آؤ ساجن پھر کوئی اقامہ ڈھونڈتے ہیں…؟
از، یاسر چٹھہ
آج کے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے کے آنے سے پہلی رات کو کسی انصاف مارکہ صابن بنانے والے کارکن کی دیوار پر عرض کیا تھا:
گزرے کل کی باتوں، اور انتہا درجے کے معزز جج صاحبان کی آبزرویشنز سے اس قدر پریشان نہ ہوئیے۔ آپ کے لیے رام بھلی کرے گا۔
__ جے آئی ٹی بنا لی جائے گی۔
__ کوئی نہ کوئی اقامہ ڈھونڈھ لیا جائے گا۔
__ جلد یا بَہ دیر۔
اگر آپ کو وطنِ عزیز میں رہنے، اور ٹیکس کے نظام سے آگہی یا واسطہ رہا ہے تو شاید علم اور تجربے میں آیا ہو گا:
ٹیکس نظام جلیبی جیسا مستقیم اور سیدھا سادا ہے۔ اِسی کے اوپر مزید مکھن کہ ٹیکس فائلنگ کا سافٹ ویئر اور entry fields ہاتھی کے دانت ہیں، ہاتھی کے دانت۔
یہ بڑے نصیب کے فیصلے کر لینے کا مکمل اختیار دیتا ہے۔
ہمارے یہاں کا ٹیکس ریٹرنز کا نظام اس قدر پیچیدہ ہے کہ آپ کسی کو کسی بھی وقت، ناکے والے پولیس اہل کاروں کی طرح، جب وہ کسی کو دَھر لینے پر ذہن بنا بیٹھے ہوں، دَھر سکتے ہیں۔ انھیں اس چیز پر بھی دو ایک دفعات مل جائیں گی کہ آٹا گوندھتے ہوئے ہِلتی کیوں ہو؟
ناکے والی پولیس سے کبھی واسطہ نہ پڑا ہو، اور راقم کی کہی پر یقین نہ بندھ رہا ہو، تو ایک کرم کیجیے: از ایک خود نوٹس لیجیے۔ برطانوی دور سے یادگار اپنی ملکی سزاؤں کی موٹی کتاب PPC کو کھول کر نظر اور دل کے سامنے رکھ لیجیے۔
رکھ لیا؟
اچھا!
چانن ہو جائے گا….۔
اب دیکھنا ذرا، پہلے سارا Z کی آواز اور S کی آواز کے فرق والا مواد اکٹھا کرنے کے عمل کے پیچھے کوئی legal passage and route اور authorisation نہیں تھی۔
اور پیارے دوستو، اور اس سے بھی پیارے حاسدو، اور اس سے بھی راج دلارے نظر انداز کرنے والو:
یہ کوئی چھوٹا جرم نہیں تھا۔
اس جرم کی بنیاد پر unauthorised surveillance کا کیس بنتا تھا، اور بد نیتی کی بنیاد پر دائر ریفرنس ab initio خارج ہونا چاہیے تھا۔
ابھی انگلیوں کو ایک دوسرے میں گُھسا کر کڑِک کڑِک کر لیجیے؛ کیوں کہ فلم تو ساری ہی دیکھنی ہے ناں!
دیکھیے ہی جاتے ہو تو یہ بھی دیکھیے کہ تفصیلی فیصلے میں کیا آتا ہے؟
البتہ کچھ کچھ تو مستقبل کا اندازہ، حال کی کوکھ سے دھواں دار انداز سے نکلتا دکھائی دیتا ہے۔
کیا کریں، اچھا کیسے سوچیں؟ کیا ہماری یادداشت اتنی بھی نحیف نہیں کہ اربابِ فیض آباد مجلس، اور کوئٹہ کمیشن کے سزاواروں کی عادتوں اور خصلتوں کو یَک سَر بھول جائیں؟
نہیں، ہم یوتھیا انڈیکس پر اس قدر بلند نہیں…۔
معذرت، نہیں!
تو اس جمعۃُ المبارک کو جو فیصلہ آیا ہے اس میں بھی بات وہی ہے، اور کچھ ایسی ہی ہے کہ
“سَر جی، ہُن ایہناں ڈِھلّا کیس ناں بنا کے لیاوَیا جے۔ asset recovery unit اور ان کے پیچھے انگریزی اور ہسپانوی زبان کا فرق نا جاننے والے ڈوگر کے پالَن ہار نوٹ کر لیں، اور بوائز کو کہیں کہ ذرا اور محنت۔”
ایک خواب گو کہ جس کو دیکھتے دیکھتے ہم کئی بار ماتھے پر پسینے کے قطرے لیے اٹھ پڑتے ہیں، اسی دعا کو دوبارہ سے پروردگار کے حضور، بَہ صورتِ دعا بعد از بِسیار ثناء، عرضی کرتے ہیں:
اے اللہ پاک، ہمیں اپنے ملک کو اپنا سا دیس کہنے کی توفیق عطا فرمائیے۔
یہ ہمیں اتنا سا خواب بھی نہیں دیکھنے دے رہے۔ وہ جو ہمیں سُلا سُلا کر خود جاگتے جاگتے جانے کیا سے کیا کرتے جاتے ہیں، اور باز نہیں آتے۔ ہم چین سے سوتے رہتے ہیں، بس کبھی کبھار بَھد خوابی سے پیشانی پر پسینہ لیے اٹھنے پر بھی کہا جاتا ہے سویے رہیے کہ آپ عوام کی نیند جاگنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے، ورنہ کالا کمرہ نمبر 101 آپ کو سلائے گا۔
یا اللہ، آپ کو اہم ترین بانئِ پاکستان، جناب جنرل گریسی کا واسطہ ہے…، اور ہمارے نیتِ دعا کو سن لیجیے، حرفِ دعا گو کہ تسلی بخش نہیں بھی تو…! آمین
رئیس امروہوی کچھ کہہ گئے ہیں، اور آپ بھی سنیے تو کیا کہہ گئے ہیں:
شاید اسے عشق بھی نہ سمجھے
جس کَرب میں عقل مبتلا ہے