پاکستانی ایلیٹ؟

Naseer Ahmed
نصیر احمد

پاکستانی ایلیٹ؟

از، نصیر احمد 

یوں ہوا کہ ایک دفعہ نتھیا گلی سے مشک پوری جا رہے تھے۔ رستے میں پہاڑی ایک جگہ سے کافی steep یعنی کھڑی اونچی ہو جاتی ہے۔ وہاں پہنچے تو دیکھتے ہیں ایک موٹے تازے سے انکل خچر پر سوار بڑھے چلے جا رہے ہیں۔

خچر بے چارے کا برا حال تھا۔ بس ہانپتا کانپتا، لڑکھڑاتا، ڈگ مگاتا، ٹھٹھکتا، پھسلتا یہ موٹا تازہ سا ڈولا اٹھائے بڑھنے کی نا کام سعی کر رہا تھا۔

اور موٹے تازے محمل نشین ساربان جو کہ ایک غریب سا لڑکا تھا اسے خچر سے مزید تندی کی ہدایات دے رہے تھے۔

وہ لڑکا بے چارہ لاکھ وُوش وُوش کرتا لیکن مصیبت ہی اتنی بھاری تھی کہ خچر کے لیے پیش رفت بہت کٹھن تھی۔

تو اس منظر کی بے رحمی ہمارے ساتھ جو بچے تھے انھیں نہیں بھائی اور اونچی  اونچی باتیں ہونے لگیں۔

بے چارہ خچر… انسدادِ بے رحمی کے کچھ قانون بھی ہوتے ہیں۔ کچھ تو خیال کر۔

اب یاد نہیں آ رہا، لیکن شاید یہ مسلسل تنقید سن کر وہ موٹے تازے انکل خچر سے اتر آئے تھے۔


ملاحظہ کیجیے:

خوش حالی اور شہریت از، نصیر احمد

رہ نماؤں کے بارے مثبت رویہ  از، نصیر احمد

فرد، پاکستانی معاشرہ اور ہماری ریاست از، ڈاکٹر افتخار بیگ


اتر ہی آئے ہوں گے، یاد داشت کچھ گڑبڑا جائے تو قیاس اچھا ہی رکھنا چاہیے کہ انسانیت پر وشواس بنا رہتا ہے۔

لیکن ادھر مقتدر ہیں، عدلیہ ہے، سیاست دان ہیں، صحافی ہیں، افسر ہیں، عوام کو ریلیف دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کو بڑھاوے دینے والوں کی کمی بھی نہیں ہے۔

بل کہ ہر نئے چابک سوار کو عوام خود بڑھاوے دینے لگتے ہیں۔ روکنے والا کوئی نہیں۔ اب بس فردا ہی ہے اگر امروز جیسا ہے تو سادھووں کی جیت ہوئی، اپنی ہار ہوئی۔

ہماری ثقافتی زندگی فرد کو ایسے مناظر کے گٹھڑ کے گٹھڑ فراہم کرتی ہے۔

لیکن فرد فرد بننے کے لیے تیار نہیں۔ فرد نہیں بنے گا تو شہری کیسے بنے گا اور شہری نہیں بنے گا تو بار کیسے کم ہوں گے؟

عالم لائق فائق دنیا کب فتح کرنے دیتا ہے؟ ہمارے ملک کے ارد گرد تو اتنے لائق فائق بھی نہیں ہیں لیکن فتح انھوں نے بھی کچھ نہیں کرنے دیا۔ بل کہ بہت کچھ چھین لیا۔

وزرائے اعظم اور مارشل لاء ایڈمینسٹریٹر اور کَٹھ پتلیاں آتی جاتی رہتی ہیں۔ ہر آمد کے دوش پر فردوس بھی جلوہ افروز ہوتی ہے۔ لیکن دوش سے اتر کر معاشرتی حقیقت نہیں بن پاتی۔

محنت کے بَغیر عظمت کہاں ملتی ہے؟ اور مکھن سے کاریں بھی نہیں چلتیں۔ بس چند سامان تعیش اور بے معنی نعرے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بے معنی کرتے رہتے ہیں۔

کسی بھی قیمت پر جمع بندی کی کوششوں کے ذریعے عظمت کے حصول کی مسلسل کوششیں جاری رہتی ہیں مگر اس سے افراد کی صلاحیتوں میں اضافہ نہیں ہوتا۔

ایک تالاب میں اگر پورے گاؤں کی بھینسیں جمع کر لیں توہ آئن سٹائن تو نہیں ہو جائیں گی۔ اگر یہ عمل روزانہ با قاعدہ جوگی سے بھینسوں پر ہاتھ پھروا کر کریں، تب بھی وہ آئن سٹائن تو کیا ایک اچھا ٹریفک کانسٹیبل بھی نہیں بن پائیں گی۔

جوگی جی پر بھروسا نہیں تو مرشد پاک لے آئیں، ان سے دم درود کروا لیں۔ یہ بھینسیں بس عظیم کیچڑ میں ہی پھسلتی گرتی عظیم کیچڑ میں گڑھے بناتی رہیں گی۔

تو افراد کو تعلیم، حقوق، آزادی اور مہارتوں کی دشا دکھانی ہو گی۔ اور اس کے ارد گرد محنت کے معیار کرنے پڑیں گے۔ تب سالوں بعد شاید عظمت کے بارے میں ذرا سوچنا مناسب لگے گا۔

ابھی تو elite عوام کو کچھ دے نہیں رہے اور عوام ایک دوسرے کو کچھ دے نہیں رہے اور فرد لمبے سے ڈنڈے کا گھوڑا سا بنا کر، چھوٹے سے ڈنڈوں کی تلوار بنا کہ سلیمان شاہ اوغلو ارظغرل بنا ہوا ہے۔

اس سے پہلے بدر بن مغیرہ اور طاہر بن یوسف تھے لیکن ملکۂِ ممالک کے آنسو رات کو اس وقت بھی رخساروں سے بہتے رہتے تھے، آج بھی وہی حال ہے۔

لیکن انفرادیت، شہریت، جمہوریت، آزادی اور فطانت کے سفر کے لیے حقوق ضروری ہیں اور یہ ضروری حقوق دینے کے لیے اس بے رحمی سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے جو عوام کو ریلیف دینے کے لیے تیار ہی نہیں۔

اور وہ بے رحمی جیسے قذافی خطبہ دیتے تھے کہ دار دار، بیت بیت، شبر شبر اور زنقہ زنقہ موجود ہے۔ اور اس میں کمی لانے کے لیے ابتدائی اقدامات elite نے ہی کرنے ہوتے ہیں۔ نہیں کرتے تو عہدوں کی بڑائی اور محلات کی لمبائی کام کی نے و نفی و نہ و نیست فطرت کو کب چھپا سکتی ہے؟

افادیت پسند تو یہی سوال پوچھیں گے؟ فائدہ کیا؟

جس شجر ظلمت کی یہ بے رحمی حفاظت کرتی ہے، اس میں جیرمی بینٹ-ھَم کے افادی پیمانے کی چھوٹی خوشیاں بھی موجود نہیں ہیں بڑے بڑے غم ہی ہیں اور مل کی اعلیٰ مسرتیں بھی موجود نہیں۔

یعنی نہ خنزیر نہ سقراط

فائدہ کیا؟

چڑھنے کو خچر تو ہیں، لیکن ہانپتے کانپتے، ٹھٹھکتے پھسلتے، لڑکھڑاتے ڈگماتے خچر…

ارے یہ تو سسک بلک بھی رہے ہیں…

… غور سے دیکھو تو اپنے جیسے انسان ہی ہیں

اس لیے اتر آئیں اور وہ پہاڑی طے کر لیں گے۔