بھارت رتنا کے اصل حق دار
از، محمد شہزاد
ہندوستان میں ہمارے وہ دوست جو موسیقی کے سچے عاشق ہیں، بہت ہی اداس ہیں۔
کیا ہوا؟
کچھ نہیں، بس ان کی خواہش ہے کہ ایوارڈز اور ‘خیرات’ میں فرق ملحُوظِ خاطر رہے! اب ہندوستان میں تو آزادیِ رائے رہی نہیں۔ ایک ہلکی سی سرگوشی کر دیجیے اپنے ہی کان میں مودی سرکار کے خلاف۔ آپ بھلے ممبئی کے باسی ہوں، چند گھنٹوں بعد سی بی آئی آپ کا دروازہ توڑ گھر میں گُھس آئے گی، بِن بلائے مہمان کی طرح؛ اور آپ کی میزبان ہو گی دہلی پولیس۔
کیوں؟
آپ دھرے جائیں گے ایک برسوں پرانے فوج داری مقدمے میں جو دہلی کے کسی تھانے میں آپ کے خلاف درج ہوا ہو گا۔
یہ مذاق نہیں۔ ایسا میرے ایک صحافی دوست کے ساتھ ہو چکا ہے، اور بہت سے لوگوں کے ساتھ ہو بھی رہا ہے۔
تازہ ترین مثال تو رویش کمار کی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں آزادیِ اظہار پر کوئی قدغَن نہیں۔ آپ جو مُنھ میں آئے بَکیں، مگر ‘گہری ریاست ‘کے ‘پڑوسی’ کے خلاف ہونا چاہیے۔
ایک گروہ ہے جو بہت متحَرّک ہے آج کل۔ چاہتا ہے کہ سورگواسی گائیک پنڈت جسراج کو بھارت رتنا مل جائے۔
اس ‘کارِ خیر’ کے پیچھے دماغ ان کی صاحب زادی دُرگا جسراج کا ہے جس کے لیے پنڈت جی نے اپنے جیتے جی بہت کوشش کی پدما شری کی؛ افسوس کہ نہ ملا۔
بے چاری با صفت ہونے کے با وُجود اپنا نام کلاسیکی گائیکی، اداکاری اور ٹی وی شوز میزبانی میں نہ بنا سکی۔
ایوارڈ تو میرٹ کی بنیاد پر ہونے چاہییں۔ لیکن جب ان کی حالت ‘اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں کو ہی دے’ والی ہو جائے تو نقصان فن کا ہوتا ہے۔ فن کار، فن کو اپنا جیون دے کر سِینچتے ہیں؛ بد دل ہو جاتے ہیں اگر حق تلفی ہو۔ فن چھوڑ دیتے ہیں، اور یہ دھیرے دھیرے مر جاتا ہے۔ اس کی موت کے ساتھ ہی جہالت بال کھولے ناچنے لگتی ہے۔
یہ ہی وجہ تھی کی مَایۂِ ناز طبلہ نواز پنڈت آنندو چٹرجی نے پدما شری لینے سے انکار کر دیا۔ ماضی میں آفتابِ ستار استاد ولایت خان نے پدما شری، پدما بھوشن اور پدما وبھوشن ٹھکرائے۔ ان کے چھوٹے بھائی استاد امرت خان نے پدما شری ٹھکرایا۔ سُرُود نواز بدھا دیوداس گپتا نے پدما شری ٹھکرایا۔ کسی فن کار کو غلط وقت پر ایوارڈ دینا بھی اس کے فن کی توہین ہے۔
ایسا ایوارڈ جو فن کار کے فن کے مقابلے میں حقیر ہو، اس سے بہتر اسے بھول جانا۔ کم از کم زخم دے کر نمک چھڑکنے والا عمل تو نہ کیا جائے۔
ہم لوگ بہت مایوس ہوئے برسوں قبل جب آنندو چٹرجی کے بَہ جائے پدما شری کل کے لونڈے وجے گھاٹے کو دیا گیا۔ اب گھاٹے وہ طبلیہ جس کے ماتروں کے حساب کتاب میں بھی گھاٹا ہو جاتا، یعنی سَم پر آنا ہی ایک مسئلہ۔
اس قسم کی مایوسی صدمے میں بدل گئی جب مودی جَنتا (junta) نے ہمارے ایک محبِّ وطن شہری عدنان سمیع خان کو ہندوستانی شہریّت کے ساتھ ساتھ پدما شری بھی دان کر دیا۔ ہم آج تک اس بات کی کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ موصُوف کی کون کون سی خدمات تھیں ہندوستانی موسیقی کے لیے جو اِنھیں یہ شرف بخشا گیا۔
تازہ تازہ ہندوستانی شہری ہونے کے ناتے ان کی اپنی نئی ماتا کے لیے موسیقی کی خدمات نے تو ابھی تک جنم بھی نہیں لیا۔ اسے پنجابی میں کہتے ہیں:
ماں جَمّی نئیں تے، پُتّر بنیرے تے (لفظی مفہوم: ماں پیدا نہیں ہوئی، مگر بیٹا منڈیر پہ)
استاد رئیس خان ستار کی دنیا میں ایک منفرد اور بہت بڑا نام ہیں۔ آپ سنہ 1986 میں پاکستان آئے۔ بھگوڑے نہ تھے، عدنان سمیع کی طرح۔ نہ ہی سیاسی پناہ کے متمنّی۔ ہماری بلقیس خانم سے شادی کی تھی۔ اگر پاکستانی سرکار انھیں اسی وقت بھی تمغۂِ حسنِ کارکردگی دے دیتی تو کسی کی مجال نہ تھی مین میخ نکالنے کی۔
مگر ملا بیس برس بعد، جس سمے عدنان کو پدما شری دیا جا رہا تھا اس وقت امرت خان اور آنندو چٹرجی اپنی زندگی کے ساٹھ سے زائد برس بھارتی شاستریہ سنگیت کو دے چکے تھے اور ابھی تک کسی سرکار کو یہ توفیق تک نہ ہوئی تھی کہ انھیں پدما شری کے لیے نام زد ہی کر دے۔
لیکن جناب ادھر ہمارے عمران خان اور ادھر مودی جی کچھ بھی کرسکتے ہیں اور اپنے کیے پر فخر بھی کر سکتے ہیں، اور ضرورت پڑنے پر یوٹرن بھی لے سکتے ہیں۔
غالباً سنہ 1997 تھا۔ پنڈت جسراج تشریف لائے تھے، اسلام آباد انڈین ہائی کمیشن کی دعوت پر۔ ڈان کے لیے ایک طویل انٹرویو کیا تھا۔ آغاز بہ طورِ طبلہ نواز اپنے گائیک بھائی پنڈت منی رام کے ساتھ کیا۔ لوگوں نے طنز کے تیر برسائے کہ جسراج تم چمڑہ پیٹتے ہو؛ دل برداشتہ ہوئے، گوَیّے بن گئے۔
اب سریلے تھے، مگر صرف سُر میں ہونا تو کافی نہیں؛ کافی کم زوریاں تھیں ان کے گانے میں۔ دَرُت لَے میں راگ کی خوب صورتی ایسے برقرار نہ رکھ سکتے تھے جو بڑے غلام علی خان یا استاد امیر خان کا خاصا تھی۔ گلا تینوں سپتَکوں میں پھرنے سے قاصر۔ اس فن میں بڑے غلام علی خان کا تو کوئی ثانی نہ تھا۔
کہیں کہیں سُر کم زور لگتا۔ پھر خیال گائیکی کو بھجن کی سطح پر لے آئے! اب انسان سر نہ پیٹے تو اور کیا کرے۔ اسی کارن وہ انوپ جلوٹا کا کلاسیکی وَرژَن لگنے لگے۔
سو بات کی ایک بات: بس واجبی سے تھے۔ ان کے ہوتے ہی ہندوستان ان سے کئی درجے بہتر گویّوں سے بھرا پڑا تھا۔ ہمیں مایوسی ہوئی جب پتا چلا کہ جسراج کو پدما وی بھوشن مل گیا۔ ان کے کام کے لحاظ سے تو پدما شری بھی بہت بڑا تھا۔
ایسی ہی کیفیت تھی جب بدھے دتے مکرجی (ستار نواز) کو پدما بھوشن مل گیا۔ مکر جی کا ستار ہے کیا، سوائے ولایت خان کی ایسی نقل، جس میں صفائی بھی نہ ہو، نرا شور شرابہ۔
ستاریہ تو شاہد پرویز ہے۔ اپنے چچا ولایت خان اور پنڈت روی شنکر کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ کیا الاپ، کیا گت، کیا لے کاری، کیا سلسلے وار بڑھت۔ ناقا بلِ یقین اور ہوش رُبا۔ ابھی تک شاہد بھائی کو پدما شری ہی ملا۔ حالاں کہ حق ان کا پدما وی بھوشن کا ہے۔
اب بعد از مرگ اگر کوئی بھارت رتنا کا اصل حق دار ہے تو گائیکی میں استاد بڑے غلام علی خان اور استاد امیر خان؛ دونوں کو دیجیے۔ سنتور میں یہ حق پنڈت شیو کمار شرما کا ہے۔ پلے بیک گائیکی میں عظیم محمد رفیع صاحب بِلا شبہ بھارت رتنا کے حق دار ہیں۔
سُرُود کے بادشاہ استاد امجد علی خان گو کہ ہر بڑے آدمی کی چاپ لُوسی کرتے پھرتے ہیں اپنے بیٹوں امان اور ایان کو پدما شری دلوانے کے چکر میں، لیکن ان سے بڑا سُرُود بجانے والا کوئی اور نہ ہوا۔ وہ حیات ہیں اور انھیں ملنا چاہیے زندگی ہی میں بھارت رتنا۔
علاوہ ازیں طبلہ نواز استاد ذاکر حسین اور آنندو چٹرجی کو فی الفور پدما وی بھوشن سے نوازنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کیا تو پھر ہندوستان موسیقی کی بے قدری والے انڈَیکس پر پاکستان سے بھی سبقت لے جائے گا۔
لیکن یہ لکھتے لکھتے ذہن دوسرے زاویے سے بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اگر ‘گُن وان’ ہندوستانی قیادت عدنان سمیع کو پدما شری سے نواز سکتی ہے تو جسراج کو بھارت رتنا سے کیوں نہیں!