مختصر قصہ ایک مدوِّن کا

Emran Azfar

مختصر قصہ ایک مدوِّن کا

از، عمران ازفر

اسلام آباد کے وفاقی کالجز میں ملازمت کے دوران بننے والے قیمتی رشتوں میں سے ایک مخلص اور قابلِ بھروسا تعلق برادرم صفدر رشید سے قائم ہوا۔ مقتدرۂِ قومی زبان کی پہلی منزل پر صفدر رشید کے پاس ایک مختصر سا دفتر ہوتا جس میں صاحبِ دفتر کے علاوہ چار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی۔ 

اردو ادب، کتاب سازی اور ملکی سیاسی صورتِ حال میں اردو زبان کی نا گُفتہ بِہ حالت سمیت کتنے موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ صفدر رشید سے دوستی، ربط اور فاصلے کے اتار چڑھاؤ سے گذرتی ہوئی، ڈیڑھ عشرے کی حد عبور کر چکی ہے۔ اوائلِ جوانی سے ہی ادب سے وابستہ رہنے والے ہمارے دوست نے، اپنی فکریاتی اساس کو ایک مرکز میں منجمند کرنے کی بہ جائے طرفین کے نقطہ ہائے نظر سے مکالمہ کیا ہے۔ 

وہ فطرتاً مذہب پرست، دین دار، جب کہ نظریاتی سطح پر لیفٹ کے نظریات سے ہم آہنگی محسوس کرنے والے انسان ہیں۔ اپنی فکری جہات میں حقیقت پرست صفدر رشید نے اپنے ابتدائی ادبی کاموں کا آغاز فیض احمد فیض کی نظموں کو انگریزی قالب میں ڈھالنے جیسے منفرد منصوبوں سے بنیاد کیا ہے۔ 

نمایاں قد و قامت رکھنے والے ہمارے اس دوست نے، بالِشت بھر صاحبِ ریش صفدر رشید کو وقت کے ساتھ اپنی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی نوک پلک کرنے کی ہمت دلائی اور گاہے گاہے ان کی انگلی تھامے آج کے عہد کے نمائندہ نقاد، محقق اور شمس الرحمٰن فاروقی شناس کے طور پر ادبی دنیا پر سرفراز کیا ہے جسے میں نے ہمیشہ متوازن، مَثبت اور بالِغ نظر پایا ہے۔ 

اس فکری پڑاؤ میں انھوں نے شلوار قمیض اور پینٹ بُوشرٹ کے ساتھ اپنی داڑھی کو بھی چِھدرائی کے عمل سے گزارا اور فی زمانہ ملامتی صوفی کی سی ریش مبارک رکھتے ہیں۔

ہماری صفدر رشید سے اوّلین عشق کی وجہ ادارہ پورب اکادمی ہے جو بَہ وجوہ صفدر رشید کی انتظامی گرفت سے آزاد ہوا، مگر مجھ ایسے کتنے آج بھی صفدر رشید اور پورب اکادمی کو الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے۔

دراز قد، نپے تلے جسم اور دھیمی گفتگو کے ساتھ متجسس اور متحرک آنکھیں رکھنے والا صفدر رشید ایک شاکر صوفی، ایک با عمل مسلمان، ایک سوال ساز محقق اور خوش باش انسان ہے جس نے اپنی شخصی خوبی سے فکری ہم نواؤں کے ساتھ، نظریاتی مخالفین سے بھی دوستانہ مراسم کے وقار کو قائم رکھا ہے؛ گو صفدر رشید کی ادبی قربت جدید کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے مدیروں اور مصنفین سے زیادہ ہے جو رسائل کے نمبر تک قیمت کے تعین سے مرتب کرتے ہیں، مگر ڈاکٹر صفدر رشید اس قربت میں بھی اپنی الگ اور آزاد شناخت قائم رکھے ہوئے ہیں اور اپنی انفرادی پہچان بنانے کا یہ وصف کسی بھی لکھنے، پڑھنے اور سوچنے والے کی بہت بڑی خوبی ہوتا ہے۔

قصہ کوتاہ آج کی اس یاد نگاری کا سبب “کہانی ایک نظم کی” ہے۔ یہ کتاب معروف انگریزی نظم “دی ویسٹ لینڈ” کی اشاعت کے صد سالہ جشن کی ایک نمایاں کڑی قرار دی جا سکتی یے جس میں ٹی ایس ایلیٹ، ان کے انفرادی شخصی مرقّعے، ایلیٹ کے جذباتی حالات، شریکِ حیات کے ساتھ تعلق کے اتار چڑھاؤ اور سب سے بڑھ کر ایلیٹ کے ادبی کردار کی تشکیل میں شاعروں کے شاعر ایذرا پاؤنڈ کے عمل دخل کو تحقیقی اور تجزیاتی کسَوٹی کے ساتھ پرکھا گیا اور ساتھ ہی کئی اہم باتوں کا اَز سرِ نو اِعادہ کیا گیا ہے۔

کتاب کے بیک فلیپ میں مرزا حامد بیگ نے بعض اہم نکات کی نشان دہی کی ہے جن پر توجہ کرنے کی صورت میں قاری نہ صرف کتاب سے دُگنا لطف اندوز ہو سکتا ہیں، بَل کہ نظم کی قرأت کے کئی نئے امکانات بھی واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔

مرزا حامد بیگ کے افسانوی اسلوب نے کتاب بارے تجسس کے جذبے میں اضافے کا سامان پیدا کیا ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد سے شائع ہونے والی لگ بھگ پونے دو سو صفحات کی کتاب کو آٹھارہ ذیلی عنوانات کے تحت بیان کیا گیا ہے، یہ بیان: ویسٹ لینڈ کی تصنیف، اس کی ابتدائی اشاعت، ٹی ایس ایلیٹ کی پہلی شریکِ حیات سے جذباتی شکستگی، نظم کی اوّلین اشاعت پر موافق اور متخالف رویوں، پہلی اشاعت کے سالوں بعد ایذرا پاونڈ کے ہاتھوں اصلاح شدہ مسوّدے کی بازیافت پر مشتمل ہیں۔

کتاب میں معلومات انکشافات اور حیرت ناکیوں کے دفتر کے دفتر قلم بند ہیں۔ (کتاب کی قیمت کتاب دوستوں کے ساتھ بحث و تمحیص کی متقاضی ہے) اس کی ذیلی کہانیوں میں افتخار عارف نے کہانی کی کہانی بیان کی ہے تو جمیل جالبی نے ٹی ایس ایلیٹ کے تصورِ روایت کو اس کی شعری جہات سے متصل کر کے دیکھنے کی سعی کی ہے۔ 

مُدوِّن کا مقدَّمہ خوب زرخیز اور معلومات افزاء ہے۔ اس کے علاوہ نظم کے ماخذ، نظم کے بارے مکتوباتی مواد، سَرقے کے الزام سمیت کئی نمایاں اور اہم نِکات کی روشنی میں نظم کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ 

نظم کے تقابلی مطالعے سے جدید آزاد اردو نظم پر اثرات کو بھی دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مختلف مقامات پر صاحبِ تحریر نے ن م راشد اور میرا جی کا اختصاصی تذکرہ کیا ہے جو ان اردو شعَراء کے بیسویں صدی کی عالمی نظم کے ساتھ ربط و ضبط کی کہانی کے پیش کار ہیں۔

مختصراً یہ کہ جدید اردو نظم سے محبت کرنے اور اس سے وابستہ ہر فرد کو پروفیسر صفدر رشید کی بیان کردہ اس نظم کہانی کا مطالَعہ کرنا چاہیے کہ موضوع اپنی اساس میں کئی نئے تحقیقی اور تجزیاتی منصوبہ جات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔