مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ دوم)
مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ اول)
از، پروفیسر محمد حسین چوہان
سقوطِ بغداد سِنہ 1258 کے بعد اسلامی فکر و فلسفے نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ جس طریقے سے گزشتہ پانچ صدیوں سے مسلمان چیزوں کو دیکھتے، اور پَرَکھتے چلے آئے تھے وہ بَہ تدریج تبدیل ہونے لگا۔ خارجی زندگی کے مطالعہ و تسخیرِ فطرت کے لیے جو انھوں نے تجرباتی، مشاہداتی اور استقرائی انداز اپنایا تھا، اس میں بَہ تدریج کمی آنے لگی۔
اب باطن پرستی اور تفکر و تدبر کے دور کا آغاز ہوا۔ لیبارٹریاں اور رصد گاہیں، خانقاہوں اور آستانوں میں تبدیل ہونا شروع ہو گئیں۔ تحقیقی مراکز کی جگہ پرانے دینی نصاب نے لے لی۔ صوفی اور عُلَماء بَہ طور دو متحارب گروہ منصۂِ شہود پر آئے۔ طریقت اور شریعت سوچنے اور عمل کرنے کے لیے رہ گئے۔ ایک طرف مسلکی اختلافات و فرقہ ورائیت نے جنم لیا، تو دوسری جانب رہبانیت و علائقِ دُنیَوی سے کنارہ کشی نے کام تمام کر دیا۔ باطنی عُلُوم کی طرف توجہ بڑھنے لگی اور سماجی مسائل سے مکمل طور پر توجہ اٹھ گئی۔
اب باطن کے نظارے پر تمام تر توانائیاں صرف ہونے لگیں۔ ایجاد و انکشافات کے بر عکس، کَشف و کرامات، علمی و تجربی تصدیقات کی بَہ جائے الہام و وجدان سے قُلُوب کو منور کرنے اور حقیقتِ مطلق کے نظارے دیکھنے میں محو ہو گئے۔ پاکیزگئِ نفس، کردار سازی، نفس کشی، دنیا سے نفرت، فنائے ذات، تزکیۂِ نفس، عبادت و ریاضت کی تعلیمات نے مسلم فکر کو دُروبینی کی طرف متوجہ کر دیا۔
تجرد و خَلوَت کی پُر سکون فضا نے فرد کا رشتہ سماج سے کاٹ دیا۔ سماجی تحرک جمود کا شکار ہو گیا۔ صوفیائے کرام نے عُلَماء کی تفرقہ بازی کے بر عکس محبت اور بھائی چارے کا درس دیا۔ امن و محبت سے دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم پٹی کی، اور اپنے کردار سے انسانوں کو اپنے حلقۂِ ارادت میں بھی شامل کیا۔
الٰہیات، خدا، انسانی روح، حیات بعد الممات جبر و قدر جیسے فکری مسائل پر اہلِ علم و ادب کی توجہ مرکوز ہو گئی۔ فلسفہ، شاعری اور تصوف کو مرکزی مضامین کے طور پر قبول کیا گیا۔ وجودی فلسفے نے تمام مظاہر کو ایک وجود سے تعبیر کیا کہ ہر شے کی اصل ایک ہے۔ زرتشت، بدھ مت اور یونانی فلسفے کی تعلیمات اسلامی تصوف کا حصہ بن گئیں۔ سرمدی اور واحد الوجود ہستی سے تعلق پختہ کرنے کے لیے زندگیاں وقف کر دی گئیں۔
انا الحق کے نعرے بھی بلند ہوئے، مگر اسلام کا بنیادی تصوف و خشیت کا سادہ تصور، ایمان و ایقان، باہمی اخوت، اصول و قانون، مواخات، ایثار، جد و جہد اور مشق، خدمتِ خلق اور اجتماعی خودی کے لیے انفرادی خودی کی قربانی کی تعلیمات بارہویں صدی کے بعد کے تصورِ اسلام میں غائب ہو گئیں، کیوں کہ نیابت کا فریضہ سر انجام دینے سے مسلمان اکابریں دست کش ہو گئے۔
انفرادی خودی کی تزئیں و آرائش میں دنیا و ما فِیہا سے کنارہ کش ہو گئے اور اجتماعی خودی کو فطری، سیاسی اور سماجی جبر کے حوالے کر دیا۔ پھر تھا جو نا خوب وہی بَہ تدریج خوب ہوا۔ تصوف نے تمام مسلم مکاتبِ فکر میں جڑیں پکڑنا شروع کر دیں۔ نئے نئے سلسلوں کا ظہور ہوا۔ بلند پایہ صوفیائے کرام بھی پیدا ہوئے مگر اسلام کی کم زور روح کو کوئی بھی سہارا نہیں دے سکا۔ کیوں کہ باطنی عُلُوم سے فرد کو آگہی اور عرفان تو حاصل ہو جاتا ہے، مگر سماج کے گھمبیر مسائل کا تدارک نہیں ہوتا۔
فلسفہ و تصوف، یا روحانیات کا تعلق اسلام سے ضرور ہے۔ دیگر متحرک عُلُوم کی طرح اس کی دنیا بھی بہت وسیع ہے مگر دنیائے آب و گِل میں جسم کے تقاضے پورے کرنا بھی ایک بڑی عبادت سے کم نہیں۔ اگر ایک طرف مطالعۂِ نفس پر زور دیا گیا ہے، تو ساتھ ہی مطالعۂِ کائنات کی بھی ترغیب دی گئی ہے۔
اسلام کے زوال کی ایک بڑی وجہ خانقاہی تصوف بھی بنا ہے، جس سے حوصلے پست ہوئے ہیں اور کار گَۂِ حیات میں رزم گاہ سجانے میں انسان نا کام ہوا ہے۔ مسلمان اپنے زوال کے بعد پلٹ کر دوبارہ عیسائی رہبانیت اور علماء مدرسیَّت میں داخل ہو گئے، اور عیسائیت نے رہبانیت سے نکل کر مسلمانوں کی تجربی سائنس کو فروغ دیا۔
فکری جمود و تعطل سے سیاسی و سماجی ارتقاء رک گیا۔ توَکّل و تجرَّد پسندی نے فرد سے اس کے اجتماعی سماجی فریضے کے تصور کو چھین لیا۔ حقائق سے آنکھیں ملانے کے خوف سے انسان نے حجروں اور خانقاہوں میں پناہیں لینی شروع کر دیں۔
بے عملی نے سماجی ترقی اور انسان کے بنیادی مسائل سے توجہ اٹھا دی؛ شاعری اور فلسفیانہ مُو شگافیوں سے فکر و نظر کی تسکین ہونے لگی۔ متصوفانہ تصورات سے غربت، جہالت، توہم پرستی اور تقدیر پرستی کو جِلا ملی۔ سماج کی کُلیّت کا تصوف نے بیڑا غرق کر دیا۔
اجتماعی سماجی حرکت جمود کا شکار ہوئی۔ بے کار مجنون عاشقان، صوفیوں کی عقیدت و پرستش میں مبتلا ہوئے۔ عقیدہ پرستی نے ہر نئی سوچ کے پھلنے پھولنے کے رستے کو روک دیا۔ جہاں جہاں جہالت اور غربت زیادہ تھی وہاں تصوف کو پھیلنے کے زیادہ مواقع ملے، کیوں کہ مرید کے لیے توہم پرست ہونا ضروری ہے۔
منطقی و عقلی سوچنے کا طریقۂِ کار جو عربوں نے اختیار کیا تھا، مفقود ہو گیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کا غلامی کی اتھاہ زنجیروں میں جکڑا جانا بھی تھا۔ مرکز سے لا مرکز ہو گئے تھے۔ اقتدار و نیابت سے محرومی نے ان کو عُزلَت پسندی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ صوفیاء کے روحانی مراتب اور ان کی ذہنی مشقیں انسانی نفسیات میں ایک مقام ضرور رکھتی ہیں، مگر اسلامی فکر کا یہ مقصود نہیں اور نہ ہی تعقلات فرد کے سماجی کردار ادا کرنے میں اس کو جائز سمجھتی ہیں۔
اسلامی فلسفے کی غایت یہ ہے کہ روحانی طمانیت، سماجی فریضہ ادا کرنے کے بعد فرد کو حاصل ہوتا ہے اور ہر فرد سماجی حرکت کا ایک کَل پرزہ ہے۔ انفرادی خودی اس وقت تک پایۂِ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی جب تک وہ اجتماعی خودی کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو جائے۔ اجتماعی خودی ایک عادلانہ و منصفانہ اور معاشی انصاف پر مشتمل نظام میں ہی مستحکم ہوتی ہے، جہاں طبقاتی تفریق کا احساس مٹ جائے، اور یہ سارا عمل جد و جہد سے مَشتق ہے۔
مگر تصوف میں یہ جُرأت رندانہ کہاں تھی کہ بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑاتا پھرتا۔ وسطِ ایشیاء اور برِّ صغیر میں جہاں کہیں بھی صوفیاء نے معرفت کی قندیلیں جلائیں، محبت اور رواداری کا درس دیا۔ مگر استحصالی طبقہ سے سمجھوتہ بھی کر لیا۔ حکم راں، جاگیردار اور سرمایہ دار طبقہ جس نے عام انسانوں کے نانِ شبینہ پر ڈاکا ڈال رکھا تھا، صوفیاء کے حلقۂِ ارادت میں شامل ہو گئے۔
مقتدر طبقات سے صوفی کی علیک سلیک نے عوامی شعور اور جد و جہد کے جذبے کو ٹھیس پہنچائی۔ بعد ازاں صوفیاء کی نسلوں نے سامراجی اور استحصالی قوتوں کا ساتھ دے کر خود سرمایہ اور جاگیریں حاصل کر لیں۔
صوفی کی ذہانت و فراست کی تان معرفت الٰہی و عوامی مفاد کے بر عکس، خاندانی مفاد پر جا کر ٹوٹی۔ آج بھی ہند و پاک میں بزرگانِ دین کی گَدیوں نے صنعتوں کا درجہ اختیار کیا ہوا ہے اور عوام کے روحانی استحصال میں پیش پیش ہیں۔ یہ ایک ایسا کنفیوژڈ فلسفہ ہے جس سے عام فرد باہر نہیں نکل سکتا۔
بہ ہر کیف، پہلی پانچ صدیوں میں اسلام کی ترقی وحی، الہام اور عقلیت پسندانہ مزاج کی حامل تھی۔ احکامِ شریعت کے ساتھ باطنی مفہوم اور کسب و انجذاب کا بھی گہرا عمل و دخل تھا۔ کَٹھ ملائیت نہیں تھی۔
سادگی و ایقانیت ضرور تھی مگر فکر و نظر پر پہرے لگے ہوئے نہیں تھے۔ ترقی کے عمل میں شریعت رکاوٹ نہیں تھی، مگر عقلیت و تدبر کے سرکش گھوڑے کو اشعری و غزالی کے افکار نے باقی آنے والی صدیوں تک رینگنے پر مجبور کر دیا۔
امام ابو حسن الاشعری سِنہ 874 کو پیدا ہوئے۔ ایک بلند پایہ عالِم اور امام کا درجہ رکھتے ہیں، جنھوں نے معتزلہ عقلیت پسندوں کے جواب میں علمِ کلام کی بنیاد رکھی۔ وہ خود بھی چالیس سال تک معتزلہ تعلیمات کے پیروکار رہے، اور اپنی تحریروں اور تقریروں میں فکرِ اسلامی کی تفہیم و تعبیر عقلیت کی رُو سے کرتے رہے۔
مگر اچانک ان کے خیالات میں تبدیلی واقع ہوئی اور انھوں نے قدامت پسندانہ دینیات کو اسلامی دستورِ حیات کے لیے منتخب کیا، جس سے اسلام کی متحرک روح جمود کی طرف راغب ہو گئی۔ نظریۂِ قدر کی بَہ جائے وہ مطلق جبر کے قائل ہو گئے۔ انسان سے آزادئِ ارادہ و تخلیق کی خلقی صفت چھین لی۔ اشعری نظریات و عقائد نے دوسرے فُقَہائے کرام سے مطابقت قائم کر لی۔ شریعت لفظوں کے ظاہری مفہوم تک محدود ہو گئی۔
امام صاحب کو اپنے گزشتہ نظریات سے منحرف ہونے کی بناء پر عزت و شہرت نصیب ہوئی۔ وہ خود بھی ایک با کمال مقرر اور متکلمِ زماں تھے۔ مگر اس چیز کا کوئی ادراک نہیں کر سکا کہ سماج مسلسل حرکت میں ہے اور ہر شے رواں دواں ہے۔ قدرتِ کاملہ ہر نئی آن و شان کے ساتھ جلوہ گر ہو رہی ہے۔
مجرد دینیاتی وابستگی سے اسلامی فکر مادی حرکت سے اپنا رشتہ قائم نہ رکھ سکی، جو اسلاف کی استقرائی و تجربی فکر کا حصہ تھا۔ مسلمانوں کے سیاسی و سماجی اور علمی ارتقاء کو امام غزالی کے عارفانہ فلسفے سے بھی گزند پہنچی۔ امام غزالی ایک بلند پایہ عالم، فلسفی اور متکلّمِ زمان کا درجہ رکھتے ہیں۔
علم اور ذاتِ مطلقہ کی حقیقت جاننے کے لیے ساری عمر انھوں نے علم کی غَوّاصی کی۔ علم و معرفت میں وہ ایک چوٹی کے صوفی عالم کا درجہ رکھتے ہیں۔ عمر بھر فلسفے کی تعلیم سے وابستہ رہے، مگر روح کو کہیں قرار نہیں ملا۔
ان کی روح تعینات کے پردے اٹھانا چاہتی تھی۔ آخرِ کار انھوں نے عرفان الٰہی کے لیے تمام سائنسی و فلسفیانہ عُلُوم کو ناقص و نا مکمل پایا، اور تصوف و روحانیت کا راستہ اختیار کیا۔
عقلی عُلُوم پر مجرد دینیات کو ترجیح دی۔ توکل الٰہی کو اپنا شِعار بنایا۔ ایک طرح سے ترکِ دنیا اور باطنی دنیا میں غرق ہو کر دلِ بے قرار کو وصالِ حقیقی کا مُژدۂِ جاں فَزا سنایا۔ فلسفے کی تحدید میں مقاصد الفلاسفہ اور تہافتہ الفلاسفہ کتابیں تحریر کیں۔ سِنہ 1111 میں آپ نے وفات پائی۔
امام غزالی کی تعلیمات کا یہ اثر ہوا کہ لوگ معرفت و سکون کی تلاش میں خانقاہوں کا رخ کرنے لگے اور یہ خود بھی گوشۂِ نشین ہو گئے۔ جس کے اثرات وسطِ ایشیاء اور برِّ صغیر کے مسلمانوں پر بھی مرتب ہوئے۔ غزالی کے تصوف و روحانیت اور اشعری کی مقلدیت نے پورے عالم اسلام کو دین کا جامد تصور متعارف کرایا جو ترقی اور نیابت کی نفی پر منتج ہوا۔
اشعری عقائد سے مجرد دینیاتی فکر اور فلسفہ، اور غزالی سے خانقاہی سسٹم نے جنم لیا۔ دین و تصوف کا ایک نیا رنگ برِّ صغیر میں کَسمَپُرسی کی حالت میں جدید فکر کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا ہے۔ جب کہ عرب دنیا میں مقلدیت و حرف پرستی روحِ عصر سے ہم آہنگ ہونے سے قاصر ہے۔ بَہ قولِ اقبال:
تمدّن، تصوّف، شریعت، کلام
بُتانِ عَجم کے پُجاری تمام!
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمّت روایات میں کھو گئی
…
بُجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
شرابِ کُہن پھر پِلا ساقیا …
**اس مضمون کی قسطِ سوم بعد میں پیش کی جائے گی۔