یوٹرن
کہانی از، نعمان سحر
…
“اچھا، آپ گاڑی تو روکیں۔
کیا کر رہے ہیں…
آپ ابھی کہاں ہیں۔
زیادہ آگے تو نہیں آئے ہوں گے۔
آپ یُوٹرن لے لیں۔
آپ آج نہ آئیں۔”
…
رات دو بجے m&m کی امپورٹڈ بنٹیوں کے ساشے کو اپنے سرہانے کے دائیں جانب رکھتے ہوئے خود کو یاد کروایا کہ صبح لاہور جاتے ہوئے اس کو ساتھ لے جانا نہ بھولنا۔
صبح پانچ بجے کا الارم لگایا۔ گرم کھیس اور اس کے اوپر لگی کمبل کی تہہ نے نیند کو جلد آنے میں مدد کی۔
دو گھنٹے کی مختصر، لیکن گہری نیند کے بعد چار بجے آنکھ کے پردوں سے نیند کے بادل چَھٹے، اور اتنے اچانک چَھٹے کہ لگا جیسے ایک گھنٹے تاخیر سے آنکھ کھلی ہو۔
ہڑبڑا کے سرہانے کے آزو بازو میں ہاتھ پھیرا۔ وقت کی دوڑتی سوئیوں کے مقام اور ان کے درمیان فاصلے کی قدروں کا پتا لگایا۔
ابھی تو الارم بجنے میں ایک گھنٹا باقی تھا۔ تجسس تھا، بے چینی تھی، بے حد امید تھی، لا محدود خوشی تھی، یا پھر دل کے دریچوں میں بھٹکتا کوئی خوف، جس نے نیند کو جذب کر لیا تھا۔ جاذبیت ایسی کہ جس نےجذبات ایسے جذب کر لیے ہوں جیسے سوہاوا کی خشک پہاڑیوں کی کمر سے بلند ہوتے سورج کی روشنی میں گھاس کی جھومتی پتیوں نے شبنم کی پھوار کو جذب کر لیا ہو۔
آنکھوں پر دھیمے سے ہاتھ مَسلتے ہوئے کمبل اور کھیس کی تہوں کو یک مُشت ایک طرف کرتے ہوئے تیاری کرنے کی ٹھانی۔ جیلِٹ کے نئے ریزر سے دُہری شیو اور وُڈ مَسک کی خوش بُو سے بھر پُور باڈی واش کَم شیمپو سے تفصیلی غسل کیا۔ فجر کی نماز پڑھی اور جلدی سے لیپ ٹاپ کا بیگ سنبھالتے ہوئے، دوسرے فلور پر نیچے آتے ہوئے آفس میں رات کا سنبھالا گائے کا خالص دودھ، زردہ چاول اور ڈومیلی کے امرسے۔
سب کچھ ہاتھوں میں تھامے، بغلوں میں دبائے لفٹ کے ذریعے گراؤنڈ فلور کی اڑان بھرتے پارکنگ میں کھڑی گاڑی میں سب کچھ ایسی نفاست سے رکھا جیسے کسی دودھ پیتے بچے کو اس کی گلگوٹی میں ڈالتے ہوئے سہلاتے ہیں۔ کھانے کی سب اشیاء کے درمیان اس قدر فاصلہ اور کنارہ نما رکاوٹیں رکھیں کہ زردہ چاولوں سے امرسے اور دودھ تک سب کی خوش بُو ایک دوسرے سے انجان رہیں۔
گاڑی گھمائی اور لاہور کی طرف سفر اختیار کیا۔ سورج نے ابھی سر مکمل نہیں اٹھا یا تھا، لیکن پہاڑوں کے کناروں سےاپنی جھلک واضح کر چکا تھا۔
یونی ورسٹی سے جی ٹی روڈ چڑھتے ہی سورج کی کرنوں نے جب آنکھوں میں ابھرتی امید اور خوشی کا جاذب احساس دیکھا تو فوراً خیال آیا کہ اس مجذب احساس کا استعارہ تو میں اپنے بستر کے سرہانے چھوڑ آیا ہوں یعنی کہ m&m کی بنٹیاں۔
راستے میں پڑتا پہلا یو ٹرن لیا۔ وہاں سے یونی ورسٹی کا ہاسٹل بہ مشکل دس منٹ کی مسافت پر تھا۔ m&m کی یہ بنٹیاں بہت خاص تھیں۔ یونی ورسٹی کی ایک پروفیسر نے مجھے یاسمین مجاہد کی کتاب Reclaim Your Heart واپس کرتے ہوئے ایک طرح سے اظہارِ تشکر کے لیے بہ طورِ تحفہ دی تھیں، جن کو بہت سنبھال کر رکھا تھا کہ جب ارِیج ملے گی تو مل بیٹھ کر کھائیں گے اور امریکہ کی یاد تازہ کریں گے۔
چند ماہ قبل ارِیج سے پہلی ملاقات امریکہ میں ہوئی۔ اس کے بعد ملاقاتوں کی لمبی قطار کے بعد آج پھر ایک دل چسپ ملاقات ایک کہانی میں ڈھلنے کو بے تاب تھی۔ یہ بنٹیاں ہمیشہ سے ہمارے تعلق اور دوستی کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتی آئیں تھیں۔ کبھی ان کو سردی سے ٹھٹھرتے ہاتھوں سے چند ڈالروں کے عوض وینڈنگ مشین کی ٹوکری سے وصول کیا۔ کبھی ارِیج کی اوورکوٹ نما جیکٹ سے نکلتے نرم و حساس ہتھیلی سے۔
واپس پہنچا، بنٹیوں کا پیکٹ اٹھایا، دو قدموں کی مسافت کو مختصر کرتے، ایک قدم میں ڈھالتے ہوئے جلدی سے واپس پارکنگ میں پہنچا۔ گاڑی سٹارٹ کی اور سفر کا با قاعدہ آغاز کیا۔ اُدھر سورج کا مکمل چہرہ پہاڑوں کی نوک کو چھوتے، ان کے کناروں سے علیحدہ ہو رہا تھا۔ اِدھر میری اور ارِیج کی ملاقات میں وقت اور فاصلہ کم ہو رہا تھا۔ دریائے جہلم کا پل کراس کرتے ہی اریج کے موبائل پر میسِج چھوڑ دیا کہ چند ہی گھنٹوں میں، میں لاہور پہنچ جاؤں گا۔ نا میسِج سین ہوا نا ڈِیلیور۔ لیکن اچانک سے ایک غیر محفوظ نمبر سے کال آئی ۔
“Hey, it’s me, Areej. I have lost my phone. I am not feeling good and you should not come today.”
گاڑی کی ہنگامی لائٹوں کو آن کرتے، گاڑی کو سب سے آہستہ والی لین میں چلانا شروع کر دیا۔ اس کی بات تحمل سے سننے اور ہضم کرنے کی کوشش کی۔
“اچھا، آپ گاڑی تو روکیں۔ کیا کر رہے ہیں۔ آپ ابھی کہاں ہیں۔ زیادہ آگے تو نہیں آئے ہوں گے۔ آپ یُوٹرن لے لیں۔ آپ آج نہ آئیں۔”
بے دھیانی میں سٹِیرنگ کو تھامے ہاتھوں میں نبض کی رفتار بڑھ رہی تھی، جس سے گاڑی کی رفتار کا تعلق راست تناسب تھا۔ گاڑی کی رفتار بھی بڑھنے لگی۔ اچانک میرا ذہن لفظوں کے ایسے تانے بانے بُننے لگا کہ جس سے پت جھڑ کی نظر ہوتی ہوئی یہ موہوم ملاقات پھر سے کھلکھلانے لگے: “تو ان ٹکٹوں کا کیا جو ہم نے ایمپوریئم مال میں The Legend of Moula Jutt کی لی ہوئی ہیں۔”
“دیکھیں، آپ کو اپنے تین ہزار کی پڑی ہے۔ میرا تین لاکھ کا موبائل گم گیا ہے۔ آپ یہاں آئیں گے۔ لیکن میرا فون گم گیا ہے تو آپ مجھ سے رابطہ کیسے کریں گے۔ یہ تو کسی کا نمبر ہے جسے میں زیادہ دیر تک اپنے استعمال میں نہیں رکھ سکتی اور ویسے بھی میں بہتر محسوس نہیں کر رہی۔”
لہجے میں جِھجک تھی، لیکن اعتماد بنائے ہوئے اس نے بات آگے بڑھائی،”میرا یقین کریں۔ میری بات مان لیں۔ ہم اچھا وقت نہیں گزار سکیں گے۔ آپ یوٹرن لے لیں۔ ہم اگلے ہفتے یا اس سے اگلے ہفتے مل لیں گے۔”
برق رفتاری سے سرائے عالم گیر کی حدود کراس کیں۔ اپنی ضد پر قائم اور ارادے کو جنون کے قُلزم میں ڈھالتے ہوئے جواب دیا، “دیکھیں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ خوشی بانٹنے سے مزید بڑھتی ہے اور غم باٹنے سے کم ہوتا ہے۔ اس لیے اگر ہم ملیں گے اور چند گھنٹے ساتھ گزاریں گے تو مجھے امید ہے آپ بہتر محسوس کریں گی۔”
اب جھجک اور اعتماد سے زیادہ، اَرِیج کے لہجے میں اکتاہٹ اور تھکاوٹ کے عناصر نمایاں اور پُر اثر دکھائی دینے لگے۔ “آہ، دیکھیں… (کچھ وقفے کے بعد ایک لمبا سانس لیتے ہوئے)… جو آپ کو بہتر لگے وہ کر لیں۔”
ایک سیکنڈ کی خاموشی رہی۔ جب مزید کسی آواز سے آہٹ تک کچھ بھی محسوس و موصول نہ ہوا تو بد گُمانی سے مایوسی کے درمیان اور ان کے اطراف و مضافات میں جتنے ایسے نا گُفتہ احساسات رچے بسے تھے، سب اندھیروں کی نذر ہو گئے۔
اس اندھیرے اور خلاء کے مابین ابھرتی دھیمی آواز میں “خدا حافظ” کہا اور بغیر کسی جواب و الوداعی کلمات کی توقع کے، کال بند کر دی۔
یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ ارِیج نے ملنے سے انکار کر دیا۔ ارادہ ابھی بھی یہی جما ہوا تھا کہ ملاقات ہو یا نہ ہو، لاہور تو جانا ہے۔ کھاریاں کی حدود میں داخل ہو چکا تھا؛ نا مزید آگے بڑھنے کا دل کر رہا تھا اور نہ جلدی ہارنے کی ہمت۔
کیفیت پر تو سو رنگ آئے اور سو گئے۔ رسوائی و شناسائی سے تنہائی و فریبی تک، کوئی ایسا بد گمانی کا احساس نہ تھا جس نے ارِیج اور میرے تعلق کو نہ ڈسا ہو۔ لیکن آخری گمان “دل جوئی” کا تھا جو در اصل خوش گمان ثابت ہوا۔ دل جوئی کب شدتِ طرب میں بدل گئی، معلوم نہیں ہوا۔
کھاریاں میں پڑتے دوسرے یوٹرن سے گاڑی واپس گھما دی۔ راستے ہی راستے میں ایک بات تو پلّے باندھ لی تھی کہ واپس ایسے مُنھ لٹکائے نہیں جانا۔ دل جوئی تو ہم دونوں نے ایک دوسرے کی کر دی تھی، اب بس شدتِ طرب سے انبساط تک کسی نہ کسی درجے پر سرشاری کو اپنے جسم و ذہن اور اظہار میں جذب اور نمایاں رکھنا تھا۔
دو دنوں سے اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے مابین مچائی دھوم کو دھوئیں میں بدلتے دیکھا۔ اس سے بڑھ کر اس دھوئیں کی آنسو گیس جیسی تاثیر، تصور سے احساس اور احساس سے تصویر میں ڈھلتا زائچہ دماغ سے دل تک ایک نا قابلِ واپسی عمل کی صورت میں نقش ہو چکا تھا۔
جذباتی قبض کے کھلنے کے بعد اس دن کے اختتام پر یہ معلوم پڑا کہ اس دن کا نام یوٹرن ڈے رکھ لیا جائے تو نا مناسب نہ ہو گا کیوں کہ واپس آ کر چند دوستوں کے ساتھ منگلا ڈیم کا ارادہ کیا۔
ڈومیلی موڑ سے تھوڑا آگے جاتے ہی یونی ورسٹی کے ایک اور دوست کی کال آ گئی جنھیں ہم کیمپس میں ہی بھول آئے تھے اور سیر سے پہلے انھیں ایک مقامی ڈسپنسری میں لے چیک کروانا تھا کیوں کہ ان کے بازو میں گزشتہ چند روز پہلے بیڈمنٹن کھیلنے کے دوران گرنے سے اندرونی چوٹ لگی تھی۔ ان کے لیے پہلا اور کل دن کا تیسرا یوٹرن لیا۔
انھیں یونی ورسٹی سےاپنے ساتھ لینے اور ڈسپنسری سے چیک کروانے کے بعد ہم نے اپنا سفر رام کوٹ فورٹ کی طرف باندھا۔ ایسا باندھا کہ بس بندھا ہی رہ گیا۔ آگے دیکھا نہ پیچھے اور گوگل کے آسرے پر چالیس کلومیٹر آگے آزاد کشمیر میں نیُو میر پور کےمین بازار سے ہوتے آگے کسی قصبے میں جا نکلے۔ چند کلومیٹر اور آگے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ہماری منزل سے ہمارا فاصلے کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔
بس آگے ہاتھ پڑتے پہلا اور کُل چوتھا یوٹرن لیا اور واپسی کا سفر اختیار کرتے ہوئے فیصلہ کیا اب راستے میں موجود منگلا ڈیم کے واٹر ریزارٹ پر کچھ وقت گزارنا مناسب رہے گا۔
ریزارٹ انتہائی خوب صورت تھا۔ سکول کے بچے وہاں دور ڈیم کے نیلے کارپٹ نما پانی کی سطح پر جیٹ سکِی پر سٹنٹ کرتے دکھائی دیے۔ کچھ بچے گول گپے کھانے میں مشغول تھے اور کچھ برگر۔ ڈیم سے چند سو فٹ بلند ویو پوائنٹ سے نظارا کرتے ہوئے ایک دل چسپ واقعے سے محظوظ ہوئے۔ ایک ۱۲سالہ مقامی سکول کی وردی میں ملبوس بچے کو اس کی چھوٹی بہن نے ڈیم کے کنارے پر جانے سے خبردار کیا۔
بچے نے باغی لہجے میں جواب دیا، “میں کیا ڈوبوں گا، میں تو پہلے ہی اس کی یادوں میں ڈوبا ہوا ہوں۔”
اس کی امی نے اسے غصے میں جواب دیا، “تم جس کسی کی بھی یادوں میں ڈوبے ہوئے نیچے مرو اور آگے مت جانا۔”