آزاد نظم کے وسیع آفاق
از، ثقلین سرفراز
آزاد نظم نے دیگر رائج مقبول شعری اصناف کی طرح پرانی وضع سے انحراف کر کے اپنا راستہ بنایا۔
آزاد نظم نے معاصر جدید حِسِیّت کو قبول کیا اور اس کی علَم بردار بنی۔
آزاد نظم نے اپنے نئے فکری اُسلوب کے اثرات بہت جلد اردو شاعری پر ثبت کیے۔ یہاں تک کہ کئی اصنافِ شعری مثلاً جیسے غزل اور پابند نظم بھی آزاد نظم کی مقلد بَنتی نظر آتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ آزاد نظم کی ساخت اپنے ہیئت و مزاج کے اعتبار سے اپنا مقام و انفرادیت برابر قائم کرتی نظر آتی ہے۔
آزاد نظم کو انگریزی میں فری وُرس جب کہ فرانسیسی میں vers libre کہتے ہیں۔
آزاد نظم (فرِی وَرس) کے ابتدائی نُقُوش ہمیں ملٹن کے ہاں نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ولیم بلیک اور آرنلڈ نے بھی آزاد نظم کو اپنی شاعری میں برتا ہے۔ لیکن اسے سب سے زیادہ فروغ والٹ وِہیٹ مین کی شاعری سے ملا۔ بودلیئر جنھیں آزاد نظم کا اہم نام سمجھا جاتا ہے، وہ بھی وہیٹ مین سے متاثر نظر آتے ہیں۔
بیسویں صدی کے انگلستان میں ایلیٹ، پاؤنڈ اور ڈی ایچ لارنس نے خاص طور سے شاعری کی اس صنف کی ترویج اور اسے عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
قبولِ عام کے لیے کسی بھی صنف شعر کے اعلیٰ نمونے بھی موجود و قائم ہونے چاہییں، تاہم درج بالا تینوں شعراء نے اس اعلیٰ سطح کی تخلیق کو اپنی شاعری میں پیش کر کے قبولِ عام کی سند لی، اور یہ ثابت کیا کہ اس صنف میں اعلیٰ معیارات کی حامل شاعری کو تخلیق کرنے کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔
آزاد نظم نے جہاں خارجی سطح پر اپنی ساخت کو منوایا تو اس کے داخل میں وہ عمدہ تخلیق بھی ڈالی جس سے اسے قبولِ عام حاصل ہوا۔
آزاد نظم میں شاعر اپنے خیالات و احساسات کو ایک خاص ربط کے تحت بہاؤ دیتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ نظم مکمل ہو جاتی ہے۔ کہیں بھی پیش کرنے میں کوئی دقت کا سامنا نہیں ہوتا۔
شاعر احساسات کو الفاظ کے رستے یوں صورت پذیر کرتا ہے کہ خوب صورت آہنگ وجود میں لانے میں کام یاب دکھائی دیتا ہے، وہ احساس و آہنگ اپنی شان و شوکت کے ساتھ نظر آتا ہے۔
رفعتِ تخیل، آزاد نظم کی سب سے اہم خوبی ہے۔ اسی بنیاد پر اس کا فروغ ہوا اور آزاد تلازمۂِ خیال بھی اس حوالہ سے اہمیت کا حامل ہے۔ ہم یہاں ڈاکٹر سعادت سعید کی ایک شاہ کار نظم خیّاط دہشت پیش کرتے ہیں جس میں انھوں نے ایک ایسا محاکاتی روپ اپنایا ہے کہ نظم کو پڑھ کر جہاں معاصر صورت حال کی عکاسی نظر آتی ہے، وہیں اس کی ایک مکمل تصویر بھی دماغ میں نقش ہو جاتی ہے، نظم ملاحظہ کیجیے:
خیّاطِ دہشت
سوزنِ خیاطِ دہشت نے قبائے وقت میں
بے بسی کی جھالریں ٹانکِیں
دماغوں کے غلافوں میں وساوس سِل گئے …!
آہنی تاروں کے بَخیوں سے پپوٹوں میں چمکتے تِل گئے …!
شامتوں کی قینچیوں نے عِطر میں بھیگی
عروسِ رُشد کی پوشاک بے دردی سے کاٹی
دھجیاں دستارِ عِصمت کی بکھر کر رہ گئیں
نالیوں کے بہتے کیچڑ کی روانی میں ستارہ آشنا
آنچل گئے…!
فرغلِ امکانِ ہستی کے نئے کپڑے پہ کھونچے
بکلیں، برقعے، عمامے، ٹوپیاں، تہ پوش، چوغے
اس طرح ادھڑے کہ ان کے بے نوا ٹکڑے
ہوس کے پوتڑوں کی گٹھڑیوں سے
مِل گئے…!
سوزنِ خیاطَ دہشت
اس قدر باریک فولادی
انگشتانوں کے خولوں میں مقید انگلیاں زخمی
پریدہ رنگ ناخن تک جڑوں سے
ہِل گئے…!
آزاد نظم ترنم کی حامل ہوتی ہے۔ جس میں سُروں سے راگ کے ناتے نہیں ٹوٹتے، بل کہ ربط پذیر ہوتے ہیں اور ایسی غِنائیت قائم ہوتی نظر آتی ہے کہ جیسے نغمہ الفاظ کے تاروں سے اُبھر رہا ہو۔
ساتھ ساتھ آزاد نظم، محاکات سے بھی اپنی خاص پہچان کی حامل ٹھہرتی ہے، اور قاری کے ذہن میں مناظر کی ایک تصویر نقش ہو جاتی ہے۔
اس حوالہ سے میرا جی کی نظمیں ملاحظہ کریں اور یہاں اسی مذکورہ تناظر میں بَہ طورِ مثال ہم میرا جی کی نظم سمندر کا بلاوا پیش کرتے ہیں:
سمندر کا بلاوا
یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے مرے
دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے
کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں مگر یہ انوکھی ندا آ رہی ہے
بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا
مرے پیارے بچے مجھے تم سے کتنی محبت ہے دیکھو اگر
یوں کیا تو
برا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہو گا خدایا خدایا
کبھی ایک سسکی کبھی اک تبسم کبھی صرف تیوری
مگر یہ صدائیں تو آتی رہی ہیں
انہی سے حیات دو روزہ ابد سے ملی ہے
مگر یہ انوکھی ندا جس پہ گہری تھکن چھا رہی ہے
یہ ہر اک صدا کو مٹانے کی دھمکی دِیے جا رہی ہے
اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری
فقط کان سنتے چلے جا رہے ہیں
یہ اک گلستاں ہے ہوا لہلہاتی ہے کلیاں چٹکتی ہیں
غنچے مہکتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں کھل کھل کے مرجھا کے
گرتے ہیں اک فرشِ مخمل بناتے ہیں جس پر
مری آرزووں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں
کہ جیسے گلستاں ہی اک آئینہ ہے
اسی آئینے سے ہر اک شکل نکھری سنور کر مٹی اور مٹ ہی گئی پھر نہ ابھری
یہ پربت ہے خاموش ساکن
کبھی کوئی چشمہ ابلتے ہوئے پوچھتا ہے کہ اس کی چٹانوں کے اس پار کیا ہے
مگر مجھ کو پربت کا دامن ہی کافی ہے، دامن میں وادی ہے وادی میں ندی
ہے ندی میں بہتی ہوئی ناؤ ہی آئینہ ہے
اسی آئینے میں ہر اک شکل نکھری مگر ایک پل میں جو مٹنے لگی ہے تو
پھر نہ ابھری
یہ صحرا ہے پھیلا ہوا خشک بے برگ صحرا
بگولے یہاں تند بھوتوں کا عکس مجسم بنے ہیں
مگر میں تو دور ایک پیڑوں کے جھرمٹ پہ اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہوں
نہ اب کوئی صحرا نہ پربت نہ کوئی گلستاں
اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری
فقط ایک انوکھی صدا کہہ رہی ہے کہ تم کو بلاتے بلاتے مرے دل پہ
گہری تھکن چھا رہی ہے
بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ شاید تھکے گا
تو پھر یہ ندا آئینہ ہے فقط میں تھکا ہوں
نہ صحرا نہ پربت نہ کوئی گلستاں فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو
کہ ہر شے سمندر سے آئی سمندر میں جا کر ملے گی۔
میرا جی کی نظمیں اپنے خاص نغمیہ انداز اور لَے سے پہچانی جاتی ہیں۔ اس درجِ بالا نظم میں بھی اس کیفیت کو ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
آزاد نظم کا صحیح لطف نظم کی قرأت میں موجود ہے۔ قرأت سے نظم کا زیر و بَم قاری کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتا ہے۔ اس حوالہ سے آپ ایلیٹ کی ویسٹ لینڈ کو ایک خاص قرأت کے ساتھ پڑھیں۔
آزاد نظم اپنے موضوع و اسلوب دونوں حوالوں سے اپنی پہچان کی حامل ٹھہرتی ہے۔ کہیں ان میں خلاء قائم ہوتا نظر نہیں آتا بل کہ ایک باہم جڑت نظر آتی ہے۔
آزاد نظم کو اردو میں وارد ہوئے سو سال سے اوپر ہو گیا، لیکن اس کی مقبولیت کا گراف بڑھا ہے کم نہیں ہوا۔