عاطف علیم کے ناول گردباد پر ایک نظر
تنصرۂِ کتاب از، منیر فیاض
اچھا تخلیق کار کسی ایک اسلوب یا موضوع کا قیدی نہیں ہوتا۔ وہ اپنی تخلیقی واردات کو اپنے ارد گرد اور عالمی سطح پر ہونے والے تجربات کی روشنی میں گھما پھرا کے اور بدل بدل کے جانچتا اور دیکھتا رہتا ہے۔ عاطف علیم کا فنی سفر پچیس سال پر محیط ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ شمشان گھاٹ سِنہ 2000 میں شائع ہوا۔ شمشان گھاٹ کے افسانے ایک ایسے تخلیق کار کی نوید دیتے ہیں جو فنِ بیانیہ کے اسرار و رموز سے نہ صرف مکمل آگہی رکھتا ہے، بل کہ ان کے بر محل استعمال پر بھی قادر ہے۔
گزشتہ صدی کی آخری دَھائی تک اردو بیانیے میں ہونے والے تجربات نے باہم آمیزش سے ایسی اسلوبیات کو جنم دیا جو ایک طرف ان تجربات کا نچوڑ ہیں اور دوسری طرف نئے تجربات کے دَر بھی وا کرتے ہیں۔ شمشان گھاٹ کے افسانوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عاطف علیم روایتی اور جدید افسانہ نگاری کے اسالیب سے اِکتساب کرتے ہیں، مگر ان اسالیب کو اپنی تخلیقات میں کسی درجہ مبتدل اور ذاتی صورت میں صَرف کرتے ہیں۔
ایسا کرنے میں ہی تخلیق کار کی بہتری ہے۔ خود پر کسی ایک اسلوب، یا نظریے کی چھاپ لگوا لینے سے حتی الاِمکان گریز ہی تخلیق کار کی بقائے ذاتی کا ضامن ہوتا ہے۔
بیانیہ نگار کو دیگر اصنافِ ادب کا بھی تجربہ ہونا چاہیے اور یہ تجربہ عاطف علیم کے پاس افسانوی بیانیے کے تجربے سے زیادہ ہے۔ وہ مختلف اخبارات سے بِہ طورِ کالم نگار وابستہ رہے اور کئی سال ٹی وی کے لیے اردو اور پنجابی ڈرامے لکھتے رہے۔
انھوں نے تخلیق کا ابتدائی اظہار شعر میں کیا۔ بہت عرصہ انھوں نے شعر گوئی کو ترک کیے رکھا، مگر کچھ سال قبل ان کی توجہ بارِ دگر شاعری کی طرف مبذول ہوئی تو اُنھوں نے کچھ پنجابی نظمیں تخلیق کر ڈالیں۔
اس کے علاوہ اُنھیں فنِّ ترجمہ کاری کا بھی عمیق تجربہ حاصل ہے۔ ان سب تجربات کا حاصل ان کے ناولوں مشک پوری کی ملکہ اور گردباد کے خوب صورت بیانیوں میں نظر آتا ہے۔
دیگر تناظر ملاحظہ کیجیے:
گرد باد ایک مزاحمتی ناول از، سبین علی
ناول گرد باد کا ایک مختصر جائزہ تبصرۂِ کتاب از، نعیم بیگ
عاطف علیم کی کہانی کاری از، یاسر چٹھہ
مشک پوری کی ملکہ کے باب میں چند تاثرات از، محمد عاطف علیم
مشک پوری کی ملکہ کی کہانی شمالی علاقہ جات میں موجود گلیات کے خوب صورت جنگلات کے منظر نامے میں بنتی ہے۔ دیکھنے میں یہ سیدھی سادی شکار کی کہانی ہے، مگر اپنے درُوں ارد گرد کی زندگی میں بکھرے ہوئے بہت سے انسانی مسائل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
وفاقی دارالحکومت سے صرف پچاس کلومیٹر کی دوری پر واقع اس ناولا کے لوکیل اور واقعات سے ہمیں جس طرزِ فکر اور بود و باش کا علم ہوتا ہے وہ کہیں سے بھی اکیسویں صدی کا نہیں لگتا۔ ناول نگار کا بنیادی مسئلہ یہاں سہولیات کی فراہمی، یا پست درجے کی زندگی سے زیادہ فکری پس ماندگی ہے۔
کچھ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ فکری پس ماندگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی انسانیت کی تذلیل جو اہلِ مذہب، اہلِ معیشت اور اہلِ سیاست کی باہمی گَٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے، عاطف علیم کے تمام بیانیوں کا مرکزہ ہے۔ یہ مرکزہ گردباد میں واضح تر اور قوی تر ہو کے نظر آتا ہے۔
گردباد کی کہانی پنجاب کے شہری اور دیہاتی منظر نامے میں بنتی ہے۔ کہانی کا آغاز کوٹ ہرا نامی دیہہ کا ہے جب کہ بعد ازاں کردار لاہور آ جاتے ہیں۔ گردباد میں ہونے والے واقعات کا زمانہ اَسّی کی دَھائی اور اس کے کچھ قبل و بعد کا زمانہ ہے۔
یہ دور ہماری تاریخ میں ایک epoch کی حیثیت کا حامل ہے۔ اس دَھائی میں اجتماعی شعائر اور طرزِ فکر میں ایسی بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں جن کے اثرات آج تک نہ صرف قائم ہیں، بَل کہ پہلے سے زیادہ شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔
گردباد کے کرداروں کے ذاتی مسائل کے پسِ منظر میں اجتماعی مسائل ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
اس ناول کے اکثر کردار انفعالیت زدہ ہیں۔ ان کے ہاں کسی بھی قسم کے ارادے اور عمل کی قوت کا شدید ترین فقدان ہے۔ ان کے منفعل ہونے میں روایتی بیانیے کے بر عکس جبرِ تقدیر اور نا دیدہ طاقتوں کی کارِ فرمائی نہیں، بَل کہ ان دیدہ معاشرتی طاقتوں کا ہاتھ ہے جو طاقت کی رسہ کشی میں کم زور کا استحصال کرتی چلی آئی ہیں۔
کسی معاشرے کو کم زور کرنے کے لیے سب سے کار آمد حربہ اس میں موجود انسانی اقدار کو کم زور کرنا ہے۔ استحصال اور استعمار کی تہذیب اپنی من چاہی فصل اگانے کے لیے یہی زمین بنا کے تخم ریزی کرتی ہے۔ گردباد کا بنیادی مسئلہ دورِ جبر میں انسانی اقدار کا زوال اور اس کے نتیجے میں متشکل ہونے والا معاشرہ ہے، جو فرد سے اس کی شناخت تک چھین لیتا ہے۔
اس سارے عمل کے نتیجے میں معاشرہ بے سَمتی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ بات استعماری طاقتوں کے حق میں جاتی ہے کیوں کہ کسی بھی معاشرے میں موجود مادی اقدار در اصل اپنے پاؤں انسانی اقدار پر ہی جماتے ہیں۔ انسانی اقدار کی کم زوری مادی اقدار اور وسائل کے ارتکاز میں آسانی پیدا کرتی ہے۔
گردباد کا مرکزی کردار موجو موچی کا ہے۔ موجو، کوٹ ہرا نامی گاؤں کا رہنے والا ہے۔ یہ گاؤں اپنے نقشے اور طرزِ بود و باش میں پنجاب کے اکثر دیہات سے مماثل ہے۔ اس کے مسائل بھی وہی ہیں جو اَسّی کی دَھائی سے لے کر آج تک بھی پنجاب کے کسی گاؤں کے ہو سکتے ہیں۔
اسی پسِ منظر میں موجو موچی کا بیانیہ جنم لیتا ہے۔ در اصل موجو موچی کی کہانی ہی اس گاؤں کو انفرادی شناخت دیتی ہے۔ موجو موچی ایک ایسا کردار ہے، جو ساری زندگی محرومیوں اور نا کامیوں کا شکار رہا ہے۔
ان محرومیوں اور نا کامیوں نے اس سے زندہ رہنے کی سکت اور جذبہ چھین لیا ہے۔ اس کی زندگی کے صرف دو سہارے ہیں: ایک اس کا بیٹا حمیدا، اور دوسرا اس کا کَفش سازی کا فن۔
موجو ایک فن کار ہے۔ وہ اپنے فن کو محض کسبِ رزق کی غرض سے بِہ رُوئے کار نہیں لاتا، بَل کہ اپنی تخلیق کو جمالیاتی حوالوں اور پیمانوں پر دیکھتا اور جانچتا ہے۔
موجو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے اپنے اندر کے اس فن کار کو سنبھالے رکھنے میں نا کام ہو جاتا ہے۔ اس کے یہ دونوں سہارے رفتہ رفتہ اس سے چھن جاتے ہیں اور اس کی زندگی بالآخر لایعنیت کا شکار ہو جاتی ہے۔
موجو اس خطے کا absurd hero بنتا ہے۔ وہ ارادے اور عمل کی قوت سے یک سر عاری ہے؛ کامیو کے اجنبی کی طرح۔ مگر اس کا ایسا ہونا کسی نو آبادیاتی یا سامراجی طاقت، یا عالمی جنگ کی پیداوار نہیں، بَل کہ وہ معاشرتی نا ہمواری ہے جو تیسری دنیا بالخصوص مشرقی معاشروں میں طاقت اور وسائل کے کچھ ہاتھوں میں ارتکاز کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
منیر فیاض کی ایک روزن پر دیگر تحریریں یہاں ملاحظہ کیجیے:
چوہدری فلانا اور ملک ڈھمکانا طاقت کے اسی ارتکاز کی علامت ہیں جن کی باہمی آویزش موجو کی دیہی زندگی کے ذلت آمیز خاتمے اور شہر کو ہجرت کا سبب بنتی ہے۔
اکیسویں صدی کے عالمی گاؤں میں یہ علامت وسیع تر صورت میں پہلی اور تیسری دنیا کے حالیہ تعلقات کا استعارہ بنتی ہیں۔ موجو، حمیدا، شمو کنجری، چراغا اور گم صُم عورت تیسری دنیا کے ایسے کردار ہیں جو تِہرے، چوہرے استحصالی نظام کا حصہ ہیں جہاں تیسری دنیا کی آمریت، پھر اس دنیا کے اندر موجود پس ماندہ دیہات، پھر ان دیہات میں بھی اسفل ترین ذات ہونے کی وجہ سے اپنی مرضی سے زندہ رہنے کے حق سے محروم ہیں۔
گاؤں کا موجو جب سامنے آتا ہے تو اِسے ایک اور طرح کے ماحول کا سامنا ہوتا ہے، جہاں گاؤں کے بر عکس استحصال بَہ راہِ راست نہیں، بَل کہ بالواسطہ ہوتا ہے۔ شہر میں طبقات زیادہ ہوتے ہیں۔ گاؤں میں استحصال فرد واحد یا محدود افراد کا استحقاق ہوتا ہے جب کہ شہر میں طاقت کے میں شراکت کے بَل پر بہت سے گروہ اس میں چھوٹے بڑے حصہ دار بن جاتے ہیں۔
شہر سے اس کی آگاہی کا وسیلہ چراغا بنتا ہے جو خود گاؤں میں اپنے نو عمری کے خوابوں کے ساتھ بچی کھچی انسانیت اور شناخت بھی دفن کر آیا تھا۔ وہ اپنے اندر کے نقالی کرنے والے فن کار کی قیمت لگوا کر چراغے سے مولوی حضرت چراغ دین بن چکا تھا۔ اس نے اپنی بقاء کے لیے معاشرے کی مرضی کا کردار چن لیا تھا۔ وہ اپنے ارادے اور عمل کی قوت کو اپنے ہدایت کاروں کے تفویض کر چکا تھا۔
چراغ دین، شہری زندگی کا کَل پُرزہ بن چکا تھا اور شہر کی میکانیکی زندگی کے باقی کَل پرزوں کی طرح اپنی ساخت اور عمل سے واقف تھا۔ وہ مذہبی تنظیم کا آلۂِ کار تھا اور فرقہ ورانہ فسادات کا ماہر تھا۔ وہ معاشرے کا نبض شناس تھا۔ اس نے اپنے دفاع کا میکانِزم اور ایکالوجی دریافت کر لی تھیں۔
یہ کردار ہمیں معاشرے کے پسِ پردہ موجود ان طاقتوں سے رُو شناس کرواتا ہے جو معاشرے کی ساخت اور حرکت کو اپنے مطابق ڈھالتے ہیں۔ یہ طاقتیں مادی بھی ہیں، اور فکری بھی۔ سیاست دان اور مولوی بھی ہے اور سرمایہ دار بھی۔
چراغا، موجو کا the other ہے۔ چراغے نے بھی موجو کی طرح اپنے فن کی موت دیکھی تھی۔ ایسا ہی ایک فن کار شمو کنجری ہے، جو اس ناول کا دوسرا مرکزہ ہے۔
شمو کنجری رقاصہ بننے کے شوق میں گاؤں کے ایک چودھری کی رکھیل بن کر رہ جاتی ہے۔ چودھری خاندانی دباؤ میں اس کا نکاح موجو موچی سے کروا دیتا ہے۔
شمو ناول کا خاموش کردار ہے۔ شمو کنجری، موجو موچی کا the other بھی ہے۔ ناول کا کافی حصہ اس کی focalisation میں بھی ہے۔ ان کی محرومیاں مشترک ہیں، ان پر ظلم مشترک ہے اور ظلم کرنے والا بھی مشترک۔
یہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ ان پر الزام بھی ایک جیسا لگتا ہے اور سزا بھی ایک ہی طرح کی ملتی ہے۔
شاید یہ مماثل ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو repel کرتے رہتے ہیں۔ جب اس کا رقاصہ بننے کا خواب دوسری مرتبہ چکنا چُور ہوتا ہے تو وہ صرف انتقام کو اپنی زندگی کا واحد مقصد بنا لیتی ہے۔ اس نے بھی موجو اور چراغے کی طرح اپنے اندر کیے فن کار کی موت دیکھی ہوتی ہے۔
بیانیے کی زِیریں رَو میں فن کی موت کا نوحہ موجود ہے۔ یہ ایک ایسے معاشرے کا چلن ہے جو فن کے جمالیاتی اور روحانی پہلووں کی بَہ جائے اس کے مادی اور افادی پہلووں کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ فن کا زوال اور بالٓاخر موت ہوتا ہے۔ یہ موت معاشرے کی اجتماعی بے حسی پر منتج ہوتی ہے۔ اس بے حسی کا ایک ثمر انتہا پسندی ہوتا ہے۔
یہ کہانی آفاقی ہے۔ شمو پر چلنے والے مقدمے کی بِپتا ہمیں نظامِ کار اور معاشرے کے دیگر کم زور پہلووں سے آشنا کرواتی ہے۔ گم صُم عورت اور حمیدا بھی اسی کم زور معاشرے کے مجہول فطرت کردار ہیں اور بیانیے کی کچھ focalisation ان کی بھی ہے۔
عاطف علیم کہتے ہیں کہ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی دنیا سے وہ خوش نہیں۔ وہ اپنے فن کے ذریعے اسے اَز سرِ نو تخلیق کرتے ہیں تا کِہ اس میں رہ سکیں۔ گردباد کی تخلیق کا بنیادی محرک بھی یہی جذبہ لگتا ہے۔ ان کی نثر رواں اور سہل اور فقرے میں الفاظ کی بندش متناسب ہے۔
عاطف علیم نے اپنے فن سے حقیقی زندگی کا ایسا جمالیاتی اظہار کیا ہے جس نے مسائل کی تفہیم کو عام قاری کے لیے بھی بہت آسان کر دیا ہے۔ ادب کا مقصد ہی زندگی کو خالص انسانی آنکھ سے دکھانا ہے، کسی نظریے، عقیدے، مسلک یا تعصب کی چھاپ کے بَغیر، تا کِہ انسانی زندگی کے مسائل کو حِسّی اور فکری سطح پر دیکھا جا سکے۔
گردباد کا ما قبل کم ہے، مرگ ما بعد آج تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ناول ہمیں اپنے زندہ مسائل سے رُو شناس کرواتا ہے اور ان کے اسباب کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ ان مسائل کا حل کرنا کچھ اور اداروں کی ذمے داری ہے۔ ادب اور ادیب اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔
گردباد کے ذریعے عاطف علیم نے ایک بہت بڑا اجتماعی قرض چکا دیا۔ آمریت کے دورِ جبر کے دوران معاشرے میں ظلم کے ذریعے کی جانے والی منفی تبدیلی کے خلاف ادبی سطح پر آواز بلند کرنے کا قرض۔
اُنھوں نے گنتی کے چند کرداروں کی مدد سے پورے معاشرے کو اندر باہر سے کھنگال کے رکھ دیا ہے، اور کردار بھی ایسے جو عام عوام سے روز مرّہ کے ہیں؛ جنھیں ہم اگر دیکھ بھی لیں تو ان کے بارے میں کچھ سوچنا پسند نہیں کرتے۔
یہ عاطف علیم کا ہی فنِ بیانیہ کاری ہے کہ ایسے کرداروں کی نفسیاتی، معاشرتی، جذباتی اور فکری سطح نہ صرف بنائی، بل کہ اس سطح کو اتنا مستحکم تخلیق کیا کہ سارا معاشرہ ان کی نظروں سے دکھائی دینے لگتا ہے۔
ان کے فن کی پختگی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ وہ ایک ہی واقعے کو جب کردار کی focalisation بدل کے بتاتے ہیں تو سارا واقعہ نیا لگنے لگتا ہے۔
ایسا کرتے ہوئے میں عاطف علیم نے یہ دکھایا ہے کہ روایتی پلاٹ میں ابھی بہت امکانات موجود ہیں جنھیں کشادہ نظری کے ساتھ دریافت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ فن مغرب میں گارسیا مارکیز اور میلان کنڈیرا جیسے ادیبوں کے ہاں تو ملتا ہے، مگر اردو کے بیش تر ادیب ابھی تک یک رخے بیانیے کی روایت ہی کے اسیر ہیں۔
اس ناول میں بہت سی قابلِ ستائش باتیں ہیں جن میں سے ایک یہ بات بہت اہم ہے کہ اگر آپ کوئی فقرہ تبدیل، یا کم کرنا چاہیں تو آپ کو اچھی خاصی مشکل پیش آئے گی۔
عاطف علیم کسی مَشّاق شاعر کی طرح کفایتِ لفظی کے ساتھ ایک ایک لفظ کا انتخاب کرتے ہین اور جہاں بات دو الفاظ میں ہو رہی ہو وہاں تیسرا لفظ نہیں لکھتے، اور اسی طرح جہاں بات کہے بَغیر سمجھ آ رہی ہو وہاں وہ الفاظ ضائع کرتے ہی نہیں۔
اس ضمن میں ان کے کرداروں کا nomenclature بھی بہت اہم ہے۔ وہ اپنے کرداروں کے نام ہی اس طریقے سے رکھتے ہیں کہ ان کی شخصیت ساری کی ساری سمجھ میں آ جائے، اور ان کے تعارف کے لیے الفاظ کا بے جا اسراف نہ کرنا پڑے۔ گم صُم عورت، چودھری فلانا، ملک ڈھمکانا۔
ایسا کرنے سے ایک اور پہلو یہ پیدا ہوا کہ یہ کردار انفرادی نہیں رہے، بل کہ عمومی نوعیت اختیار کر گئے ہیں۔ اسی طرح کوٹ ہرا بھی کوئی بھی گاؤں ہو سکتا ہے۔ مرکزی کرداروں کے ناموں میں بھی یہی اِلتزام برتا گیا ہے کہ وہ عمومی نوعیت کے نام ہوں۔
ان کی تحریر polyphonic انداز کے قریب ہے جس میں روایتی بیانیے کے اندر نفسیاتی بیانیہ ہم آہنگ ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ شاعری، تاریخ، جغرافیہ، سیاسیات وغیرہ کا امتزاج بھی ہے۔ کچھ جگہوں پر ہمیں جادوئی حقیقت نگاری کے اثرات بھی نظر آتے ہیں جیسا کہ نیلی چڑیا والے منظر میں۔
مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم عاطف علیم پر پہلے سے موجود کسی فنی، فکری نظریے کی مہر نہیں لگا سکتے۔ ان کا فن سراسر اپنا ہے۔
مجموعی طور پر اس ناول میں انسان اور انسانیت کا دکھ ہے اور اس دکھ کی تہہ اندر تہہ دَبازت ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت آج بھی نظر نہیں آتی۔
عاطف علیم کا مسئلہ ہی انسان ہے۔ وہ انسان جو ازلوں کا بھوکا ننگا، مفلوک الحال ہے، اور اس کی بھوک اور ننگ و افلاس کا ذمے دار خدا نہیں، بَل کہ اس کے اپنے جیسے انسان ہیں۔