اسماعیل قادرے کی وفات
از، خالد فتح محمد
میں فکشن نگار ہوں اور فکشن نگاروں کے متعلق جاننا، انھیں پڑھنا اور اظہر حسین جیسے چند فکشن شناسوں کے ساتھ تبادلۂِ خیال کرنا میری فکشن کے ساتھ وابستگی کا اہم تر پہلو ہے۔ کرونا کے حملے سے پہلے میں مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ساتھ باقاعدگی سے ملاقات کیا کرتا تھا۔ تارڑ صاحب جتنے عمدہ فکشن نگار ہیں اتنی ہی دل چسپ ان کی گفتگو ہوتی ہے۔ ان کی صحبت میں وقت کا احساس نہیں رہتا، آپ صرف خلاء میں اٹکے ہوتے ہیں۔ گفتگو میں ہمیشہ کیا لکھا اور کیا پڑھا بھی آتا اور وہ ہمیشہ پوچھتے کہ فلاں کو پڑھا ہے؟ اگر پڑھا ہوتا تو اس کی کتابوں پر بات ہوتی اور اگر نہیں پڑھا ہوتا تو وہ پڑھنے کی تاکید کرتے اور میں وہاں سے سیدھا “ریڈنگز ” جا کر اس فکشن نگار کی کتاب حاصل کرتا۔
اسماعیل قادرے بھی ان میں سے ایک تھے۔ چُناں چِہ “The Broken April” سب سے پہلے پڑھا۔ میں نے اس پوسٹ کے لیے گوگل کا سہارا نہیں لیا (سوائے تصویر حاصل کرنے کے جو کراپ نہیں کی کہ کرنا نہیں آتا) اور جو بھی لکھ رہا ہوں، اس کے ناول پڑھ کر ہی اخذ کیا۔ (دوسروں کی طرح گوگل کو قادرے کو پڑھے بغیر نہیں جوڑا۔)
البانیہ میرے لیے آغازِ شباب سے ہی ایک رومانوی شکل لیے تھا کہ سرمایہ دار ملکوں کے درمیان میں ایک کمیونسٹ معاشرہ تھا، ان کی غربت بھی اسی رومان کا حصہ تھا۔ سو البانیہ سے ایک اُنس تھا جسے اسماعیل قادرے نے معاشرے کی محرومیوں کو اپنے خطے کی اساطیر کے ساتھ جوڑا ہے جیسے خوب صورت لڑکی کی ناگ کے ساتھ شادی وغیرہ۔
پھر میں نے اسماعیل قادرے کے ناول یکے بعد دیگرے پڑھنے شروع کیے اور مجھے ان کی تحریر کے ساتھ، اگر سچ کہا جائے، محبت ہو گئی۔ مجھے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ محسوس ہوئی۔
جب کسی کا ایک کے فوری بعد دوسرا ناول پڑھا جائے تو یک سانیّت کا احساس ہوتا ہے۔ میں چند ایک بڑے نام گِنوا سکتا ہوں؛ تاہم، قادرے کے ہاں ایسا ہر گز نہیں تھا۔
ماریو ورگاس یوسا اور دوسرے فکشن نگاروں کے ہاں آمریت کے خلاف جدوجہد ہمیشہ ہی موضوع رہی ہے لیکن قادرے کی تحریر اس جدوجہد میں سرمایہ داری نظام کے خلاف بھی آواز اٹھاتی تھی اور یہی سیاسی وجہ تھی کہ انھیں نوبل انعام بھی نہیں دیا گیا، ترکی کے یاشر کمال کی طرح جو کرد ہے۔
اسماعیل قادرے اس دور کے چند بزرگ لکھنے والوں یعنی ماریا ورگاس یوسا، میں شامل تھے اور میں ہمیشہ یہی سوچا کرتا کہ یہ لوگ جانے سے پہلے ایک اور فکشن دے جائیں۔ علم نہیں کہ وہ کچھ غیر مطبوعہ بھی چھوڑ گئے جیسے کہ مارکیز کا حال ہی میں ایک ناول چھپا ہے۔
اسماعیل قادرے کی تحریر خاص فکشن تھی، وہ اس میں اپنے خطے کی تاریخ اور اساطیر شامل کرتے تھے ( The Broken April اور تقریباً ہر ناول) اور یہ تاریخ یا اساطیر فکشن کا حصہ تھیں۔ ہمارے ہاں ایک مکتب، فکشن میں تاریخ کو غیر ضروری سمجھتا ہے اور اسے تاریخی ناول گردانتا ہے جب کہ بڑا فکشن تاریخ میں ہی لکھا گیا ہے۔
فکشن نگار کی کوئی عمر نہیں، وہ قطعِ نظر سالوں کے جوان ہوتا ہے۔ گو اسماعیل قادرے کا 88 سال کی عمر میں کل انتقال ہوا لیکن فکشن کی عمر کے مطابق وہ جوان فوت ہوئے اور میرے جیسا اس کی تحریر کا شیدائی محرومی کا شکار ہو گیا۔