پیراشوٹر کی شکست
از، وارث رضا
سیاست کی بساط کب رنگ بدلتی ہے، یہ جاننا بھی اک ہنر سے کم نہیں، کبھی کبھار بچھی بساط کے پیادے ایسی مشکل کھڑی کر دیتے ہیں کہ شاہ کو مات سے اس کا قریبی وزیر بھی نہیں بچا پاتا، اور عمومی طور سے شاہ کے وفادار سمجھے جانے والے پالیسی ساز بھی اپنے پیادوں کے چال چلن کو کنٹرول نہیں کر پاتے،بس بساط سے نظر ہٹنا ہی عموماً “چھپی اصطبلشمنٹ” کو چاروں شانے چِت کرکے ایسا ماحول بنادیتی ہے کہ جس میں خود کا دفاع کرنا اور خود کو بچانا بھی ناممکن سا لگتا ہے۔
موجودہ سینیٹ الیکشن کے نتائج کی صورت حال نے بھی سلیکٹیڈ پکاری جانے والی حکومت کو ایسی ہی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔
ہماری تعلیم کے دوران اکثر اساتذہ کرام سمجھایا کرتے تھے کہ over smartness یا ضرورت سے زیادہ اعتماد بھی آپ کی ناکامی کا سبب ہوتا ہے، ایسی ہی صورت حال موجودہ سینیٹ انتخابات میں نظر آئی کہ جب حکومتی اعتماد رکھنے والےحفیظ شیخ کو شکست ہوئی اور حکومت کا اعتماد متزلزل ہوا۔
سینٹ میں حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کی شکست کے بعد اپوزیشن ور دیگر عوامی حلقوں کی جانب سے موجوہ وزیراعظم کے دوبارہ اعتماد کے مطالبے نے زور پکڑتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں تبدیلی سرکار کے ماہ ولی کو اراکینِ قومی اسمبلی کے اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت محسوس ہوئی، جو قومی اسمبلی کے اجلاس میں متوقع ہے۔
ہمارے نظام جمہوریت میں عوام کے ووٹوں سے منتخب اراکین اسمبلی نے جمہوریت کے استحکام کے خاطر موجودہ سینیٹ الیکشن میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا، جس کے نتائج سے اس پیغام کو تقویت ملی کہ اب بھی عوام کے مسائل کے حل کی اصل جگہ منتخب پارلیمینٹ ہی ہے،دوسری جانب سینیٹ الیکشن میں آئی ایم ایف کے پیرا شوٹر حفیظ شیخ کی یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست نے ثابت کیا کہ حکومتی اتحاد یا پی ٹی آئی کے بیشتر اراکین قومی اسمبلی جمہوری اداروں کی بالادستی اور جمہوری نظام پر پختہ یقین رکھتے ہیں، اور اگر انہیں آزادانہ رائے کے اظہار کا موقع دیا جائے تو اراکین اسمبلی “طاقتور اسٹبلشمنٹ”کے مخالف اپنی رائے کا برملا اظہار کرنے کی ھمت رکھتے ہیں،یہ خوش آئند اور بہتر سمت کی جانب جانے والا مثبت اور ایک اہم رویہ ہے۔
دنیا بھر کی جمہوریتوں میں عمومی طور سے اپوزیشن حکومتی ایوان کو کمزور کرنے کی مسلسل کوششوں میں سرگرم رہتی ہے جو کہ ایک جمہوری اور آئینی طریقہ سمجھا جاتا ہے،مگر ہمارے ہاں آمرانہ حکومتوں سے جنم لینے والی جمہوریت شاید اس طور سے مضبوط نہ ہو سکی ہے،جسے ہم ایک اعلی قسم کی جمہوریت سمجھ لیں،ان معنی میں ہم اب تک ایک نوزائدہ جمہریت لانے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں کہ جس کے رویوں میں میں اب تک آمرانہ جھلک یا طاقتور اسٹبلشمنٹ کے خوش آمدانہ انداز جا بجا ملتے ہیں،مگر دوسری جانب یہ بات بھی کسی حد تک اطمنان بخش رہی کہ ہماری نوزائدہ جمہوریت میں ایک “پختگی”کا عنصر آتا گیا جو کہ ایک خوشگوار بات کہی جا سکتی ہے۔
موجودہ سینیٹ کے انتخابات کو بھی سیاست دانوں کےجمہوری رویوں میں معمولی تبدیلی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے،موجودہ حکومت کے بارے میں اب یہ تاثر عوام کے ذہنوں میں پختہ کروادیا گیا ہے کہ 2018 کے انتخابات عوام کے ووٹ کی طاقت سے زیادہ “اسٹبلشمنٹ” کی مرضی مطابق منعقد کروائے گئے، جس کے نتیجے میں “اسٹبلشمنٹ” کی مرضی و منشا کے مطابق نتائج دیئے گئے اور یوں عوام کے ووٹ کی طاقت کو پھر سے بے توقیر کرنے کی کوشش کی گئی،جس میں اسٹبلشمنٹ کو کاندھا دینے یا “ہائبرڈ جمہوریت”قائم کرنے میں تحریک انصاف کو چنا گیا اور تحریک انصاف نے عوامی رائے یا ووٹ کے برعکس مانگے تانگے کے مینڈیٹ پر حکومت قائم کی۔
گو شروع میں “ہائبرڈ جمہوریت” کے مقابل اپوزیشن کے مذکورہ بیانیے کو تقویت نہ مل سکی، مگر پھر پی ٹی آئی/اسٹبلشمنٹ کی حکومت نے اپنی ناقص معاشی منصوبہ بندی اور خراب انتظامی کارکردگی سے دو سال بعد اپوزیشن کو یہ موقع ضرور فراہم کر دیا کہ متحدہ پوزیشن خود کو پاکستان ڈیموکریٹکس الائنس ایسے اتحاد میں جوڑے اور 2018 کے انتخابات میں ان غیر جمہوری کرداروں کو عوام کے سامنے بر ملا لائے جن کی وجہ سے ملک کو دوبارہ سے اسٹبلشمنٹ کے مضبوط پنجوں میں دیے جانے کا خطرہ لاحق ہوچکا تھا۔
جمہوری نظام کو مزید کمزور کرنے کی “اسٹبلشمنٹ نواز” کوششوں کو اپوزیشن تحاد نے بھانپا اور اپوزیشن نےحکومت مخالف اس بیانیے کو نوازشریف کے “ووٹ کو عزت دو” سے جب جوڑا تو وہ عوام کا بیانیہ بن گیا، اور PDM نے ملک میں آئینی اقتدار کی اہمیت اور پارلیمان کی بالادستی کے اسی بیانیے کو جلسے جلوس اور ریلیوں کی مدد سے عام فرد تک پہنچایا تو ایوان میں بیٹھے منتخب اراکین اسمبلی بھی آئین کی بالا دستی کے لیے یکسو ہوئے اور تبدیلی سرکار کی “ہائبرڈ جمہوریت”میں منتخب اراکین کے مقابلے میں پیراشوٹر قسم کے وزرا اور مشیران پر کھل کر تنقید کرنے لگے،اور حکومتی ایوانوں میں پیرا شوٹر وزرا کو نا پسندیدگی سے دیکھا جانے لگا۔
سیاست میں حکومتی چیرہ دستیوں اور اپوزیشن کے بیانیے سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومتی نمائندے حفیظ شیخ کی شکست میں اسٹبلشمنٹ غیر جانبدار رہی؟ تو اس کا جواب قطعی طور سے نفی میں ہی سمجھا جائے تو بہتر ہے،جس کی وجوہات اور بہت سی ہو سکتی ہیں مگر یہ سمجھ لینا کہ “ہائبرڈ جمہوریت” کے خواب کی تعبیر پانے والی اسٹبلشمنٹ نے حفیظ شیخ کی کامیابی کے لیے کوئی کوشش نہ کی… مکمل غلط ہے،سیاست کے ماہرین کے اندزے کے مطابق اسٹبلشمنٹ آخری لمحات تک “چھاتہ بردار” آئی ایم ایف ملازم حفیظ شیخ کی کامیابی پر مطمئن تھی اور اس مقصد کے تحت اس نے حکومتی اتحادی جماعتوں کو دوبارہ سے جمع بھی کیا اور حفیظ شیخ کی کامیابی کا وعدہ بھی لیا،مگر پی ٹی آئی کے چند حقیقی ارکین اسمبلی نے ووٹ کے ذریعے اپنی قیادت کو یہ پیغام ضرور دے دیا کہ وہ مزید “ہائبرڈ نظام جمہوریت” کی حمایت کرنے سے قاصر رہیں گے کہ جس کا نقصان وہ آئندہ اپنے حلقے میں نہیں اٹھانا چاہتے، پی ٹی آئی کے منحرفین کا یہ پیغام حفیظ شیخ کو ہرانے اور اپنی خاتون سینیٹر کو ووٹ دینے کی صورت میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس کا مطلب اپوزیشن کے لیے یہ نکلتا ہے کہ وہ موجودہ ہائبرڈ اسٹبلشمنٹ کے ان حکومتی اتحادیوں پر وقت نہ ضائع کرے جو اسٹبلشمنٹ کے کاٹھ کے الو کی صورت میں چھاتہ بردار/پیرا شوٹر وزرا اور مشیران پر قطعی اعتراض نہیں کریں گے بل کہ اپنے حصے کے مفاد میں عوام دشمن نظام “ہائبرڈ جمہوریت” کا ساتھ دیتے رہیں گے البتہ اب اپوزیشن کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ وزیر اعظم کے اعتماد کے ووٹ کے موقع پر جمہوری سوچ کے اراکین اسمبلی کو آئینی بالادستی کے تناظر میں زیادہ اعتماد میں لے کر انہیں عوام کی خوش حالی اور عوام کے دکھ درد کے ساتھی کی سوچ کا محور بنائیں تاکہ جمہوری ادارے اور پارلیمان کو مضبوط کیا جا سکے اور پارلیمانی جمہوریت کے حاصلات عوام کی بیروزگاری ختم کرنے اور عوام کی خوش حالی لانے پر صرف کیے جا سکیں اور ہر قسم کے پیراشوٹر سے نجات پانا جمہوری اراکین کی اولیت ٹھہرے۔