کُھرا، واش روم، اور کتنے درد و آلام منفی کیے تو یہ مضمون بنا
از، یاسر چٹھہ
وطنِ مالُوف، یعنی پنجاب میں کُھرے کو واش روم بننے میں بہت جدوجہد کرنا پڑی … پھر کہیں جا کر غسل خانہ بنا، اور اس سے بھی زیادہ خرچہ کرنا پڑا جب اسے واش روم کا لقب ملا۔
اگر نہیں یقین تو جس کسی دوست، یا دشمن نے نیا نیا گھر بنایا ہو اور ان کے رموزِ واش روم کا خرچہ وغیرہ پوچھیے۔ اس قدر خرچہ ہو جاتا ہے کہ عمران خان جیسے کسی بندے کو اپنے خرچے پر گھر بنانا پڑ جائے تو وہ کہے گا، دفعہ مارو، ایہہ کم پہ گندا ایہہ… اور مجھے تو دیہاڑی داروں کی فکر ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اور اس طرح دردِ زِہ، اپنی سماجیات میں اس وقت ہی ہوتی تھی جب بچے دائی کے ہاتھوں، یا گھر میں، یا کھیت کھلیانوں، بَنّے وَٹّوں پر خود بَہ خود پیدا ہو جاتے تھے، کچھ ان میں سے بچ بھی جاتے تھے، نہیں تو اگلی واری فیر کی attempt ضروری ہو جاتی تھی… کیڑے پڑیں دشمن اور کافروں کی توپوں میں۔
اب جب کی گائناکالوجسٹ کی پیدائشی کے اعمال میں شراکت و مداخلت رَوا اور رَواں ہو گئی ہے، تو اس کے ضمنی نتیجے میں labour pains نے سَر اٹھا لیا ہے۔
بَل کہ لیبر پینز بھی فطری کہاں، وہ بھی فیکٹری سیٹنگز پر لانے کے لیے induce کی جاتی ہیں؛ وہ پہلے کی معصوم دردِ زِہ تو خود چھڑتی تھی۔ یوں بھی تو ہے کہ گائناکالوجسٹ کو جب پتا لگ جائے کہ پارٹی پیسے دے سکتی ہے تو کسی pain اور درد کے توَلد اور اَکھوا پھوٹنے سے پہلے ہی چھری کانٹا کر دیتے ہیں۔
بَہ عَینہٖ، چار دیواری سے محروم ہَتھ نلکا بھی اس وقت تک واش روم کہلانے کو ترستا رہا، جب تک رنگ بَہ رنگی ٹائلوں اور نوکِ انگشت سے گھوم جانے والے نَل اور دیگر راز داں اوزار اس خانۂِ نج تک نہ پہنچے۔
باقی، و مُلّا اعلم بَال نِگہ
جنھوں جنھوں سمجھ نئیں آئی، جا کر اپنے کھوتے راجہ کے ویژن کے واری واری جائے۔