گم نامی اور پاکستانی فن کار کا نصیب
از، محمد شہزاد
پچھلے ماہ میں نے کسی کالم میں یہ لکھا کہ مت بھیجو مجھے مبارک بادیں نئے سال کی۔ یہ سال بھی گزرے ہوئے سال کی طرح خون آشام ہو گا اور بری خبریں ہی لائے گا؛ ایسا ہی ہوا۔ اب پہلی الم ناک خبر۔ مشہور کامیڈین ماجد جہانگیر بھی رخصت ہوئے۔
کئی برس سے صاحبِ فراش تھے۔ جسم کا ایک حصہ مفلُوج ہو چکا تھا۔ بے بسی نے لاہور کی سڑکوں پر لا کھڑا کیا۔ پلَے کارڈ اور بینر اٹھائے ماجد صاحب لوگوں سے مدد کے طلب گار تھے۔
چند برس پہلے لاہور کی کسی مصروف شاہ راہ پر انھیں دیکھا۔ ٹریفک جام کی وجہ سے گاڑی بالکل رک گئی۔ شکر ہے ڈرائیور تھا۔ میں باہر آ گیا۔ ان کی جانب بڑھا۔ اب بات کیا کی جائے۔
آج کا کوئی یو ٹیوب بچہ ہو گا تو پہلا سوال یہ ہی داغے گا کہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں لاہور کی سڑکوں پر بھیک مانگتے؟ دَھندہ چل رہا ہے، یا نہیں؟ کتنا کما لیتے ہیں روز؟
میرا دل نہیں چاہا کہ کوئی سوال کروں۔ مگر یہ بھی چاہتا تھا کہ ماجد صاحب بولنے پر بھی مجبور ہو جائیں۔ میں نےبات اس جملے سے شروع کی:
‘ہم سب کو آپ پر بہت فخر ہے اس بات پر کہ آپ ہماری زندگی میں مسکراہٹوں اور خوشیوں کی بہار لے کر آئے۔’
لیکن وہ یہ سن کر ہر گز خوش نہ ہوئے۔ پھٹ پڑے گلہ کرتے۔ کہنے لگے:
‘مجھے بہت افسوس ہے آپ سب کو ہنسانے کا۔ کاش میں یہ کام ہر گز نہ کرتا۔ اس کی جگہ سونٹھ کا پانی (خشک ادرک کا مصالحے دار پانی جو ہم نے پچپن میں بہت پیا، وہ) بیچتا تو یقین مانیے آج یہ ذلت نہ اٹھا رہا ہوتا، جس کے عینی شاہد اب آپ بھی ہیں۔
اب آگے کیا بات کرتا فن کے حوالے سے۔
لیکن ماجد جہانگیر کو غلط ثابت کرنا مشکل نہ تھا۔ حکومت چاہے تو رِیئل اِسٹیٹ کا ایک منصوبہ صرف فن کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے شروع کر سکتی ہے۔ ایک کمرشل پلازہ بنا دیجیے۔
اس کا کرایہ ہی کافی ہو گا مستحق فن کاروں کی دال روٹی کے لیے۔ اور یہ کم سے کم درجے کی سکیم ہے۔ مگر مصیبت کرپشن ہے۔ اگر ایسا کوئی پروگرام شروع کر بھی دیا تو بابو کریسی کے کلرکوں کا بھلا ہو گا۔ وہ تو فن کار کا پیسہ ہڑپ کرنا اپنا فرض سمجھیں گے۔
ویسے کچھ کوشش کی تھی دو مشہور اینکرز نے ماجد صاحب کی مدد کرنے کی۔ ایک وسیم بادامی اور دوسرے اقرارُ الحسن۔ میں تو دونوں کو نہیں جانتا۔ ٹی وی نہیں دیکھتا۔
خیر، مرنے سے چند روز قبل ماجد صاحب کئی یو ٹیوب بچوں کو انٹرویو دے گئے کہ ان دونوں یعنی بادامی اور حسن نے ان کے نام پر بَینی فِٹ شوز کیے اور لاکھوں روپے کمائے۔ مگر انھیں ایک پیسہ بھی نہ دیا۔ یہ بھی کہہ گئے کہ ان دونوں کا گریبان قیامت کے دن پکڑوں گا۔ یہ بہت خطر ناک بد دعا ہے۔ بات سچ ہی ہو گی، کیوں کہ موت کی دہلیز پر انسان جھوٹ نہیں بولتا۔
عشق بازوں کی کہیں دنیا میں شِنوائی نہیں
ان غریبوں کی قیامت میں سماعت ہو، تو ہو
(آغا حجو شرف)
ماجد صاحب آخرِ وقت تک لگے رہے اس کاوش میں کہ ان کی کسمَ پُرسی اربابِ اقتدر کے علم میں آجائے۔ میڈیا میں بہت چرچا ہوا ان کے بینر اور پلے کارڈ پکڑ کر بھیک مانگنے کا۔ مگر کوئی شِنوائی نہ ہوئی۔
فالج کی حالت میں گر گئے۔ بری طرح زخمی ہوئے۔ اور 11 جنوری کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اب جب کہ وہ اس دنیا میں نہیں، ہر طاقت ور انسان ٹوئٹر پر تعزیت کے پیغامات نشر کرنے میں مصروف ہے۔
اس قسم کے بیانات ریڈی میڈ ہوتے ہیں۔ نام اور تاریخ تبدیل کیے جاتے ہیں۔ کل اسماعیل تارا تھا۔ آج ماجد جہانگیر۔ کل کوئی اور ہو گا۔
گِھسے پٹے جملے ہوتے ہیں۔ مثلاً ان کے جانے سے بہت بڑا خلاء پیدا ہو گیا ہے جو کبھی پُر نہ کیا جا سکے گا۔ مرحوم کی خدمات نا قابلِ فراموش ہیں۔ بے چارے کو زندگی میں تو پوچھا تک نہیں۔ موت کے بعد نہ جانے کہاں سے بڑی بڑی ہستیاں نکل آتی ہیں اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کو۔
اس ملک میں فن کار پیدا ہی اس لیے ہوتا ہے کہ کسمَ پُرسی میں مرے اور حکومت تماشا دیکھے۔ پھر مرنے کے بعد خراجِ تحسین پیش کرے۔ یہ سب کچھ میں پچھلے پچاس برس سے دیکھ رہا ہوں۔
ماجد صاحب کوئی معمولی فن کار نہ تھے۔ پرائیڈ آف پرفارمنس تھے۔ پی ٹی وی کے مشہورِ زمانہ کامیڈی پروگرام ‘ففٹی ففٹی’ کی جان تھے۔
ان کی جوڑی اسماعیل تارا مرحوم کے ساتھ بہت کام یاب رہی۔ اس جوڑی میں مرکزی کردار تارا صاحب کا ہوا کرتا تھا۔ سپورٹنگ رول ماجد صاحب کا مگر وہ اپنا اثر چھوڑ جاتے۔ بہت مشکل تھا تارا صاحب کے آگے اپنا جادو جگانا۔
آنے والے دنوں میں بہت سارے فن کار ہمیں چھوڑ کر جانے والے ہیں۔ بہت سوں کی حالت ماجد صاحب کی طرح ہی ہے۔ ان کے ہم راہ پلے کارڈ شہر کی مصروف شاہ راہوں پر بھیک مانگنا باقی ہے۔
اتنا یقین ہے کہ اگر سب کے سب بھی سڑکوں پر آ گئے تو بے حس حکومت کو غیرت نہیں آنے کی۔ ماجد صاحب کا پیغام صداقت پر مبنی ہے۔ سونٹھ کا پانی بیچ کر انسان اپنی امپائر تو کھڑا کر ہی سکتا ہے۔ اور بے شمار مثالیں ہے ایسی۔ بھاڑ میں جھونکیے فنونِ لطیفہ کو!