پی ڈی ایم قائم ہے، بس مبصرین ذرا ٹھنڈی کر کے کھائیں
از، یاسر چٹھہ
آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے استعفے نہ دینے کے فہم اور رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔ گو کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے مشاورت وغیرہ وقت لینے کی اور موقعہ ٹپانے کی مناسب اور صائب ادا ہے۔ یہی ذہنی جھکاؤ اس راقم کو یہ احساس دلاتا ہے کہ پی ڈی ایم کی باقی کی آٹھ جماعتوں نے پیپلز پارٹی کو استعفوں کے فضائل پر قائل کرنے سے زیادہ دباؤ میں لانے کی کوشش کی؛ جب دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی تو آصف زرداری وہ سب بول اٹھے جسے میڈیا پر ذرائع کے حوالے سے ارزاں کیا جاتا رہا ہے۔
گو کہ آصف زرداری جو بولے وہ اپنے اوپر سے دباؤ ہٹانے کے واسطے کی ایک تکنیک کے طور پر تو درست اور جائز کہا جا سکتا ہے، لیکن ان کا لہجہ اور اس کے جواز کو ایک بیٹی مریم نواز قبول نہیں کر پائیں۔ آصف زرداری کی کَہنی پر گیلری نے اپنی خواہشات کی تکمیل کی دُھن پر دھمالیں ڈالنا شروع کر دیں۔
آصف زرداری بھی شاید یہ سمجھتے ہوں کہ ان کی نواز شریف کو پاکستان واپس آنے کی یہ رائے زمینی حالات کے کچھ زیادہ موافق نہیں۔ ( یاد رہے کہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی تقریر کے بعد زرداری صاحب طویل عرصے تک دبئی مقیم رہے تھے۔ انھوں نے اُس وقت درست کیا تھا، نواز شریف اِس وقت درست کر رہے ہیں۔ سیاست جنگ کا تھیئٹر یا سکول کے بچوں کی سکول سے چُھٹی کے بعد کی لڑائی بھڑائی نہیں ہوتی۔)
سو آصف زرداری نے جو کہا اس پر مریم نواز نے بَہ طورِ بیٹی مناسب انداز سے اعتراض بھی اٹھا لیا اور زرداری صاحب کو اپنے پن کے احساس، جب وہ خود کو ان کے لیے آصفہ اور بختاور جیسی باور کراتی ہیں، کہہ کر تہذیب سے ان کی عزت و تکریم بھی برقرار رکھی۔ (بیگم کلثوم نواز اور نواز شریف کی تربیت کو سلام)
زرداری صاحب نے بھی اپنی وقتی جذباتی حالت سے باہر آ کر مریم نواز کو اپنے اندر کے کمال بڑے پن سے معذرت کی اور اپنے آپ کو بھلا اور بھرم والا انسان ثابت کیا۔
باقی رہی بات کہ پی ڈی ایم وہ قائم ہے۔ بڑے سیاسی اتحاد ایک جمع ایک برابر دو جیسی حسابیات پر نہیں چلتے۔ یہاں اتفاق و عدم اتفاق چلتے رہتے ہیں۔ بات چیت چلتی رہتی ہے۔ معاملے سلجھتے ادھڑتے رہتے ہیں۔
جن جماعتوں کے stakes زیادہ بڑے ہوتے ہیں وہ ہر چھوٹی موٹی عدم اتفاقی پر پَٹک دَندے پار (یعنی اچھل کود کر کے کارگل پہاڑی پر چڑھ کر اگلے لمحے اترنے کے ترلے منتیں کرنے جیسے فیصلے نہیں کرتے۔ دھیرج رہنا پڑتا ہے۔ ساری تصویر دیکھنا پڑتی ہے۔ سیاست بند گلیوں میں گُھسنے کا نام نہیں ہوتا ورنہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی سے استعفے دے کر کچھ وقت بعد کھے کھاتی کسی شرم حیا کے بَہ غیر واپس لوٹی تھی تو ہاتھ کیا بچا تھا؛ وہ تو بھولنے والے یوتھیے تھے اس لیے فرق نہیں پڑتا تھا۔)
سو، پی ڈی ایم قائم ہے۔ راول پنڈی کی طرف لانگ مارچ نہیں ہو گا؛ نہ ہی سیاسی جماعتوں کا پنڈی کی حرکتوں کے با وجود ایسا کرنا مناسب بنتا ہے۔ نوکری باز لوگوں کی عقل مَت کے مقابل سیاسی قیادت اسی طرح بچپنے والی حرکتیں نہیں کرتی۔ ہاں البتہ، پولی پولی ڈھولکی بجتی رہے گی اور بجتی رہنی بھی چاہیے۔
عمران خان خود اپنے آپ کو سزا دینے کے لیے کافی ہیں۔
پی ڈی ایم بس الیکشن کمیشن کو کم زور نہ ہونے دے۔ اس ادارے کا مضبوط ہونا سب کے مفاد میں ہے۔
آج سپریم کورٹ کا ڈسکہ کے الیکشن کی دی گئی تاریخ کو معطل نا کرنے کا فیصلہ اس کی مہربانی ہے۔
پی ڈی ایم کی چھوٹی جماعتیں تھوڑی ٹھنڈی کر کے کھائیں۔ ن لیگ کے پاس بھی کوئی مرکزی صوبائی حکومت نہیں ہے، بس اسی سے آسرا اور ہمت پکڑیں۔
پھر کہوں گا کہ الیکشن کمیشن کے پیچھے ڈھال بنیں۔