نامش اورنگ زیب کردہ فلک 

eco criticism urdu
eco criticism urdu

نامش اورنگ زیب کردہ فلک

از، ڈاکٹر عزیز ابن الحسن

اورنگ زیب نیازی ان تازہ دم صاحبانِ نظر نقادوں میں سے ہیں جن کی تنقید میں نئے پن کی جہت شامل رہتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ماحولیات ان کا خاص موضوع ہے۔ وہ اس موضوع پر اردو تنقید کو اب تک دو بہترین کتابیں دے چکے ہیں۔ ان کی پہلی کتاب، ماحولیاتی تنقید نظریہ اور عمل کافی عرصہ پہلے دست یاب ہوئی تھی اور اس مسئلے پر دوسری کتاب اردو ادب: ماحولیاتی تناظر ابھی ملی ہے۔

یہ چند ان کتابوں میں سے ایک ہے جن کا شہرہ ان کی اشاعت سے پہلے ہی کانوں میں گونجنے لگتا ہے۔ پہلے کتاب اس موضوع پر کچھ نہایت جان دار تحریروں کا ترجمہ تھی، جب کہ موجودہ کتاب میں انھوں نے نظری عدسہ بھی مہیا کیا ہے اور اس کے واسطے سے اردو ادب اور تنقید میں عملی تانک جھانک بھی کی ہے۔

صحیفوں کے سے طول و عرض اور سائز اور طور کی یہ کتاب دیکھنے میں ہی آنکھوں کو نہیں جچتی، بَل کہ امید ہے کہ اپنے فیض میں بھی دور رس اثرات کی حامل ہو گی۔

کتاب کے دیگر معاملات بارے تو اپنی کوتاہ نظری کے پیشِ نظر میں سرِدست کچھ نہیں کہہ رہا، البتہ اردو میں فطرت کے تصورات والا باب موضوع سے خاص شغف کی وجہ سے فوراً ہی چاٹ ڈالا۔

سر سید، محمد حسین آزاد، حالی اور انجمن پنجاب کے زیرِ اثر پیدا ہونے والی نیچرل شاعری کا مصنف نے اچھا جائزہ لیا۔ بہت سے پہلو سمیٹے، مفید مطالب اور ان نتائج کے بیج تلاش کیے ہیں جو آگے چل کر ماحولیاتی توازن کو بگاڑنے کے زقومی اشجار بتے رہے ہیں۔

خواہ مخواہ خان نصیحت خان بننے کی اگر اجازت ہو تو عرض کروں حالی اور سر سید کے تصورِ فطرت پر بات کرتے ہوئے اگر نیازی صاحب ڈاکٹر ظفر حسن کی کتاب سر سید اور حالی کا نظریۂِ فطرت بھی سامنے رکھتے تو ان کی وقیع تحقیق میں اس نئی جہت کا اضافہ ہو جاتا کہ سر سید کا تصورِ فطرت کس طرح انیسویں صدی کی نیچرل سائنس اور نتائجیت پسند فلسفیوں کی محدودیتوں میں پھنس کر فطرت کے ان روایتی تصورات کی تخریب کا باعث بنا جو اس اصطلاح “فطرت” کو ہمیشہ سے حاصل رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اصطلاحات اپنے معانی بدلتی رہتی ہیں، لیکن اگر کوئی اپنے ذہن کے کسی خود ساختہ تصور کو، اور خود ساختہ بھی کہاں بَل کہ نوآبادیاتی کلامیے “طاقتِ علم” سے ماخوذ خیالات کو، روایتی تصور کے طور پر متعارف کرواتا ہو تو اس سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے کہ جناب تم سے پہلے اس تصور کا یہ مفہوم لینے والے اور کون کون لوگ تھے؟

ڈاکٹر ظفر حسن کے علاوہ، سید حسین نصر کی دو کتابیں Islamic Cosmological Sciences اور Man and Nature بھی اس سلسلے میں بہت معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔

یہ تو ہوا بحث کا ایک پہلو، مسئلے کی دوسری جہت یہ ہے کہ اردو کے کچھ نقاد روایتی اردو شاعری میں فطرت کے عناصر کی کمی کا شکوہ کناں رہے ہیں۔ اس سوال کو سمجھنے کے لیے کہ جو نقاد اردو شاعری میں فطرت کے عناصر کی کمی کے شاکی ہیں، ان کا حقیقی مؤقف کیا ہے؟

فراق گورکھپوری اور ڈاکٹر آفتاب احمد وغیرھما کے خیالات بھی پیشِ نظر رکھنے سے بحث کا ایک نیا سامنے آ سکتا ہے۔ یہ نکتہ انتظار حسین کی تحریروں میں بھی آیا ہے، مگر جتنا حوالہ زیرِ نظر کتاب میں ہے، میرا خیال ہے کہ انتظار صاحب نے اس پر اس سے زیادہ تفصیل اور شرح کے ساتھ لکھا ہے۔

اس رائے والوں کا کہنا ہے کہ اردو فارسی کلاسیکی شعری شعور اور شاعری میں عناصرِ فطرت کا ذکر بہ طورِ شے کے کم ہی آتا ہے۔ یہاں فطرت اور اشیائے فطرت بہت جلد علامت میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور علامت کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ اس کے گرد وہ انسانی جذبات لپٹے ہوتے ہیں جن کی پرداخت تخیل اپنی تہذیب کے ماورائی رنگوں سے کرتا ہے۔ اس لیے روایتی تہذیبوں میں شے بہ طورِ شے اپنا اظہار کم کرتی تھی اور بہ طورِ علامت اپنے سے ما وراء اعیان (آرکی ٹائپس) کی خوب صورت نمائندہ بن کر ایک سے زائد سطحاتِ وجود پر فیض رسانی زیادہ کرتی ہے؛ جب کہ اردو میں سرسید اور حالی سے شروع ہونے والے فطرت کے تصورات فطرت کے بارے میں ان یک سطحی رویوں سے پھوٹے اور انھیں مزید فروغ دینے والے مزاج کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جن میں فطرت انسان کی بے دام داسی اور ایک ایسی گائے ہے جسے وہ انجکشن لگا لگا کر ادھ موا ہونے تک دوہتے رہنے کا حق رکھتا ہے۔

یہاں فطرت کے عناصر اس کی علامتی بُعد سے ہی محروم نہیں کیے گئے، بَل کہ اپنی خلاق زندہ تقدیسی حیثیت سے عاری کر کے محض کار آمد اشیاء بنا دیے گئے ہیں؛ اور پھر یہ امر کہ حالی کی نیچرل شاعری کا تصور ہند مسلم شعریات کے لیے ایک بالکل اجنبی تصور ہے اور اس شعریات کی تفہیم و تحسین کے لیے نہ صرف کہ کار آمد نہیں ہے، بل کہ بہ طورِ ایک تنقیدی جنتر (tool) کے بہت رکاوٹ بھی ہے، اپنی جگہ ایک بہت بڑی بحث اٹھانے کا سامان ہے۔

اب زیادہ کیا عرض کروں کہ میرے نقطۂِ نظر سے فطرت اور ماحول کی پاکیزگی کی کوئی بحث ما ورائے فطرت کو شاملِ مکالمہ رکھے بغیر ممکن نہیں اور مَیں موجودہ ماحولیاتی مسائل کو بھی فطرت کے ما ورائی پہلو سے غفلت برتنے کی گناہ گارانہ روش سے الگ نہیں سمجھتا۔

اس ذیل میں بہترین تمثیل سید حسین نصر نے استعمال کی ہے:

اگلی تہذیبوں میں انسان اور فطرت کا تعلق مرد اور عورت کے نکاحیہ تعلق جیسا تھا، جس میں لین دین کا تعلق برابری، احترام، ایثار اور دکھ سکھ میں جی جان سے شرکت کے ساتھ ہوتا تھا، جب کہ نئے انسان کا فطرت کی طرف رویہ طوائف سے تعلق والا ہو گیا ہے۔

منکوحہ تعلق میں فرائض اور حقوق دونوں متناسب طور پر شامل رہتے ہیں، جب کہ طوائف گیری اور تماش بینی میں عورت سے تعلق حصولِ لذت کے لیے اس کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے والا ہوتا ہے۔ مرد/انسان، عورت/فطرت سے لذت کے سارے خزائن لوٹ لینا چاہتا ہے، مگر اسے چند ٹکوں کے سوا دینا کچھ نہیں چاہتا۔

نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح پھر طوائف معاشرے کے ساتھ سلوک کرتی ہے اسی طرح فطرت بھی جدید انسان کے ساتھ وہی کچھ کر رہی ہے: وبائیں، طوفان، سیلاب بھونچال، گلیشیئرز کا پگھلاؤ، سمندروں کا ساحلوں پر چڑھاؤ، زمین کا سمندر میں دھنساؤ اور پھر (تفنن کی اجازت پائیں تو) تو وہ معروفِ عالم اوزون کی”پو” پھٹے والی بات بھی ابھی زیادہ پرانی نہیں ہوئی! گویا وہی بات کہ

ہاروت نے کی دیدۂ ماروت میں انگلی اور پھر نتیجتاً:

زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں

کیسی کیسی دُخترانِ مادر ایّام ہیں

(ان دخترانِ مادر ایام کو اگر قدرت کا انتقام کہہ دیا جائے تو ہماری جدید دانش کا دل ویسے ہی بہت خفا ہو جاتا ہے۔)

 یہی ہیں نا آج کے ماحولیاتی مسائل؟

ان مسائل کا حقیقی سبب صرف اور صرف ایک ہے: انسان کی تسخیر فطرت کی اَن تھک اور نا قابلِ روک خواہش! سوال ہے کہ انسان کی اس بھوک پر کیسے روک لگائی جائے؟ فطرت کی طرف اس کے رویے کو “حقوق و فرائض” کے متوازن دائرے کا کیسے پابند کیا جائے؟

موجودہ سرمایہ دارانہ نظام تو ظاہر ہے یہ ہونے نہیں دے گا، نت نئے کارخانوں صنعتوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے فروغ کے لیے تو اب یہ زمین، پہاڑ، دریا، ندی نالے، آبی راستے اور سمندر بھی کم پڑ رہے ہیں۔ موجودہ آئی ٹی، مصنوعی ذہانت اور ہمارے گرد و پیش کی ہواؤں فضاؤں میں موبائل فون کے سگنلز ـــ یعنی پُر امن ٹیکنالوجی کے یہ آفتی پَرکالے بھی ـــ جو ماحولیاتی مسائل پیدا کر رہے ہیں، ان کے نتائج آئندہ دس بیس سال کے بعد ظاہر ہوں گے۔

سرمایہ دارانہ ذہنیت پر ڈھلا جدید مزاج انھیں بھی یوں ہی جھٹلاتا رہے گا، کیوں کہ اسے تو اپنی پونجی کی بڑھوتری سے غرض ہے، مگر سوال ہے کہ جدید دانش وروں کے پاس ان مسائل کی کیا تشخیص ہے؟

چھوٹا منھ بڑی بات کے طور پر اس کے جواب میں اگر انسان کی تہذیبِ نفس کی بات کی جائے، تو مجھے خوب معلوم ہے، یہ آؤٹ آف فیشن بات ہو گی۔ جدید دانش ور پلٹ کر سوال کرے گا کہ آپ کے فقراء اور صوفیاء نے تہذیبِ نفس کی باتوں کے علاوہ اور کیا ہی کیا ہے؟ انھوں نے نہ ریلوے لائن بچھائی، نہ بینکنگ سسٹم ایجاد کیے، نہ جمہوری ادارے پیدا کیے اور نہ انسان کی آنتوں اور پھوکی(*) تک کے مناظر دکھانے والے والے کیمرے ایجاد کیے ایسی تہذیب نفس والوں کی تعلیمات کو کیا ہم نے چاٹنا ہے؟

ہمارے صوفی صافی اور درویش فقیر بےچارے یہی کر سکتے تھے نا انسان کے بغض، کینہ، ظلم تعدی خود سَری نام و نمود، حرص و ہوا، لالچ، حسد، غضب، شہوت جاہ و باہ، بےحساب مال و منال جمع اور نا مختتم چودھراہٹیں قائم کرنے کی بنیادی جبلتوں سے پھوٹنے والے امُّ الامراض کی تشخیص و علاج کے لیے دوا دارُو کرتے اور اس کے انسانی ہمسایوں کے ساتھ ساتھ فطرت، چرند پرند، ساگ پات اور جنگلی حیات کو بھی اس کے شر سے مامون رکھنے کے حیلے ایجاد کرتے جو کہ انھوں نے خوب کیا ہے۔

آپ ہی کہیے انسان کے ان اخلاقی رذائل کی تعیین، تشخیص اور علاج دریافت کرنا تو دور کی بات ہے نشاۃِ ثانیہ کے بعد کی غالب فکر نے کیا، ان معاملات کو بہ طورِ مرض کبھی قابلِ توجہ بھی سمجھا ہے؟

ہمارے ایک نقاد نے سرمایہ داری کے مقابلے میں مارکسی معیشت والوں کے سامنے ایک دفعہ یہ سوال رکھا تھا کہ آپ کی ساری کاوشیں برحق، مگر کیا آپ نے کبھی اس پر بھی غور کیا ہے کہ انسان آخر اتنی بےانت دولت جمع کیوں کرنا چاہتا ہے؟ جب تک اس کی جبلتِ تکأثر اور تسلطِ بے حساب کی خواہش کو لگام ڈالنے والا کوئی بندوبست ایجاد نہیں ہو گا آپ کی یہ ساری کوششیں ہوائی قَلعے ثابت ہوں گی!

مجھے معلوم ہے کہ ہماری تنقید اور ما بعد جدید تنقیدی تھیوریاں، جو یوں تو نت نئے زاویوں سے متن کو پڑھنے کی خوب حوصلہ افزائی کرتی ہیں، انسان اس کے ماحول کے “متن” کو اس جہت سے دیکھنا کبھی نہیں پسند کریں گی اور کل کلاں کسی قاری اساس تنقید نے اگر عورت اور فطرت کے متن کی تعبیر “عِصمت و حیاء” کے عدسے سے کر کے ماں پراکرتی (mother nature) کو اس کی پاکیزگی لوٹانے کی ضرورت کی بات کی تو اس کا خوب ٹھٹھا اڑایا جائے گا کیوں کہ مغربِ جدید اور امریکی یونی ورسٹیوں میں ایسا نہیں ہوتا!

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ فطرت اور ماحولیاتی مسائل کو کسی الگ تناظر میں دیکھا جائے فطرت سے تعلق زنا کا نہ رکھا جائے، صرف بِالجبر زنا والا ہی نہیں، بَل کہ رضا والے زنا کا بھی نہیں! جس طرح کچھ عرصہ پہلے ہمارے اسکولوں میں “مار نہیں، پیار” کا ماٹو آیا تھا اسی طرح “فطرت سے زنا نہیں، بل کہ نکاح” کا زاویۂِ نظر اختیار کرنا پڑے گا۔

مغرب و امریکہ میں اگر ایسا نہیں ہوتا تو بھلے نہ ہوا کرے۔ اگر کچھ نازک مزاجوں کو “فطرت سے زنا” کا میرا یہ کلمہ نا گوار گزرے، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اب تو Philip Sherrard جیسے آکسفرڈ کے دانش ور بھی The Rape of Man and Nature کے عنوان سے کتابیں لکھنے لگے ہیں اور زاویۂِ نظر وہی ہے جس کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں!

لیکن اپنے ہاں اگر کچھ امید ہے تو اورنگ زیب نیازی جیسے چند ان صاحبانِ نظر نقادوں سے جو محض کچھ مخصوص قسم کے نظریوں کی عینک سے مسائل کو دیکھنے کے بَہ جائے آزادانہ ذہن سے سوچتے کی جرأت بھی رکھتے ہیں۔

ماحولیاتی تنقید کا موضوع اگر چِہ اردو میں بھی اب کچھ نیا نہیں رہا، لیکن ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے ہاں معاملہ چند اکا دکا مضامین اور کچھ سندی تحقیق کے چبائے ہوئے نوالوں و مقالوں سے آگے نہیں بڑھا تھا۔

ایسے میں اس موضوع پر جم کر مہمّات سر کرنے کا حوصلہ کچھ ہمارے نیازی کو ارزاں ہوا ہے۔ انھوں نے”راعیانیت” کے عنوان کے نیچے اس کتاب میں جو بحث لکھی ہے وہ اس شرح و بسط کے ساتھ اردو میں، کم سے کم میری نظر میں، پہلی کوشش ہے۔

مبارک باد


(*) “ڦوڪي”: سندھی میں وہی شے جس کا منظر اسد محمد خان کے ایک افسانے میں صدر بش کے ایک نازک آپریشن کے دوران کیمرے ڈال کر ساری دنیا میں زندہ نشر کیا جاتا ہے۔

بے شک ٹیکنالوجی کی رسائیاں جھٹلانے کی نہیں!


مدیر کی مضمون کے مشمولہ جنس و صنف نکھیڑ (sex and gender exclusive) اساسی مفروضوں کے مقابل متبادل رائے ہے؛ خاص طور پر شعر میں صنفی انصاف کا احساس اور زَبر جنسی (rape) کی بابت ایک خاص قسم کے معنوی ذوق اور ایک جرم اور رضا کارانہ ناتے کے منطقے کے بیچ کی سرحد کو دھندلانے کے متعلق ہمارے اور حضرتِ تںصرہ نگار کے خیالات 180 ڈگری مختلف ہیں۔