سید کاشف رضا کا کچھوا ہی جیتا ہے!
از، یاسر چٹھہ
سید کاشف رضا کا ناول، چار درویش اور ایک کچھوا پہلی بار آج میگزین میں شائع ہوا۔ گو کہ اس سمے تک راقم اردو میں لکھی کتابوں، اخبارات ناولوں کا کوئی سنجیدہ قاری نہیں تھا۔ بہت ساروں کی نگاہ میں اس رائے اور رویے کے رکھنے میں ان کے نقطۂِ نظر میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔ لیکن مجھے اپنی سوچی سمجھی رائے میں اب تک بھی ایسا کہنا کچھ خاص غلط نہیں لگتا؛ یہ ناول چنیدہ چیدہ سر زد سنجیدہ کاوشوں میں سے تھی۔ اس لیے سیدی کے اس ناول کو اس وقت فوری مطالعہ میں لانے کی لگن تھی۔
خیر وہ ناول میگزینی اشاعت میں اسلام آباد میں اسی رفتار سے پہنچا جس رفتار سے اسلام آباد کے دفتروں میں کام ہوتا ہے۔ آج جس قدر اعلیٰ معیار کا ہے، اس کی ڈسٹری بیوشن اس قدر توانائی سے بھر پور نہیں۔ وسائل کے چیلنجز بہت ترش ہوتے ہیں۔
جن دنوں یہ ناول آج میگزینی اشاعت میں آیا ان دنوں بہ سلسلہ معاش قیام پذیر ایک روزن کے توانا کنٹری بیوٹر خضر حیات نے ایک عمدہ تبصرہ بھیجا۔ لاہور میں آج میگزین شاید آج ہی آ جاتا ہے۔ یہ سوشل میڈیائی خطے کی جانب سے اس ناول پر پہلی پیش کش تھی۔ (بعد میں مکالمہ اور دانش ویب گاہوں مضمون پر بھی مضمون آئے … ہم سب پر سلسلہ شروع ہوا۔ یہ ناول مکالمے اور بحث میں رہا …) لیکن ہم نا معلوم فردا و حال کے ایک روزن وال اسے اپنی پگڑی کے شملے کے طور دیکھنے کی احباب سے اجازت چاہتے ہیں۔
خیر، ایک دن پاکستان پوسٹل سروس کے ڈاکیے کی رفتار، پاکستان ریل ویز کی ٹرین سے ضد میں بھاگتی بھاگتی میگزین صورت کتاب اسلام آباد میں بھی لے آئی۔
کتاب پڑھی تو paper based کتابوں کو پڑھتے ہاتھ میں وہ پنسل رکھتا ہوں جسے ہم سکول کے زمانے سے کچی پنسل کہتے آئے ہیں__ جسے ہمارے آج کل کے دنوں کے فرزندانِ توحید لَیڈ پنسل کہہ کر گریفائٹ کی شناختی حق تلفی کرتے جاتے ہیں۔
یہ کچی پنسل کِنڈل ریڈر کی نوٹس لینے کی دل رُبائی کا قائم مقام ہوتی ہے۔ تو اس گریفائٹ پنسل سے آج میگزین کے اس خوش نما آفاقی جمالیات کی حاملہ ہلکے نیلے رنگ کی سافٹ بائنڈنگ کی جلد کے پہلے مشمولہ کو پڑھنا شروع کیا۔
چند صفحے پڑھنے کے بعد جب ژاں بودریاغ کے حقیقت کی پیمائش و عکس بندی کے بارے میں پڑھا تو راوی نام کے ایک ناولی متکلم کی شوخی سے شروع ہونے والی دوستی جلد ہی مضبوط تر ہو گئی۔
اسی وقت صفحے پر جہاں سید کاشف رضا کا تعارف لکھا تھا__ اور جس صفحے کے مندرجات کو شاید پیارے بھائی فیصل اقبال اعوان ہم سب پر اپنے محنت سے لکھے کچھوائی ناول پر مضمون میں سہواً نظر انداز کر کے، علاوہ دگر، ایک real life factual mistake کر گئے تھے، اس کے پیچھے کچی پنسل سے کچھ نقش کھینچے۔
ان لفظوں کے نقوش کا لُبِّ لباب اس ننھے سے دِیے جتنی سطر میں تھا:
یہ ناول زرخیز قسم کی نثر ہے۔
یہ خود کلامی تھی … کئی حوالوں سے خود کلامی تھی۔ اب ہمارے جیسے نثر کارے اپنے عام جملوں میں بھی اپنے تئیں Yeatsian اور Borgesian جَھل وَلَلّی علامتیں، استعارے، تشبیہیں برتنے سے ہاتھ اور دماغ نہیں روک پاتے … اب کسے اور کیسے بتائیں کہ زرخیز نثر کیا ہوتی ہے!
تین دن لگائے ناول پڑھنے میں … حالاں کہ اس جتنی ضخامت کے اردو ناول کو پڑھتے مجھے ایک آدھا دن لگتا ہے۔
ناول اچھا لگا اور دل ہی دل میں سوچا کہ یار چیز اچھی بن گئی ہے اور خدشہ ہوا کہ یہاں کی مارکیٹ میں جانے کیسے چل پائے گی۔ یار لوگ ارتکاز توجہ کے مسائل کا بہت بڑا شکار ہیں۔ ہلکا سا رستہ بدل کر چلنے سے صراط مستقیمی سے منحرف و انحراف کو جمالیاتی معدے کی دیواروں میں جذب کرنے میں مشکل کا شکار ہو جاتے ہیں۔
میرا سوال اور شک، شکر ہے غلط ثابت ہوا۔ ایک سکوں کی سانس!
ناول کو، یا کتاب کو ہمارے یہاں انتہائی سست مزاجی سے مارکیٹ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی بہتر مارکیٹ ہوتے ہیں تو علامہ اقبال کو سرکاری وظیفوں کی حرص میں اور فیض احمد فیض کی اولاد کی social luminosity میں بہتر غلافوں میں لپیٹ کر مارکیٹ کیا جاتا ہے۔ اب اس دوران مرزا اطہر بیگ، خالد فتح محمد، عاطف علیم جیسے لوگوں کی جانب سے بہت اچھا کام آتے ہوئے بھی، فی زمانہ ان سے وہ مقام دور رہتا ہے، جس مقام کو انھیں خود آ کر چھونا چاہیے۔
سید کاشف رضا debutant ناول نگار تھے؛ اور ایک ایسا انسان جو شاعری کو ہی اپنا حوالہ بنا کر اس سے دامن نچوڑنے کو راضی نہ ہو، اس سے اچھی اور contemporarily informed styles of fictional presentation سر زد ہو جائے تو یہ کسی زبان کے قارئین کی کیسی خوش بختی ہے۔
باقی رہی بات ناول کے مضامینِ خیال و پیش کش کی تو اس کو پوری طرح کھولنے کے لیے بہت زرخیز ذہن چاہییں۔
آصف فرخی مرحوم نے چار درویش اور ایک کچھوا کے متعلق !a quantum leap … کی noun phrase کہہ تو دی، لیکن اس ترکیب کی میری اطلاع اور یاد داشت کے مطابق کسی مضمون میں صورت کشائی نہیں کی … (اس phrase کے عام استعمال پر فرخی صاحب کی وفات پر embargo کاشف رضا نے خود ہٹایا تھا، سو no holda barred now)
اب چند نکتے عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں:
- سو کچھوا اور راوی ابھی بھی جمالیاتی الماری میں ہیں۔
- اس ناول میں طنز و مزاح اردو کی رواجی regressive طنز و مزاح نہیں ہے۔ اس کی جمالیاتی سماجیات ایسے خطوط پر ہےکہ جہاں اردو کے مَنّے پَروَنّے مزاح نگار outdated اور کنواں بند ہیں۔
- پاکستان کے شہری علاقوں میں صنعتی معاشرت کے دھیرے دھیرے آتے جانے سے خواتین کے فعال کردار سے صنفیاتی توقعات، اور مردوں کا انھیں صرف جنسی مجسمہ سمجھنے کا گھٹیا پن جاوید اقبال کی صورت پاش پاش ہوتا ہے۔ وقت ہَمہ وقت اگے بڑھتا ہے، یہاں اہم وقفہ document ہو گیا ہے۔
- فکشنی بیانیے، fictional narrative، کو صفحے پر اور صفحے سے باہر دَھرنے پر کنڈیرا اور ہارُوکی موراکامی کی اسلوبی پیش کشوں کی عمدہ تخلیقی تالیف creative synthesis سامنے آتی دِکھتی ہے۔
- یوں تو اوپر کہیں ساری باتیں ہی اپنی رائے ہے، پر کچھ آراء زیادہ ذاتی ہوتی ہیں۔ مجھے کسی بھی ناول میں، شارٹ فکشن میں ‘آواز’، رنگ اور آہنگ کی بھی ویسی ہی طلب ہو رہی ہوتی ہے جیسے خوش بُو کی… دوسرے لفظوں میں مجھے کردار اور حالات نہ صرف دیکھنے بَل کہ ان سے نکلتی آوازیں، ان کے لسانی registers، ان کی phonics پر کان کی تغذیہ چاہیے ہوتی ہے؛ شاید فکشن میں کچھ ڈرمائی رنگ، کچھ کرداروں کی فردیت، کچھ سماج کی اور زیادہ مقامیت کی مہین لائینیں__ بالکل ایسے ہی جیسے اس ناول میں جاوید اقبال اپنی منظورِ نظر کولیگ مشعال کی گردن کی رگوں میں بھاگتے پھرتے خون کو بھی دیکھتا ہے۔ یہ توقعات مجھے ناول میں تشنہ رکھتی ہیں۔
- ناول میں اردو، پنجابی اور انگریزی تین زبانوں کا دریائے سندھ پر ایسا اٹک پُل ہے کہ جس کے پاس ہر زبان اپنے اپنے طور پر ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بھی ہر پانی اپنا رنگ برقرار رکھتا ہے۔
اس مضمون مضمون کو سید کاشف رضا کے ناول چار درویش اور ایک کچھوا کو UBL Awards 2020 ملنے پر تحریر کی گیا۔