لِسّے دا کی زور محمد، نَس جانا یا رونا
یہ سنتے ہی غیرت مندوں کی غیرت پر گَھڑوں پانی پڑ جاتا ہے، اور پھر ٹویٹر کے انقلابی ان دونوں بہنوں عظمیٰ خان اور ہما خان کو پَھٹکارتے ہوئے کسی اور مظلوم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں جو اِن کے لیے تنِ تنہا ظلم کے پہاڑ سے ٹکرا جائے۔ تمثیل تمام ہوئی، گو انجام ذرا پُھسپُھسا تھا جس کا مجھے افسوس ہے۔ مجھے اس بات کا بھی اَز حد افسوس ہے کہ ان بہنوں نے سمجھوتے کی پھٹی ہوئی چادر اوڑھ کر (اور غالباً کچھ مال متاع بھی وصول کر کے) آپ کی سادیت پسندی کی تسکین کا سامنا نہیں کیا۔
از، محمد عاطف علیم
کچھ دیر کے لیے عظمیٰ خان اور ہما خان نامی دونوں بہنوں کو بھول جائیں، اور کچھ دیر کے لیے اپنے ذوقِ چسکا بازی کو بھی ایک طرف اٹھا رکھیں۔
آئیں، اک ذرا ٹہلتے ہوئے غلامانہ سماج تک ہو آئیں۔
بہت دور کی بات نہیں، ابھی ڈیڑھ صدی پہلے تک ہاتھی، گھوڑے اور مویشیوں کی طرح غلام رکھنا بھی فیشن میں شامل تھا۔ جس کے پاس جتنے جانور اور جتنے غلام وہ اتنا ہی معزز اور صاحبِ ثروت۔
غلامی کا ادارہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی قدیم طاقت ور اور کم زور کی جدلیاتی تقسیم ہے۔
وقت کے اس تمام تر پھیلاؤ کے درمیان کیسے کیسے انقلاب آئے؛ کیسے کیسے سر کشیدہ شایانِ والا شان خاک بَر سر ہوئے اور کیسے کیسے خاک نشین مسند نشین ہوئے۔
اس دوران دنیا کا نقشہ بن بن کر بگڑا مگر ایک غلام کی قسمت تھی جو جیسے تھی ویسی رہی۔ کہنے کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں دورِ غلامی، جو “المشہور” بحری قذاق اور مہم جُو کرسٹوفر کولمبس کی دین تھا، اپنی تمام تر ہول ناکی کے بعد امریکی دستور کی تیرہویں ترمیم کے ذریعے سِنَہ 1865 میں انجام پذیر ہو گیا تھا۔
لیکن بارہ ہزار سال پرانی خُوئے حکم رانی کے سامنے ایک آئینی ترمیم کیا بیچتی ہے؟
سو، آقا اور غلام کا رشتہ اپنی بدلی ہوئی صورتوں کے ساتھ آج تک جاری ہے اور تب تک رہے گا جب تک دنیا میں ایک بھی ریاست اور ایک بھی “ٹھیکے دار” باقی ہے۔
غلامی اپنی تمام تر بھیانکتا کے ساتھ آج بھی جدید ریاستوں کی بنیاد ہے، البتہ اس کے مُکھڑے پر سنہری تاروں والا سہرا سجا دیا گیا ہے۔
جن ریاستوں میں سیاسی اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کی پرانی تاریخ ہے وہاں صورتِ حال کچھ اور ہے، لیکن جہاں دن دیہاڑے ووٹ چُرایے جاتے ہیں اور حقوق، انصاف اور جمہوریت کے نام پر عام آدمی کی آنکھوں میں مرچیں جھونکی جاتی ہیں، وہاں صورتِ حال ویسی ہی ہے جو آپ بہتّر سالوں سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔
ہمارے جیسی ریاستوں میں طاقت ور طبقات ایک دوسرے کی پشت کو کُھجلاتے ہوئے اپنے اقتدار کو دوام بخشتے ہیں۔ اداروں کی بات تو رہی ایک طرف، یہاں بعض بعض خاندان اور افراد تک ریاست کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔
رہی آبادی کے کم زور طبقات کی بات، مثلاً بے وسیلہ لوگ، عورتیں، بچے اور بوڑھے، ان کے لیے ریاست ایک جلے پاؤں کی سوتیلی ماں کا روپ دھارن کر لیتی ہے۔
اب یہاں انصاف کی فراہمی کا ڈرامہ کیسے رچایا جاتا ہے، اسے ہم ایک تمثیل کی صورت میں دیکھتے ہیں:
فرض کیجیے دو کم زور عورتیں کسی مہربان کی مہربانی کے طفیل ایک عالی شان مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ ذاتی وسائل اور سگے رشتوں سے بھی محروم ہیں، لہٰذا مہربانوں کے مُوڈ پر انحصار ان کی بقاء کی بنیاد ہے۔
فرض کیا ن کا کسی “ریمنڈ ڈیوس” کے ساتھ کوئی تنازعہ ہو جاتا ہے۔ جدید غلام داری کی حسابی مساوات کی رُو سے وہ شخص ان کا آقا ٹھہرتا ہے اور وہ اس کی باندیاں جن کی جان، مال اور آبرُو اس پر عین مباح ہے۔
سو ریمنڈ ڈیوس کو تمام تر حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی رات درانہ وار ان کے گھر میں گھس آئے، اور ان سے اپنی آقائیت کا خراج وصول کرے۔
اب ظاہر ہے گلاس تو ٹوٹے گا، پاؤں بھی زخمی ہوں گے، اور حسبِ توفیق مار کٹائی بھی ہو گی۔
ریمنڈ ڈیوس البتہ ستم ظریفی یہ کرتا ہے کہ باندیوں کی تذلیل کو یقینی بنانے کے لیے اپنی جارحیت کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر چڑھا دیتا ہے۔ وہ اس بات سے قطعی بے پرواہ ہے کہ اس کے خلاف کیسا طوفان اٹھ کھڑا ہو گا کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ پولیس، عدالتیں اور مین سٹریم میڈیا اس کی طاقت کو سلام کرتے ہیں اور اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔
وہی ہوتا ہے، سوشل میڈیا پر طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کے انقلابی ان باندیوں کو بڑھ چڑھ کر ہَلّا شیری دیتے ہیں اور وہ بھی کچھ دیر کو جذبۂِ شہادت سے سرشار ہو کر پولیس سٹیشن پہنچ جاتی ہیں۔
اس اثناء میں وہ اپنے دائیں بائیں “کاری گر” قسم کے وکیلوں کو بھی موجود پاتی ہے۔ پولیس خیر کیا کرتی، لیکن چُوں کہ دباؤ ہے، لہٰذا ان کے وکیل اور تھانے دار ایک دوسرے کو آنکھ ٹکاتے ہیں اور تین چار دن کی خواری کے بعد ایک بے ضرر سی ایف آئی آر کاٹ کر ان کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے۔
ابھی جذبۂِ شہادت کا وفُور باقی ہے۔ لہٰذا وہ ایف آئی آر بغل میں دبائے پریس کلب کا رخ کرتی ہیں اور ایک عدد پریس کانفرنس میں وہ سرفروشی کی تمنا کا اعلانیہ اظہار کرتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی رپورٹروں کی دانستہ ہڑبونگ دیکھ کر انھیں آنے والے حالات کا کچھ کچھ اندازہ بھی ہو جاتا ہے۔
اور پھر اچانک دو چار دن کے لیے گھمبیر خاموشی چھا جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے انقلابی جو تتلی کو پہاڑ سے ٹکرا جانے اور بکری کو شیر کے پرزے اڑاتے دیکھنے کے لیے مرے جا رہے ہیں، اس خاموشی پر جُز بُز ہوتے ہیں، لیکن ذوقِ تماشا ان کی امید بندھائے رکھتا ہے اور پھر اچانک تتلی پہاڑ سے کترا کر گزر جاتی ہے اور بکری شیر کے پُرزے اڑا دینے کے عزم کو آئندہ پر ٹال دیتی ہے۔
دونوں بہنیں عدالت میں پہنچ کر چہرے پر ایک کِھسیانی مسکراہٹ لاتی ہیں، اور “غلط فہمی ہو گئی” کہہ کر اپنا مقدمہ واپس لے لیتی ہیں۔
یہ سنتے ہی غیرت مندوں کی غیرت پر گَھڑوں پانی پڑ جاتا ہے، اور پھر ٹویٹر کے انقلابی ان دونوں کو پَھٹکارتے ہوئے کسی اور مظلوم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں جو اِن کے لیے تنِ تنہا ظلم کے پہاڑ سے ٹکرا جائے۔
تمثیل تمام ہوئی، گو انجام ذرا پُھسپُھسا تھا جس کا مجھے افسوس ہے۔ مجھے اس بات کا بھی اَز حد افسوس ہے کہ ان بہنوں نے سمجھوتے کی پھٹی ہوئی چادر اوڑھ کر (اور غالباً کچھ مال متاع بھی وصول کر کے) آپ کی سادیت پسندی کی تسکین کا سامان نہیں کیا۔
اور اس کا بھی قلق ہے کہ انہوں نے رتبۂِ شہادت پر فائز ہو کر انقلاب کو آپ کی گلی کا راستہ نہیں دکھایا۔ آپ دونوں بہنوں کو جی بھر کر لعن طعن کیجیے۔
انھیں رنڈیاں کہیے، دلال کہیے، جو جی میں آتا ہے کہیے لیکن ان دونوں خواتین کی ہمت کی داد بھی دیجیے کہ انھوں نے کچھ نہ کر کے بھی کس کس شخص اور کس کس ادارے کو لباس سے محروم نہیں کر دیا۔
انھیں داد دیجیے کہ انھوں نے ایک نام نہاد سماج سیوک اور اس کے پشت پناہوں کی عزت کو دو کوڑی کا کر دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی آپ یہ بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ ظلم کے مُہیب نظام میں بَہ قول میاں محمد بخش کم زور بس یہی کر سکتا ہے کہ جان بچا کر بھاگ جائے، یا آنسو بہا کر دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔