سپریم کورٹ کی ‘آئین سازی’ بھگتنے کا وقت ہے
از، یاسر چٹھہ
پاکستان تحریکِ انصاف صدارتی آرڈیننسوں کو ‘دائیں ہاتھ کی سہولت’ جیسا سمجھتی رہی۔ دائیں ہاتھ کی تفسیر و تشریح نہیں کروں گا۔ اولیٰ الابصار اسے جانتے ہیں۔ یہ کامن لاء کی اصطلاح تو نہیں۔
دوسرے قدم کے طور پر صدرِ ملکت کے ذریعے واضح آئینی شق 63 اے کو سپریم کورٹ کی آرڈنینس اور آئین سے بالا تر ‘آئین سازی’ کے رجحان کی بھٹّی میں چڑھنے بھیج دیا: کورٹ نے اپنے ہمہ دَم آگے بڑھنے کے رجحان کو قائم رکھا۔
موقع تحریکِ انصاف نے دیا۔ سو، ‘پارٹی سربراہ’ کے خط پر دیے جانے والے ووٹ کے گننے یا نا گننے کا فیصلہ چھوڑ دیا گیا۔ تحریکِ انصاف نے اس اخلاقی فتح پر اپنے بیانیے کے آفاقی ہونے کی خوشی منائی۔ (مخدوم شاہ محمود قریشی کی ٹویٹ لف ہے۔)
اس لمحے سپریم کورٹ سے آئین سازی کرانے کے نتیجے کو تحریکِ انصاف کے بھگتنے کا وقت ہے۔ (یہی حرکتیں ن لیگ بھی کرتی ہے۔ اس وقت تفصیل درج کرنے کا سَمے نہیں، وہ خوش اتنے ہیں کہ ان کے دماغ میں بھی یہ بات نہیں سمائے گی۔)
سیاست میں چال وہ چلیں کہ صرف وقتی فائدے کی خاطر کسی کو اپنی گردن کا ناپ نہ دے دیں۔
تحریک انصاف کے ہم دردوں سے پیشگی معذرت، اس وقت وہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رُولنگ کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔
ایک اور بات یہ کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے قاسم سوری کی رُولنگ کے متعلق یہ صراحت بھی کر دی تھی کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ، جب وہ سپیکر کے طور پر فرائض نبھا رہا ہو، تو اس کی کوئی بھی رولنگ سپیکر کی رولنگ ہی سمجھی جائے گی۔ دو دن فیصلہ پڑھنے میں لگے تھے؛ 100 سے تھوڑے کم صفحے تھے۔
کچھ معاملہ پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کا اٹھایا جا رہا ہے۔ عرض کرتے چلیں کہ سپریم کورٹ نے صدر عارف علوی کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے بھیجے ریفرنس کے سوال نمبر 1 کا جواب دیتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کو اپنی پسندیدہ Salient Features of the Constitution Theory کے تحت ایک salient feature قرار دیا ہے۔ سیاسی پارٹی کے حقوق کو آئین کے آرٹیکل 17 کی حفاظتی ضمانت فراہم کی ہے۔
اب پارلیمانی پارٹی، سیاسی پارٹی کی خالق نہیں ہو سکتی۔ پارٹی سربراہ، پارلیمانی لیڈر کے ماتحت نہیں ہو جاتے۔ نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی پارٹی قیادت سے ہٹانے کے لیے پارٹی سربراہ کے عہدے کو سپریم کورٹ نے بری محنت سے اہمیت دے دی تھی۔ اس فیصلے سے سینٹ کی جیتی نشستیں چھین لی تھیں۔
سو، ابھی تک تو پارٹی سربراہ کی اہمیت آرٹیکل 63 اے اور حالیہ مشاورتی فیصلے میں دوبارہ دُہرایا۔
بہ ہر کیف، سپریم کورٹ تک بات دوبارہ جائے گی۔ تحریک انصاف والے پیٹیشن تیار کر رہے ہیں۔ ہو گا وہی جو سپریم کورٹ کسی نئے فیصلے میں لکھ دے گی۔ بھلے وہ پچھلی تشریحات سے disconnect ہی میں کیوں نا ہو۔
یہ میری سمجھ اور میرا فہم ہے۔ یہ باتیں صحیفہ نہیں۔ دل مانتا ہے تو قبول کیجیے، دماغ پر بات نہیں چھوڑتا۔ دماغ تو ہم لوگوں کا اکثر سوتا رہتا ہے۔ سو، دل نہیں مان رہا تو مرضی کریں۔