نسیم حجازی کا مقدمہ اور ہماری قومی شناخت
از، حسین جاوید افروز
تاریخ ہر دور ہی میں بنی نوعِ انسان کے لیے رہ نمائی کا فریضہ انجام دیتی آئی ہے۔ اسی لیے تاریخ کو تمام عُلومِ انسانی کی بنیاد بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ تاریخ کی بناء پر ہی ہم مستقبل کے خاکے تراش سکتے ہیں اور اس کا ہمار ے حال اور مستقبل پر گہرا اثر بَہ ہر حال موجود رہتا ہے۔
ہر قوم کی بنیادی نشو و نما میں بھی تاریخ کا کردار اہم ترین ہوتا ہے جو کہ اس کے بنیادی خصائص، رُسُوم، رواج اور قومی مقاصد کو متاثر کرتی ہے۔
اسی طرح پاکستان کے وجود کے پسِ منظر میں بھی ایسے کئی تاریخی واقعات اور شخصیات گزشتہ ستر برسوں سے اپنا اثر و نفوذ رکھتے ہیں جو کہ آج بھی ہمارے سماج میں پھیلے مختلف طبقات میں مضبوط جڑیں رکھتے ہیں۔
ہمارے ہاں مسائل تب جنم لیتے ہیں جب ہم گزشتہ ستر سالوں سے اس امر کا حتمی فیصلہ نہیں کر پاتے کہ بَہ طور قوم ہماری فکری، تہذیبی اور سماجی بنیادیں ہیں کیا؟
کیا ہم نے بَہ طورِ قوم اب تک یہ طے کیا ہے کہ ہمارے قومی مقاصد کیا مجموعی آبادی کے غالب حصے کے لیے قابلِ قبول ہیں بھی یا نہیں؟ یا ان کو اب بدلتے وقت کے ساتھ مزید تازگی کی ضرورت پڑ چکی ہے؟
جب تک ہم ان اہم اُمُور میں اپنی حتمی رائے قائم نہیں کر لیتے تب تک ہم اپنی قومی شناخت کے بحران سے دو چار ہی رہے گے۔
پاکستان میں ابتداء میں رائٹسٹ اور لیفٹسٹ رجحانات رکھنے والے گروہوں کے درمیان نظریاتی شورش ستر کی دھائی تک اپنی پوری شد و مد سے جاری رہی۔
مگر پھر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس میں سرخے تو جیسے بالکل ہی اپنا وجود کھو بیٹھے۔
یوں یہ فکری کش مکش اور سرخوں اور دائیں بازو سے نکل کر لبرل ایلیٹ اور دائیں بازو کے حامل افراد میں منتقل ہو گئی اور یہ عمل اب بھی جاری و ساری ہے۔
آج بھی ہمارے رائٹسٹ فخریہ طور پر اس بات پر نازاں ہیں کہ پاکستان اسی وقت وجود میں آیا جب محمد بن قاسم کی افواج دیبل کے ساحل پر لنگر انداز ہوئیں اور سندھ بابُ الاسلام کے طور پر سامنے آیا اور مسلم فاتحین کے ہم راہ آئی روحانی شخصیات کے فیض کی بَہ دولت اسلام کی روشنی سارے ہندوستان پر پھیلتی چلی گئی۔
اسلام نے بَہ طور ایک نظام اس دور کے مروجہ ہندو مت کو کھل کر چیلنج کیا، بل کہ رفتہ رفتہ اسے وادئِ سندھ سے نکال کر گنگا کی تہذیب تک محدود کر دیا۔
جب کہ دوسری جانب متحارب حلقے ہمیشہ سے دلائل کے انبار لگاتے رہے ہیں کہ ہمارا پاکستانی کلچر ہر گز محمد بن قاسم کے حملے کی مرہونِ منت نہیں رہا بل کہ یہ پانچ ہزار سال سے وادئِ سندھ سے وابستہ ہے اور یہ گنگا ویلی سے بالکل الگ اپنی ایک جداگانہ حیثیت میں پھلتا پھولتا رہا ہے۔
یہ کلچر پانچ ہزار سال قبل موہنجو داڑو، ہڑپا، مہر گڑھ میں اپنی پُوری آب و تاب سے چمکتا رہا ہے۔ جب کہ دیبل یا ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں سے آنے والے محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور ان کے بعد شہاب الدین غوری محض لوٹ مار کی غرض سے ہندوستان آتے رہے اور جی بھر کر لٹیروں کی طرح برِّ صغیر کو تاراج کرتے رہے۔
ہمیں بیرونی اثرات سے اثر انداز ہونے کے بَہ جائے اپنے کلچر اور تہذیب کی اندرونی طاقت کو جاننا چاہیے تھا۔ لہٰذا ان غیر ملکی حملہ آوروں کی ستائش کی بَہ جائے کھل کر کر مذمت کرنی چاہیے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ لبرل طبقات اس سارے بیانیے کو نسیم حجازی کی کارستانی قرار دیتے ہیں جن کا قصور فقط اتنا تھا کہ انھوں نے پاکستان میں پہلی بار ایک مربوط کوشش کی کہ اسلامی تاریخ اور مختلف مسلم فاتحین کو فکشن کے ساتھ جوڑ کر دل فریب انداز میں اپنے ناولوں کے ذریعے پیش کیا جائے۔
اب کا مقصد تھا کہ نئی نسل جان سکے کہ اسلامی تاریخ طارق بن زیاد، یوسف بن تاشفین، محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان جیسے نڈر کرداروں سے مزین رہی ہے جنھوں نے قلیل وسائل کے با وُجود اپنی شجاعت سے افریقہ کے ساحلوں سے لے کر ہندوستان تک تاریخ اور تہذیب کا دھارا ہی بدل دیا۔
لبرل ایلیٹ یا بائیں بازو کے دوست حجازی پر تنقیدی نشتر تو برساتے ہیں، مگر افسوس تو یہ ہے کہ ان حضرات نے تو کبھی ان کے ناولوں کو چُھوا تک نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے خیال میں نسیم حجازی نے بہ قول آپ کے اس مفروضے کے کہ نو جوانوں کو اپنے ناولوں کے ذریعے ذہنی طور پر منتشر اور پراگندہ کیا ہے تو آپ کا استدلال یقیناً گم راہ بنیادوں پر ایستادہ ہے۔
ویسے بھی ادب کا اصول ہے کہ آپ کسی بھی ادیب کی تحریروں پر ضرور تنقید کیجیے مگر خدارا اسے پہلے پڑھ تو لیں۔ مجھے عام زندگی میں ایسے کئی اشخاص سے بار ہا واسطہ پڑا جو ارطغرل کا ذکر سنتے ہی ناک بُھوں چڑھا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ارطغرل محض نسیم حجازی کے تاریخی ناولوں کو پردۂِ سِیمیں پر اتارنے کی لا حاصل سعی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
حالاں کہ ارطغرل کے ذریعے ہماری نو جوان نسل اس بہادر جرنیل کی شجاعت، بھر پُور شخصیت اور اصول پسند طبعیت سے بے حد متاثر ہوی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برادر ملک ترکی کا یہ تاریخی ڈرامہ پاکستان میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ توڑ رہا ہے۔
نسیم حجازی نے قیصر و کسریٰ جیسے عظیم ناول میں نہایت مدلل انداز میں بیان کیا کہ کیسے ظہورِ اسلام سے قبل عہدِ جاہلیت کے دور کا ایک عرب نو جوان عاصم اپنے گرد و پیش میں پھیلے خون اور نا انصافی سے بھرپُور نظام سے نالاں ہو کر روم اور ایران کی تاریخی آویزش کا شکار بن جاتا ہے اور پھر کیسے حالات اسے اس سنگلاخ زندگی سے نکال کر اسلام کی ٹھنڈک سے لب ریز کر دیتے ہیں۔
اسی طرح شاہین ناول بھی ہسپانوی مسلمانوں کے زوال کے سلسلوں کو نہایت تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ کیسے طارق بن زیاد کی کاوشوں سے حاصل کردہ اندلس کی عظیم سلطنت امتِ مسلمہ کے ہاتھوں سے ابو داؤد جیسے غداروں اور ابو عبداللہ جیسے کم زور حکم رانوں کی بَہ دولت چھین لی گئی؟
کلیساء اور آگ میں اس امر پر روشنی ڈالی گئی کہ کیسے اندلسی مسلمانوں کو اپنی جان بچانے کے لیے نصرانیت بادلِ نا خواستہ قبول کرنا پڑی جب کہ وہ گھروں چھپ چھپ کر نماز کی ادائیگی میں بھی مصروف رہتے۔
اسی طرح آخری چٹان جیسے تاریخی اہمیت کے ناول میں جس طرح چنگیز خان نے اپنی سفاک منگول فوج کے سہارے خوارزم شاہ کی سلطنت کو تنکوں کی طرح بکھیرا وہ بھی مسلم زوال پذیری کے خد و خال کھل کر بیان کرتا ہے، بل کہ مجھے قیصر و کسریٰ ناول کے مطالعے سے ہی یہ خیال آیا کہ عاصم کا کردار ہالی وڈ فلم گلیڈی ایٹر اور بین ہر سے کس قدر مماثلت رکھتا ہے؟
یوں ہم کھل کر کہہ سکتے ہیں کہ محترم نسیم حجازی نے محض مسلم عروج کے ادوار پر ہی نہیں لکھا بل کہ کھل کر مسلم زوال کی اتھاہ گہرائیوں پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔
حجازی صاحب نے قطعی طور پر تاریخ کو مسخ کرنے کوشش ہر گز نہیں کی کہ جس کی ایک شکل ہمیں آج بھارت میں دکھائی دیتی ہے جب زبر دستی ہندو علاقائی حکم رانوں جیسے مرہٹہ سردار تانا جی، شیوا جی، باجی راؤ اور مہا راجہ پرتاپ کو مغلوں، افغانوں اور دکن کی مسلم سلطنتوں پر حاوی دکھایا جاتا ہے۔
حالاں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ علاقائی سردار جب بھی کھل کر پانی پت جیسے میدان میں مسلمان سلاطین کے سامنے آئے تو ان کی نسلیں تک مٹ گئیں۔
تاریخ عالم کو جاننے کے لیے ٹائن بی، ایچ جی ویلز، وِل ڈیُوراں کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں انگریزی سیزن جیسے ٹیوڈرز، وائکنگز، سپارٹا اور روم ضرور دیکھنے چاہییں جن میں ان ادوار کی دقیق اور عمیق عکاسی کی گئی ہے۔
لیکن اسی طرح ہمارے لبرل دوست بھی ارطغرل کو بھی ضرور ملاحظہ کریں۔ اس میں بھی ایک پائیدار سکرپٹ، اعلیٰ کردار نگاری اپنے جوبن پر دکھائی دیتی ہے۔
تاہم حجازی صاحب پر تنقید کا ایک پہلو ضرور نکلتا ہے کہ جہاں انھوں نے اندلس سے عرب اور وسطی ایشیاء کے مسلم فاتحین کی عظمت، شجاعت اور ذکاوت مُفصّل اور جامِع پیرائے میں اپنے ناولوں میں بیان کی وہاں ان کو دھرتی کے ان سپوتوں کے بارے میں بھی لکھنا چاہیے تھا جنھوں نے انگریزوں یا ظالم حاکمِ وقت کے خلاف آواز بلند کی اور اپنے معروضی حالات سے مجبور ہو کر ہتھیار بھی اٹھائے۔
ان میں بھگت سنگھ، دُلّا بھٹی اور رائے احمد خان کھرل کے نام آتے ہیں۔ ان کا بھی حجازی صاحب پر ضرور قرض بہ ہر طور بنتا تھا۔
بہ ہر حال شاید ان کی جذباتی وابستگی سر زمینِ عرب، وسطی ایشیاء کے مسلم جرنیلوں کے حوالے سے ہی گہری ہو لہٰذا اسی لیے وہ انھی تک محدود رہ گئے۔
مجموعی طور پر میرے خیال میں ہم نے نسیم حجازی صاحب کو ان کی ادبی و تاریخی کاوشوں کا وہ صلہ ہر گز نہیں دیا جس کے وہ بَہ جا طور پر مستحق تھے۔
آخر میں یہی گزارشات پیشِ خدمت ہیں کہ ہمیں اپنا قومی و ریاستی بیانیہ اَز سرِ نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہماری اگلی نسلیں اس غیر ضروری تاریخی اِبہام سے نجات پا لیں کہ ہم آج بھی اپنی شناخت کے بحران سے دوچار ہیں۔
کیا ہمارا ہیرو محمد بن قاسم ہے جو وادئِ سندھ کے مظلوم عوام کے لیے ایک نجات ہندہ کے طور پر سامنے آیا یا دیبل کا راجہ داہر جو بیرونی استعماریت کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن کر ابھرا؟
ان مباحث کا متفقہ حل تب ہی نکلے گا جب ہمارے اہلِ دانش اور غیر متعصب تاریخ دان باہم سر جوڑ کر بیٹھیں اور ہماری قومی تاریخ کو اِبہام سے پاک کر کے ریاستی آشیر باد سے مرتب کریں تا کہ اس کے بعد ہمارے ریاستی بیانیے میں مزید تازگی جنم لے سکے۔