پریس کلب کی چھپر چھایہ حمید چھاپرا کی رخصتی
از، وارث رضا
پریس کلب کے صدر دروازے سے داخلے کے بعد کراچی پریس کلب کے ٹَیرِس میں ہر آنے جانے والے پر عقابی نگاہ رکھنے، اور بلند آہنگ سے آواز دینے والے حمید چھاپرا کا یہ کہنا، “میاں کہاں جا رہے ہو، ادھر تو آؤ ذرا…” کی آواز پر جب پہنچا جاتا تھا تو، “کون ہو؟ کہں کام کرتے ہو؟ کس سے ملنا ہے؟” کی پوری تحقیقات کے بعد آنے والا چھاپرا صاحب کی تسلی کا پابند رہتا تھا۔ اطمنان کے بعد کلب میں بیٹھنے کی اجازت ہوا کرتی تھی۔ کسی غیر متعلقہ کے داخلے کی پابندی کے آئینی اصول پر کاربند رہنے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ پریس کلب کے وقار پر کسی بھی سمجھوتے کی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔
اسی وجہ سے ایک خاص اصول کے تحت کلب کی ممبر سازی میں میرٹ کو مقدم رکھا جاتا تھا۔ ایسا بالکل نہ تھا جیسا جماعتِ اسلامی اور جنرل ضیاء الحق کی بنائی ہوئی دستور کے دور میں کوٹہ سسٹم اور جماعتی حمایت پر کلرک، چوکی دار، پبلشر اور ایڈیٹر کو بھی ووٹ بڑھانے کی خاطر ممبر شپ دے دی گئی ہے۔ نتیجہ نہ کلب کے اصول رہے ہیں نہ وقار۔ بَل کہ کلب کے عالمی و جمہوری کردار و وقار کو نیست و نا بُود کیا جا چکا ہے۔
کراچی پریس کلب کو عالمی صحافتی اصول اور اس کی آزادی کو سلامت رکھنے میں حکومتی مراعات کے نہ لینے اور حکومتی دباؤ سے پاک رکھنے کے ماڈل کو برطانیہ اور امریکہ نے کاپی کیا بَل کہ کراچی پریس کلب میں جمہوری آزادی کے لیے چلائی جانے والی تحریکوں سے متأثر ہو کر دنیا نے پریس کلبوں کو شہری آزادیوں کی آواز کا ذریعہ بنایا۔
جُونھی پریس کلب میں گذشتہ شب حمید چھاپرا کے انتقال کی خبر پہنچی تو اس دَم پریس کلب کے ٹیرس میں مجھے ایسا لگا کہ پریس کلب کے دَر و دیوار دَم سادھے ایک ایسے دکھ میں مبتلا ہیں۔
گویا چھاپرا کے جانے پر ان کی چھپر چھایہ چن گئی ہو۔ ممبران و ملازمیں ایک دوسرے کو مغموم آنکھوں میں پُرسہ دیتے دکھائی دیے اور لگا کہ پریس کلب کی نگرانی کرنے والا نہ رہا تو اب پریس کلب کی ساکھ رکھنے والا، ڈانٹ ڈپٹ کر لینے کا بھرم رکھنے والا کون ہو گا۔ ان کے دکھ درد کا مداوا اب کیسے ممکن ہو گا۔
یہ احساس ہی تو تھا کہ پریس کلب میں حکومتی مراعات لینے پر پابندی تھی۔ کلب کو چلانے کے لیے فنڈز کی ضرورت ممبران کی فیسوں سے پوری کی جاتی تھی اور کلب کے دیگر اُمور چلانے اور ملازمین کی تنخواہیں دینے کے لیے مزید پیسوں کی ضرورت رہتی تھی جس کو پورا کرنا ہر ماہ ایک مسئلہ تھا۔ ایک وقت پریس کلب میں ایسا بھی آیا کہ ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا نا ممکن ہو گیا۔ اسی اَثناء منہاج برنا اور دیگر نے چھاپرا صاحب کی ذمے داری لگائی کہ وہ ملازمین کی تنخواہوں کے لیے فنڈز کا انتظام کریں، جن میں حکومتی مراعات لینے پر مکمل پابندی تھی۔
یہ وہ آزمائشی لمحات تھے جب منہاج برنا اور ساتھیوں کی آبرُو رکھنے اور پریس کلب کے وقار کو بچانے کے لیے حمید چھاپرا نے کمر کَس لی اور اپنی برادری اور دیگر ذرائع سے فنڈز جمع کر کے ایک ایک ملازم کی تنخواہ بغیر کسی ذاتی تشہیر کے ادا کی اور پریس کلب کی لاج رکھی۔
حمید چھاپرا ایسے کردار کے غازی نہ صرف صحافیوں کی فلاح و بہبود میں جُتے رہتے تھے، بَل کہ وہ کلب کے اصولوں پر بھی ہمیشہ کاربند رہتے تھے۔ اسی ضِمن میں چھاپرا صاحب کا صحافتی اقدار اور اصولوں کی پاس داری کا یہ کردار نئے صحافیوں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔
جب قومی اتحاد، PNA، کی تحریک بھٹو کو ہٹانے میں متحرک ہے اور کراچی میں تحریک کو مؤثر و متحرک کرنے کی ضرورت کے پیشِ نظر حمید چھاپرا تحریکِ استقلال پارٹی میں ذمے داریوں کے سبب کراچی میں تحریک کو خبروں کی دنیا میں مؤثر بنانے پر مامور کر دیے جاتے ہیں اور یوں قومی اتحاد کی تحریک کام یابی سے ہم کنار ہو کر ملک میں ضیائی مارش لا لگانے کا سبب بنتی ہے؛ حمید چھاپرا کی اس غیر جمہوری کوشش و عمل کی وجہ سے کراچی پریس کلب کی باڈی نے چھاپرا صاحب کی بَہ طورِ صحافی سیاست میں بَہ راہِ راست متحرک ہونے اور کراچی یونین آف جرنلسٹس، KUJ اور پریس کلب سے اجازت نہ لینے پر ان کی ممبر شپ ختم کر دی گئی۔ اس پر چھاپرا صاحب نے خاموشی کے ساتھ اس سزا کو بھگتا اور مُنھ سے اُف تک نہ کیا اور نہ لَبوں پر حرفِ شکایت لائے۔
اسی طرح چھاپرا صاحب نے اپنے جمہوری ذہن کا استعمال کے یو جے اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، PFUJ، میں کیا اور مختلف مواقِع پر وہ جنرل سیکرٹری اور صدر رہے اور ایپنک کو متحرک کرنے میں بھی اپنا کردار نبھاتے رہے اور تمام تر مشکلات کے با وُجود صحافتی آزادی اور صحافی حقوق کے لیے ہَمہ تَن گوش رہے۔
بیماری میں بھی انھیں صحافتی اقدار کی گراوٹ اور غیر صحافی عمل کا دکھ رہا۔ ہر آنے جانے والے سے تنظیم کی یک جِہتی پر زور دیتے اور صحافتی آزادی پر قدغن پر طیش میں آ جاتے۔
مجھے یاد ہے کہ جب مَیں، ریاض عاجز اور چھاپرا ان کے گھر پر آمنے سامنے تھے، تو نقاہت کے با وُجود منہاج برنا کی جِد و جُہدِ آزادی پر ڈاکیُومَینٹری کا سن کر چھاپرا صاحب اور ان کی بیٹی میں ایک ایسی توانائی جاگی کہ بستر سے لگے چھاپرا صاحب نے اپنی جان لیوا بیماری کی پروا کیے بغیر کسی تردُّد اٹھ کھڑے ہونے پر آمادگی ظاہر کر دی اور گرم جوشی سے منہاج برنا کے بارے میں یہ نعرہ لگاتے ہوئے جد و جہد کے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں صرف چھاپرا صاحب کی آواز میں:
منہاج برنا… تیرے ساتھ جینا… تیرے ساتھ مرنا… منہاج برنا… سے ان کا کمرہ گونج اٹھا۔
سوچتا ہوں کہ وہ توانا آواز اب اتنی دِھیرَجتا سے نیند کی آغوش میں چلی گئی… اور جسے ہم آخری آرام گاہ تک پہنچا کر بھی ایک بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔
یقین نہیں آتا کہ چھاپرا ہم سے رخصت ہو گئے۔ حق مغفرت کرے عجب آزادانہ مرد تھا۔