تعلیمی نظام اور کریکولم کی امتحان لینے کی کم زوری
از، یاسر چٹھہ
ملک میں پچھلے برس (2018) سے جاری کرونا وباء کے پسِ منظر میں بچوں کی تعلیم کا بہت حرج ہو چکا۔ اس بابت والدین، تعلیمی مُنتظمین اور دیگر افرادِ معاشرہ کی پریشانی اور فکر مندی سنجیدہ امر ہے۔ لیکن فکر مندی کے اس مباحثے اور مکالمے میں تعلیم اور امتحانات کے جوڑ پر ضرورت سے زیادہ سَر دردی احساسِ زَیاں کو سَوا کر دیتا ہے۔
بھئی امتحان لینے کو اس قدر کیوں سَر پر سوار کر لیا جائے؟
کیا تعلیم و تربیت صرف ایک دن کے امتحان کا ہی حاصلِ کُل ہے؟
کیا امتحان بَہ ذاتِ خود مقصد ہے، یا پھر کسی مقصد کی جانب جاتے رستے کا صرف بیچ کا پڑتا پڑاؤ؟
کسی بھی تعلیمی نظام کے تھکے ہونے کی ایک بہت ہی بڑی دلیل اس نظام کا آخری امتحان، summative assessment، پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ او لیول اور اے لیول کے امتحانات کے متعلق بھی حکومتی سطح پر یہی نفسیات حاوی رہی۔ حالاں کہ ارد گرد کے ہمسایہ ممالک میں اساتذہ کے دیے انٹرنل گریڈز پر اعتماد کیا گیا۔ داخلی جائزے کی یہ آزمائشیں طلباء کی مائیکرو لیول پر تعلیمی ترقی کی جانچ کا پیمانہ بنتی ہیں۔
لیکن ہم تو کسی جماعت کے آخری امتحان کو روزِ قیامت بنانے پر تُلے لوگ ہیں، اور اس کی یہی ہَیبت طلباء کو do-or-die mode میں منتقل کر دیتی ہے۔ یہی چیز امتحانات میں نقل کے امکانات کو اور اس کی اہمیت کو بڑھاتی ہے۔ ایسا کرنا تدریج پر جھٹکا کرنے کو فوقیت دینے کی کسی انقلابی خَر مستی کی نفسیات ہے۔
آخری امتحان پر اس قدر زور اور انحصار ہمارے کریکولم کی تکنیکی جِہت کی کم زوری اور ضُعف کا بڑا واضح اظہار ہے۔ (یاد رہے کہ کریکولم سے مراد ہماری دیکھی بھالی درسی کتابوں کے ٹائیٹل صفحے کے اندر والا گِھسا پِٹا تین لائنوں کا وہ پیراگراف ہی نہیں ہوتا جس میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس موجودہ کتاب کو وزارتِ فلاں فلاں کے کریکولم ونگ کی سفارشات اور منظورِ نظری کے بعد پیش کیا جا رہا ہے؛ اور کریکولم قطعی طور پر اس قدر بَونا بھی نہیں ہوتا کہ وہ صرف درسی کتاب پر ہی مشتمل ہو۔ یہ کریکولم طلباء کے درس گاہ میں اور درس گاہ سے منسلک دنیا میں تعلیمی تجربات کا کُل سامان، فہرست اور اثاثہ ہوتا ہے۔) سو آخری امتحان پر کُلی انحصار کسی کریکولم کے عملی جِہتوں سے کٹے ہونے کا بھونڈا عکس ہوتا ہے؛ اور اس سے بھی بڑا افسوس ناک پہلو اس پہلو سے اساتذہ تک کی بھی عدم آگہی ہے۔
اساتذہ آخری امتحان کو اپنی پیشہ ورانہ تربیت میں جُزوِ کُلی باور کرتے آتے ہیں۔ اسی یقین سے وہ طلباء کی تدریس کی منصوبہ بندی کرتے ہیں: بس اہم موضوعات اور سوالات کرا دیجیے، طلباء کیسے فرد، کیسے معاشرتی جُزو، کیسے شہری، اور کیسے قومی اور عالمی معاشرے میں کیسے cosmopolitan ساجھے دار بنیں گے، اس کی فکر ان کے نظامِ فکر و خیال کو زیادہ خراشتی نہیں۔
جیسا کے اوپری سطروں میں اشارہ دیا کہ آخری دھماکے دار امتحانی تقاضا، high stake exam ہمارا کلچرل اور (لا) تہذیبی مسئلہ ہے۔ ہم زندہ اور سانس لیتا کریکولم اور اس کی ذیل مؤثر نصاب، اور پھر ان کی ذیل میں درسی مواد نہیں بنا سکتے۔
کوئی روشن دماغ، جرأت مند فرد اور افراد کا گروہ اگر کسی صورت کرتے کرتے کوئی کوشش کر بھی لیں تو انھیں بہت ہی زیادہ compromises کرنے پڑتے جاتے ہیں۔ بہت بڑا سسٹم، بہت ساری زنگ لگی انسانی مشینری اور اس کو اپنی اندر کی خشکی سے رگڑتے process کے پُرزے۔
تعلیم کے شعبے میں موجود، سول سروس سے بھی ہلکے درجے کا human resource کیسے ڈیجیٹل کلچرز کے چیلنجز کے ساتھ شانہ بہ شانہ چل سکتا ہے…؟
It’s awful… It’s awful.
ایجوکیشن پر بہت زیادہ سوچنا، اور اس پر اظہار کرنا، depression میں اضافہ کر دیتا ہے، اور خود اس پیشہ سے وابستگی کی بناء پر conflict of interest کے خدشات بھی ذہن میں آنے لگتے ہیں۔ اس لیے ان معاملات پر اپنے اوپر خود سے لاگو کردہ سینسر میں حد درجے تک خود کو خاموش ہی رکھتا ہوں۔
بہت بولنے کے با وجود، خود کو کئی ایک طریقوں سے خاموش کراتے رہنے سے دَم گُھٹتا ہے۔ لیکن اسی دوران پتا چلتا ہے کہ digressions اور distractions نعمت بھی تو ہوتی ہیں۔