انتشار زدہ سیاست کا احوال
از، حسین جاوید افروز
پاکستانی سیاست میں اکتوبر کے مہینے کی ہمیشہ سے ایک خاص اہمیت رہی ہے۔ سولہ اکتوبر کو لیاقت علی خان کی شہادت سے لے کر کر سات اکتوبر 1958 کے مارشل لاء کے نفاذ تک اور پھر بارہ اکتوبر سنہ 99 کو مشرف کے ہاتھوں نواز شریف حکومت کا خاتمہ، غرض یہ کہ یہ تمام سیاسی بھونچال اکتوبر کے مہینے میں ہی وطنِ عزیز میں برپا ہوئے۔
اس بار ایک بار پھر اکتوبر قومی سیاست میں پھیلتی تقسیم اور انارکی کے سبب دہک رہا ہے جس کی وجہ حکومت کے خلاف پی ڈی ایم، PDM کی جانب سے گوجراں والہ اور کراچی کے جلسے ہیں جہاں کھل کر نہ صرف حکومت، بل کہ اعلیٰ ریاستی اداروں کے حوالے سے بھی حملے کیے گئے۔
اس وقت اگر دونوں جلسوں کا جائزہ لیا جائے تو کراچی کا جلسہ زیادہ منظم اور تعداد کے حوالے سے گوجراں والہ پر بھاری رہا۔ تاہم معنی سے بھر پور بات یہ ہے کہ جہاں نواز شریف نے عسکری اداروں اور عمران خان پر گوجراں والہ میں تابڑ توڑ حملے کیے وہاں وہ کراچی جلسے میں اپنی ورچوئل موجودگی کیوں نہ یقینی بنا سکے؟ اس پر خاصے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
البتہ جلسوں میں عوام کی تعداد کی بَہ دولت کرونا کے پھیلاؤ کا خطرہ ہنوز برقرار ہے اور بد قسمتی اس حوالے سے کرونا ایس او پیز کو پسِ پشت ڈال دیا گیا جو کہ لمحۂِ فکریہ ہے۔
سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ کن وجوہات کی بناء پر مسلم لیگ ن نے پی ڈی ایم کے جلسوں میں جارحانہ زبان استعمال کی ہے؟ ایک اہم وجہ تو یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں سنہ 2018 کے انتخابات میں ن لیگ کی تحریکِ انصاف کے ہاتھوں شکست ابھی تک اعلیٰ لیگی قیادت کے لیے ہضم کرنا مشکل ہو چکا تھا اور اسی لیے انھوں نے ریاستی اداروں کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ کیوں کہ بَہ قول اپوزیشن اس الیکشن میں نتائج کو چرایا گیا اور یوں سیاسی پچ کو عمران خان کے لیے سازگار اور ہم وار بنایا گیا۔
شریف فیملی کے لیے یہ بھی بہت ہی ضروری تھا کہ وہ اپنی جماعت کے تن میں نئی روح پھونکتے، کیوں کہ روز بَہ روز پارٹی کے حلقوں میں بھی بے چینی اور اضطراب بڑھتا جا رہا تھا اور بے یقینی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ چناں چِہ اپنے جارحانہ بیانیے کے تحت نواز شریف صاحب نے پارٹی کو دوبارہ چارج کرنے کی کوشش کی ہے جو خاصی حد تک کام یاب بھی گردانی جا رہی ہے۔
علاوہ ازیں گزشتہ دو سال میں مہنگائی، ابتر معیشت بے روزگاری جیسے عوامی مدعے بھی اپنی جگہ اپوزیشن کے لیے مدد گار ثابت ہوئے اور یوں ایشوز کی بنیاد پر بھی حزبِ اختلاف نے اس مسائل کو پُر زور طریقے سے کیش کرنے کے لیے کوششیں شروع کیں۔
یقیناً اس ایشو پر اپوزیشن کا مؤقف جائز بھی ہے اور ان کو پذیرائی بھی مل رہی ہے۔ سب سے اہم نکتہ مارچ سنہ 2021 میں ہونے والے سینٹ انتخابات ہیں جن کے بارے میں تواتر سے سیاسی پنڈت تبصرے اور تجزیے پیش کر رہے تھے کہ اگر اپوزیشن اسی طرح جامد سیاست کرتی رہی تو عمران حکومت کے لیے سینٹ انتخابات میں برتری حاصل کرنا اتنا کٹھن مرحلہ ہر گز نہیں ہو گا۔ اگر ایک بار عمران خان سینٹ پر قابض ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے قانون سازی کے عمل کو اپنے مطابق استعمال کرنا آسان تر ہو جائے گا۔
لہٰذا سینٹ انتخابات کے حوالے سے بھی پی ڈی ایم ملکی سیاست میں ارتعاش پیدا کرنے کی خواہش مند ہے۔ مسلم لیگ ن کی سیاست اگر چِہ اب کھل کر اسٹیبلشمنٹ مزاحم بیانیے پر گام زن ہو چکی ہے، مگر لیگی قیادت یہ امر کیسے فراموش کر سکتی ہے کہ اگر ان کو عسکری قیادت سے گزشتہ انتخابات کے حوالے تحفظات درپیش تھے تو پھر پارلیمان میں آرمی چیف کی توسیع کی حمایت کن بنیادوں پر کی گئی؟
یہاں لیگی بیانیہ متضاد رویوں اور انجانی مصلحت سے دوچار کیوں ہو جاتا ہے؟ اگر چِہ یہ سوالات ہنوز لیگی قیادت سے کیے جانے چاہییں تاہم یہ بھی سچ ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک سے مریم نواز اور بلاول بھٹو، حکومت کے خلاف باہم متحرک ہو کر مزاحمت کی علامت بن کر ابھرے ہیں۔ اگر چِہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ن لیگ ووٹ بینک کی سیاست میں زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے بَہ جائے احتجاجی سیاست کرنے کے، مگر متحدہ اپوزیشن کے فورم سے حکومت پر دباؤ بڑھتا صاف محسوس ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
دوسری طرف بلاول بھٹو نے بھی کھل کر عمران حکومت اور کیپٹن صفدر گرفتاری ایشو پر دو ٹوک مؤقف اپنا کر اپنی اہمیت بَہ ہر طور ثابت کی ہے۔ لیکن کہیں نہ کہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ بلاول بھٹو پی ڈی ایم کے جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ مزاحم لائن لینے سے گریزاں بھی دکھائی دیتے ہیں اور ان کو گوجراں والہ جلسے میں عسکری قیادت کے متعلق ن لیگی مؤقف پر افسوس بھی ہوا ہے۔
لیکن جس طرح بلاول نے سندھ پولیس کو مشکل وقت میں جرأت مند انداز سے حمایت دی اس سے ان کا سیاسی قد بڑھا ہے۔ دوسری جانب مولا نافضل الرحمٰن بھی پی ڈی ایم کی قیادت کرتے ہوئے بے خوف انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کا کیس بہت ہی سادہ ہے کہ ان کے پاس اس تحریک کے حوالے سے کھونے کو کچھ بھی نہیں۔ ان کو گزشہ الیکشن میں شکست پر بھی جہاں ملال اور شدید خدشات ہیں وہاں وہ ہر قیمت پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے خواہش مند بھی ہیں۔ چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔
ظاہر ہے کہ جمعیتِ علمائے اسلام کے پاس گزشتہ سال کے دھرنے سے ملنے والا سبق بھی ہے، لہٰذا ان کا مؤقف بہت واضح اور غیر لچک دار بنیادوں پر کھڑا ہے۔ اب بات کرتے ہیں پی ڈی ایم تحریک کے مقابل وزیر اعظم عمران خان کی جو اسلام آباد میں ایک سخت تقریر کے ذریعے ایک کڑے احتساب کی نوید سنا چکے ہیں۔
یہ درست ہے کہ پی ڈی ایم قیادت کے ان پر ذاتی حملوں کے جواب میں وزیر اعظم کو بھی اپنا رد عمل ذاتیات کے حوالے سے نہیں دینا چاہیے تھا کیوں کہ اس کام کے لیے ان کے پاس شہباز گل، فیاض چوہان جیسے تند تیز افراد موجود ہیں۔ بہ ہر حال یہ بھی درست ہے کہ عمران خان کو ن لیگ کی طرف سے اسٹیلملشنٹ مزاحم لائن لینے سے بَہ راہِ راست سیاسی فائدہ بھی پہنچا ہے۔ کیوں کہ اسلام آباد اور راول پنڈی جو پہلے ہی ایک صفحے پر تھے اب یہ پارٹنر شپ شاید مزید پائیدار بنیادوں میں ڈھل جائے گی۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو وزیر اعظم نے بہت مہارت سے اپوزیشن کے خلاف استعمال کیا اور ان کو آڑے ہاتھ لیا۔
دوسری جانب ہمارے ریاستی ادارے ہیں جن پر ن لیگ نے اس بار بَہ راہ راست تنقیدی نَشتر کھل کر برسائے ہیں۔ لیکن اس وقت ساری صورتِ حال کا باریک بینی سے بَہ غور جائزہ لیا جا رہا ہے اور شاید جذبات میں لیگی قیادت یہ بھی فراموش کر گئی کہ کسی ادارے کے سربراہ پر تنقید محض اس کی ذات تک محدود نہیں رہتی بل کہ وہ سارے ادارے پر اپنے منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ن لیگ نے اب ادارے کی مستقبل کی قیادت کو بھی اپنے حوالے سے گہرے شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے اور وقت کے ساتھ اینٹی نواز سوچ مزید گہری ہوتی جاتی دکھائی دے رہی ہے۔
اس بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ تأثر بھی اپنی جگہ درست نہیں ہے کہ پنجاب کی سیاسی قیادت پہلی بار مقتدرہ کے سامنے کھڑی ہو چکی ہے اور شاید اب کوئی توازن طاقت بَہ حال ہو جائے۔ یاد رہے پنجاب میں اینٹی انڈیا نعرہ سب سے زیادہ مقبول رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ فوج سے پنجاب کے زرخیز خطے کو ہمیشہ سے ہی تقویت ملتی رہی ہے۔
اسی لیے نواز شریف کو مستقبل کے سیاسی تناظر میں پنجاب میں سیاسی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ شیخ رشید کا تجزیہ اس حوالے سے معنویت رکھتا ہے کہ اب بہت جلد ن لیگ میں سے ش لیگ ظہور پذیر ہو سکتی ہے کیوں کہ نواز شریف کے اینٹی مقتدرہ مؤقف کا وزن شاید ان کے بیش تر ساتھی نہ اٹھا سکیں۔
تاہم پی پی پی شاید اسمبلیوں سے مستعفی ہونے یا سندھ حکومت کو تحریک کے لیے مستقبل میں قربان کرنے سے گریزاں رہے۔ کیوں کہ پی پی پی کو مستقبل کی سیاست کو دھیان میں رکھتے ہوئے شاید عملیت پسندی سے ہی رجوع کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب وزیر اعظم بھی اب نواز شریف کو وطن واپس لانے کے حوالے سے یک سُو ہو چکے ہیں۔ اسی لیے حکومت اور اپوزیشن میں آنے والے دنوں میں گرما گرمی اور محاذ آرائی میں بھی قدرے اضافہ ہو سکتا ہے۔
مگر حکومت کے لیے سوال یہ بھی ہے کہ وہ محض احتساب کے نعرے پر تکیہ کرنے کے بَہ جائے مہنگائی، بے روزگاری، ابتر معیشت کو گڈ گورننس کے ذریعے کنٹرول کرے۔ یاد رہے کہ عوام نے ان کو تبدیلی کے لیے ووٹ دیا تھا تا کِہ عوام ہی کو ریلیف مل سکے۔ مگر احتسابی عمل میں پھنسی حکومت شاید عوام پر اپنا فوکس کھو چکی ہے۔
لہٰذا وزیر اعظم کو اپنی ٹیم میں جہاں جہاں بدلاؤ کی ضرورت ہے وہ انھیں فوری بنیادوں پر کرنی چاہیے۔ تا حال تحریک انصاف کا رپورٹ کارڈ دو سال کو سامنے رکھتے ہوئے اتنا متأثر کن نہیں جتنا ہونا چاہیے تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان حکومت کرنے کے حوالے سے ایک مشکل ملک رہا ہے جس کی وجہ یہاں کی سیاسی حرکیات ہیں جن پر اندرونی اور بیرونی اثرات ہمیشہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔
یہ کش مکش اور سیاسی حدت اپنی جگہ مگر اداروں اور سیاسی قوتوں کے درمیان مشترکہ قومی مکالمے کو فروغ دینا ہی مسائل کا حل نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔