کیا سیاست دانوں پر آئین و قانون کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے؟
از، نصیر احمد
“عمران خان کی نا اہلی کا فیصلہ قانونی طور سے درست ہونے کے باوجود ملکی سیاست کے لیے ایک نا مناسب فیصلہ ہے۔ اس فیصلہ کو بھی نواز شریف کو تا حیات نا اہل قرار دینے کے فیصلہ کی طرح مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔”
سید مجاہد علی
لیکن اگر ملکی سیاست کو قانون پر ایسی فضیلت حاصل ہے کہ اس کے لیے عدالتی فیصلے مسترد ہو جائیں، ملکی سیاست کے لیے قانون کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
کل ہیگل کا کہہ رہے تھے کہ تضاد کی عدم موجودی کے منطقی قانون کو فارغ کر کے ایسی منطق بنانے کی کوشش کی تھی جس میں ایک بیان بہ یک وقت درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ ہیگل سے پیچھے چلیں جائیں اور جڑوں میں جا گُزیں ہوں تو یہ معاملہ سامنے آتا ہے کہ بھگون ہستی بھی ہیں اور نیستی بھی۔
اثرات بہت گہرے ہیں۔ سر سری بھی کچھ دیکھ لیں تو سامنے آ جاتے ہیں۔ ملکی سیاست کی بنیادیں کس چیز پر استوار ہیں: آئین و قانون پر۔
وزیر اعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس، چیف الیکشن کمشنر سب آئینی عہدے ہیں، اور اگر آئین کے مطابق فنکشن نہیں کر رہے تو ان کا آئین کے مطابق فنکشن نہ کرنا ملکی سیاست کے لیے مناسب کیسے ہو سکتا ہے؟
اور اگر ان کا قانون کے مطابق فنکشن نہ کرنا ملکی سیاست کے لیے مناسب ہے تو ایسا آئین بنائیں جو ملکی سیاست سے مناسبت رکھتا ہو۔ جو ہو رہا ہے اسی کو آئین بنا دیں؛ اس طرح کی شقیں کہ صدر کے لیے لازمی ہے کہ اپنی پارٹی کے مفاد کے لیے جب بھی چاہے اسمبلی توڑ دے۔ آرمی چیف کا حق ہے کہ جب چاہے وزیر اعظم بنا دے اور جب چاہے ہٹا دے۔
یہ چپراسی کا حق ہے کہ افسرِ اعلیٰ سے ملاقات کے خواہش مندوں سے جتنی رقم ممکن ہو سکتی ہے، اینٹھ لے۔ ایسے ملکی سیاست کے لیے آئین و قانون مناسب کر لیں۔
ہمارا آئین تو ملکی سیاست کے لیے پہلے ہی کافی مناسب ہے، اسے اور ایسا کر لیں۔ لیکن آئین و قانون کی نیچر ہی ایسی ہے کہ مکمل طور پر ملکی سیاست سے مناسبت نہیں ہو پاتی۔ اس لیے قصہ ہی ختم ہی کر دیں۔ بس ایک اعلان سا کر دیں کہ مؤمنین اور مؤمنات کی سیاست کی تقویم ہی ایسی ہے کہ آئین و قانون سے مناسبت نہیں رکھتی۔ اور اگر آئین و قانون کھیلنا چاہتے ہیں تو پھر کھیل کو ڈھونگ تو رہنے دیں۔ سیدھے سیدھے کہیں قانونی طور پر ہی فیصلہ غلط ہے۔
اگر سمجھتے ہیں کہ جن قوانین کے نتیجے میں فیصلہ ہوا ہے، وہ غلط ہیں تو غلط قوانین کے نتیجے میں غلط فیصلہ کہنے میں کیا ہرج ہے؟
کوئی کیا بگاڑ لے گا؟ زیادہ سے زیادہ یہی کہیں گے کہ غلط بات کر رہا ہے۔
اب یہ بے جا قسم کی دو رنگی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
اپنے مضمون کا عنوان رکھا ہے: پاکستانی سیاست کا ایک اور سیاہ دن
اب کیا پوزیشن بنتی ہے؟
قانونی طور پر درست فیصلہ ہو گیا ہے اس کی وجہ سے ملکی سیاست کی تِیرگی بڑھ گئی ہے۔
یعنی درست قانونی فیصلے مسترد ہوں گے تو تِیرگی چَھٹ جائے گی۔ بے آئینی سے تیرگی ہٹانے کے بھی مخالف ہیں۔ غیر جمہوری اداروں کی بالا دستی بھی نہیں چاہتے، اور قانونی طور پر درست فیصلوں کی تردید بھی چاہتے ہیں۔ درست قانونی فیصلوں کی تردید کے سنگ جمہوریت کیسے چلے گی؟
بنیادی بات کو فارمولیٹ کرنے میں غلطی ہو جائے تو تضادات کا عجیب سا گورکھ دھندا بن جاتا ہے اور ڈور اتنی الجھ جاتی ہے کہ سلجھتی ہی نہیں۔
فیصلے کی جو ابتدائی رپورٹ آئی تھی اس میں الیکشن ایکٹ پر زیادہ زور تھا، اور آرٹیکل 63 کی جو شق فیصلے کے سلسلے میں استعمال کی گئی ہے وہ الیکشن ایکٹ کی دفعات کو ہی سپورٹ کرتی ہے۔ اس شق میں موجودہ قوانین کا ذکر ہے اور موجودہ قوانین جن کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ الیکشن ایکٹ میں موجود ہیں۔
لیکن جیسے ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اگر ان سب قوانین کو غلط سمجھتے ہیں ان کے نتیجے میں ہونے والے فیصلے قانونی طور درست سمجھنے سے بھی تضاد ہی بنتا ہے۔