غضنفر کے چند اہم افسانوں کا موضوعاتی مطالعہ
از، سمِیرہ رفیق
عالمی افسانہ فورم (ایک فیس بک گروپ) پر افسانوں کے سالانہ میلے۲۰۲۰ میں شریک ہوئی تو ہمیشہ کی طرح رنگا رنگ افسانے پڑھنے کو ملے۔ انھی افسانوں میں محترم جناب غضنفر صاحب کا ایک منفرد افسانہ کڑوا تیل بھی شامل تھا جس پر میرا تبصرہ بھی فورم کا حصہ بن چکا ہے۔ اسی افسانے سے متأثر ہو کر میں نے ان کے دیگر چار افسانوں سَرسوَتی اسنان، خالد کا ختنہ، مسنگ مین اور میسج الرٹ ٹون کو پڑھ کر اپنے تجزیات قلم بند کیے ہیں جنھیں یک جا کر کے ایک مضمون کی صورت پیش کر رہی ہوں۔
فاضل مصنف کے یہ افسانے فوراً دل پر اثر کرتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ ان کے قلم سے سپردِ قرطاس ہوئے بل کہ اس لیے کہ ان میں وہ تمام اجزاء ہیں جنھیں پڑھ کر، دیکھ کر، سمجھ کر، محسوس کر کے ایک مکمل منظر اور کہانی، اس کے سبھی کردار، کرداروں کی نفسیات کو جانچا پَرکھا جا سکتا ہے۔
جس کانٹیکسٹ میں وہ کہانی کا خمیر اٹھاتے ہیں، وہ یہ معاشرہ ہی ہے اور اس میں مختلف سطح کے مسائل ہیں، خواہ ان کا تعلق کسی ایک گھرانے سے ہو یا معاشرے کے تمام افراد سے جڑا ہو، بَہ ہر حال افسانوں کے موضوعات ہر حساس اور با شعور قاری کو اپیل کرتے ہیں۔
جہاں تک بات ہے افسانوں کے کرداروں کی تو تمام کردار اپنی جگہ، وقت اور دورانیے میں بناء کسی طول کے خود کو ظاہر کرتے اور کہانی میں اپنا اپنا رنگ بھرتے چلے جاتے ہیں۔ اور وہ بھی کچھ اس طرح کہ مکمل منظر نامہ آنکھوں میں گھوم جاتا ہے اور واقعات کی ہیئت و نوعیت کے اعتبار سے مرکز بھی اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔
پہلو بَہ پہلو جُزئیات نگاری اور منظر نگاری ضرورت کے حساب سے ماحول کو رنگین یا اداس بنا کر کیفیات یا محسوسات کو ابھارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں اور سب سے خاص بات ان تمام عناصر میں تخلیق کار بَہ ذاتِ خود جملہ حِسیّات، احساسات و جذبات، فکر و شعور اور بیداری کے ساتھ مرکزی حیثیت سے فن پارے کے اندر قلب بن کر دھڑکتا رہتا ہے۔
مرکزی یا دیگر کردار اور ماحول آپس میں مربوط دکھائی دیتے ہیں اور فن پارہ حصے بخروں میں بٹا معلوم نہیں ہوتا بل کہ تمام اجزاء یوں گُندھے ہیں کہ ہر ایک جزو دوسرے کو سپورٹ فراہم کرتے ہوئے اکائی کی تعمیر کرتاہے۔ اس پر مناظر کی لفظی تصویر کشی بھی ایک مکمل تأثر کو شروع سے آخر تک برابر انگیخت کیے رکھتی ہے۔ اس سے بڑھ کر کسی تحریر یا فن پارے کی اور کیا خصوصیات ہوں گی؟
متن کی زیریں ساخت یا سطح پر انتہائی دل دوز حقائق کی لہریں دکھائی دیتی ہیں۔ جو پامال شدہ نفسیات کے نا سُور سے رِسنے والے مواد کے مترادف ہیں۔ انسان کے بنیادی مسائل، داخلی خلفشار، شکست و ریخت اور باطن میں موجود اَن مِٹ خلا ما بعد جدید حِسیّت کے ہی زائیدہ ہیں جو بَہ طورِ علامت افسانوں کا حصہ بن کر ابھرتے ہیں۔ تمام افسانوں کے واقعات شاید مصنف کی داخلی کیفیات سے مملو ہو کر ہی سپردِ اوراق ہوئے ہیں۔ گویا یہ تحریریں عصری حِسّیت کا واضح منظر نامہ ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو افسانوں میں ایک طرف خوشیاں بھی ہیں — غم بھی ہیں، کرب جھیلتی اور مَسخ شدہ نفسیات بھی ہے۔ ایسے انسان بھی ہیں جو درد و کرب اور داخلی آشوب کا بوجھ محسوس کرتے ہوئے حالات کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے ہیں اور ایسے خاموش تماشائی بھی ہیں جو ماحول کی رنگینیوں اور خوش بُووں میں وقتی طور پر کھو کر اپنا آپ بھی بھلا دیتے ہیں۔
یہی تخلیق کا کمال ہے کہ تخلیق کار کے باطنی جہاں اور شعور کی آنکھ سے ہم کہانی کا فکری تجزیہ بھی کر پائیں اور ساتھ ساتھ ناک کی سیدھ میں چلتی بے شعور ربوٹک بھیڑ کو تھوڑی دیر کے لیے روک کر فکشن کے سٹروکس کا لطف بھی اٹھا سکیں۔
ایک پل کو بھی محسوس نہیں ہوتا کہ طوالت بڑھ گئی یا کہیں سے کہانی کا کوئی سرا یا ربط ٹوٹ گیا ہو اور قلم سے کچھ چھوٹ گیا ہو۔ بڑے اور بنیادی انسانی مسائل کا اِحاطہ کرتے ہوئے، مصنف نے انھیں بے حد خوب صورتی اور باریک بینی کے ساتھ اپنے افسانوں میں سمیٹا ہے۔
افسانہ کڑوا تیل میں سونٹے کی آواز اور بیل کی حالت محسوس کر کے پورے وجود میں جھرجھری سی آ گئی، ایک لحظہ کو یوں لگا گویا اپنی روح پر کوئی کوڑے برسا کر جھنجھوڑ رہا ہو۔ یہ سب محسوس کرتے ہوئے مجھے مشہور و معروف نوبل انعام یافتہ ناول نگار J.M Coetzee کا ناول رسوائی کی ساتویں سمت Disgrace یاد آ گیا۔ جس میں مصنف نے جان وروں کی تباہ کن صورتِ حال کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حیوانات کی زندگی اور ان کے ethical issues کے لیے یہ بہترین افسانہ ہے جسے میں پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اگر افسانہ نہ ہوتا تو ایک بہترین ناول ضرور ہوتا کہ ایک مختصر سے منظر میں انتہا درجے کی مہارت سے حیوانات کے ساتھ برتے جانے والے سلوک کی بہت اعلیٰ اسلوب میں عکاسی کی گئی ہے۔
اس تناظر میں یہ منظر اور مہارت ایک مختصر موضوع یا افسانے کا بیان نہیں رہ جاتا بل کہ اسے بڑی تحریر، بڑا افسانہ اور موضوع declare کر دیتا ہے۔ اس پُر سوز اور پُر ملال افسانے میں جہاں تکلیف دہ جان ور کی حالتِ زار یعنی (حاکم کا محکوم کے ساتھ برتاؤ) پورے منظر پر پھیلا ہوا قاری کے باطن کو جھنجھوڑتا ہے تو وہیں گھومتے، پھرتے، چرتے جان ور کی آزادی سے محکوم کی آزادی، تحفظ اور بہبود کو بھی کھلے میدانوں اور روشن چراگاہوں سے تشبیہ دے کر بہت خوب صورتی سے بیان کرتا ہے کہ ایک با شعور قاری بھی فاضل اور محترم مصنف کی فکر اور احساس کی آنکھ سے دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے۔
افسانہ سَرسوَتی اسنان بھی ایک بڑے افسانے کی حیثیت سے ادبی تاریخ میں اعتبار پانے کا حق دار ہے۔ افسانہ سَرسوَتی اسنان اپنے اندر جان دار، تحرک آمیز، تجسس اور ایڈوینچر سے بھر پُور وسیع منظر نامہ سمیٹے ہوئے ہے جو انسانی زندگی سے جڑے بہت بڑے حادثات اور واقعات سے جا ملتا ہے۔
متنوع مسائل سے نبرد آزماء انسانوں کا کرب گویا تخلیق کار کے باطن پر اترا اور پھر تحریر میں داخل ہو کر ہمارے دلوں میں بھی جگہ بنا رہا ہے۔ سَرسوَتی اسنان کے سفر میں قاری ایک ایڈوینچر کا لطف اُٹھاتے ہوئے آگے سے آگے نئے مرحلے کا انتظار کرتا ہے۔ ابتدا سے ہی ذہن مہم کے سِحَر میں یوں گرفتار ہوتا ہے کہ محویت آخرِ دم تک قائم رہتی ہے۔ دیو مالائی یا اساطیری touch جہاں ایک طرف معلومات فراہم کرتے ہیں وہیں ایک مکمل کہانی کا تأثر بھی ملتا ہے۔
سفر کے دوران ہی مرکزی کردار پر دل گُداز انکشافات ہونے لگتے ہیں۔ درجہ بَہ درجہ آگہی کا در کھلتا ہے اور یوں متزلزل ہوتے انسانی سماج کے مختلف تناظرات سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔
کبھی ہجرت زدہ انسانوں کی دوڑ کا کوئی تناظر صحراؤں کی ہول ناکی سے ابھرتا ہے تو یخ بستہ علاقوں کی جان لیوا ٹھنڈک میں جا ڈوبتا ہے۔ پھر بھوک کا چکر اور پیٹ کا دوزخ جسے انسان صدیوں سے بھوگتا آ رہا ہے اور جو سب سے سنگین مسئلہ ہے، جس کے باعث ہر جا وسائل کے حصول کے لیے جنگ و جدل جاری ہے۔
اسی دوزخ کو بھرنے اور اس کی بھوک مٹانے کے واسطے انسان پرایے دیسوں میں مقتدر طبقوں اور سام راجی قوتوں کے ہاتھ کا کھلونا بن جاتے ہیں، بالکل دانوں پر جھپٹتے، کرتب دکھاتے بھوکے ہجرت زدہ پرندوں کے مانند، بھوکے عوام بھی ان دور دیسوں میں اپنے اپنے حصے کے کرتب دکھاتے اور ہر آن طاقت ور گروہ کی نظر کے تعاقب میں قیدی کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ جب اس قید کی طوالت اور سنگینیاں بڑھنے لگتی ہیں تو جان بچا کر اپنے وطن لوٹ آنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
اسی تناظر میں دیکھیں تو مذہب بھی انسان کی بھوک مٹا نہیں پاتا۔ جب تک پیٹ خالی ہے مذہبی اعمال پر بھی عمل در آمد نا ممکن ہے! حتیٰ کہ بھوک کی اس آگ نے انسان کے ہاتھوں دوسرے انسانوں کی بولیاں لگوائیں، جسم فروشی کے لیے عورت کا وجود پامال کر ڈالا، بچوں کو ذبح کر ڈالا…
مذہب کے نام پر قتل و غارت گری، دوسرے مذاہب کا انہدام اور اس کی روک تھام کے لیے خود کو قربان کر دینے والے انسان کی قربانی اب تک کے انسان کی قربانیوں اور survival کا نوحہ ہے اور افسانے کا بڑا موضوع بھی جو نہایت چابک دستی اور پُر کاری سے تشکیل شدہ متن کا حصہ بن کر تاریخ کے بیش تر مناظر کی بازیافت کے مِصداق ہے۔
یہ افسانہ صارفی تہذیب کی اجارہ داری اور پھیلاؤ پر بھی کئی حوالوں سے ماتم کُناں ہے۔ کیسے انسان تیزی سے اس جال میں جکڑتے چلے گئے اور فیکٹریاں زر کمانے کے لیے مستحکم کر دی گئیں۔ ایسی ہزاروں فیکٹریاں انسانوں کو پرندوں کی مانند ہی نئے سے نئے پراڈکٹ کی لالچ میں بہا لے گئیں۔ انسان بھی پھڑپھڑاتے پرندے کی مانند ہر نئی فیکٹری کے نئے سے نئے دانے (پراڈکٹ) کا خریدار ہونے لگا۔ یہاں تک کہ پانی میں ڈُبکیاں لگاتے پرندوں کی مانند ایک دن انسان بھی اس عالم گیریت اور صارفیت کی دوڑ دھوپ میں پیٹ کے دوذخ اور مادی آسائشوں کے حصول کے جہنم میں ہی ڈُبکیاں کھا نے پر مجبور ہو گیا۔
یوں پرندے اور دانے، ان کا بھوکا ہونا، جھپٹنا، ہجرت کر کے دریا پر آنا اور انسانوں کا ان کے کرتب دیکھ کر لطف اندوز ہونا، قریب ہی فیکٹریوں کا لگ جانا اور پھر انسانوں کی اندھا دُھند بھاگ دوڑ افسانے میں بڑی اور نمایاں علامات بن کر اُبھرتے ہیں۔
گنگا جمنا اور ان کا سنگم اس افسانے کی ایک اہم علامت ہے۔ ایک ہی وطن، خطے یا سر زمین پر الگ الگ گروہ یا تہذیبوں کے تعصبات اور امتیازات میں جکڑے زخم خوردہ افراد سَرسوَتی اور اس کے اشنان کے صحیح معنوں سے بھی کیا واقف ہوں گے!
ان مسائل کو درست سمت میں سمجھنے کے لیے یہاں مجھے مشہور و معروف نفسیات دان ابراہم ماسلو کی تھیوری Hierarchy of Needs یاد آ گئی جس کے مطابق بنیادی ضرورتیں ہی پوری نہ ہوں تو انسان self-actualization (نروان) کی منزل تک بھی نہیں پہنچ پاتا، کیوں کہ سَرسوَتی تو اسی کو دکھائی دے گی جو شعور کو بلند و بالا بنائے، عمیق نگاہی اور دانش و بصیرت سے اپنے درُون کے ساتھ ساتھ خارجی مظاہر کا علم بھی حاصل کرے اور انسان کے مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے ہم دردی کی نگاہ سے دیکھے۔
سفر کے آخری دوراہے پر کردار کی باطن کی آنکھ کھلنے پر اسے معمولاتِ زندگی اور ان کے عذاب کا مکمل ادراک بھی ہو جاتا ہے اور اس سیاق میں وہ سفر کے اختتام تک انسان کے وجودی کرب کا احساس بھی بَہ خوبی کر لیتا ہے۔ گویا یہ سفر زندگی کا سفر ہے اور تمام واقعات اور باتیں انسانی مسائل اور تکالیف، مجموعی انسانی کرب کے گیان دھیان کا مرحلہ ہو کر سامنے آتی ہیں، ملاح شاید تگ و تاز اور شعور کی تمثال ہے، انسان کی اصل معراج اور علم کی علامت ہے جس کی وساطت سے مرکزی کردار ان رازوں سے پردہ اٹھا لیتا ہے جنھیں آج سے پہلے وہ یوں دیکھ نہ پایا تھا۔
پھر مرحلہ وار وہ نروان کی منزل کی جانب بڑھ جاتا ہے جو اسے شعوری طور پر آگہی، عمیق نظری اور فکر کا اعلیٰ مقام عطا کرتی ہے۔ مختلف مدارج طے کروا کر سوچ کو جلا بخشتی ہے کیوں کہ ان سب سے گزر کر ہی صحیح معنوں میں اشنان یا باطنی اشنان کے فرق اور مفہوم تک رسائی ممکن ہے۔ اسی کے بَہ مُوجب مرکزی کردار کی حرکات و سکنات میں بھی تبدیلی در آتی ہے اور مجموعی کرب اور احساس کے ہم راہ آخر میں وہ پرندوں کو عاجزی و انکساری سے دانہ ڈالتا ہے کیوں کہ وہ جان جاتا ہے کہ پرندے کی بھوک اور ہجرت در اصل انسانی ہجرت اور کرب کا ہی استعارہ ہے۔
اس سعی میں جکڑے پرندے اور دریا میں بکھری ان کی لاشیں در اصل انسانی زندگی کی رائیگانی، بے چارگی اور مرگِ نا گہاں کی ہی تصویر اور تفسیر ہیں۔
افسانہ خالد کا ختنہ میں رواں، سادہ اور خوب صورت نثر نے کہانی کے مجموعی تأثر کو اثر انگیز بنا دیا ہے۔ تقریب کی تیاری اور گھر کی آرائش و تزئِین کا اہتمام یوں کیا گیا جیسے حقیقتاً شادی کا ماحول ہو؛ کھانا، خوش بوئیں، افرادِ خانہ، زرق برق لباس، ہنستے مسکراتے چہکتے چہرے اور خوش گپیوں کا سماں خوشی کے مناظر پیش کرتے ہیں۔
جیسے ہی کہانی آگے بڑھتی ہے ہم یہ پڑھ کر چونک پڑتے ہیں کہ یہ خالد نامی بچے کے ختنے کی تقریب ہے۔ مہمان تقریب کے آغاز کے لیے منتظر ایک جگہ جمع ہیں۔ لیکن عین موقعے پر خالد غائب ہے جو افسانے کا ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ تکنیکی اعتبار سے اس جانب نہایت باریکی اور مہارت سے قاری کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ خالد کونے میں دُبکا چھپا بیٹھا ہے اور ختنہ نہیں کرانا چاہتا۔ جس پر والدین اور رشتے دار کبھی کھلونوں اور ٹافیوں کا لالچ دے کر منانے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی بہادری کی بات کر کے بچے پر نفسیاتی وار کیا جاتا ہے جو معاشرے، سماج اور مذہب کے جبر کا مظہر ہے اور اس ایک مظہر کی تکمیل کی خاطر کیسے کیسے پاپڑ بیلے جاتے ہیں، حتیٰ کہ خالد کو نیا کرتا پہنانے اور دُلھا بننے کی بھی ترغیب دلائی جاتی ہے۔ وہ ہر پیش کش کو ٹھکراتے ہوئے شد و مد کے ساتھ ختنے سے انکار کرتا چلا جاتا ہے۔ جب والدین زبر دستی پر اتر آتے ہیں تو خالد کی زبان سے ختنے کا انکار ان الفاظ میں ہوتا ہے:
ابو! آپ ہی نے تو ایک دن کہا تھا کہ جن کا ختنہ ہوتا ہے بد معاش انھیں جان سے مار دیتے ہیں۔
جس کے جواب میں ماموں خالد سے مخاطب ہیں:
خالد بیٹے! اگر تم ختنہ نہیں کراؤ گے تو جانتے ہو کیا ہو گا؟ تمھارا ختنہ نہ دیکھ کر تمھیں ختنہ والے بد معاش مار ڈالیں گے۔
افسانے میں جہاں ایک طرف ماحول کی رنگینی ہے وہیں تقریب میں سنگینی کا بھی منفرد رنگ دکھایا گیا ہے اور ایک خاص حد میں رہتے ہوئے فِکشنل جملوں کے ذریعے سے ہی سو کالڈ روایات یا مذہبی مسائل سے جنم لینے والی منافرت، شدت پسندی، تضادات، اقلیت کے استحصال، جبر و استبداد اور دنگوں کی جانب ”بد معاش“ اور کبھی ”ختنے والے بد معاش“ کہہ کر دبے لفظوں میں اشارہ کیا گیا ہے۔ جس کے اختتام پر خالد قتل کے متعلق سن کر چار و نا چار ختنے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے ایسی حالت میں کسی کو بھی کھلونوں، ٹافیوں، خوشیوں، نئے کُرتے اور دُلھا بنائے جانے کا ہوش ہوتا ہے نہ خبر نہ فکر۔
مصنف نے دکھایا ہے کہ سبھی کو ایک ہی فکر دامن گیر ہے اور وہ ہے شاید سماجی و مذہبی اقدار اور جبر کے ہاتھوں قربانی کا بکرا بنائے جانے کی، ذبح ہونے اور کرنے کی۔ مُوروثی اقدار کی کُند چھری سے معصوم اور بے گناہ کو یرغمال بنانے کی۔
افسانہ مِسنگ مین عالمی صارفی معاشرے یا کارپوریٹ کلچر کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ اس کلچر میں پروان چڑھتی نئی نسل کی بے جا آرزووں اور امنگوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ماں باپ کے جذبات مجموعی انسان کے درد و کرب یا کُلی طور پر وجودی کرب کا بیانیہ بن جاتے ہیں۔ کہانی میں نیا گھر ہے اور اب گھر کو رنگ کرنے کی باری ہے۔ والد اور بچوں میں بحث چھڑ جاتی ہے، بچے بَہ ضد ہیں کہ وہ اپنی پسند کا رنگ کرائیں گے جو والد کی پسند کے رنگ سے کچھ گاڑھا ہے۔
باپ کا اصرار اپنی ہی پسند کے ہلکے رنگ پر ہے۔ ایک بچہ بحث و تکرار سے تنگ آ کر کہہ دیتا ہے کہ پاپا آپ ضد کر رہے ہیں نا! یہ کہہ کر وہ منظر سے پرے تو ہٹ جاتا ہے لیکن والد کے دل پر یہ الفاظ بجلی بن کر گرتے ہیں انھیں اپنا بچپن اور وہ وقت یاد آ جاتا ہے جب وہ خود بچے ہیں اور ان کے اپنے والد کا گھر میں ایک مقام اور منصب ہے اور مرکزی کردار کی ہر پسند و نا پسند والد کے انکار کے آگے مدھم ہو کر انھی کی خواہش میں تبدیل ہو جاتی ہے حتیٰ کہ پسند کی لڑکی سے شادی بھی نہیں ہو پاتی۔
پھر مرکزی کردار جو کہ ایک باپ ہے، اپنے حالات کا تجزیہ کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ جینریشن گیپ کے باعث کتنا بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے، بچے اپنی ہر جائز و نا جائز بات منوا کر ہی دم لیتے ہیں خواہ وہ پسند کی جگہ پر مکان بنانا ہو یا پسندیدہ کالج میں داخلہ ہو یا من پسند موٹر بائیک یا گاڑی لینا ہی مقصود ہو۔
والدین اپنا خون پسینہ ایک کر کے بھی بچوں کی خواہشات پوری کر دیتے ہیں اس کے لیے وہ اپنا آپ بھی ختم کر دینے کو تیار ہیں جیسا کہ مرکزی کردار کی بیوی اس کے پاس آ کر کہتی ہے کہ بچوں کو ان کی پسند کا رنگ کروا لینے دیں! آخر ہم نے کب تک زندہ رہ لینا ہے؟ ہمارے بعد انھی بچوں نے اس گھر میں رہنا ہے۔
افسانے کے مطابق یہاں بات زندہ رہنے، مرنے یا گھر میں رہنے یا چلے جانے کی نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جس باپ کا ایک منصب و مقام ہے جو ساری عمر بچوں کے لیے ہی جیتا چلا آیا، کیا اس کا اتنا بھی مقام اور عزت نہیں کہ اسے ایک بار اپنی منشاء و رضا سے کچھ کر لینے کا حق دے دیا جائے؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آج کے دور کی اولاد اور جینریشن گیپ کے باعث انھیں صرف اور صرف اپنی ہی خواہشات، خوشی، سہولت اور اغراض عزیز ہیں۔ خواہ اس کے لیے والدین کے جذبات ہی کیوں نہ مجروح ہوں۔ ان کے پیار یا طاقت اور توانائیوں کا خون ہی کیوں نہ ہوتا ہو۔
افسانہ ہمیں دکھاتا ہے کہ یہی والدین جب بچے تھے اپنے والدین کے آگے سر جھکائے جیے چلے جاتے تھے۔ انھوں نے اپنے والدین کو کبھی وہ تکالیف اس طرح نہ دی تھیں جو آج کے صارفی معاشرے کی اجارہ داری کی مرہونِ منت ہیں۔ مصنف کے نزدیک زندگی کے لیے جد و جہد اور مسلسل قربانیوں کے بوجھ تلے دبا ہوا انسان اب شاید اپنے اصلی جوہر کو کہیں گم کر چکا ہے یا اپنے آپ کو تلاش کرنے میں خود کی مدد سے زیادہ اسے انھی رشتوں کی مدد کی ضرورت ہے جو اسے بَہ طورِ مسنگ مین ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھے ہیں۔
اپنوں کی چاہت اور محبت کے رنگ سے زیادہ ان کی ضد، بے حسی اور بے جا اغراض کا گاڑھا رنگ سر چڑھ کر بولتا اور دِکھتا ہے۔ جس کے سامنے باقی سارے رنگ پھیکے پڑ چکے ہیں یا پھیکے دکھائی دیتے ہیں۔
افسانہ میسج الرٹ ٹون پڑھتے ہوئے ابتدائی پیرا گراف سے ہی دل چسپی بڑھنے لگتی ہے، مگر آگے جا کر کیا ہو گا معلوم نہیں۔ تأثر قلم بند کرتے ہوئے دل پر ابھی بھی لرزہ طاری ہے۔
افسانے کی ابتداء میں جو آئیڈیا چندر پرکاش نے تحریر کیا (چندر پرکاش افسانے کا مرکزی کردار ہے) اسے پڑھ کر میرے لبوں پر مسکُراہٹ کھیلنے لگی۔ جو آخری جملہ:
آپ کا بھاری پن غائب ہو جائے گا اور آپ پھول کی طرح ہلکے ہو جائیں گے۔ ہم سے رابطہ کیجیے۔
تک قائم رہتی ہے اور کہانی کا آغاز اور مطلب سجھانے لگتی ہے۔ آگے چل کر خوب صورت جملے بھی پڑھنے کو ملے جیسے:
جو ان کے انگوٹھے کے رقص کے جواب میں داد کے طور پر اُبھری تھیں
افسانے سے عیاں ہے کہ کس طر ح انسانی نفسیات خصوصاً احساساتی و جذباتی سطح پر گھٹن زدہ دائروں میں مقید ہو کر حبس زدہ آلودگی کی شکار ہے۔ انسان خود کو ٹٹولنے کی بَہ جائے بڑی آسانی سے اپنے بنائے ہوئے جہنم زار سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ حیرت کی انتہا تو یہ ہے کہ برسوں بیت جانے پر بھی انھیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ساتھی کو کس صحرا میں دھکیل رہے ہیں کہ قریب ہوتے ہوئے بھی محبت پنپ نہیں پاتی اور پیاس بجھتی نہیں اور آس بھی کبھی نہیں مٹتی۔
ایسے میں کوئی زرخیز پل،کوئی خوش گوار ہوا کا جھونکا انھیں میسر آ جائے تو جیسے بنجر زمین پر کوئی پھول سا کھل اٹھتا ہے۔ اب ایسے پھولوں کو کھلنے اور ذات کی سیرابی کی غرض سے آج کے انسان کو نہ مذہب، نہ ہی کوئی رسم و رواج اور اقدار اور نہ ہی معاشرے کی پرواہ رہتی ہے۔ اپنوں کے ہوتے بھی دوسروں سے رشتے تیزی سے پروان چڑھنے لگتے ہیں پر جب تک عقل ٹھکانے آتی ہے بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ذہن اپنے مِحور سے ہٹ کر کہیں اور کھونے لگتا ہے۔ سب جانتے ہوئے بھی خود کو بہلا پُھسلا کر کہیں اور بہنے اور بہلنے لگتا ہے۔ جیسا کہ چندر پرکاش کے ساتھ بھی کہانی کے اختتام پر ہوا۔ جو ان جملوں سے بالکل واضح ہے:
تحریر انباکس سے نکل کر آؤٹ باکس میں پہنچ گئی۔ حرف خط و خال میں تبدیل ہونے لگے۔ آہستہ آہستہ تصویر بننے لگی۔ نگاہیں نئے رنگ و روغن کی طرف کھنچنے لگیں۔
دورانِ قِرأت بار ہا نظریں کہیں ٹھہرنے سی لگتی ہیں۔ دماغ کہیں کھونے لگتا ہے۔ دل پر لرزہ طاری ہونے لگتا ہے۔ میسج الرٹ ٹون کی طرح ذہن پر کوئی گھنٹی بجنے لگتی ہے۔ یہ الرٹ ٹون یا گھنٹی سماج کے ہر فرد کے لیے ہے تا کہ وہ تھوڑا ٹھہر کر سوچے اور اپنا محاسبہ کرے۔
مرکزی کردار کی عجیب حالت ہونے لگتی ہے۔ اپنا کیا دھرا سب اسے یاد آنے لگتا ہے۔ ہر غم و غلطی کے پسِ پردہ وجوہات کی بازیابی ہونے لگتی ہے۔ تکلیف اور سچ کی شدت جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر پکارنے اور کہنے لگتی ہے:
دیکھو خود کو! سوچو سب کو! ٹٹولو خود کو! کھولو سچ کو! جانو سب کچھ!
کہیں کوئی صحرا، کوئی نرکھ تم نے اپنے گرد تو نہیں بنا لیا؟ یا کھڑا کر لیا؟ جس کی ریت کی گرد سے تمھاری اپنی آنکھیں بھی دھندلا گئی ہوں؟ اور جب کھلیں تو مکمل طور پر اس کی لُو اور گرمائش کی لپیٹ میں آ جائیں اور تمھارے لیے اپنا ہی کوئی نخلستان نہ بچے! جس کی خواہش میں تم بھی بھٹکنے لگو اور دور جا نکلو۔ بَہ ظاہر تو دو لوگ ساتھ ہوں مگر ذہنی اور روحانی طور پر اپنے ہی تشکیل کردہ میکانکی جہان میں زندہ لاش بن کر جئیں۔ مگر جب سانس لیں تو کہیں بہت دور جا کر۔۔ لیکن وہ بھی ادھوری سانسیں جنھیں ان دائروں کے ہوتے پوری طرح جیتا کون ہے؟
داخلی شکست و ریخت کے عمل سے گزر کر، آج کا انسان وجودی کرب کا بوجھ اُٹھائے، روحانی دیوالیہ پن اور مفلوج پن کا شکار ہے۔ افسانہ پڑھ کر اس کی سچائی اور شدت کا بھر پُور اندازہ ہوتا ہے۔ انسان کے جہاں اور بھی مادی مسائل ہیں وہاں روحانی ضرورتیں بھی ہیں۔ self esteem وہی پنپتی اور تسکین پاتی ہے جہاں ذہن و دل کے کھلنے اور زندہ رہنے کو مناسب ماحول، ہم آہنگی، پیار محبت، قدر اور دوستی جیسے جذبے پروان چڑھتے ہوں۔ بَہ صورتِ دیگر مادی دوڑ کی پریشانی و سنگینی اور مسائل کے ہم راہ ساتھی یا رشتے ناتوں کا نا روا سلوک انسان کو اندر سے بھی مکمل طور پر کھوکھلا کر دیتا ہے۔
افسانے میں اس موڑ پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اپنے ساتھی کی ضرورتِ نفس کا کیا مداوا ہو؟ دباؤ بڑھ جائے تو نتیجہ کچھ اور ہی برآمد ہو گا۔ ہم کیوں نہ اس مسئلے کی بنیاد تلاش کر کے اسے ٹھیک کریں (افسانے کے پیغام کے مطابق) جب کہ ان مسائل کی جڑیں بھی افسانے میں موجود ہیں، دکھائی بھی دے رہی ہیں، بس تھوڑا ٹھہر کر سوچنے کی ضرورت ہے۔
افسانے میں واضح طور پر ایسے اشارے موجود ہیں جو انسانی معاشرے،اس کے اہم جُزو، خاندان، رشتوں، سماجی ضرورتوں کو کارپوریٹ اداروں اور صارفی تہذیب کی زَد پر بکھرتا ہوا دکھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ مذہب، رسوم و اقدار اور ان سب سے بڑھ کر انسانی نفسیات بھی مجموعی طور پراس جکڑ بندی یا چَنگُل میں برے طریقے سے پھنس چکے ہیں جس سے نکلنا اب مشکل ہی نہیں بَل کہ نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔
جہاں ایک طرف ذہنوں کو خواب اور جذبات بیچ کر منافع خوری کا دور دورہ ہے تو دوسری جانب بیچنے والوں کی بے توجہی، لالچ اور اغراض کے اثرات کی لپیٹ میں ان کے اپنے پیاروں کے خواب اور جذبوں کے بھی بہت سے خریدار گھات میں ہیں، یوں اس عالمی منڈی میں پیار اور اخلاص کا مندا recession ہے۔
جذبوں، رشتوں اور خوابوں کا بھاؤ تاؤ زور و شور سے جاری ہے۔ بیچنے والے بھی خریدار ہیں اور جو خریدار ہیں وہ اَز خود کہیں نہ کہیں کسی درجے پر تاجر بن بیٹھے ہیں، اس طرح ہر دو سطح پر سودے بازی کا سماں بندھتا دکھائی دیتا ہے۔
اس تناظر میں یہ افسانہ انسانی نفسیات، احساس و جذبات کے آشوب کا اظہاریہ ہے۔ اور نت نئی پیچیدگیوں کے حال سنا کر، انسان کے خلا کو پُر کرنے کے ذرائع دکھاتا اور بتاتا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ انسانی ذہن اپنی کمیوں کو پورا کرنے کے لیے، سماج کے جبر اور قانون کی بالا دستی کے با وُجود بھی ہر جائز و نا جائز طریقے سے اپنی راہیں نکال لے گا۔ لہٰذا ضرورتوں اور تسکین کے سامان کے پیشِ نظر اغراض کی اس عالمی منڈی میں خواہش اور تکمیل کی طلب اور رسد کا کھیل مزے سے کھیلا جا رہا ہے۔
نفسیاتی تقاضے بھی اب عالم گیریت اور کارپوریٹ سماج کی بھینٹ چڑھ کر commercial مقاصد بن چکے ہیں۔ جس سے ہم سب یوں نبرد آزماء ہیں کہ اس سے اب کوئی مَفَر ہی نہیں۔
صارفی تہذیب کی دین ایک طرف انسانی بکھراؤ ہے تو دوسری طرف ذات کی پامالی۔ اگر چِہ خود کو بہلانے کے ذرائع اور چور دروازے بھی میسر ہیں لیکن اس ایک سطح سے مزید اوپر جا کر پورے عالمِ انسانیت کا جائزہ لیں تو مادی معاشرے میں داخلی تنہائی کے شکار انسان کے خلاؤں کو مالی اور جنسی آسودگی بھی پُر نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اس سماجی حیوان کی کیفیت dehumanisation کی بلند سطح کو چھو رہی ہے۔