فیاض ندیم
تعلیم ایسا میدان ہے جس میں نت نئے نظریات کی بھر مار رہتی ہے۔ اساتذہ اور منتظمین کے لئے نئی نئی اصلاحات کے مشورے روزانہ کی بنیاد پر آتے رہتے ہیں اور تحقیق کے نتائج کی روشنی میں نئی اصلاحات کو لاگو کرنے کے لئے دباؤ بڑھتا رہتا ہے۔ اُن پر نصابات کی تبدیلی، نئے نئے تدریسی اور جائزہ کے طریقوں کو اختیار کرنے کے لئے زور دیا جاتا ہے۔ اُن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تدریس اور امتحانات کے ایسے طریقوں کو اختیار کریں جن کو تحقیق نے زیادہ ثمر آور اور مناسب قرار دیا ہے، اور جو جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ منتظمین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نصابات کو عالمی اور قومی تقاضوں کے مطابق مرتب کریں تاکہ ہمارے طالب علم بین الاقوامی میعارات پر پورا اتر یں۔ اُن کے اندر تخلیقی صلاحیتیں اجاگر ہوں اور وہ ہماری ضروریات کے عین مطابق، ہمارے سائنسی و معاشرتی اداروں کو چلانے کی اہلیت کے حامل ہوں۔ اور یہ مطالبات کوئی بے جا بھی نہیں ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام، ہم جو مرضی دعوٰی کر لیں، کسی بھی طرح سے عالمی معیارات پر پورا نہیں اترتا۔ ہمارے ہر سطح کے طالب علم مجموعی طور پر تعلیمی مقاصد اور معیارات سے کہیں نیچے ہوتے ہیں۔ ہم چند ایک بین الاقوامی مقابلہ جات میں کچھ پوزیشنز حاصل کرنے والے طلبا کو بنیاد بنا کر دعوے کرتے ہیں کہ ہمارے طلباء کسی سے کم نہیں ہیں لیکن ایسے مقابلوں میں تو کئی ممالک کے صرف ایک سکول کے طالب علم اتنے میڈل جیت لیتے ہیں جتنے ہمارے پورے ملک کے طلباء جیتتے ہیں۔ ہمارے تخلیقی اور تحقیقی میعارات کے سرٹیفکیٹ جعلی مقالوں کی خبروں کی صورت میں نِت اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری ٹاپ یونیورسٹیز کے ڈینز اور پروفیسرز کے مقالہ جات بھی ایسی خبروں کا حصہ بنے ہیں۔
اس سارے دباؤ کے باوجود ہمارے ماہرینِ تعلیم ایسے مطالبات پر مسکراتے ہیں، اپنے کانوں، دماغوں اور دفتروں کے دروازے بند کرتے ہیں اور اپنے کام سے کام رکھنے کی پالیسی اختیار کئے رکھتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ تعلیمی انتظام و انصرام خود ایک ایسا میدان ہے جو بہترین تخلیقی صلاحیتوں کا متقاضی ہے اور ہمارے تعلیمی ماہرین بھی اسی سسٹم کی پیداوار ہیں جو باقی شعبوں کو افرادی قوت فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اور ہم سانئس و ٹیکنالوجی سمیت ہر شعبے میں مہارت کی اسی کمی کا شکار ہیں۔ اگر ہمیں کچھ ایسے افراد مل بھی جاتے ہیں جو بہترین منصوبہ جات تشکیل دے سکیں تو ان کو پایہٗ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پر عزم، دیانتدار اور با مہارت افرادی قوت کی شدید کمی رہتی ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے ہاں جو بھی بڑے بڑے منصوبہ جات تکمیل کو پہنچے ہیں اُن میں کسی نہ کسی طرح ہمیں بیرونی ماہرین کی ضرورت درکار رہی ہے۔ ستر سال گزر جانے کے باوجود بھی ہمیں بہتر معیار کی سڑکیں بنانے کے لئے تکنیکی آلات و مشینری کے علاوہ بیرونی ماہرین اور انجینئرز کی ضرورت پڑے تو یہ لمحۂ فکریہ ہے۔
تعلیمی میدان میں جدّت پیدا کرنے کے لئے ہمیں ہم عصر تعلیمی نظریات سے جانکاری حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمیں اُن تبدیلیوں سے آگاہ رہنا ہوتا ہے جو تعلیمی عمل کے ارتقاء میں دنیا کے کسی بھی کونے میں رونما ہو رہی ہوتی ہیں۔ اساتذہ میں یہ شعور ہونا ضروری ہے کہ وہ اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو ہر معاشرے میں سب سے جدید سوچ کا حامل ہو نا چاہئے۔ تعلیمی سانئس ایک ایسا مضمون ہے جو باقی مضامین سے نسبتا زیادہ ذہنی طور پر ہمہ دم تیار رہنے کا متقاضی ہے۔ کیونکہ آج کے دور میں جب معلومات کی دستیابی آسان تر ہے اور اس کے ترسیلی ذرائع بھی بہت تیز رفتار ہو چکے ہیں، جو استاد تعلیمی میدان میں ہم عصر نظریات سے دور ہو گا، وہ اپنے پیشے کے ساتھ زیادتی کے گناہ کا مرتکب ہوگا اور پوری اساتذہ برادری کے احترام میں کمی کا باعث ہوگا۔ کیونکہ جس معاشرے میں وہ رہتا ہے، طالبِ علم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور معلومات کے اس سمندر سے وہ بھی اتنے ہی سیراب ہو رہے ہوتے ہیں جتنا کہ ٹیچر۔ اگر ٹیچر اس ساری انفارمیشن سے بے بہرہ رہے گا تو وہ معلومات کو کبھی بھی علم کی تخلیق میں استعمال کرنے کے قابل نہیں ہو سکے گا اور طلباء کی معلومات بھی ایسی صورت میں رائیگاں جائیں گی۔ استاد ایک ایکٹو ریسرچر بھی ہوتا ہے۔ اگر وہ تخلیقی صلاحیتوں کا حامل ہے تو نئے نظریات کی روشنی میں وہ تدریسی عمل میں مزید جدت لانے کا باعث بھی بنے گا۔ اسی طرح تعلیمی منتظمین کے لئے بھی اس سارے عمل میں شامل رہنا کہیں ضروری ہوتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ارتقائی عمل کو اپنے معاشرے میں سمونا ہوتا ہے اور ایسے حالات پیدا کرنا ہوتے ہیں کہ نئی تھیوریز کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے نئے ریسورسز سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جاسکے۔ لہٰذا تعلیمی میدان سے جڑنا بہت ہی ذمہ دارانہ عمل ہے۔ کیونکہ قوم کبھی بھی اپنے تعلیمی ماہرین اور اساتذہ کی سوچ ، اپروچ اور میعارسے زیادہ بلند نہیں ہو سکتی۔ جس میعار کے اساتذہ مہیا ہونگے ، اسی میعار کے مستقبل کی توقع کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ہم کہ سکتے ہیں کہ اگر ہمیں صاحب نظر (visionary) اساتذہ اور تعلیمی ماہرین میسر ہیں تو ہمارا مستقبل شاندار ہو سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر انجام آپ جانتے ہیں کیا ہو گا۔
تعلیمی ارتقاء کے لئے تعلیمی نظریات کی بنیادوں کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ساتھ ہی اُن عوامل کا بھی گہرائی سے مطالعہ ضروری ہوتا ہے جو طلباء کی سیکھنے کے عمل میں مدد کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک تعلیمی ماہر کو اندازہ ہونا چاہئے کہ طلباء کو کیا سیکھنا چاہئے، اور اساتذہ سیکھنے کے عمل میں اُن کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں۔
دورِ حاضر میں سیکھنے کے عمل سے متعلق تین نکات اہمیت رکھتے ہیں۔
اول یہ کہ سیکھنا ایک فعال تعمیری عمل (Active Constructive Process)ہے۔
دوم یہ کہ یہ انفرادی عمل کے ساتھ ساتھ ایک اجتماعی اور سماجی عمل ہے اور
سوم ، طلباء کی کمیونٹی میں تنوع ایک وسیلہ (Resource) ہے نہ کہ ایک رکاوٹ۔
اس مضمون میں ہم ان تینوں نکات پر مختصراََ بات کریں گے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم نکتہ کہ کیا چیز علم میں شمار ہوتی ہے اور طلباء کو کیا سیکھنا ہوتا ہے ، اس پر بھی اس گفتگو کے دوسرے حصے میں بات کریں گے۔ اساتذہ اور طلبا کو بنیادی اور تصوراتی علم کی ایک لچکدار سی تفہیم ہونی چاہئے اور انہیں اس کا ادراک بھی ہونا چاہئے کہ وہ اپنے علم کو تنقیدی اور تخلیقی انداز سے کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔ ان نکات پر بحث کے بعد گفتگو کے دوسرے حصے میں ہم ان کے تدریسی مضمرات کا بھی جائزہ لیں گے اور ہم اُن کلیدی نکات پر بحث کریں گے کہ تدریس ایک دانشورانہ عمل ہے اور اساتذہ کے کردار کا احاطہ معلومات کے ترسیل کار سے لے کر اطالیق (Coach) تک وسیع ہے۔ اور یہ کہ ایک موثر استاد کام کو طلباء کے درمیان ایک حکمتِ عملی کے ساتھ تقسیم کرتا ہے اور یہ کہ استاد کس طرح مشکل مواد پر زیادہ توجہ مرکوز کر کے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مہارتیں طلباء تک منتقل کرتا ہے۔
اگر ہم کتابوں کو کھنگالنا شروع کر دیں تو ہمیں تعلیم کے میدان میں بہت سارے عصری ازمز (isms) سے واسطہ پڑے گا۔ جیسے کہ نظریہ کردار (Behaviorism).تعمیریت (constructivism) یا سماجی تعمیریت (Social Constructivism) وغیرہ۔ اسی طرح ہمیں بہت سارے تدریسی نظریات کا پتہ چلے گا، جیسے کہ کثیر مقصدی ذہانت (Multiple Intelligence)، دائیں اور بائیں دماغ کی لرننگ (Right and Left Brain Learning)، سرگرمی نظریہ (Activity Theory)، لرننگ سٹائلز، پیاجے کا نظریہ اور کمیونیٹیز آف لرنرز(Communities of Learners) وغیرہ۔ لیکن ہم یہاں پر بیان شدہ تین بنیادی نکات پر ہی گفتگو کریں گے، کیونکہ ان تمام نظریات کی بنیاد یہی نکات ہیں اور لرننگ کے عمل کو سمجھنے کے لئے ان کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
۱۔ سیکھنا ایک فعال تعمیری عمل:
بیسویں صدی میں تدریسی نظریات میں ایک تبدیلی طلباء کو محض معلومات کے انجذاب کنندہ کی بجائے یہ سمجھنا ہے کہ طالب علم ایک فعال تعمیری عمل کے دوران سیکھنے والا عامل ہے۔ وہ اپنے ماحول سے حاصل ہونے والی معلومات کو معانی دیتا ہے، ان کو تنقیدی نظر سے جانچتا ہے اور اپنے علم کی تعمیر خود کرتا ہے۔ ہمارے سکولوں میں زیادہ تر یہی سوچ رائج ہے کہ طالب علم ایک خالی برتن کی مانند ہے یا اس کا دماغ ایک کورے کاغذ کے جیسا ہے، جس پر استاد جو چاہے لکھ سکتا ہے۔ لیکن نئے نظریات اس تصور کی نفی کرتے ہیں۔ اب طالب علم کو ایک فعال کردار کے طور پر مانا جاتا ہے، جو اپنے علم کی تعمیر خود کرتا ہے۔ وہ اگر خاموش بھی بیٹھا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ دماغی طور پر ساکت ہے۔ وہ اپنے مشاہدات سے جو بھی حاصل کرتا اسے اپنی سابقہ معلومات سے ملاتا ہے، ان کو آپس میں منسلک کرتا ہے، تنقیدی جائزہ لیتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنی سابقہ معلومات کو بہتر کرتا ہے یا اُن میں ترمیم کرتا ہے اور اپنے ذہن میں نئے تصورات کی تشکیل کرتا ہے۔ جب ہم یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ طالب علم سیکھنے کے عمل میں ایک فعال کردار ادا کرتا ہے، تنقیدی جائزہ لیتا اور صرف میکانیکی انداز سے فقط معلومات کو جذب نہیں کرتا، تو تدریسی عمل پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ اور یہ اس وقت اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جب طالب علم معلومات کا بے بہا ذخیرہ خود اکٹھا کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنے گھر، معاشرے، سکول، بازار سے بے شمار چیزیں اپنے ذہن میں محفوظ کرتا چلا جاتا، اور ان تمام معلومات کے ساتھ جب وہ کمرۂ جماعت میں داخل ہوتا ہے تو تدریسی عمل کو پیچیدہ کر دیتا ہے۔ ایسی صورت میں استاد طالب علم کو مختلف سرگرمیوں کی صورت میں سیکھنے کے مواقع تو فراہم کرتا ہے، لیکن وہ اس کے تنقیدی عمل کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ ایسی صورت میں استاد کی ذمہ داری محض معلومات کی فراہمی نہیں رہتی، بلکہ اسے طالب علم کی سابقہ اور موجودہ دی جانے والی معلومات کی تشریحات (Interpretations) کی تشخیص کر کے اُن کی تصحیح بھی کرنا ہوتی ہے، اُن میں ترمیم یا بسا اوقات اُن کو تبدیل بھی کرنا ہوتا ہے، یا اس کی معلومات کے ذخیرہ کو مزید بڑھانا بھی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طلبا کے رویے بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فعال تعمیری عمل کا مطلب ہمیشہ یہ بھی نہیں ہوتا کہ ہر طالب علم جو کسی سرگرمی میں شامل ہے، وہ سیکھنے کے عمل سے بھی گزر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ سرگرمی میں تو شامل ہے، لیکن اپنی سابقہ معلومات کو اس سرگرمی سے منسلک ہی نہیں کر پا رہا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک طالب علم کسی سرگرمی میں فعال کردار ادا نہیں کر رہا، لیکن وہ اپنے مشاہدات سے ہی اپنی سابقہ معلومات کی روشنی میں ایک نئے مظہر کی مناسب تشریح کر چکا ہو اور اپنے ذہن میں ایک صاف شفاف تصور کی تعمیر کر چکا ہو۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیکھنے کے عمل کا کوئی ایک نظریہ مکمل احاطہ نہیں کرتا۔ ہر نظریہ کچھ نا مکمل معلومات اور مشاہدات کی بنا پر بنایا جاتا ہے، اور مکمل مظہر کی تشریح تمام نظریات کو ملا کر ہی کی جا سکتی ہے، یا بسا اوقات ایسا کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا ہے۔
۲۔ سیکھنے کا عمل ایک سماجی مظہر کے طور پر:
لرننگ انفرادی سے زیادہ ایک سماجی عمل ہے۔ اگرچہ تنہائی چیزوں کو سمجھنے اور پیچیدہ ذہنی سرگرمی کے لئے ضروری بھی ہوتی ہے اور یکسوئی مہیا کرتی ہے، لیکن کسی بھی مسئلے، معاملے یا سوال کا صحیح ادراک اُسی وقت ہوتا ہے، جب اسے سماجی نمائش کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ اس پر بحث و مباحثے ہوں، بات چیت ہو، گروہی سر گرمیاں ہوں، اس کے اوپر مختلف آراء کا تبادلہ ہو، اس کو صحیح یا غلط ثابت کرنے پر دلائل سامنے آئیں۔ ہمارا زیادہ تر سیکھنے کا عمل اسی سماجی رابطے سے ہوتا ہے۔ ہم ایک چھوٹے بچے کی مثال لیتے ہیں، جسے کبوتر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ایک سفید یا سُرمئی یا سیاہ رنگ کا پرندہ ہے جس کی جسامت کوّے، یا چھوٹی مرغی کے برابر ہوتی ہے۔ شروع میں ہو سکتا ہے کہ سبھی پرندوں کو جیسے مرغی، کوے، بگلے وغیرہ کو وہ کبوتر ہی سمجھے۔ ظاہر ہے وہ اپنی اس تفہیم کا اظہار اپنے دوستوں، والدین، یا بہن بھائیوں کے ساتھ کرے گا۔ جو اس کی غلطی پر تصحیح کریں گے۔ اور کئی غلطیوں کے بعد وہ کبوتر کو باقی پرندوں سے صحیح طور پر پہچاننے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اسی طرح جب ایک بچہ گنتی سیکھنا شروع کرتا ہے تو وہ اپنی معلومات کا تبادلہ اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ، بہن بھائیوں کے ساتھ، والدین اور اساتذہ کے ساتھ کرتا ہے اور اپنے علم کا مختلف عملی واقعات میں استعمال بھی کرتا ہے تو معاشرے کے ساتھ اس انٹر ایکشن کے نتیجے میں اس کی غلطیوں کی تصحیح ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور وہ گنتی سے متعلق نئی نئی مہارتیں حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔ یہی عمل زندگی کے تمام مراحل میں جاری رہتا ہے، اور سماجی رابطہ ہمارے علم کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ جب بھی کوئی شخص ایک نظریے پر کام کرتا ہے تو جب تک وہ سے سماجی پلیٹ فارم پر پرکھ نہیں لیتا، اس کی تفہیم صحیح انداز سے نہیں کر پاتا۔ مثال کے طور پر اگر ڈارون، اپنے مشاہدات سے ہونے والی معلومات کا تبادلہ، ہنسلو، چارلس لیل یا دیگر ماہرین کے ساتھ نہ کرتا تو کبھی بھی وہ نظریہ ارتقاء کی تشکیل نہ کر پاتا۔ طالب علم کے لئے کلاس روم ایک سماجی سیٹ اپ ہے۔ جس میں طلباء اپنی مہارتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کرتے ہیں، ان پر بحث کرتے ہیں ، جس سے نئے نئے پہلو سامنے آتے ہیں اور علمی ترویج ہوتی رہتی ہے۔ ہم اسے عمل کے ذریعے سیکھنے (Learning by Doing) سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ جب ہم کوئی کام کرتے ہیں تو دو سطحوں پر اس کا جائزہ لیا جارہا ہوتا ہے۔ ایک تو ہم خود اس عمل سے گزرتے ہوئے بہت ساری ایسی معلومات سے سامنا کرتے ہیں جو صرف پراسس کے دوران ہی ہماری دسترس میں آسکتی تھیں۔ دوسرے ہمارا معاشرہ بھی ایک شاہد کے طور پر موجود ہوتا ہے اور اپنی تنقید اور مشوروں کے ذریعے بہت سارے ایسے پہلوؤں کی نشان دہی کرتا ہے، جو ہماری نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ اس طرح عمل کے ذریعے علم جدید تعلیمی نظریات میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس طرح حاصل کی ہوئی مہارتیں پائیدار اور قابلِ اعتماد ہوتی ہیں۔
۳۔ طلباء میں تنوع: ایک وسیلہ
ایک کمرۂ جماعت میں مختلف پس منظر کے طلباء ہوتے ہیں۔ اُن کے تجربات، مشاہدات، اُن کی اہلیت، فہم و ادراک ایک جیسا نہیں ہوتا۔ نئی تحقیق سے ثابت ہے کہ لرننگ کے ماحول کے لئے یہ تفریق ایک وسیلہ ہے نہ کہ رکاوٹ۔ طلباء کا یہ تنوع آئیڈیاز میں ایک وسیع رینج مہیا کرتا ہے، معلومات کے ذرائع بڑھ جاتے ہیں، اور طلباء کے سیکھنے کا amplitude وسیع ہو جاتا ہے۔ استاد کا کردار یہاں بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اس کے لیے اس ورائٹی کا ادراک کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اسے طلباء کے بیک گراونڈ، ان کی لائف ہسٹری، اُن کی کمزوریوں اور خوبیوں کو جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح وہ مختلف طلباء کو مختلف حوالوں میں ایک وسیلے (Resource) کے طور پر استعمال کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اور طلباء کے اس تنوع میں سب کے لئے سیکھنے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
بہت عمدہ۔۔۔