قلندر کی درگت اس کی بیٹیوں کے ہاتھوں
از، محمد شہزاد
قلندر کی واحد کائنات اس کی تین بیٹیاں، جو لمبے عرصے بعد باہر سے اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے وطن لوٹ چکی ہیں۔ سب سے بڑی نو سالہ سوادیکا ہے، جس کا تھائی زبان میں مطلب ہے ‘خوش آمدید’، اس نے ہارورڈ یونی ورسٹی سے چوتھی جماعت میں پی ایچ ڈی کی۔ منجھلی بیٹی ہے طاقت سرکار، آٹھ سالہ، کیمبرج برطانیہ سے تیسری کلاس میں ایم فل کر چکی ہے۔ سب سے چھوٹی کا نام ہے پیر بابا، مختصر ہو کر پیرو، Peeru رہ گیا۔ عمر چار برس آکسفرڈ سے پلے گروپ میں ایم ایس کر چکی ہے۔
قلندر آستانے پر مریدوں کے درمیاں گِھرا ہو تھا کہ اچانک تینوں آن دھمکِیں۔
‘ابے قلندر یوتھیے اور چوتیے میں فرق تو بتلا!’ پیرو نے پوچھا۔ بچوں کو قلندر نے اپنے سے بہت بے تکلف کر رکھا تھا۔ تینوں پاپا، بابا، ابو یا ابا کے بجائے اسے اس کے نام یعنی قلندر سے ہی پکارتی تھیں۔ ان تینوں کے علاوہ کوئی اور یہ جرأت نہ کر سکتا تھا۔ قلندر کی بیگم اسے ‘ابے قلندر’ نہیں محض ‘ابے’ کہتی تھیں۔
سوال نے قلندر کو عجیب شش و پنج میں مبتلا کر دیا۔ تمام مریدوں نے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں۔
‘یہ میرے لاہور میں ایک مرید نجم سیٹھی کا نمبر ہے۔ youthia کی ٹرم انھوں نے کوائن کی miltablishment کی طرح۔ چوتیئے کی تعریف و توصیف ان سے بہتر کوئی اور نہیں جانتا!’ قلندر بولا مگر پیرو نے ایک جملہ داغا: ‘بہت بڑے قلندر بنتے ہو۔ آسان سے سوال کا جواب نہیں آتا!’
‘تو بتا دے؟’ قلندر بولا۔
‘ہر یوتھیا چوتیا ہوتا ہے، مگر ضروری نہیں ہر چوتیا یوتھیا بھی ہو!’ پیرو بولا۔ قلندر بیٹیوں کے لیے صیغۂِ مذکر ہی استعمال کرتا تھا۔
‘واہ! کیا کہنے۔ حجور بٹیا تو ما شاء اللہ آپ کو بھی پیچھے چھوڑ گئی!’ ریشماں بولی۔
‘ابے بکواس بند کر۔ بچوں کا دل رکھنے واسطے تجاہلِ عارفانہ سے کام چلا ریا ہوں۔ ورنہ کائنات کا کوئی بھید اپنی آنکھوں سے پوشیدہ نہیں۔
‘ابے قلندر یہ مدھو بالا، دو بالا، بالوں بالا اور بالا تکہ ہاؤس میں کیا کیا قدریں مشترک ہیں؟’ یہ طاقت تھا۔
‘ابے یہ تو بتلا کیا بالا تکہ اپنے بالے سیالکوٹیے کا دوسرا جنم ہے؟ ‘یہ سوادیکا تھا۔ دونوں اکھٹے قلندر پر حاوی ہو گئے۔ قلندر سے کوئی جواب نہ بنا۔
‘اچھا چل سمپل سا سوال پوچھتے ہیں۔ یہ بتا کہ ‘رن’ مذکر ہے یا مؤنث؟ ‘
‘ظاہر ہے مؤنث!’ قلندر بولا۔
‘تو پھر دبیر نے یوں کیوں نہ لکھا: ‘کس شیر کی آمد ہے کہ ‘رن’ کانپ رہی ہے؟ سوادیکا بولا۔
‘نہیں سوادیکے یہ شعر حقائق کی عکاسی نہیں کرتا۔ حق بات تو یہ ہے کہ قلندر مریدوں کے آگے شیر بنا پھرتا ہے۔ جیسے ہی ہماری ماما آتی ہیں کانپنے لگ جاتا ہے۔ لہٰذا شعر ہونا چاہیے: کس ‘رن’ کی آمد ہے کہ شیر کانپ رہا ہے!’
‘یہ باتیں تم نے کہاں سے سیکھیں؟’ قلندر نے اپنی بیٹیوں سے پوچھا۔
‘یہ تو چند سوالات ہیں جو آکسفرڈ، کیمبرج یا ہارورڈ میں داخلے کے وقت طلباء سے پوچھے جاتے ہیں آئی کیو لیول جانچنے کے لیے،’ بچیاں بولیں۔
‘میں نے واقعی درست تعلیمی اداروں کا انتخاب کیا تمھارے لیے۔ ‘
‘چل جھوٹے، یہ تعلیمی ادارے تو آپ کے ہائر ایجوکمیشن کمیشن کے چیئرمین دوست ڈاکٹر طارق بنوری نے ریکمینڈ کیے جب وہ ہمارے گھر آئے تھے، جب ہم بچے ہوا کرتے تھے۔ آپ ہی نے ان سے پوچھا تھا کہ طارق انھیں کہاں admission دلواؤں؟ اور طارق نے خود بھی تو پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اسی ہارورڈ سے!
‘اچھا یہ بتائیں کہ اسم شریف، آپ کے دوست شریف اعوان اور ایوانِ صدر میں کیا فرق ہے؟ نیز یہ بھی واضح کریں کہ کیا کوئی بد معاش اعوان بھی ہوتا ہے؟ اور لگے ہاتھ ‘بد معاش’ اور ‘شریف بد معاش’ کی وضاحت بھی کر دیں۔ قلندر پر بچوں نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔
‘یہ سب اعوان، ایوان یا عنوان شریف ہوں کہ بد معاش، عوام کی مجبوریوں کا مظہر ہیں۔’آخرِ کار قلندر ایک سوال کا تو جواب دینے نے قابل ہوا۔
‘اچھا آپ بحریہ ٹاؤن کے بجائے اپنے دوست طارق بنوری کے ‘بنوری ٹاون’ میں انویسٹ کیوں نہیں کرتے؟’ طاقت نے پوچھا۔
‘اس لیے کہ بنوری ٹاؤن میں قبضہ ملنا نا ممکن ہے! قلندر بولا۔
‘واہ! یہ بات۔’ پیرو بولا۔
‘اس محاورے کا بیک گراؤنڈ، خالی دماغ شیطان کا گھر، بیان کیجیے؟’ اب کے بچے ذرا تمیز سے بات کرنے لگے۔
‘جب انسان کا دماغ فکرات، پریشانیوں سے خالی ہو تب ہی وہ دنیا کا اعلیٰ تخلیقی کام مثلاً شاعری، ادب، نثر، مزاح، فلم، ڈرامہ، پینٹنگز، ڈانس، میوزک وغیرہ وغیرہ پیدا کر سکتا ہے؛ اور دنیائے اسلام میں انھیں شیطانی خرافات کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہے!’
‘واہ۔ اب آپ ہم سے جیتنا شروع ہو گئے ہیں،’ بچے بولے۔
‘اچھا آپ آستانے پر ہمیشہ شادیوں والا دیگی قورمہ ہی پکواتے ہیں، مگر پرچار آپ طلاق اور پھر حلالے کا کرتے ہیں۔ تو طلاق/حلالے والا دیگی قورمہ کیوں نہیں پکواتے؟’ پیرو نے یہ سوال داغا۔
‘ایسے مواقعوں پر قورمے کی نہیں، دختر انگور کی نیاز دی جاتی ہے۔ اب میرا دماغ کھانا چھوڑو، اور میٹرک میں پی ایچ ڈی کی انرولمنٹ کے لیے سندھ یونی ورسٹی کے داخلہ فارم آن لائن پر کرو۔ جاؤ!’ قلندر نے اس طرح ان سے جان چھڑانے میں عافیت جانی۔
۔۔۔
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اردو، دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ای میل [email protected]