سپریم کورٹ کی تشریحی آئین سازی اور پنجاب کا بحران
از، یاسر چٹھہ
پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی وزیر اعلیٰ پنجاب کے 22 جولائی 2020 کے رن آف الیکشن کے نتیجے میں پیدا ہونے سیاسی بحران کے ضمن پر معروف قانون دان ریما عمر نے اپنے ٹویٹر پروفائل پر اپنی رائے کا بہ تاریخ 23 جولائی کو ایک تھریڈ لکھا۔ یہاں ہم اس تھریڈ کے مفہوم پربنی یہ تحریر پیش کرتے ہیں۔
معروف قانونی ماہر ریما عمر، لاہور سے تعلق رکھنے والی پاکستانی وکیل اور انسانی حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ وہ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (ICJ) کی جنوبی ایشیاء میں قانونی مشیر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ انھوں نے سنہ 2002 میں او لیول مکمل کیا اور سنہ 2004 میں اے لیول کے قانون کے امتحان میں عالمی اعزاز حاصل کیا۔ انھوں نے 2009 میں لاہور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) سے بے اے ایل ایل بی کیا، جہاں انھیں بہترین طالب علم کے طور پور پر گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ بعد ازاں، انھوں نے سنہ 2010 میں یونی ورسٹی آف کیمبرج، برطانیہ سے پبلک انٹرنیشنل لاء میں سپیلائزیشن کے ساتھ ایل ایل ایم کیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے بھیجے گئے صدارتی ریفرنس کے جواب میں آرٹیکل 63A کی دوبارہ تحریر جیسی تشریح پنجاب میں جاری بحران کی وجہ کیوں اور کیسے ہے: ذیل میں ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے گی۔
سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63A کو دوبارہ لکھنے سے پہلے، انحراف کا عمل واضِح تھا: اگر ایم این اے/ایم پی اے مخصوص حالات میں پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دیتے ہیں، تو پارٹی سربراہ، وجہ ظاہر کرنے کے بعد، انحراف کا اعلان جاری کر سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) ان کی منصفانہ سماعت کرنے کے بعد، یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا منحرف رکن یا ارکان کی نشست ختم کرنا ہے، یا نہیں۔
اس طرح کے سوالات جیسا کہ کیا پارٹی کا ہدایت نامہ جاری ہوا تھا؛ یہ ہدایت نامہ کس کی طرف سے آیا تھی؟ آیا یہ ہدایت نامہ ارکان تک پہنچایا گیا تھا یا نہیں وغیرہ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) اس مرحلے پر تمام فریقوں کو سننے کے بعد فیصلہ کیا کرتا تھا۔
تاہم، یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف پیش کردہ تحریکِ عدمِ اعتماد پر ووٹوں کی گنتی کا عمل ہو چکا تھا۔
یہاں سوال صرف یہ بچتا تھا کہ کیا پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے والے ایم این اے/ایم پی اے کو ڈی سِیٹ کیا جا سکتا ہے، یا نہیں؛ یعنی یہ سوال اس دوران ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کے نتیجے کے متعلق بات نہیں کرتے تھے۔ اس سے ان ووٹوں کے نتیجے میں ہونے والے الیکشن پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
سپریم کورٹ کی تشریح نے آئینِ پاکستان کی طرف سے سوچ سمجھ کر پیش کردہ عمل کو مکمل طور پر گڑبڑ کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ڈالے گئے ووٹوں کو مؤثّر ووٹوں شمار نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن آرٹیکل 63 اے کے فیصلے میں پارٹی ڈائریکشن کے خلاف ڈالے گئے ووٹوں کو شمار نہ کرنے کے متعلق سپریم کورٹ نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان ووٹوں کو نظر انداز کرنے کے لیے کیا طریقۂِ کار اپنانا ہو گا:
کیا پریذائیڈنگ آفیسر ووٹوں کو نظر انداز کرنے کے ذمے دار ہوں گے؟ وہ ایسے ووٹوں کو کب نظر انداز کریں گے؟ کیا ایسے ووٹوں نظر انداز کرنے کا یہ عمل ووٹوں کے گنتی کے دوران ہو گا؟
اگر اوّل صورت قابلِ قبول تھی یعنی پریذائیڈنگ آفیسر نے ہی پارٹی ڈائریکشن کے بہ ظاہر خلاف ووٹوں کو ہی شمار سے باہر رکھنا تھا، تو کیا عین اُس وقت پریذائیڈنگ آفیسر سے مُتنازَع حقائق کی انکوائری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ کیا تنازعے کی زَذ میں آئے وقتی حقائق کی تحقیق و تفتیش کے لیے چند لمحوں کا وقت کافی تصور کر لیا گیا؟ اس پہلو کو نظر انداز کرنا مُحال لگتا ہے۔
مثال کے طور پر، پریذائیڈنگ آفیسر کی جانب سے اس حقیقت کی جانچ پڑتال اور پَرکھ کہ کیا ارکان کو ووٹنگ کے وقت سے پہلے اپنی پارٹی کی طرف سے ہدایات موصول ہوئی تھیں؛ خاص کر ایسے معاملے میں کہ جب پارلیمانی پارٹی لیڈر کہتا ہے کہ پارٹی ڈائریکشن بتا دی گئی تھی، البتہ ارکان کہتے ہوں کہ ایسی کوئی ڈائریکشن نہیں ملی تھی؟
اسی طرح اس معاملے پر سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کے فیصلوں میں اِبہام کے پیشِ نظر، اگر پارٹی سربراہ کی ڈائریکشن اور پارلیمانی پارٹی کے رہ نما کی ڈائریکشن باہم مُتَصادِم ہوں تو پریزائیڈنگ افسر ووٹوں کی گنتی کرنے، یا نہ کرنے کا فیصلہ کیسے کریں گے؟
حالیہ دنوں میں پنجاب اسمبلی میں وزیرِ اعلیٰ کے رن آف الیکشن کی مثال کو ہی ذہن میں رکھتے ہیں؛ اگر بالفرض مسلم لیگ (ق) کے 5 ارکان نے ووٹنگ حصہ نہیں لیا ہوتا، اور باقی کے 5 نے پرویز الٰہی کو ووٹ دیا ہوتا، تو پریذائیڈنگ آفیسر کو کیا کرنا چاہیے تھا؟
کیا پریزائیڈنگ آفیسر کو ووٹوں کی گنتی کو مُتنازَع حقائق کی انکوائری کرنے تک ملتوی کر دینا چاہیے تھا؟
اسے یہ التواء کب تک رکھنا چاہیے تھا، اس متعلق کوئی ٹائم لائن؟
ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی واضِح نہیں ہے۔
یہ امر بھی اپنی جگہ حیران کن ہے کہ سپریم کورٹ کے 17 مئی 2022 کے مختصر حکم نامے کی بنیاد پر، پنجاب اسمبلی کے 25 ارکان کی جانب سے ڈالے گئے ووٹوں کو اس واقعے کے گزری تاریخ میں ہونے کے با وجود ان ووٹوں پر آرٹیکل 63 اے کی نئی تشریح لاگو کر کے اُنھیں نظر انداز کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں ہم بیرسٹر صلاحُ الدّین احمد کی رائے پیش کرتے ہیں۔ بیرسٹر صلاح الدین احمد، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (SHCBA)کے سابق صدر ہیں۔ انھوں نے آرٹیکل 63-A کی تشریح کے حوالے سے دی گئی سپریم کورٹ کی رائے پر یہ تبصرہ کیا تھا:
“اعلیٰ عدالت کی رائے [عام طور پر] مستقبل سے لاگو ہوتی ہیں۔”
بیرسٹر صلاحُ الدّین کے مطابق اس فیصلے کو پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب پر لاگو نہیں ہو سکتا تھا۔
مگر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بات عدالتوں تک جانے ہی نا دی۔ الیکشن کمیشن نے ہی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی بناء پر پارٹی ڈائریکشن کے ارکان تک پہنچنے یا نا پہنچنے کے معاملے کے حقائق کی پرکھ کرنے سے پہلے ہی پنجاب اسمبلی کے 25 منحرف ارکان کی نشستیں خالی قرار دے دیں۔ اب الیکشن کمیشن کے بہ قول سپریم کورٹ نے ‘serious matter’ کہہ دیا تو باقی کی پروسیجرل باتیں فضول بن گئیں۔
الیکشن ایک بار پھر ہوا ہے اور ووٹوں کی گنتی ایک بار پھر ایک تَنازَعَہ میں ڈھل گئی ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے کے مختصر حکم نامے کو منظرِ عام پر آئے دو ماہ گزر چکے ہیں، مگر ہمارے پاس سپریم کورٹ کے حکم کی تفصیلی وُجُوہات آج تک نہیں آ سکی ہیں۔
آرٹیکل 63 اے کی حالیہ تشریح سے قبل، پریذائیڈنگ آفیسر کا آرٹیکل 63A کے پورے عمل میں صرف محدود سا کردار تھا۔ اُسے پارٹی سربراہ کی جانب سے آئی درخواست کو الیکش کمیشن آف پاکستان کو آگے بھیجنا ہوتا تھا۔ اس پورے عمل میں سپریم کورٹ صرف اپیل کا ایک اخری فورم تھا۔
مگر اب ایسا لگتا ہے کہ پریذائیڈنگ آفیسر کو بے پناہ اختیارات دے دیے گئے ہیں؛ اور سپریم کورٹ نے بھی کوئی تَنازَعَہ ہونے کی صورت میں بنیادی ثالث کے طور پر اپنے لیے بہت بڑا کردار پیدا کر لیا ہے۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایسا سب کچھ ہوا بھی ہے تو آئینِ پاکستان متن کے واضح خطوط کے بر خلاف ہوا ہے۔
اگر آرٹیکل 63A کی تشریح وہی رہتی ہے جو آج ہے، تو امکان ہے کہ ہم اس طرح کی افرا تفری، غیر یقینی صورتِ حال دیکھیں گے جب کبھی بھی کوئی کانٹے کا الیکشن ہو گا، یا تھوڑے فرق سے ووٹ ڈَلیں گے۔ اس سب کا نتیجہ سیاسی عدمِ استحکام اور سیاست کی مزید عدالت زدگی (judicialisation) ہو گی۔
شہری تعلیم و حقوق اور پارلیمانی اُمور پر گہری نظر رکھنے والے، سینٹر آف سِوک ایجوکیشن (Centre of Civic Education) کے سابقہ سربراہ، حالیہ Vision 2047 کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جناب ظفر اللہ خان کی رائے ہماری رائے کے قریب آتی جاتی ہے:
اگر غصہ بر طرف ہو تو عرض ہو کہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود (CVs) کے مطابق تین معزز ججوں میں سے ایک معزز جج ‘بینکنگ، ٹیکس اور پراپرٹی لاء’ میں مہارت اور تجربے کا پسِ منظر رکھتے ہیں؛ جب کہ باقی کے دو معزز جج صاحبان ‘سِول اور فوج داری قانون’ میں مہارت اور تجربے کے پسِ منظر کے حامل ہیں؛(شاید ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کے ساتھ یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ ان غیر متعلقہ مہارتوں کے حامل معزز جج صاحبان) ‘آئین کی تشریح’ فرما رہے ہیں۔ (اور آئے روز یہی تشریح فرما رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں یہ مطالبہ با معنی بن جاتا ہے کہ) پاکستان کو آئینی عدالت کی اشد ضرورت ہے!