں پانچ سو طلبا اور اساتذہ کو گرفتار کیا گیا اور ان کو پیدل شاہی قلعہ تک سزا کے طور پر لے جایا گیا اور پھر سیاسی راہنماؤں پنڈت رام بھاج، ہری کرشن اور دونی چند کو ضلع بدر کر دیا گیا۔ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں لوگوں کے ہجوم نے ریلوے اسٹیشن اور کاٹن ملز کے گوداموں کو آگ لگا دی۔ اسی احتجاج کی پاداش میں لائل پور کے ایک سکول کے تمام طلبا کو اٹھا کر میجر سمتھ کے دفتر کے باہر میدان میں لاکھڑا کیا گیا۔ ان میں سے اکثر کے ہاتھ پیچھے باندھے گئے، انہیں سرجھکا کر میجر کے سامنے سے ایک قطار میں گزرنے اور یونین جیک کے سامنے تعظیم بجا لانے کو کہا گیا اور انہیں یہ حکم ماننا پڑا تھا۔ ادھر گوجرانوالہ میں لوگوں کو صبح ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا۔ ریلوے اسٹیشن کے ایک طرف کٹے سر والا بچھڑا بندھا تھا تو دوسری طرف ایک مرا ہوا سؤر ٹانگا ہوا تھا۔ یہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اشتعال پھیلانے کا حربہ تھا اور یہ انتظامیہ کی کارروائی تھی۔ چنانچہ مشتعل ہجوم نے جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے ریلوے اسٹیشن کو آگ لگا دی۔ مواصلات کا نظام تباہ کر کے رکھ دیا ۔ یہاں انگریز انتظامیہ نے فضائیہ کی خدمات طلب کر لیں۔ ائیر فورس کے طیاروں نے گوجرانوالہ اور نواحی دیہات میں بمباری کی۔ ایک فوجی دستے نے ریلوے اسٹیشن کے اندر اور باہر احتجاج کرنے والوں کو منشتر کرنے کے لیے مشین گنوں سے فائرنگ کی۔ اس طرح امرتسر کے حالات کا ردِعمل پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی ہوا۔ پنجاب کے پانچ اضلاع میں مارشل لاء نافذ تھا۔
پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل اڈوائر نے ۱۲؍ اپریل کو شملہ میں حکومتِ ہند کو بذریعہ ٹیلی فون حالات سے آگاہ کیا۔ وہاں سے جواب میں یہ کہا گیا کہ ’’صورتِ حال قابو میں کرنے کے لیے اگر فوج کو گولی بھی چلانی پڑی تو گریز نہ کیا جائے۔ ایک مثال قائم کر دی جائے کہ باغیانہ سرگرمیوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ لہٰذا گورنر اڈوائر نے ۱۲؍ اپریل کو ایک سرکاری اعلان کے تحت ہر قسم کے اجتماعات اور جلسے جلوسوں کی ممانعت کر دی۔ اُن کے پاس جلیانوالہ باغ میں ہندوستانیوں کے ایک بڑے جلسے کی اطلاعات تھیں۔
۱۳؍ اپریل کا دن تھا۔ شہر میں جو حالات ہو گئے تھے، کاروبارِ زندگی معطل تھا۔ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ منٹو کے والد اُسے گھر سے نہ نکلنے کی ہدایات دیتے ہوئے بڑے دروازے سے باہر جانے کو تھے کہ اُن کا نوکر بنو آیا اور اطلاع دی کہ گورنر کے واضح اعلان کے بعد بھی امرتسر میں شام کے قریب ایک جلسہ عام ہونے والا ہے یہ ایک دہشت ناک خبر تھی جس سے وہ خوفزدہ ہو گئے۔ فضا میں طیاروں کی پروازیں، بازاروں میں مسلح پولیس کے گشت، لوگوں کے چہروں پر اُداسی کا عالم، خونی آندھیوں کی آمد کسی خوفناک حادثہ کا پیش خیمہ تھے۔ باہر جانے کے خیال کو ملتوی کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ طیاروں کا شور بلند ہوا۔ جیسے سینکڑوں انسان ہم آہنگ آواز میں درد کی شدت سے کراہ رہے ہیں۔ منٹو جہاز کی آواز سن کر اپنی ہوائی بندوق سنبھالتا ہوا کمرے سے باہر دوڑا آیا اور اوپر آسمان کی طرف دیکھنے لگا کہ اگر وہ کوئی گولہ پھینکنے لگیں تو وہ ہوائی بندوق چلا کر اُنہیں نیچے گرا دے گا۔ اُس وقت اُس معصوم چہرے پر ایک آہنی استقلال نمایاں تھا۔ جو بے شک کم حقیقت بندوق کا ایک کھلونا ہی ہاتھ میں تھامے ایک جری سپاہی کو شرمندہ کر رہا تھا کہ وہ آج اُس خوف کو مٹانے پر تلا ہوا تھا۔ لیکن اُس کے دیکھتے دیکھتے جہاز نے اوپر سے کچھ چیزیں گرائیں جو کاغذ کے ٹکڑوں سے مشابہ تھیں۔ گرے ہی یہ ٹکڑے ہوا میں پتنگوں کی طرح اُڑنے لگے پھر بالکل قریب آگئے اور گلیوں، مکانوں اور چھتوں پر گرنے لگے۔ ان میں سے چند کاغذ منٹو کے گھرکی بالائی چھت پر بھی گرے۔ منٹو بھاگا بھاگا اوپر گیا اور وہ کاغذ اُٹھا لایا۔
’’ابا جان۔۔۔ جہاز والوں نے تو گولوں کے بجائے یہ پرچیاں پھینکی ہیں۔‘‘
غلام حسن منٹو نے وہ کاغذ لے کر پڑھنا شروع کیے وہ حکومتی اشتہار تھے۔ اُن پر صاف لکھا تھا کہ حکومت کی طرف سے جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر اپنی مرضی سے کوئی جلسہ کیا گیا تو نتائج کی ذمہ داری خود عوام پر ہو گی۔ غلام حسن کا رنگ زرد ہو گیا۔ ہونے والے حادثے کی تصویر اب اُنہیں عیاں طور پر نظر آنے لگی۔ ۔ والد کو اشتہار پڑھنے کے اس قدر حیران و پریشان دیکھ کر منٹو نے گھبرا کر پوچھا۔ ’’ان پر کیا لکھا ہے؟۔۔۔‘‘
’’سعادت، اس وقت تم جاؤ۔۔۔ جاؤ اپنی بندوق سے کھیلو!‘‘ باپ نے کہا۔
’’مگر اس پر لکھا گیا ہے ابا جان؟‘‘
’’لکھا ہے کہ آج شام کو ایک تماشا ہو گا۔‘‘ غلام حسن نے بیٹے کو ٹالنے کی خاطر کہہ دیا۔
’’تماشا ہو گا!۔۔۔ پھر تو میں بھی چلوں گا۔‘‘
’’کیا کہا؟‘‘
’’کیا اس تماشے میں مَیں آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا؟‘‘
’’اچھا لے چلیں گے۔۔۔ اب جاؤ جا کر کھیلو۔‘‘ بات کو مزید طول دینے کے خوف سے غلام حسن نے کہا۔
کہاں کھیلوں۔۔۔ باہر آپ جانے نہیں دیتے۔ ماں اور بہن مجھ سے نہیں کھیلتیں۔ میرا ہم جماعت طفیل آج کل آتا نہیں۔ میں اب کس سے کھیلوں؟ شام کو تماشا دیکھنے تو ضرور چلیں گے نا؟‘‘
جواب کے انتظار کیے بغیر منٹو اندر چلا گیا اور کمروں میں گھومتا گامتا اپنے والد کی نشست گاہ میں چلا گیا اور کھڑکی کھول کر باہر کا نظارہ کرنے لگا۔ دیکھتا ہے کہ بازار کی دکانیں تو بند تھیں مگر آج آمدورفت جاری تھی۔ مگر وہ سوچ رہا تھا کہ یہ دکانیں کیوں بندہیں؟ شاید لوگوں نے تماشا دیکھنے کی خاطر، جس کے اشتہار جہاز نے گرائے تھے دکانیں بند رکھی ہیں۔ وہ کوئی بڑا ہی تماشا ہوگا۔ اس خیال نے سعادت کو سخت بے چین کر دیا۔ وہ دیکھ رہا تھا باہر لوگ آجا رہے تھے۔ وہ شام کے وقت کا نہایت بے قراری سے انتظار کرنے لگا۔
بازاروں میں لوگ آجا رہے تھے۔ اُس روز بیساکھی کا تہوار تھا۔ اُن سخت ہنگامی دنوں میں بھی دور و نزدیک سے لوگ امرتسر میں اس لیے جمع ہو رہے تھے کہ وہاں ہر سال بیساکھی کا میلہ جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ پچھلے دو تین روز سے گھر سے باہر کھیلنے نہیں گیا۔ اس لیے اسے ہم عمروں سے بھی نہیں پتہ چلا کہ بیساکھی کا میلہ آرہا ہے۔ گھر والوں میں بھی ذکر نہیں ہوا کہ وہ میلہ دیکھنے کی ضد کرے گا۔ حالات ٹھیک نہیں اور پھر میلے کا انعقاد ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ تاہم انگریز صحافی سونسن نے لکھا ہے کہ ’’اُس روز جلیانوالہ باغ میں ہزاروں لوگ جمع تھے۔ وہاں ایک میلے کا سماع تھا اور لوگ ہنسی خوشی تہوار منا رہے تھے۔ سینکڑوں باغ کی گھاس پر لیٹے ہوئے تھے۔ کئی جگہ تاش کھیلنے میں مشغول تھے اور بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے بچوں کے ہمراہ کھیل کود میں مصروف تھے اور ان بچوں کی عمر میں تین سے بارہ سال کی تھیں۔‘‘ باغ میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ شہر کے راستوں پر پولیس کے ناکے لگے ہوئے تھے۔ بازاروں کے منہ پر مسلح گورے سپاہی کھڑے تھے لیکن ہر طرف سے لو گ آ رہے تھے۔ باغ میں داخلے کے صرف چار تنگ دروازے تھے جن کی نگرانی ہو رہی تھی کہ شرپسند گھسنے نہ پائیں۔ گونج دار نعروں کی آوازیں آنے لگیں۔ ان گروہوں کو، انتظامیہ کی جانب سے لاٹھیوں کی مدد سے روکا گیا۔ داخلی دروازوں پر دھکم پیل بڑھتی رہی۔ احتجاجی نعرے لگ رہے تھے۔ مسلح سپاہیوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی مگر ان کے چہروں سے اب خوف و ہراس غائب ہو چکا تھا اور اس کی جگہ خون اور جوش ابھر آیا تھا۔ کہیں کہیں یہ بار بار دل دھلا دینے آوزوں میں کھل رہے تھے۔ باغ کے اندر انسانوں کا ایک سمندر تھا۔غبار پاؤں تلے سے اُٹھ اُٹھ کر سروں پر منڈلا رہا تھا۔ لوگوں کا ایک شور تھا اور انتشار کا عالم ہوتا جا رہا تھا۔ مسلمان اپنے خدا اور مذہبی راہنماؤں کا نام لے کر نعرے لگا تے داخل ہو رہے تھے اور ہندو سکھ اپنے دیوتاؤں اور پیشواؤں کو پکار پکار کر جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ یہ مجمع اب انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔ ایک اونچی جگہ پر ہندو راہنما خطاب کر رہا تھا۔ جوشیلے متواتر نعرے لگاتے رہے۔ پھر ایک مسلمان راہنما اُس چبوترے پر لوگوں سے مخاطب تھا۔ انگریز افسر انتظامی معاملات میں ناکام ہو کر اُس سیاہ داڑھی والے شخص کی طرف غصے سے دیکھ رہے تھے جو ہاتھ ہلا ہلا کر اور چیخ چیخ کر عوام الناس سے مخاطب تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے پیچھے ایک گورا نمودار ہوا جس نے فوجی افسروں کی وردی پہن رکھی تھی۔ اُس نے دھکا دے کر اُس کالی داڑھی والے کو نیچے گرا دیا اور اُسی کی طرح ہاتھ ہلا ہلا کر لوگوں سے کچھ کہنے لگا۔ ایک لمحے کے لیے خاموشی چھائی اور اُس گورے کی انتہائی غصیلی آواز گونجی۔ اُس کی بات تو کسی کو نہ سمجھ آئی لیکن اُس کی حرکات و سکنات سے ظاہر تھا کہ وہ گورا افسر مجمع کو وہاں سے دفع ہونے کے لیے کہہ رہا ہے۔ اچانک اُس کے خلاف شور بلند ہوا۔ اُس کی آواز دب گئی۔ ایک طرف سے کسی من چلے نے جوتا اُتار کر اُس کی طرف پھینکا۔ پھرکئی جانب سے جوتوں کی یلغار شروع ہوئی۔ ساتھ ساتھ یہ اتنا بڑا مجمع حرکت بھی کرتا جا رہا تھا۔ جوتوں کے بعد پگڑیوں، قمیصوں اور بنیانوں کے گولوں کی بوچھاڑ ہو گئی۔ پولیس انتظامیہ پر کپڑے اُتار کر پھینکنے سے کئی لوگ آدھ ننگے ہو گئے۔ ایک شور تھا جو کہ ہجوم اور وہ فوجی افسر مل کر مچا رہے تھے۔ اُس وقت بیس پچیس ہزار لوگ باغ میں موجود ہوں گے۔ باغ کے چاروں طرف اِردگرد اونچے اونچے مکان تھے جس کی بلند دیواروں میں داخل ہونے کے چار تنگ راستے تھے۔ اس اثنا میں جنرل ڈائر اپنی فوج کے ہمراہ باغ میں داخل ہو گیا۔ فوجی بکتر بند گاڑیاں باہر اس لیے چھوڑ دی گئیں کہ وہ گاڑیاں ان تنگ دروازوں سے اندر داخل نہیں ہو سکتی تھیں۔ باہر جانے کے سارے راستے بند کر دیے گئے جن دروازوں سے فوج اندر داخل ہوئی اُس نے جاتے ہی پوزیشنیں سنبھال لیں اور فوجیوں نے جنرل ڈائر کے حکم سے مشین گنوں میں فوراً گولیاں بھر لیں۔ تیز ہوائیں آندھی میں تحلیل ہو رہی تھیں۔ سرخ آندھیاں آنے والے خونی حادثے کا پیغام لا رہی تھی۔
سارا شہر نامعلوم خوف میں لپٹا ہوا تھا۔ غلام حسن منٹو اور اس کی بیوی گھر کے صحن میں خاموش بیٹھے تھے۔ اُن کا بیٹا سعادت بہن کے ساتھ ایک چارپائی پر بیٹھا اُن کو خاموش نگاہوں سے تکتا جا رہا تھا۔ تیز ہوا میں سیٹیوں جیسی آواز تھی۔
تڑ، تڑ،تڑ، تڑ۔۔۔
یہ آوازیں سنتے ہی سعادت کے باپ کے چہرے کا رنگ کاغذ کی طرح سفید ہو گیا۔ زبان سے بمشکل اس قدر نکلا۔۔۔ ’’گولی۔۔۔‘‘ سعادت کی ماں فرطِ خوف سے کوئی لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکی۔ گولی کا نام سنتے ہی اُس پر دہشت سوار ہو گئی تھی۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ بیٹی بھی کھڑی ہو گئی۔ دونوں آگے پیچھے چلتی ہوئی کمرے میں چلی گئیں۔ سعادت چارپائی سے اُٹھا اور قریب آ کر باپ کی انگلی پکڑ کر بولا۔
’’ابا اُٹھو چلیں تماشا شروع ہو گیاہے۔‘‘
’’کیا تماشا؟‘‘ مولوی غلام حسن نے تند لہجے میں کہا۔
’’وہی تماشا جس کی اشتہاری پرچیاں آج صبح بانٹ رہے تھے۔۔۔ میلہ شروع ہو گیا ہے یہ پٹاخوں کی آوازیں آپ سن رہے ہے نا۔‘‘
’’ابھی بہت وقت ہے۔ تم جلدی مت کرو۔۔۔‘‘ والد نے خوف کو چھپاتے ہوئے کہا۔ ’’اب جاؤ اندر بہن کے پاس کمرے میں جا کر پڑھو۔‘‘
سعادت اُترا سا منہ لیے باورچی خانے کی طرف گیا۔ ماں کو وہاں نہ پا کر دوسرے کمرے میں ماں اور بہن کے پاس چلا گیا۔ فائرنگ مسلسل ہو رہی تھی۔ سعادت جسے پٹاخوں کی آوازیں سمجھ رہا تھا۔ اُدھر جلیانوالہ باغ میں موت دھاڑ رہی تھی۔ وہاں وہ منظر شروع تھا جو زندگی میں بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ سارے باغ میں افراتفری پھیل گئی تھی اور بھگدڑ مچ گئی۔ ہجوم بوکھلاہٹ کے عالم میں اب اِدھر اُدھر بھاگ رہا تھا یہ ایک عجیب منظر تھا کسی کو کسی کی خبر نہ تھی ہر کوئی جان بچانے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگتا جا رہا تھا۔ باغ میں چیخ و پکار کا عالم تھا بھاگتے ہوئے آدمیوں نے گولی لگنے سے ہوا میں کلابازیاں کھائیں۔ اس طرح جیسے سرکس کے مسخرے کرتب دکھاتے زمین پر آگرتے ہیں۔ ان مرنے والوں کے چہروں پر وہی جوش و خروش تھا اور وہ بعداز مرگ بدشکل بھی نہ ہوتے کیونکہ انہیں موت کا گمان ہی نہیں تھا۔ایک عجیب و غریب موت مسلط تھی۔ لوگ گر رہے تھے، سبنھل رہے تھے اور پھر ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے لیکن پیچھا کرتی ہوئی گولیاں انسانوں سے بہت تیز بھاگتی ہیں۔ باغ میں کئی جگہ پر مرنے اور زخمی ہونے والوں کے انبار لگ گئے تھے اور جب لوگ باہر جانے والے تنگ دروازوں کا رخ کرتے تو انہیں وہاں گولیوں کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑتا۔ بے چارے گولیاں کھا کر زخمی ہو کر گرتے تو پھر سر اُٹھانے کی کوشش کرتے لیکن اس اثنا میں درجنوں دوسرے زخمیوں کے نیچے دب کر رہ جاتے۔ گورے فوجی مسلسل فائرنگ کر رہے تھے۔ ہزاروں ایسے لوگوں نے جو باغ سے باہر جانے والے دروازوں سے نکلنے میں مایوس ہو چکے تھے۔ دیواریں پھلانگنے کی کوشش کی۔ دو دو منزلہ مکانوں کی یہ دیواریں تھیں۔ تاہم یہ دیواریں بعض جگہ سات فٹ اور بعض جگہ دس فٹ بلند تھیں۔ کئی ایسے تھے جو ان کے ساتھ چمٹنے میں کامیاب ہو چکے تھے اور اوپر جگہ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو کر رہے تھے۔ ایک دوسرے پر پاؤں جماتے اوپر چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ فوجی گولیوں نے اُنہیں بھی نہیں بخشا۔باغ کی بائیں جانب ایک کنواں تھا۔ اُدھر بھاگتے ہوئے لوگ اُس میں جا گرے۔ ان کے اوپر دوسری جانب سے آنے والے گرے۔ پھر ہر طرف سے آنے والے زندہ اور نیم مردہ لوگ گرتے گئے۔ کنویں میں انسانی چیخیں گونج رہی تھیں۔
اس کنویں کی منڈیر پر بیٹھ کر سعادت حسن منٹو نے بعدازاں اپنی دھڑکنوں اور تخیل کی آنکھ سے اُس سانحے کو محسوس کیا اوررقم کیاتھا۔ اُس کے کانوں میں ابھی تک باغ کی فضا گولیوں کی سنسناہٹ اور بھاگتے ہوئے لوگوں کی چیخ و پکار سے گونج رہی تھی۔ منٹو نے اپنی کہانی ’’دیوانہ شاعر‘‘ میں لکھا ہے’’میرے قدموں کے نیچے خشک پتوں کی سرسراہٹ سوکھی ہوئی ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز پیدا کر رہی تھیں۔ ہر قدم پر مجھے یہی معلوم ہوتا تھا کہ گھاس کے سرسبز بستر پر، بے شمار لاشیں پڑی ہیں۔ میں نے اپنے قدم تیز کیے اور دھڑکتے دل سے اس چبوترے پر بیٹھ گیا جو کنویں کے اردگرد بنا ہوا تھا۔‘‘ اسی کنویں پر بیٹھے بیٹھے اُس کی ملاقات ایک دیوانے شاعر سے ہوئی تھی جو اُس ظلم پر دکھی تھا اور اُس خونی حادثے کی یاد دلا رہا تھا۔ منٹو نے اُس سے کہا ’’اس حادثے کے وقت میں کم عمر تھا اس لیے میرے دماغ میں اس کے بہت دھندلے نقوش باقی ہیں۔ میرے دل میں ان لوگوں کا بہت احترام ہے جنہوں نے اپنی مادرِ وطن اور جذبۂ آزادی کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دی تھیں۔ گولیاں تڑ تڑ برس رہی تھیں۔ لوگ وحشت کے مارے اِدھر اُدھر بھاگتے ہوئے ایک دوسرے پر مر رہے تھے۔۔ ۔موت جو بھیانک ہے مگر ظلم اس سے کہیں خوفناک اور بھیانک ہے!!!
کنویں کے سامنے والی دیوار اور جالی منڈھی چوکور ٹوٹی کھڑکی پر گولیوں کے نشان تھے۔ دیواروں پر یہ لاتعداد نشان یوں لگ رہے تھے جیسے ہزاروں خونی آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ باغ کے گرد دیواروں پر لٹکے کئی آدمیوں کی ٹانگیں اندر کی طرف تھیں اور سر اور بازوؤں لبِ بام دیوار کے سرے پر باہر کی طرف چمٹے تھے۔ گورکھا فوجیوں نے ہر پوزیشن پر سے ان کو گولیوں کی بوچھاڑ پر رکھا تھا۔ یہ وہ بدنصیب تھے جو دیوار کو اُس جگہ سے کم اونچائی دیکھ کر پھاندنے کے لیے اوپر چڑھے تھے کہ گولیوں کی زد میں آگئے اور اندر سے دیکھنے پر یوں معلوم ہوتے تھے جیسے دھوبی نے بے شمار مختلف النوع کے کپڑے سوکھنے کے لیے دھوپ میں پھیلا رکھے ہیں ۔
جو بے دریغ بھاگتے دوڑتے فوجیوں کی پوزیشن کو چیرتے ہوئے تنگ دروازے باہر پار کر گئے۔ اُن پر عقب سے گولیاں چلائی جا رہی تھیں۔ باغ سے بازار تک انسانی جسموں کا ایک دریا تھا جو بہہ رہا تھا۔ سبزی منڈی کی طرف سے جاتاہوا پچیس گز زمین کا وہ ٹکڑا، گولیوں کی زد سے بچنے والے بے چارے زمین پر لیٹ کے پیٹ کے بل رینگتے ہوئے طے کر رہے تھے۔ انہیں کہنیوں یا گھٹنوں سے کام لینے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ دستور بنا دیا گیا تھا کہ عوام نے سانپ کی طرح پیٹ پر چل کر یہاں سے گزرنا ہے جہاں اُن کی سفید فام عورت کے ساتھ سانپوں کا سا سلوک کیا گیا تھا۔ وہاں سپاہیوں کی قطار شست باندھے گولی چلانے کے لیے ہمہ وقت تیار کھڑی تھی۔ جو کوئی بھی کہنیوں پر اُٹھتا اسے گولی مار دی جاتی۔ پھر ایک اور حربہ استعمال کیا گیا کہ رینگتے ہوئے جسموں سے فٹ آدھ فٹ اوپر مسلسل گولی چلاناشروع کر دی اور جان بچانے والوں نے مٹی میں سرگاڑ دیے اور پاؤں کی اُنگلیوں پر ناخنوں کی مدد سے رینگنے لگے۔ جس کو موقع ملتا وہ سر کے بل گر کر اژدہوں کے رینگتے اس جلوس میں شامل ہو جاتا۔ پھر بھی کوئی اندھی گولی کسی کی کھوپڑی پر لگتی اور زمین میں دھنسا سر ایک خون کی چوڑی لکیر پیچھے چھوڑتا جاتا۔ اس کے باوجود بھی لوگ لیٹ کر گزرتے رہے جو انسانوں کی آمد و رفت کا سخت معیوب طریقہ متعین تھا۔ باغ سے بچ کر نکل آنے کے بعد واحد یہی ایک راستہ تھا۔
دور فاصلے پر فرید چوک سے اندر گلی میں سعادت اپنی کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شام ہو رہی تھی۔ بازار سائیں سائیں کر رہا تھا۔ لحظہ لحظہ وقفے سے گولیوں کا شور سنائی دے رہا تھا۔ جن میں انسانوں کی دردناک آوازیں بھی شامل تھیں۔ گویہ چیخیں سعادت کی سماعت سے دور تھیں۔ اچانک اُس نے کھڑکی کے خاموش نظارے میں کسی کے کراہنے کی آواز سنی۔ وہ حیرانی اور جستجو میں دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ چوک کی طرف سے آتا ایک لڑکا دکھائی دیا جو چیختا ہوا بھاگتا، لڑکھڑاتا چلا آرہا تھا۔ پھر ان کے گھر کے عین مقابل بری طرح لڑکھڑایا اور گر گیا۔ وہ زخمی تھا یہ سماں دیکھ کر سعادت بہت خوفزدہ ہوا۔ بھاگ کر اپنے والد کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ ’’ابا ابا اُدھر بازار میں کوئی گر پڑا ہے۔ اُس کے خون بھی نکل رہا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی غلام حسن منٹو کھڑکی کے پاس گئے اور دیکھا کہ واقعی ایک نوجوان لڑکا باہر اوندھے منہ پڑا ہے۔ اُس کی پنڈلی پر زخم تھا جس سے بہت خون بہہ رہا تھا۔ لیکن انہیں جرأت نہیں تھی کہ اس کے پاس جا کر کوئی مدد کریں۔ باہر خوفناک حالات کا انہیں بخوبی اندازہ تھا۔ کسی گھر کا چراغ سڑک پر بے یار و مددگار بے ہوش پڑا تھا اور کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ لڑکے کو سڑک پر سے اُٹھا کر سامنے والی دکان کے تھڑے پر لٹا دے۔ وہ وہیں سسکتا مرتا رہا۔
’’ابا جان اس لڑکے کو کسی نے مارا ہے؟‘‘
باپ نے کھڑکی بند کی اور اثبات میں سرہلاتا ہوا کمرے میں چلا گیا۔۔۔ باغ کی سمت سے آتا گولیوں کا شور تھم چکا تھا۔ سعادت کھڑا سوچ رہا تھا کہ اس لڑکے کو اتنے بڑے زخم سے کتنی تکلیف ہوئی ہوگی۔ جبکہ ایک دفعہ اُسے قلم تراش کی نوک چبھنے سے تمام رات نیند نہیں آئی تھی۔ اور اُس کے والدین اُس کے سرہانے بیٹھے رہے تھے۔ اس خیال کے آتے ہی اُسے ایسا لگا کہ وہ زخم خود اُس کی پنڈلی میں ہے اور اس میں شدت کا درد ہے۔۔۔ اُ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ماں اندر آئی تو اُسے روتے دیکھ کر پیار کرتے ہوئے پوچھنے لگی۔
’’میرے بیٹے کیوں رو رہے ہو؟‘‘
’’امی اُس زخمی لڑکے کو کسی نے مارا ہے؟‘‘ وہ روہانسی آوازمیں انگلی سے کھڑکی کے باہر اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
ماں، خاوند کی زبانی زخمی لڑکے اور باہر کے حالات سن چکی تھی۔ ’’قصور کیا ہوگا کوئی اُس نے۔‘‘ بات بدلتے ہوئے ماں نے اُس سے کہا۔
’’مگر سکول میں تو شرارت یا قصور پر چھڑی سے سزا دیتے ہیں۔ لہو تو نہیں نکالتے۔‘‘ بے یقینی سے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے سعادت نے کہا۔ ’’کیا اس کا والد سکول میں جا کر استاد پر خفا نہ ہوگا۔ جس نے بھی اسے بری طرح مارا ہے ایک روز جب ماسٹر صاحب نے میرے کان بری طرح کھینچ کر سرخ کر دیے تھے تو ابا جان نے ہیڈماسٹر کے پاس جا کر شکایت کی تھی نا؟‘‘
’’بیٹے! اس لڑکے کو مارنے والا ماسٹر بہت بڑا آدمی ہے۔‘‘
’’اللہ میاں سے بھی بڑا ہے؟‘‘
’’نہیں ان سے چھوٹا ہے۔‘‘
’’کیا آ پ اُسے جانتی ہیں؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ چھوڑوں یہ فضول باتیں۔ رات ہو رہی ہے۔ چلو سوئیں۔‘‘ ماں اُس کا بازو پکڑ کر دوسرے کمرے میں بہن کے پاس لے جاتی ہے۔
’’اللہ میاں! میں دعا کرتا ہوں کہ تو اس ماسٹر کو جس نے اس لڑکے کو مارا ہے۔سخت سزا دے۔ اس سے ایسی چھڑی چھین لے جس کے استعمال سے خون نکلتا ہے۔۔۔ میں نے بھی پہاڑے یاد نہیں کیے۔ اس لیے مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسی چھڑی میرے استاد کے ہاتھ نہ آجائے۔۔۔ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو پھر میں بھی تم سے ناراض ہو جاؤں گا۔‘‘سوتے وقت سعادت دل میں یہ دعا مانگ رہا تھا۔
مندرجہ بالا مضمون میں چند حصے سعادت حسن منٹو کے اولین افسانے ’’تماشا‘‘ سے ماخذ ہیں جسے منٹو نے ۱۹۱۹ء کے مارشل لاء کو اپنی کم عمری میں دیکھا۔ یہ مارشل لا جو جلیانوالہ باغ کے خونی منظر اور جنرل ڈائر کے وحشیانہ مظالم کی یاد گار ہے۔ ’’تماشا‘‘ کے مرکزی صرف دو کردار ہیں۔ باپ اور بیٹا۔ بچے کا نام اگرچہ افسانے میں خالد ہے لیکن مطالعہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ خالد کے روپ میں منٹو ہیں۔ علاوہ ازیں مندرجہ بالا صفحات میں ایک باپ اور بیٹے کے مکالمے کی صورت میں جو باتیں کی گئی ہیں وہ منٹو کی شخصیت اور نفسیات کا ہر طرح احاطہ کرتی ہیں۔
جلیانوالہ باغ کے پس منظر رکھنے والے اس افسانے کے پلاٹ میں شہر کے لوگ بادشاہِ وقت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور بادشاہت نے ان کے خلاف ظلم و ستم کی انتہا کر دی تھی۔ اس وجہ سے کئی روز سے شہر پر ایک پُراسرار خاموشی طاری تھی کہ نہ جانے آئندہ لمحوں میں کیا ہو؟
بچہ باپ سے تماشا دیکھنے کے لیے جانے کا کہہ رہا تھا کہ شہر میں گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ ان آوازوں کو سن کر باپ نے بچے کو ماں کے پاس اندر بھیج دیا۔ گھر میں آکر بچے نے کھڑکی سے زخمی لڑکے کو مکان کے باہر گرتے دیکھا۔ سعادت حسن منٹو افسانے میں کہتے ہیں کہ اگرچہ لڑکا شدید زخمی تھا اور سڑک پر پڑا تھا اُسے طبی امداد کی ضرورت تھی اور وہ گھر کے سامنے پڑا تھا مگر بچے کے باپ یا کسی اور شخص کو بادشاہ کے خوف سے یہ جرأت نہ ہوئی کہ کوئی اُس کی مدد کرتا یا کم از کم سڑک سے اُٹھا کر دکان کے تھڑے پر ہی لٹا دیتا جہاں وہ آرام سے لیٹ جاتا یا اگر وہ مرچکا تھا تو ایک طرف پڑا رہتا۔ یہاں پر منٹو ایک اور معاشرتی مسئلے کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سرکاری گاڑیاں نہتے اور غریب لوگوں کو جیل خانے پہنچانے کے لیے تو استعمال ہوتی ہیں۔کسی غریب اور زخمی معصوم کو ہسپتال پہنچانے یا اُسے گھر پہنچانے کے لیے جو انہی حکمرانوں کے ظلم و ستم کے باعث موت کے منہ میں چلا گیا ہو کسی کا بیٹا، کسی کا لختِ جگر چھین لیا گیا اور وہ گولی کا نشانہ بنا سڑک پر مرا پڑا تھا۔ بے قصور اور بے گناہوں کے تعاقب میں ظالم گولیوں کی ایک خوفناک صورت اُس نوجوان کی اس عالم میں موت تھی۔ جلیانوالہ باغ کے اندر لوگ ہلاک ہوئے اور مارے گئے۔ ہر کوئی بوٹی بوٹی ہوا۔ پھول ، پودے اور لوگ سب زخمی تھے امرتسر میں قتلِ عام کی وہ رات اس قدر بھیانک تھی کہ جلیانوالہ باغ میں ہرطرف لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ باغ اور گردونواح میں ایک خوفناک خاموشی طاری تھی۔ برطانوی حکومت کے جنرل ڈائر نے اس خون آشام واقعہ سے اذیت پسندی کی ایک ناقابلِ فراموش مثال قائم کر دی۔ اُس نے ہلاک اور زخمیوں کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا۔ بقول اُس کے ’’یہ اُس کا کام نہیں تھا۔‘‘ چنانچہ بے گورو کفن لاشوں کو اُٹھانے اور زخمیوں کو طبی امداد بہم پہنچانے کے لیے سرکاری سطح پر کوئی انتظام نہیں تھا۔ صرف سماجی تنظیم سیوا ستھی نے جنرل ڈائر کی اجازت سے چند زخمیوں کو ہسپتال پہنچا کر تھوڑا بہت کام کیا۔ امرتسر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا اور رات آٹھ بجے کے بعد کسی کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ حتیٰ کہ مرنے والوں کے رشتہ دار بھی اپنے مقتولین کو نہیں اُٹھا سکتے تھے اور نہ ہی سیوا ستھی تنظیم کو اُس وقت کے بعد مرنے اور زخمی ہونے والوں کو ان کی منزل تک پہنچانے کی اجازت تھی۔ باغ میں زخمیوں کے لیے ایک بوند پانی نہیں تھا۔ وہ زخموں سے چور پیاسے لبوں پر جمی پیٹریوں سمیت زمین پر پڑے کراہ رہے تھے۔ مرنے والے جوان، بوڑھے، عورتیں، بچے اپنے ہی خون میں لت پت پڑے تھے۔ کتے بھونک رہے تھے اور جنگلی جانور دیواروں پر اس تاک میں بیٹھے تھے کہ کب ان کو تر نوالہ بنائیں۔ کہتے ہیں جواں سال رتن دیوی جو خاوند کے ساتھ بیساکھی منانے آئی تھی وہ عورت ہاتھ میں بانس کا ڈنڈا لیے اپنے شوہر کی لاش کے گرد رات بھر پہرہ دیتی رہی تاکہ لاش کو گیدڑوں اور کتوں کی چیر پھاڑ سے محفوظ رکھ سکے۔ اُس کے آس پاس دو آدمی اور ایک بارہ سال کا لڑکا زخموں سے نڈھال پڑے تھے اور رتن دیوی سے التجا کر رہے تھے کہ وہ یہ جگہ چھوڑ کر نہ جائے۔ اُس نے ایک جاٹوں جیسی وضع قطع کے آدمی کی دیوار پر چڑھنے میں مدد بھی کی۔ پیروں میں جگہ جگہ لاشوں کے ڈھیر لگے تھے۔ اُس نڈر عورت نے ساری رات وہیں گزاری۔
اس باغی شہر کو کتنی بڑی سز املی۔ برطانوی جنرل ڈائر نے جو قتل عام کی تاریخی داستان رقم کی۔ اس میں نہتے لوگوں پر پندرہ منٹ تک مسلسل اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں ۳۹۹؍ افراد ہلاک ہوئے تھے اور دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جن میں اکتالیس نوعمر لڑکے اور ایک بچہ بھی شامل تھا۔ یہ فائرنگ اُس وقت بند ہوئی جب فوجیوں کے پاس اسلحہ ختم ہو گیا۔ اس دوران کم از کم سولہ سو پچاس راؤنڈ فائر کے گیے۔ یہ سرکاری رپورٹ کے اعداد و شمار تھے اور غیرسرکاری جمع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق مرنے والوں کی تعداد پانچ سے چھ سو کے درمیان تھی اور زخمی تین ہزارکے قریب تھے۔ مارشل لاء کے نفاذ اور اخبارات پر سنسر شپ کے باعث ملک کے دوسرے علاقوں میں صحیح خبریں نہیں پہنچ رہی تھیں۔ لیکن جب حقیقت کا علم ہوا تو پورا ہندوستان سراپا احتجاج بن گیا۔ جلیانوالہ باغ میں ایک بہت بڑا احتجاجی کیمپ لگ گیا اور لوگوں نے دھڑا دھڑ گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس حوالے سے منٹو نے اپنی کہانی ’’سوراج کے لیے‘‘ میں جلیانوالہ باغ میں احتجاجی کیمپوں اورگرفتاریاں دینے والے آزادی کے متوالوں کا ذکرواذکار کیا ہے اور کرداروں کی زبانی اُس صورتِ حال کو پینٹ کیا ہے۔ وہ خود بھی اُس احتجاج نہیں شریک ہوتے رہے۔
امرتسر میں ہولناک واقعات کے بعد بھی لارڈ چیمسفورڈ اور مائیکل اڈوائر نے امرتسر کا دورہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ تاہم برطانوی حکومت نے ایوانِ بالا کے رکن لارڈ ہنٹر کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کر دیا جس کا دائرہ کار مارشل لاء کے دوران پنجاب میں حکومتی مظالم کی جانچ پڑتال کرنا تھا۔ ساتھ ہی کانگریس نے موتی لعل نہرو کی سربراہی میں اپنا تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا۔ وہ جو جلیانوالہ باغ میں ہجوم تھا وہ کسی طور باغیوں کا اجتماع نہ تھا اس بات کا اعتراف خود جنرل ڈائر نے بھی ہنٹر کمیشن کے روبرو کیا۔ ہنٹر کمیشن کی رپورٹ جو مرتب ہوئی اس کا لبِ لباب یہ تھاکہ پنجاب میں مارشل لاء کے نفاذ کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور کمیشن نے یہ بھی کہا کہ مارشل لاء کے دوران انگریز انتظامیہ نے ضرورت سے زیادہ کڑی سزائیں سنائی ہیں لیکن کمیشن نے مائیکل اڈوائر کی اس بات سے اتفاق کیا کہ پنجاب میں ایک منظم بغاوت کی صورتِ حال پیدا ہوئی تھی اور ان حالات میں معمول سے زیادہ سزائیں بغاوت کچلنے کے لیے ضروری تھیں۔ مگر لارڈ مونٹگو نے اس دلیل سے اتفاق نہیں کیا اُس نے اس امر کا اعتراف کیا کہ جنرل ڈائر کو جلیانوالہ باغ میں جمع پُرامن اور نہتے عوام کو اس قدر سزا دینے کا اختیار نہ تھا۔
اخبار مارننگ پوسٹ کے ایڈیٹر نے برطانیہ کی عوام سے تیس ہزار پونڈ کا چندہ اس لیے اکٹھا کیا تاکہ جنرل ڈائر کو سلطنتِ برطانیہ کی خدمات کے صلے میں انعام دیا جائے اور کنزرویٹوٹوری پارٹی کے اکثر ارکان اور ہاؤس آف لارڈ کے معتدد ممبروں نے جنرل ڈائر کا دفاع کرنے کے لیے ایک تنظیم قائم کی تاکہ جنرل کو حکومت کی کسی ممکنہ سزا سے بچانے کا اہتمام کیا جائے۔ برطانیہ کی آرمی کونسل جس نے جنرل ڈائر کے کیس کا دفاع کرنے کا ذمہ اُٹھایا تھا، سفارش کی کہ اس خونی جرنیل کو صرف یہ سزا دی جائے کہ اسے ریٹائرمنٹ کے بعد نصف پنشن دی جائے۔ آرمی کونسل نے یہ بھی کہا کہ جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر سے صرف اندازے کی غلطی ہوئی تھی اور برطانیہ کے کورٹ آف جسٹس نے ڈائر کو بعدازاں اس الزام سے بھی بری کر دیا جس نے اپنے ’’کارنامے‘‘ سے منٹو کے آبائی شہر امرتسر کے ماتھے پر جلیانوالہ باغ جیسا قابلِ فخر زخم سجایا تھا۔
بہت خوبصورت ۔۔۔ تاریخی واقعات و لرزا دینے والے حقائق ۔۔۔۔ بہت اچھا لکھا ہے