پی ایچ ڈی کسان چاول کی فصل کا المیہ سناتا ہے
از، وکاس انجم
میرا تعلق کسان گھرانے سے ہے۔ یہ بات سادہ ہے۔ انسان سماج میں رہتے ہوئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ میرے گاؤں کے لوگوں کا پڑھنے لکھنے کی طرف رجحان نہیں ہے، میں پی ایچ ڈی (اردو) سکالر ہوں، لیکن میں نے نوکری کرنے کے بہ جائے کھیتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کے پاس زرعی رقبہ دن بہ دن کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور کمرشل ازم کے کارن زرعی زمین کم ہو رہی ہے، جب کہ آبادی میں اضافے کی بناء پر زیادہ سے زیادہ خوراک کی ضرورت ہے۔
اس تفاوت کو ختم کرنے کے لیے جدید پیمانوں پر کاشت کاری کی ضرورت ہے۔ مَیں نے خود کاشت کاری کو اپنے پروفیشن کے لیے منتخب کیا ہے۔ میرا گاؤں (چِھچھراں والی) ضلع منڈی بہاءُالدّین کا ایک دور افتادہ گاؤں ہے۔ اس کی آبادی تقریباً 2400 نفوس پر مشتمل ہے، جب کہ اس گاؤں کے پاس 1625 ایکڑ رقبہ ہے۔
میرے گاؤں کی ایک اہم بات یہ ہے کہ گاؤں میں تقریباً 100 ایکڑ پر جنگل اگایا گیا ہے۔ آج جب پوری دنیا گلوبل وارمنگ جیسے سنگین مسئلے کا شکار ہے اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے آئے روز مسائل سے نبرد آزما ہے، ایسے میں ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کی کوشش میں میرا گاؤں اپنے حصے سے زیادہ صرف کر رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ میرے گاؤں میں مچھلی کی فارمنگ بھی وسیع پیمانے پر اب کی جا رہی ہے تا کہ غذائی ضرورت کو پورا کیا جائے۔ گاؤں کے تقریباً تمام نفوس کا تعلق زراعت سے ہے، ہمارے گاؤں میں صرف دو فرد گورنمنٹ ملازم ہیں، جب کہ پانچ ریٹائرڈ فوجی۔ باقی سارا گاؤں کاشت کاری سے وابستہ ہے۔
مونجی (چاول) کے علاوہ اہم فصلوں میں گندم، کینولہ، کماد اور جان وروں کے چارے کے لیے برسیم لوسن اور جوار کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔
کاشت کاری میرے گاؤں کے تقریباً تمام افراد کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے، کیوں کہ کاشت کاری کے سوا میرے گاؤں کے افراد اور کچھ کرنے سے دل چسپی اور مواقع نہیں رکھتے ہیں۔ چند ایک افراد اب خلیجی ممالک میں مزدوری کی غرض سے گئے ہیں۔
پی ایچ ڈی اردو کی سکالری کے ساتھ زمین سے رزق تلاشنے لگا ہوں کئی مسائل نظر آتے ہیں۔یہ مسائل اس شعبے کی محنت اور اس محنت کے عوضانے کے باہمی ناتے کے متعلق ہیں۔
اس وقت بہ شمول میرے گاؤں، صوبۂِ پنجاب کے چاول کی کاشت کے علاقوں میں مُونجی (چاول) کی فصل تقریباً تیار ہو چکی ہے۔
مونجی کی فصل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسان اس کے سیزن میں فقیر ہو جاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ چاول کی فصل کی کاشت کے لیے انتہائی مشقت اٹھانی پڑتی ہے، اس کے بعد سب سے مہنگی فصل ہوتی ہے۔
کسان کو اپنی ساری جمع پونجی اس فصل کی تیاری میں صرف کرنا پڑتی ہے۔ مسلسل کام اور کثیر سرمایے کے بعد کہیں جا کر فصل تیار ہوتی ہے۔
فصل کی مشکل تیاری میں مشکل یہیں ختم نہیں ہوتی۔ فصل کی کٹائی کے بعد اسے منڈی میں بیچنے کی باری آتی ہے۔ کاشت کے سکیل میں اضافے کے بعد اب دیگر فصلوں کے علاوہ مونجی کی فصل کو چاول میں تبدیل کرنے کے لیے مشنیری کا استعمال نا گزیر ہو چکا ہے۔ یہ کام خود کسان کے بس کا نہیں رہا۔مجبوراً کسان کو یہ فصل تاجر، آڑھتی یا رائس مل پر جا کر فروخت کرنا پڑتی ہے۔
یہ سال جہاں سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے کسانوں کے لیے بالخُصوص مشکل رہا ہے، وہیں یہ سال تیل، اور بجلی کے بلوں میں عدمِ استحکام کے باعث کسانوں کے لیے معاشی حوالے سے مشکل رہا ہے۔
اب جب کہ فصل تقریباً تیار ہو چکی ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں کاٹی جا چکی ہے، ایسے میں اس کی قیمت اور اس کی تیاری پر ہونے والے اخراجات کے تناسب سے کافی کم ہے۔ حکومتِ پاکستان گندم کے علاوہ کسی بھی زرعی جنس کی قیمت کا تعیّن نہیں کرتی۔ اس طرح مونجی کی فصل فری مارکیٹ کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب آسمان سے مصیبت نازل ہوتی ہے تو وہ تنہا نہیں ہوتی، یہی صورتِ حال اب کسان کی ہے۔ ایک تو انتہائی مہنگے داموں پر اس نے سب سے پہلے ڈیزل خریدا، اس کے بعد حکومت کی نا اہلی کے کارن اس کو کھاد (جس کی مونجی کی فصل کو شدید ضرورت ہوتی ہے) بلیک مارکیٹ سے اصل قیمت سے بھی زیادہ رقم کے عوض خریدنا پڑا۔
زرعی بجلی جو مئی 2022ء میں 6 روپے فی یونٹ تھی، وہ بعد میں 15 روپے فی یونٹ سے بھی تجاوز کر گئی۔ فی یونٹ مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیکس میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ جو بجلی پچھلی بار کسان 100 روپے میں خریدتا تھا وہ اسے اس فصل کے لیے تقریباً 230 روپے میں پڑی ہے۔ اس کے علاوہ زرعی ادویات اور ان پر ٹیکس کی شرح بڑھنے سے بھی اسے یہ فصل کافی مہنگی پڑی ہے۔
اب وقت تھا کہ کسان کو اس کی محنت کا اجر ملتا، تو ایسے میں تاجروں اور آڑھتیوں نے باہمی اتحاد کی بہ دولت مونجی کا ریٹ انتہائی کم نرخ پر روک دیا تھا۔ مونجی کی فصل کو کسان کسی صورت اپنے پاس محفوظ نہیں رکھ سکتے۔
فصل کاٹنے کے بعد چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر اگر فصل اٹھائی نہ جائے تو اس کے ضائع ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مونجی کی ایک قسم سُپری(86) کا ریٹ پچھلے سال فری مارکیٹ میں 1800 روپے تک تھا۔ اس سال یہی قسم 2000 روپے فی من تک مارکیٹ میں ہے۔
ایک دوسری قسم سپر کسان (1509) اس کا ریٹ پچھلے سال 2800 روپے فی من تھا اور اب کی بار حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے تاجروں نے 3000 روپے فی من مقرر کیا ہے۔ ایک ماہ تک سپر باسمتی چاول تیار ہو گا، اس کے بارے میں سننے میں آ رہا ہے کہ اس کی قیمت 3600 روپے فی من مقرر کیا جا رہا ہے، جب کہ چاول 9500 سے 12000 فی من کے حساب سے آج بھی مارکیٹ میں مل رہا ہے۔
پہلے چاول کے ریٹ اور مونجی کے ریٹ میں ½ کا فرق ہوتا تھا۔ اب یہ فرق واضح طور پر بہت بڑھ گیا ہے۔
اس حوالے سے ہم نے اپنے گاؤں کے کسانوں سے بات کی۔ مولوی جاوید 100 ایکڑ کی کاشت کاری کرتے ہیں۔ ان سے جب اس سال مونجی کے ریٹ کے حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ اب اخراجات کی وجہ سے کاشت کاری کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ میں اپنے سرمایے کو کسی اور منصوبے میں لگانے پر سوچنے کے لیے مجبور ہوں کیوں کہ حکومت کا رویہ مایوس کن ہے۔
منشاء عمران کچھ سال خلیجی ممالک میں مزدوری کرتے رہے ہیں، اب واپس آ کر پچھلے تین سال سے کاشت کاری سے وابستہ ہوئے ہیں۔ یہ تقریباً 50 ایکڑ تک کی زمین پر کاشت کاری کر رہے ہے۔ ان کا کہنا ہے:
“اگر ہماری محنت تاجروں، آڑھتیوں اور مل مالک نے لے کر جانی ہے تو پھر کیوں نا کسی کفیل کے لیے دبئی میں کام کیا جائے؟ وہاں 8 گھنٹے ہی کام کرنا پڑتا ہے، جب کہ کاشت کاری میں ایک کثیر سرمایے کے ساتھ ساتھ آدمی 24 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔”
اس کے علاوہ زیادہ تر کسان چھوٹے پیمانے پر کاشت کاری کرتے ہیں؛ ان کے لیے اور زیادہ مشکل ہوتا ہے کیوں کہ پورے سال کی محنت کے بعد سالانہ 4 سے 6 لاکھ تک کی آمدنی ہوتی ہے۔ یوں اس سال ریٹ کم ہونے کے سبب تمام کسان مایوس ہیں اور متبادل ذرائع آمدن کی تلاش میں ہیں یا اس طرز پر سوچنے پر مجبور ہیں۔
میں ایک کسان ہونے کے ناتے حکومت اور اربابِ اختیار سے درخواست کرتا ہوں کہ خدا را کسان، ان کے روزگار اور زراعت کو تباہ و برباد ہونے سے بچایا جائے۔