کچھ فن اور تخلیق پر

Rozan Social Speaks
ایک روزن سوشل

کچھ فن اور تخلیق پر

از، عمران شاہد بھنڈر 

فن اپنی سرِشت میں انقلابی ہوتا ہے، اور انقلابی ہونا ان معنوں میں نہیں ہوتا کہ وہ سماجی ہوتا ہے، یا سماج کو منعکس کرتا ہے، یا سماجی انقلاب کے لیے راستہ ہم وار کرتا ہے؛ بل کہ فن کے سماجی یا انقلابی ہونے کا مطلب بَہ قول تھیوڈور اڈورنو یہ ہے کہ فن اپنی تخلیقیت میں سماجی اور انقلابی ہوتا ہے۔

فنی تخلیقیت اپنی ردِّ سماجی حیثیت میں سماجی اور انقلابی ہوتی ہے؛ یعنی سماج اگر ایک سَمت میں حرکت کر رہا ہے تو فن اس مخصوص سَمت میں نہیں چلتا، بل کہ اس سے الٹ سمت میں چلتا ہے۔ پھر اسی الٹ سمت میں جو کہ فن کی سمت ہے، اس میں سماج چلنے لگتا ہے۔

جب اس سمت میں فن کی تقلید بڑھتی ہے تو فن پھر اس سمت کی نفی کرتا ہے جو اس نے خود ہی متعین کی تھی۔ ذہن نشین رہے کہ فن اپنی تخلیقیت میں سمت کا تعین کرتا ہے، جب کہ سماج اس تخلیقیت کی تقلیدی سمت میں چلتا ہے۔

اس طرح فن کی اعلیٰ صفت نفی کرنا ہے، یہ نفی فقط سماج کی نہیں ہوتی بل کہ فن کی اپنی اس حیثیت کی نفی بھی ہوتی ہے جو تقلید کا حصہ بن چکا ہوتا ہے۔

لہٰذا اس طرح فن جب سماج کی نفی کرتا ہے تو، در اصل، اپنی ہی گزشتہ حیثیت کی بھی نفی کرتا ہے، اور یہی وہ تخلیقی صفت ہے جو فن کو فن بناتی ہے۔

یہاں فن پر بھی ہیگل کا دریافت کردہ نفی کی نفی کا اصول لاگو ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ نفی کی نفی کا اصول فن پر باہر سے لاگو نہیں ہوتا، یہ خود فن کی فعلیت میں موجود رہتا ہے۔

اب اگر غور سے دیکھا جائے تو فن کی یہ تخلیقی صفت خود میں اعلیٰ درجے کی ڈی کنسٹرکشن کا پہلو سموئے ہوتی ہے۔ آسان الفاظ میں (یوں کہا جا سکتا ہے) کہ فنی تخلیق جب بھی تقلید کے دائرے میں پھنس جاتی ہے، تو خود فن کو اس کی نفی کرنی پڑتی ہے۔

بیسویں صدی کے آخر میں اگر ڈی کنسٹرکشن کا توجہ سے مطالَعہ کیا جائے تو فن کی اس خصوصیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ڈی کنسٹرکشن ایک اعلیٰ درجے کا فن ہے اور فن ایک اعلیٰ درجے کی ڈی کنسٹرکشن ہے۔


تین کمروں کی زندگی، تخلیق کار کون


فن جب خود کی دریافت میں نکلتا ہے تو ڈی کنسٹرکٹو ہوتا ہے، اور ڈی کنسٹرکشن جب خود کی تفہیم اور وضاحت کرتی ہے تو وہ اعلیٰ درجے کی تخلیقی فعلِیّت ہوتی ہے؛ نفی جس کا بنیادی وصف ہے۔

یہ بنیادی نُکتہ ذہن میں رہے کہ بیسویں صدی میں ڈی کنسٹرکشن کو تعمیرات سے جوڑا جاتا ہے، یعنی فنِّ تعمیر میں اعلیٰ درجے کے تخلیقی پہلو دکھائی گئے ہیں، جو کہ ماضی کی تعمیرات پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے تھے۔

جرمن فلسفی ہیگل اس حوالے سے بھی عظیم ہیں کہ انھوں نے سپائینوزا کے اس کلیے (کہ پہلی تعیِین نفی سے ہو گی) کو فِختے کی وساطت سے نہ صرف اپنایا، بَل کہ یہی نفی جدلیات کا آغاز قرار پائی۔


تخلیق کار، دھرتی ماں سے محبت اور تخلیق: ایک گفتگو


اگر نفی نہیں تو جدلیات نہیں، اور اگر جدلیات نہیں تو دریدا ہیگل پر دو والیمز کیسے لکھ سکتے تھے۔

دریدا جب یہ کہتے ہیں کہ وہ ہیگل کے فلسفے پر اپنی پوزیشن کو واضح کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر رہے تو، در اصل، وہ اس نفی کے مقُولے کو کسی بھی طرح کی تعیِین (اثبات) کے بغیر مستقل عمل آراء اور حرکت میں دیکھنے کے خواہاں ہیں؛ یعنی کسی بھی جگہ رکے اور اٹکے بغیر مسلسل ہوتے رہنا: دریدا کے الفاظ میں To Come۔

ان چند الفاظ میں، مقدمہ یہ قائم کرنا چاہ رہا ہوں کہ اعلیٰ درجے کی فکر و فنی فِعلِیّت اپنی سرشت میں متماثل ہیں۔ ڈی کنسٹرکشن یہ دکھاتی ہے کہ فن میں اصل شے وہ ما فیھا (کونٹینٹ) نہیں ہے، جو خارج سے دست یاب ہوتا ہے، بل کہ فن کی اپنی بنتر (فام) ہے، اور جب فام ہی فام پر منعکس ہو تو فن کی فام ہی اس کا ما فیھا بن جاتا ہے، اور یہی وہ لا تشکیل خصوصیت ہے جو اعلیٰ فن کے وسط میں موجود ہے۔

یہ جو کچھ میں نے کہا ہے اس کی رُو سے کیا وہ فن حقیقی فن ہوتا ہے، جس کی نوعیت مذہبی ہو، جیسا کہ مرثیے، نعتیں، حمدیں وغیرہ؟ جہاں فن کا ما فیھا خود فن نہ ہو، بل کہ اس کے عقائد ہوں؟ اس پر پھر بات کریں گے۔

نوٹ: سرمایہ دارانہ نظام میں جہاں ہر شے کموڈیٹی (جنس) بن گئی ہے، وہاں فن اپنی فام، تخلیقیت یا ڈی کنسٹرکٹو سَمت کو متعین کر پاتا ہے؟ یہ اہم سوال ہے جس پر الگ سے بحث کی ضرورت ہے۔