دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ذہن پر چھائی دھند چھٹنی ضروری ہے
از، نصیر احمد
دہشت گردی کے تو یہی نتائج ہو سکتے ہیں کہ ریاست، حکومت اور عوام دہشت گردی پر مل کر قابو پا لیتے ہیں۔ دہشت گردوں سے کش مَکش جاری رہتی ہے۔ دہشت گرد ریاست، حکومت اور عوام سے جیت جاتے ہیں۔
اور دہشت گردوں سے سمجھوتا بھی یہی ہو سکتا ہے کہ دہشت گرد ہتھیار ڈال دیں اور قانون کی بالا دستی تسلیم کر لیں۔
پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کی پالیسی کے لیے ذہن ہی صاف نہیں ہو رہے۔ کبھی ایک رائے بنتی ہے کہ قابو پانا چاہیے، لیکن کچھ عرصے بعد ایک وزیرِ اعظم دہشت گردوں کے قصیدے پڑھ رہے ہوتے ہیں اور جنرل صاحب دہشت گردوں کی فتح کے بعد مسرُور سے ہو رہے ہوتے ہیں کہ اب معاملات سُدھر جائیں گے۔
پھر کچھ عرصے بعد نئے وزیر اعظم اور نئے جنرل دہشت گردی پر قابو پانے کے عزم کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ میڈیا لوگوں کو مسلسل پروپیگنڈے کے ذریعے کبھی دہشت گردوں کو بھائی بنا کر اور کبھی دشمن بنا کر ساتھ ملا لیتا ہے۔
آج کل دہشت گردوں پر قابو پانے والی پالیسی کی پھر سے بات ہو رہی ہے اور بات دُرست بھی یہی ہے، لیکن کل کیا پتا پھر کوئی نئی جوڑی آ جائے اور دہشت گردوں سے مُواخات پر اصرار کرنے لگے۔
ریاست، حکومت اور عوام کے مقابلے میں دہشت گردوں کے ذہن صاف ہیں۔ انھوں نے دہشت اور تشدد کے ذریعے ریاست، حکومت اور عوام پر قبضہ کرنا ہے۔ اس قبضے کے حصول کے لیے اپنی طاقت بڑھانی ہے اور حکومت، ریاست اور عوام کو نا تَواں کرنا ہے۔ ریاست، حکومت اور عوام کے ذہنوں میں دھند کی وجہ سے دہشت گردوں کی طاقت بڑھتی رہتی ہے۔
یہ دھند ہٹانے کے لیے مذہب کے فاشزم میں ادغام کو ترک کرنا ہو گا۔ اس ادغام کے نتیجے میں انتہاء پسندی عام ہوئی ہے جس کی وجہ سے معاشرے کی ہر سطح پر دہشت گردوں کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے وزیرِ اعظم کھلا کھلا افغانستان پر دہشت گردوں کے قبضے کو افغانستان کی آزادی کہہ رہے تھے۔
اس طرح کی گفت گو کی پذیرائی دہشت گردوں کی حمایت کے بارے میں اطلاع تو دیتی ہے۔ مذہب کے فاشزم کے ادغام سے انتہا پسندی بڑھتی ہے اور انتہاء پسندی کی وجہ دہشت گردی کے واقعات بڑھتے ہیں۔ اس ادغام کو ریاست، حکومت اور عوامی زندگی کی اساس بنا کر انتہا پسندی نہیں روکی جا سکتی۔
اس ادغام کے اور نتائج بھی ہیں۔ قانون کی حکم رانی اور اخلاقیات سے وابستگی بہت نا تَواں ہو جاتے ہیں۔ دہشت گردوں کو قانون کا پابند کرنا ہے اور قانون جس کا احترام معاشرے میں رہا ہی نہیں۔
آج کل کیا گفت گو ہو رہی ہے: کتنے برے آدمی ہیں جو آئین و قانون کی مزید خلاف ورزی میں ہماری مدد نہیں کی، یا کتنے برے آدمی ہیں آئین و قانون کی ان کے لیے وہ بربادی کی ہے کہ پہلے کسی کے لیے کی بھی نہیں تھی، پھر بھی کتنے احسان فراموش ہیں۔ اعلیٰ حکام یہ گفت گو کر رہے ہوں تو ریڑھی والا نہ قانون کا کچھ خیال کرتا ہے اور نہ اخلاقیات کا کچھ پاس۔
دہشت گردوں نے تو اپنے گرد خطر ناک اور خوف ناک لوگوں کے جتّھے جمع کیے ہوتے ہیں؛ وہ ایسے آئین و قوانین کا کہاں احترام کرتے ہیں جن سے ریاست، حکومت اور عوام ہی وابستہ نہیں ہیں۔
اوپر سے پھر میڈیا، لٹریچر اور نظریاتی مباحث میں جمہوریت سے ایک شدید نفرت خوبی سمجھی جاتی ہے۔ ڈرا دھمکا کے اپنی بات منوانے کو بھی فضیلت سمجھا جاتا ہے۔
ہمارا ثقافتی نظام ایسا ہے کہ سمجھ دار آمریت اس میں نا ممکن ہے۔ سمجھ دار آمریت کا تصور بھی کوئی اتنا ہٹ نہیں ہے۔ مختلف عالمی حالات کی وجہ سے کہیں یہ کرامت رُو نُما ہو گئی ہے تو یہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے ورنہ آمریتیں کب سمجھ دار ہوتی ہیں۔
ہمارے ہاں یہ سمجھ داری تو ہو ہی نہیں سکتی کہ نَخوَت حقائق کو تسلیم کرنے کے لیے رضا مند ہی نہیں ہوتی۔ اس لیے جمہوریت کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے اور جمہوریت کو اختیار نہیں کرنا چاہتے کہ بات چیت ہو گی تو معاملہ سمجھ آجائے گا اور معاملہ سمجھ آ گیا تو سمجھو قیامت آ گئی کہ ہمارا دنیا میں ہونے کا مقصد ہی معاملات کو نہ سمجھنے سے متعلق ہے۔
مذہبی اور ثقافتی فاشزم کی وجہ سے انسانی رشتے بھی بہت نا تَواں ہیں۔ اتنے نا تَواں ہیں کہ انسانی برابری کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ مرشد، چیلے اور جَتّھے پر جم سے گئے ہیں۔ مرشد نے چیلے چانٹے جمع کرنے ہیں ایک جتھا سا بنانا ہے اور معاشرے پر حملہ آور ہو جانا ہے اور اس حملے کے دوران کسی اصول، کسی قانون، کسی ضابطے، کسی قاعدے اور کسی قسم کی اخلاقیات کی کوئی پروا نہیں کرنی۔
دہشت گردی میں بھی یہی عوامل کارِ فرما ہوتے ہیں اور آخر میں دونوں انتہائیں ایک دوسرے کو داد دیتی پائی جاتی ہیں۔
تعلیم ایسی ہے کہ گفت گو میں تعقّل کے لیے ہلکی سی پسندیگی در آئے تو جنھیں حکیم و فرزانہ کہا جاتا ہے وہ اچھل اچھل کر کبھی اپنا گریبان چاک کرتے ہیں اور کسی کا دامن۔ عقل کے بغیر دہشت گردی جیسی گھمبیر سمَسیا کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟
اب مذہب کے فاشزم کے ادغام کے نتیجے میں بہتر تعلیم و تربیت نہیں ہو سکی اور نہ ہو سکتی ہے تو اسی بات پر اٹک جانے کا کوئی فائدہ؟ اب جنون سے تعلیم، روزگار، صحت، معاشی بہتری جیسے معاملات نہیں حل ہو سکتے تو دیوانہ تر ہونے سے معجزے تو نہیں رُو نما ہوں گے؟ اگر عوام کو ان کے بارے میں فیصلہ سازی سے دور رکھتے ہوئے دانا کرشمے نہیں کر سکے تو ایسی دانائی سے چمٹنے میں کیا مزے ہیں؟
بہ ہر حال دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اس بار دہشت گردی کے خلاف عزم قوّی ہوں اور ارادے پختہ۔ ساتھ میں کچھ شعور بھی ہو جائے تو شاید…. بہ ہر کیف، لڑتے رہنے کا فیصلہ بہتر فیصلہ ہے، اور کوئی حل نہیں ہے۔
افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف معاشرہ بے بس ہو گیا اور اس بے بسی کا ہمارے پچھلے وزیرِ اعظم نے کریڈٹ بھی بہت لیا، لیکن اس سے افغانیوں کا مزید نقصان ہوا اور ہمارا بھی۔