رام بھلی کرے گا، تو اللہ اللہ کر… بلادِ ہینڈسم سے ایک خطِ
از، یاسر چٹھہ
کل جی الیون سیکٹر کی حدود کی فصیل پر مہر آبادی مارکیٹ گوشت لینے کے لیے جانا ہوا، آج ابھی پھل سبزی کے لیے اپنے گھر سے ایک گلی چھوڑ کے مسجد و مدرسہ سے ملحقہ چھ دکانوں__سبزی، کریانہ، دودھ دھی، نان بائی وغیرہ کی، وہ ان گیا۔ اپنی احتیاطیں، کچھ ناک مُنھ پر چڑھائی ہوئی ہیں، کچھ جیب میں ڈالی ہوئی ہیں کہ ناک مُنھ چھپاتا رہو، اور ہاتھ جب چاہے مَلتا رہوں۔
گھر سے ایک گلی چھوڑ کر مسجد و مدرسہ کی عمارت سے ملحق چھ سات دکانوں کی مارکیٹ ہے، جہاں سے بیش تر چھوٹی چھوٹی چیزیں لانا مجبوری ہوتی ہے، اس مجبوری کا نام ہلاکت کہلاتا ہے، پر ہیں وہاں سارے اللہ والے ہیں۔
ان اللہ والوں کے ماسک ندارد… دکانوں والے کے SOPs ماسک ضروری قرار دیتے ہیں۔ انھیں کہا کہ بھیا اور بزرگو کسی نے مجھ سے آپ لوگوں کے SOPs کو پھونک مار اڑانے کے بارے رویے کے متعلق پوچھا تو میں جھوٹ نہیں بول سکوں گا، آپ کو اپنا بھلا کرنا ہے، دوسروں کا بھلا ذہن میں رکھنا ہے… لیکن صدائے بَہ صحرا… ایسا لگتا تھا میں کوئی روح ہوں جو خود کو زندہ سمجھنے پر بَہ ضد ہو۔
تو یہ اسلام آباد، دارالخلافہ ہے، یہ خلیفہ کی بلادِ نشست خلیفہ ہے۔ اس بلادِ نشستِ ہینڈسم کا یہ جی الیون سیکٹر ہے، نام نہاد 95 فی صد شرح خواندگی… ہو سکتا ہے اس سے ہھی خواندگی کی شرح بڑھ چکی ہو، کیا پتا لگتا ہے۔
یہاں کے باسیوں کا وبا کا تصور اپنے محبوب قائد عمران خان کے فہم اور سمجھ کے کسی مکمل سنگترے کا ہی کوئی ایک چھلکا ہے؛ قاش تو کوئی اور ہی چوس گئے ہیں۔
پھر کہوں، ایک آدھ کو ماسک کے ساتھ دیکھا۔ دکانوں والوں کو غیرت اور فہم دلاتے دلاتے خود کو خبطی سمجھ رہا تھا۔ دیکھیے ناں بار بار ایک سی بات کرتا جاتا ہوں، ہے ناں یہی فہم کی ڈوری کا ٹوٹ جانا!
انھیں یہ کرونا لا وجود تصور اور کوئی در آمدی لگتا ہے؛ ماسک سے ان کی سانس گُھٹتی یے۔ شاید یہ صرف حُوروں کو چشمِ تخیل میں لا سکنے کے ہی تربیت یافت ہیں، ورنہ کرونا سے آتی نپی تُلتی سانسوں کے خدشے کو بھی ذہن کی آنکھ میں لانے کی یہ کوئی ایک آدھ کوشش تو کرتے۔
اور دوسری بات یہ کہ ان کے لیے موت کا ایک دن مُعیّن ہے، یہ ان کا غالب اعتقادی بیان ہے۔
درست بات ہی ہو گی، خود کشی بھی تو عقیدہ ہی ہے ناں…!
لگے رہیے، اور لگاتے جائیے۔ لاہور میں sampling and testing سے کرونا زدگی کی شرحِ آلودگی سب جھوٹ ہو گا۔
کیا ہے؟ کچھ نہیں ہوتا!
وہ تو وبا کے دنوں میں اپنی عقیدگی میں مبتلا ہیں۔ پر وہ ساتھ ہی دوسروں کے مرنے کا دن بھی خود متعین کرنا چاہتے ہیں۔
خدا والے، خدا بننے کی سبیلیں لگائے ہوئے ہیں۔ لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔
پر سب یہ نہیں، سب ایسا نہیں۔ یہاں البتہ جی الیون مرکز میں جو high end سٹورز ہیں، یعنی ڈی واٹسن اور شاہین گروسری والے، وہاں تو کچھ احتیاط ہو رہی ہے۔ لیکن آس پاس کی مارکیٹوں میں وہی حال ہے جو بتایا۔ گاڑی کے اندر بیھٹے بیھٹے مشاہدہ کرتا رہا ہوں۔
ہاں تو خیال آیا، اور اتنا دیر سے کیوں آیا؟
اللہ کا شکر ہے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر بہت ہینڈسم ہیں، بالوں میں جَیل شَیل بھی لگائے رکھتے ہیں، ٹویٹ بہت اچھی انگریزی میں کرتے ہیں__غرض یہ کہ impressionable youth کے لیے orgasmic مال با رعایت دست یاب ہے، فراوانی سی فراوانی ہے۔
رام بھلی کرے گا، رام والے اپنی عقل کے نقطۂِ کھولاؤ پر ہیں۔