پارٹی سربراہ یا پارلیمانی سربراہ اور طاقت کا غیر رسمی توازن
از، احمد علی کاظمی
اس مسئلے کا ایک پہلو آئینی تشریح کا ہے۔ یہ درست ہے کہ آئین میں الفاظ پارلیمانی پارٹی کی ڈائریکشن استعمال ہوئے ہیں۔ مسئلہ ان الفاظ کی تشریح کا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پارلیمانی جماعت کیا ہوتی ہے اور کیا “پارلیمانی جماعت” اپنی “سیاسی جماعت” سے آزاد اور الگ شخص(legal person) ہوتی ہے؟
اگر اس سوال کا جواب اَثبات میں ہو تو پھر بَہ جا طور پر یہ ڈائریکشن ایشو کرنے کا اختیار سیاسی جماعت کے سربراہ کا نہیں ہو گا۔ آئین، الیکشن ایکٹ یا اسمبلی کے رولز آف بزنس میں لفظ “پارلیمانی جماعت” کی با قاعدہ تعریف کہیں نہیں کی گئی۔ تاہم آئین کا آرٹیکل تریسٹھ اے اپنے آغاز میں ہی یہ بات کرتا ہے:
“اگر ایوان میں کسی تنہا “سیاسی جماعت” پر مشتمل “پارلیمانی جماعت” کا رکن اپنی رکنیت سے استعفیٰ دیتا ہے یا …،”
ان الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ پارلیمانی جماعت سے مراد وہ سیاسی جماعت ہے جس کا کوئی نہ کوئی رکن کسی ایوان (پارلیمان)، یا صوبائی اسمبلی کا حصہ ہو۔
پارلیمانی جماعت سیاسی جماعت سے آزاد کوئی الگ ادارہ نہیں، بَل کہ پارلیمانی نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعت اور پارلیمانی نمائندگی نہ رکھنے والی سیاسی جماعت میں فرق کرنے کے لیے ایک الگ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
آرٹیکل 63A کے الفاظ کے مطابق پارلیمانی جماعت سے مراد وہ سیاسی جماعت ہے جس کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہو۔
یہ سوال کہ پارلیمانی جماعت کی ڈائریکشن کون ایشو کرے گا، کا جواب اس تعریف کی روشنی میں یہی ہے کہ یہ ڈائریکشن وہی سیاسی جماعت دے گی۔
سیاسی جماعت کی ڈائریکشن جماعت کا سربراہ ہی ایشو کر سکتا ہے، یا اگر کسی جماعت کے آئین میں کسی دوسرے شخص یا کونسل کو اس طرز کے فیصلے کرنے کا اختیار دیا گیا ہو تو وہ یہ ڈائریکشن ایشو کرے گا۔
دوسرا پہلو ہمارے سیاسی نظام اور جمہوریت کے لحاظ سے ہے۔
اگر سپریم کورٹ یہ قرار دیتی ہے کہ سیاسی جماعت کے ارکانِ اسمبلی، سیاسی جماعت کے فیصلے کے نہیں، بَل کہ اپنی باہمی اکثریت کے فیصلے کے پابند ہوں گے، تو موجودہ مسئلے سے قطعِ نظر یہ فیصلہ پاکستانی آئینی تاریخ میں ایک اور غلط مثال بن جائے گا جو ہماری جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کو کم زور کرے گا۔ پاکستان کی قومی سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت اکثر صوبائی اسمبلی کا حصہ نہیں ہوتی، بَل کہ قومی اسمبلی میں موجود ہوتی ہے۔
صوبائی اسمبلی کے ارکان کو اگر یہ سہولت دے دی جائے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کے سربراہ کی بَہ جائے خود سے فیصلہ کر لیں تو یہ سیاسی جماعتوں کی تباہی پر مُنتِج ہو گا۔
پنجاب جیسے 372 سیٹوں والے بڑہ صوبائی اسمبلی میں ایسی کسی سہولت کے مکمل اثرات واضح نہیں دکھائی دیتے۔ بلوچستان اسمبلی میں حکومت بنانے، یا گرانے کے لیے کل 33 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔ بلوچستان کے ڈیموگرافکس کی بنیاد پر دیکھا جائے تو وہاں اکثر ایک پارٹی کی بَہ جائے اتحادی حکومت ہی ہوتی ہے۔
فرض کریں پاکستان تحریک انصاف کی کل پچیس سیٹیں ہیں اور وہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت کر رہی ہے۔ تحریکِ عدمِ اعتماد آتی ہے، اور تحریکِ انصاف کے اپنے 13 ارکان اگر تحریکِ عدمِ اعتماد کے حق میں ہو جائیں تو وہ عمران خان کی ڈائریکشن کو نظر انداز بھی کر سکیں گے اور اس پر ڈی سیٹ بھی نہیں ہوں گے۔ یہ در حقیقت سیاسی جماعتوں میں ایک متوازی فیصلہ سازی کا نظام قائم کرنے والا فیصلہ ہو گا۔
پاکستان، جو ایک وفاقی ریاست ہے، اس وفاقی ریاست میں اس اصول کی بناء پر صوبوں میں غیر منتخب قوتوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دے دیا جائے۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ یہ کوشش کرے گی کہ کسی طرح پارٹی سربراہ کو اسمبلی سیٹ نہ جیتنے دی جائے کیوں کہ اس میں کام یابی کی صورت میں پارٹی سربراہ کا کنٹرول اپنی پارلیمانی جماعت پر ختم ہو جائے گا۔