تن خواہ دار خواب نہیں دکھا سکتا، سیاست دان دکھاتا ہے
از، آعمش حسن عسکری
پچھتر سال تک کمپنی نے ایک پروڈکٹ بیچی اور عمران خان اس پروڈکٹ کا سب سے کام یاب سیلز مین تھا۔
پروڈکٹ کے نمایاں فیچرز یہ تھے۔
1- پاکستان کو ایک مضبوط لیڈر کی ضرورت ہے جو قومی ہم آہنگی کو فروغ دے۔ زبان، نسل اور طبقاتی بنیادوں پر سیاست کرنے والی قوتیں پاکستان کو کم زور کریں گی۔ لیڈر ایسا ہو جو صوبائیت اور علاقیت سے نکل کر سوچے۔
2- سیاست دان سارے چور اور ڈاکو ہیں۔ یہ کسی بات پر اکٹھے نہیں ہوتے۔ اس لیے اہم قومی مسائل پہ فیصلے ان کے ہاتھوں میں نہیں دیے جا سکتے۔ یہ نا اہل تو ہیں ہی ساتھ پاکستان سے وفا دار بھی نہیں ہیں۔ موقع ملتے ہی یہ ملک کو بیچ دیں گے۔
3- اسلام ہمارا مذہب تو ہے، لیکن ہمیں مغرب بالخصوص امریکہ کی ضرورت ہے۔ ہمارا دشمن مکار بھی ہے اور ہم سے زیادہ طاقت ور بھی۔ اس لیے ہم امریکہ کو نا راض نہیں کر سکتے۔
4- ہمارا لیڈر ایک ایسی پُر کشش شخصیت ہو جو مغرب سے امداد تو مانگ سکے، لیکن انھیں اپنا دوست بنائے نہ کہ ماسٹر۔ تقریباً تمام فوجی آمروں نے اس فیچر کو بہت بیچا۔ ایوب خان کے گیارہ سالہ اقتدار کا تو نچوڑ ہی یہی تھا۔
5- پاکستانی ایک عظیم قوم ہیں۔ بس ایک اچھا لیڈر مل جائے تو اس قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اور وہ عظیم لیڈر اس سسٹم سے نہیں آ سکتا، کیوں کہ سسٹم بہت گندہ ہے۔ اس لیڈر کو سسٹم کے اوپرسے آنا ہو گا۔
یہ تمام تر اجزاء اگر کسی ایک شخصیت میںں مجسم ہو کر آئے تو وہ عمران خان تھا۔
قربان جائیے اس کمپنی کے جو اپنے سب سے کام یاب سیلز مین کو صرف تین سال اور کچھ مہینے برداشت کر سکی۔
کمپنی کو سیلز مین سے مسئلہ کیا ہوا؟
سیلز مین کمپنی سے بڑا ہونے لگا تھا۔ وہ سارے فیچر جو کمپنی نے پچھتر سال سے patent کر رکھے تھے سیلز مین نے اپنے نام کرا لیے۔
یہ لڑائی در اصل کاپی رائٹس کی ہے۔
عمرانی پراجیکٹ کے تھان کی ٹھپائی
دس سال کا پروجیکٹ تھا۔ تین سالوں میں ٹھپ ہو گیا۔ اب ریورس انجنئیرنگ کا فیز ہے۔ اس ریورس انجنئیرنگ میں کمپنی پھر وہی کر رہی ہے جو ہمیشہ کرتی آئی یے۔
کمپنی اس پروڈکٹ کو مارکیٹ سے اٹھا رہی ہے جو کمپنی کی مشہوری کی اصل وجہ تھی۔ لیکن کمپنی کو کاروبار اور سیاست میں فرق سمجھنا ہو گا۔
سیاست امنگوں اور آرزووں کا میدان ہے۔ یہاں آس بندھ جائے تو ٹوٹتی نہیں ہے۔ وہ آس پیپلز پارٹی سے بندھی۔ دو لیڈر مار دیے گٸے۔ پارٹی کو ختم کرنے کا منصوبہ تیار ہوا۔ نہیں ختم ہوئی۔ امنگیں کہاں ختم ہوتی ہیں۔ خواب کہاں مرتے ہیں؟ ایک آنکھ سے نکلے تو کسی اور میں گُھس جائیں گے۔
نواز شریف نے کمپنی کی خدمت کی۔ احتساب کے نام پہ پیپلز پارٹی کے گرد گھیرا تنگ کیا۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ نوز شریف کو بھاگنا پڑا۔ اسے مار نہیں سکتے تھے کہ وہ پنجابی تھا۔ لیکن وہ خود بھی بھی سیانا تھا۔ دلیری کو بے وقوفی سمجھتا تھا اس لیے جب مالکوں سے گھبراتا تو باہر نکل لیتا۔
اس کمپنی کا سب سے کام یاب سیلز مین عمران خان تھا۔ یہ وہ سیلز مین تھا جس کے ساتھ بیٹھ کر ٹرمز آف اِنگیج مَنٹ طے کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ یوں سمجھیے کہ یہ کمپنی کا ہی ایک کلون تھا۔ لیکن کتنا عرصہ چلا؟ تین سال اور کچھ مہینے۔
اس وقت ملک کے طول و عرض میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ منصوبہ وہی ہے۔ ایک سیاسی جماعت کو ختم کیا جائے۔ لیکن سیاست کاروبار نہیں۔ یہ آرزووں اور امنگوں کا قَلعہ ہے۔ یہاں جتنے خواب دفن کریں اس سے زیادہ نکل آتے ہیں۔ بِالتّحقیق اس وقت جتنا کمٹّڈ ورکر تحریک انصاف ہے اتنا شاید ستر اور اسی میں پیپلز پارٹی کے پاس بھی نہیں تھا۔
اس خیانت کی مثالیں بھی البتہ کم ہیں جو تحریک انصاف کی مرکزی قیادت اپنے کارکنوں سے کر گٸی ہے۔ اتنی کمٹمنٹ کس ورکر میں ہو گی؟ اس وقت ایسے کئی کارکن ہیں جن کو اٹھایا جا رہا ہے۔ اور وہ جس نے بائیس سال تک ایک خواب بیچا ہے یہ کہہ کے لا تعلق ہو گیا ہے کہ یہ میرے کارکن ہیں ہی نہیں۔ کارکن کی بہادری بے نظیر ہے، مگر لیڈر کی مکاری کی مثال بھی ڈھونڈنے سے ہی ملے۔
عوام سے ان کا حقِّ حکم رانی چھیننے والے دور اندیش کتنے ہوتے ہیں یہ ملاحظہ کریں۔ کسے خبر تھی کہ وردی کو اپنی کھال کہہ کے امر ہو جانے والا جرنیل ایک سال کے اندر ہوا ہو جائے گا۔ آمریت دس سال آگے کیا دیکھتی، اسے دس فٹ پہ کھڑی دیوار نظر نہیں آتی۔ دیوار پہ لکھا نظر نہیں آتا۔ دس سالہ پروجیکٹ کا آرکی ٹَیکٹ کہاں ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔
تن خواہ دار سرکاری ملازم خواب نہیں دکھا سکتا، یہ کام پھر بھی اہلِ سیاست کا ہے۔