اپنے جیسے گاؤں کے سکول کے نصاب اور ہم نصاب
از، یاسر چٹھہ
ہماری آنکھ بھی بہت ساری طرح کی آنکھوں کے ساتھ ہی وسطی پنجاب کے ایک گاؤں میں کھلی۔ یہ ایسا گاؤں تھا کہ جہاں کے سکول کی چھت نیلا آسمان تھا، اور اس کی چار دیواری افق کے اس پار تک تھی جہاں مٹیالا ہوتا آسمان دھرتی سے گلے مِل رہا ہوتا تھا۔
ہمارے سکول کے اساتذہ یوں تو کئی رنگوں اور مختلف ڈھنگوں کے تھے، لیکن اس تنوُّع میں بھی ایک طرح یکتائی دِکھنے سے باز نہ آتی تھی۔ وہ اصحاب اتنے توانا ضرور تھے کہ ساتھ والے گاؤں سے اپنی سائیکل کے پیڈل مار کر سکول تک پہنچ آتے تھے۔
تحقیق بہت ہوئی، لیکن پتا نہ چل سکا کہ یہ اساتذہ اپنے اپنے گھروں سے ناشتہ جلدی میں نہیں کر کے آتے تھے، یا پھر “حلقۂِ پوری گھر والیاں” میں، بَہ امرِ مجبوری نرم تھے، اور اسی پیار کے تسلط میں خالی پیٹ گھر سے آجاتے تھے۔
جیسا کہ راقم نے عرض کیا کہ تحقیق بہت ہوئی لیکن کوئی حتمی رائے قائم نا ہو سکی: گوگل تھا نہیں، فیس بک نے بھی ابھی مُنھ ہاتھ نہیں دھویا تھا، ٹویٹر بھی تو اس سمے تک نہیں چہکا تھا، نہ ہی کسی موبائل فون سے فلسفیانہ اور ہر گُتھی کھول دینے والے متنی پیغاموں کا سیلِ رواں آنا شروع ہوا تھا۔ مقدس کتابیں بھی تو خاموش رہیں اور مجتہد بھی تو انگشت بَہ دنداں ہی رہے۔
اس “نان-نالج اِکانومی” میں یہ راز حالات کی مٹھی میں بند اپنی سانسوں کو تھامے ساون بھادوں بُھگتتا رہا۔ چُوں کہ وقت نے اپنے گلے میں اٹکا راز نہ اُگلا، اس لیے ہم، یعنی راقم اور راقم کے ہم جماعتی اس سربستہ راز کے اسباب سے اپنی بانھیں چھڑا کے اس کے نتائج و عواقب کی پینگیں ہی جھولتے رہے۔
ہم سارے طالبانِ علم سردیوں کی چھت و دیوار کی پا بندیوں سے مادر پدر آزاد ٹھنڈ سے ڈرے مُنھ پہ صرف گیلا ہاتھ ہی مار کے، پر سر کو سرسوں کے تیل سے “چوپڑ” کے سکول پہنچتے۔ سکول پہنچتے ہی کوئی استاد جی ہماری صبح کی لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری کرانے کہ بعد کبھی کسی ایک طالبِ علم کو اور کبھی دوسرے طالبِ علم پر ناشتے کی فرمائش ڈال دیتے۔
اس فرمائش میں ہی ان کے متنوُّع مزاجوں کی ایکتا کا احساس تھا۔ اس ایکتا کے عملی اظہار کے ما بعد، طالبانِ علم میں سے، جس کا ناشتہ فراہم کرنے کا قرعہ نکلتا، وہ اسے اپنے بختوں کی بلندی جانتا۔
آج اس طالبِ علم کے گھر کے گھی اور مکھن کے پراٹھے، چاٹی کی لسّی اور گھر کی مرغیوں کی اپنی افزائشِ نسل کے فطری خواب کی نیت سے دیے گئے دیسی انڈوں کا آملیٹ میں ڈھل کر، خدمتِ استاد میں حاضر ہونا اب اس طالبِ علم کا اگلی جماعت میں ترقی کا ضروری وظیفہ بن جاتا۔
متعلقہ تحریریں:
ہم بچے نجی اسکولوں کے لیے ہی تو پیدا کرتے ہیں از، عثمان جامعی
پرائیویٹ سکولوں کا کار و بار اور تعلیمی خلفشار از، زاہد یعقوب عامر
ہمارے قاری، جی ہاں آپ ہی کو کہہ رہا ہیں، ہمارے محترم قاری، آپ اپنی شہری عقل کے احساس میں کُپّا ہو کر اس میزبان طالب علم کو چھوٹا مت مانیے، اور منطقی نتیجے کے طور اسے بچہ ہر گز نا جانیے گا۔
در حقیقت وہ اپنے درخشاں مستقبل کو پانے کی بابت بڑا عملیت پسند، منطقی اور اپنے تئیں اہلِ نظر و فکر ہوتا تھا!
بھلا کیسے؟
اس لیے کہ وہی استاد امتحانی پرچہ نویس، وہی نگران، وہی ممتحن جو ہوتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح پچھلے دنوں کے جمہوری دور کے وقفے کے دوران ہمارے سیاست دانوں کے لیے عدالتِ عظمیٰ کا کوئی “فُل کورٹ بنچ” اور اس کے ہاتھ میں “آئین کی بنیادی ساخت” کا مور کا پنکھ۔ اس مور کا پنکھ جس کی ہزاروں لاکھوں آنکھیں ہوں اور ظاہر ہے اتنے ہی منھ بھی!
اور بات صرف ناشتے تک ہی محدود نا رہتی۔ بل کہ “آدھی چھٹی”، جسے “تفریحی وقفے” کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا، اس دورانیے تک چائے کی طلب بھی تو ہو جاتی تھی اساتذہ کرام کو۔ اس تفریحی وقفے کے لیے ایک نئے میزبان طالبِ علم کا قُرعۂِ سعادت نکالا جاتا۔
بچے بھاگتے بھاگتے گھر جاتے کہ آخر کچھ کرنے کو تو ملا کہ صبح کے آپس میں باتیں کر کر کے اور مانیٹر سے ڈر ڈر کے بھی تو بے زار ہو چکے تھے۔
جس بچے پہ میزبانی کا ہما بٹھایا جاتا وہ ایک عجیب سے اندازِ بے زبانی سے اس دن اپنے آپ کو خطّے کا سپر پاور سمجھنا شروع کر دیتا۔ وہ اس نو آمدہ، بل کہ اچانک آمدہ مانیٹری سپر پاوری کی دست اندازی سے کم از کم اس دن محفوظ ہو جاتا۔
زیادہ تر بچوں کے گھر والے کچھ اپنے دیہاتی و روایتی زمین دارانہ رکھ رکھاؤ اور کچھ عام احساسِ مُروّت میں اس استادی “درویشانہ” تقاضے کو پورا کرتے جاتے لیکن بچوں کی مائیں جن کے کندھوں پہ ان ناز برداریوں کا اہتمام کرنے کی ذمے داری ہوتی تھی وہ ضرور ایک آدھ صلوات ان اساتذہ کے شکمِ بے پیندہ کی نظر کرتیں۔
بہ ہر حال اس کہانی کے سب کردار کہیں نا کہیں اس روز روز اور دن میں کئی بار کی جبری میزبانی سے لدے پھندے ان اساتذہ کے متعلق دل ہی دل میں ایک رائے ضرور بناتے جاتے۔
ان سب خیالوں کے با وُجود ان اساتذہ کی شکم پروری ہوتی رہی اور جیسا کہ بھرے پیٹوں کے متعلق کہا جاتا ہے__ اور در حقیقت ایسا ہوتا بھی رہا__ ان کے حاملین میں نازک خیال اور سوچیں کم ہی جنم لے پائیں، یا عمل میں ظہور پذیر نا ہوئیں۔ ڈپٹی نذیر احمد کے بَہ طورِ استانی کردار اصغری کی خود داری کو وہ محض ایک کتابی اور دنیا سے دور کا خیالی پلاؤ ہی سمجھتے رہے۔
پیٹ پوجا کے علاوہ طالبانِ علم سے جسمانی خدمات بھی مستعار لی جاتیں۔ ان خدمات میں استاد جی کی سائیکل کو چمکانا ایک سعادت ہوتی تھی، اور یہ سعادت ہم طالب علموں واسطے اس لیے بھی اہم ہوتی تھی کہ جُوں ہی سائیکل کو صاف کرنے اور چمکانے کا کام پایۂِ تکمیل کو پہنچتا تو ہماری “پوری چھٹی” کا وقت ہوجاتا۔ گویا سائیکل پہ پڑی گرد کی صفائی ہی ہمارا بیٹری اور بَہ غیر چابی کا گھڑیال تھا۔
ایک چیز البتہ اس تقسیمِ کار میں ہمیشہ بڑی واضح رہی کہ سائیکل کی صفائی کا فریضہ ہمیشہ انھی بچوں کو سونپا جاتا جن کا ناشتہ اور گھر سے آئی “آدھی چھٹی” کے وقت کی چائے اس وقت کی پنجاب فوڈ اتھارٹی کے مسلمہ معیاروں کے ان پڑھے اور ان لکھے اصولوں کے کندھوں تک بھی نا پہنچتے تھے، یا وہ ایسے طالبانِ علم ہوتے جن کی غربت کی وجہ سے ان سے ناشتے اور چائے کی توقع باندھنا ایک غیر منطقی اور غیر حقیقت پسندانہ خیال ہوتا۔ گویا ایں سعادت بزور بازو است کا بھی بھر پُور اہتمام تھا۔
ان ناشتوں، کھانوں اور چائے کے نصابوں اور عملی امتحانوں والے سکول میں جتنے درجے موجود تھے، وہ تو ہم طالبانِ علم پاس کرتے گئے لیکن بکرے کی ماں کی خیر ہمیشہ کی طرح زیادہ دیر تک نہ برقرار رہ سکی۔
جب اس راقمِ زبان دراز کے ہم جَولی شہر میں پانچویں جماعت کا بورڈ کا امتحان دینے گئے تو پتا چلا کہ سارے امتحانوں کے دریا دیسی انڈوں کے آملیٹوں اور دودھ پَتیوں کی کشتیوں سے پار نہیں ہوتے۔ ہمارے بہت سے ہم جماعت، کسی سمندر کو چھوڑیں، اسی دریا میں مچلتے سونامی امتحان کی لہروں ہی میں غوطے کھا کے اپنے سکول میں روا حالات کے collateral damage کا لقمہ بن گئے۔
ان کی بعد کی کوششیں پاکستان کی ٹیم کی سنہ 92 الست ورلڈ کپ کرکٹ میں ایک نیازی نیازی اور بنانے کی سی ہی رہیں۔
اور اس نصاب اور حالات کے اعزازی غازی اور شہید آج کل زیادہ تر اپنے کھیتوں میں ٹریکٹر چلاتے ہیں یا وزارت صحت حکومتِ پاکستان کی سگریٹ کی ڈبیوں پر مُنھ کے سرطان سے کی گئی خبر داریوں سے بے خبر سگریٹ کی “ویلیو ایڈیشن” کر کے افغانستان کی پوست کی لہلہاتی فصلوں کے “پکے صارف” ہیں۔
میرے والد صاحب پتا نہیں کیسے مناسب حد تک زمین و جائیداد کے مالک ہونے کے با وُجود کسی زمانے میں کچھ کچھ پڑھ لکھ گئے تھے۔ حالاں کہ تعلیم تو جاٹ گھرانوں میں اسی طرح ہی سمجھی جاتی رہی ہے جیسے اردو اخباروں کے کالم نویسوں سے نسیم حجازیت اور “اوریاتِ مقبولیہ” کے علاوہ کسی تازہ خیال کی آس۔ انھی کے توسط سے راقم کو بھی گھر پہ کچھ اردو، انگریزی اور حساب کی پڑھائی اور سُجھائی میسر رہی۔ آج بھی حیرانی ہوتی ہے کہ ان کی ذات و شخصیت میں ایسا کیا تھا کہ جو وہ اپنے ارد گرد کے حالات سے اوپر اٹھ آئے تھے۔ بہ ہر حال، کچھ سوالوں کو میں “خدا کی مرضی” کہہ کر اپنے ذہن کو سوچ کی اسیری سے بچا لیتا ہوں، ویسے بھی ہمارے آس پاس کے مسلمانوں میں تو یہی مشہور ہے:
“سوچی پیا، تے بندہ گیا!”
اسی خیال سے تو لوگ سوچتے ہی نہیں اور اگر کوئی مرتد یا کافر سوچ سے مدد لے کر کسی مسئلے کا حل نکال ہی لے، کوئی نویلی اختراع کر لے، نئی ٹیکنالوجی کا سامان کر لے تو ہم اسے یہ کہہ کہہ کے اپنے پاؤں کے نیچے رولتے رولتے کچومر نکال دیتے ہیں، ” اس کا کُلیہ تو تیرہ سو پچانوے سال یا چودہ سو چھتیس سال پہلے ہماری فلانی کتاب میں بہت واضح لفظوں میں موجود تھا۔ اگر اس موئے نے اسے پڑھ کے یہی چیز بیان کر دی تو کون سی نئی حور ڈیزائن کر لی۔”
لیکن دماغ پہ زور نہ دینے کی مسلمہ ثقافتی روایت اور عادت کے با وُجود کبھی کبھی ایسے ہی خیال آ جاتا ہے کہ ہمارے دانش کدہ ہائے دینیہ کے طُلّاب و شُیوخ کے ہاتھوں سے حادثاتی طور پہ بھی کبھی ایسی دریافت کیوں نہیں ہو جاتی۔
لیکن اگلے ہی لمحے تُھو تُھو کر کے اپنے مُنھ اور خیال کو مکرّر پاک اور صاف کر لیتا ہوں اور اپنی اندر کی سماجی اور جذباتی ذہانت اور عملیت پسندی کی خود ہی کو بَہ ذاتِ خود داد دیے بَہ غیر نہیں رہتا۔
اوہ، بات ہو رہی تھی کہ میں کچھ گھر میں ہوئی تعلیم کے ہاتھوں پانچویں کے بورڈ امتحان کی شناوری میں کامیاب ہوگیا۔ اور اس کے بعد بھی “رِڑھتا کِھڑتا” مختلف تعلیمی درجوں کا ایک بعد دوسرا دریا عبور کرتا گیا۔
گرمیوں کے روزوں کی طرح لمبی ہوتی بِپتا کے ذہنی دفتر میں موجود کچھ صفحوں کو چھوڑتا ہوں__ وہ کہانی پھر سہی__ سال ہا سال کی دُھول چاٹنے کے بعد ایک دن وفاقی پبلک سروس کمیشن نے مکتوب بھیجا کہ آپ انگریزی پڑھانے کہ اہل قرار پائے ہیں۔ راقم کو ملکی اداروں کے وقار وغیرہ کا احترام تو بہت ہے پر پھر اس موقعہ پر ان کی رائے پہ سہو کا گمان رہا۔ اور قائم بھی ہے، لیکن چپکے سے مان لیا۔
لیکن ہماری اس نوکری کی خبر جُوں ہی ہمارے اسی وسطی پنجاب کے گاؤں میں پہنچی تو میرے والد کے علاوہ باقی سب تو جیسے شرما رہے تھے کہ میں استاد کیوں لگ گیا ہوں۔ مجھے کچھ دیر تک تو سمجھ نہ آئی لیکن جوں ہی کسی رشتے دار نے ناک بھنویں چڑھاتے ہوئے کہا کہ “تمہیں تو شہر اس لیے بھیجا تھا کہ کوئی اچھی نوکری کرو گے۔ کوئی وکیل، قانون گو، تھانے دار یا پھر پٹواری ہی لگ جاؤ گے۔ لیکن تم تو استاد ہی بن گئے۔ ضائع ہی کیا اپنے آپ کو!”
اس وقت مجھے اپنے سکول کے اساتذہ کے اُن روزانہ کے “درویشانہ تقاضوں” اور اس کے نتیجے میں ان کے خاموشی و تسلسل سے معاشرتی گھڑے گئے سٹیریوٹائپ کی یاد آئی جس کی ان اساتذہ کو کوئی فکر نا تھی۔
پسِ تحریر
یوں تو کتابوں اور تحریروں کے انتساب پہلے صفحات پہ لکھے جاتے ہیں۔ پر راقم وہی کرے گا جس طرح کا ہم جیسوں نے الٹا سیدھا پڑھا کہ ہم انتساب آخر پہ تحریر کریں گے۔ ہم اس مضمون کا انتساب ان ہزاروں طالبات کے نام کرتے ہیں جو بَہ مشکل سکول تک تو گئیں، لیکن وہاں اپنی کروشیا کاڑھتی، سویٹر بُنتی استانیوں کے بچوں کو ہی کِھلاتی رہیں۔ ان کے گھروں کی صفائیاں اور پونچھائیاں ہی کرتی رہیں اور جب کبھی خارجی امتحان ہوئے تو ڈراپ آؤٹ ہو کہ ملک کی انسانی ترقی کے اشاریوں کو اعداد کی بے رنگ کی مہندی لگاتی رہیں۔
کاش کہ ہم اس جیسی بپتاؤں یا موضوعی مضامین کے آخر پہ ختم شد لکھنے کی زمینی گواہی آج کل ہی میں پا لیتے۔
لیکن حالات مون سون کے سیلابی دنوں میں دریائے جہلم کے پُل کےاوپر سے گزرتے پانی کی طرح بہتری کے کندھے کے اوپر اوپر ہی اوپر گزرتے جاتے ہیں۔
آج بھی اور جگہیں تو اور سکول کی سطح پہ اساتذہ کے پیشے کو کوئی سنجیدہ لینے کو کم ہی تیار ہے۔ اسے بس نیم پیشہ ہی سمجھا جاتا ہے اور بہترین دماغ اس طرف رخ کرنا اچھا خیال نہیں کرتے؛ کئی وجوہات ہیں ان میں سے ایک اس پیشہ کا نیم پیشہ ہونا بھی ہے۔
پاکستان میں تعلیم و تعلّم کی تاریخ حرکت ضرور کر رہی ہے لیکن انھی منحوس چھوٹے چھوٹے دائروں میں، انھی استادوں کے سائیکلوں کے چکّوں میں!