وی پی این حرام اور باقی سب حلال
از، رشتین خان یُوسف زئی
اُنیسویں صدی کے انگریز فلسفی، مضمون نگار، اور ادبی نقاد ولیم ہالزلِٹ نے اپنی کتاب:
Political Essays: with Sketches of Public Characters
میں لکھا ہے، ‘مذہب کا لبادہ اقتدار کے لیے بہترین چادر ہے۔’
جب سے مذہب کا وجود عمل میں آیا ہے تب سے حکم ران طبقے نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے مذہب کا استعمال کیا ہے۔ کبھی اپنے مخالفین کو چُپ کرانے کے لیے اس کا استعمال کیا ہے، تو کبھی عوام میں اپنی گرتی مقبولیت کو بڑھانے کے لیے، کبھی اپنے اقتدار کی خاطر فوجوں کو لڑانے کے لیے تو کھبی عوامی غصے کو رام کرنے کے لیے مذہبی ہونے کا ڈھونگ رچایا گیا۔ غرض یہ کہ مذہب تقریباً ہر دور میں عوامی حمایت حاصل کرنے اور مخالفین کو زیر کرنے کا بر سرِ اقتدار طبقے کا ہر دل عزیز ہتھیار رہا ہے۔
اِس مملکتِ خداداد میں حکم ران طبقے نے اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے مذہب کا جس طرح بے دریغ استعمال کیا ہے، اُس کی نظیر معلوم انسانی تاریخ میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ اس کی ایک حالیہ مثال اسلامی نظریاتی کونسل کا وی پی اینز کے حرام ہونے سے متعلق ایک فتویٰ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ یا کسی سافٹ ویر (وی پی این وغیرہ) کا استعمال، جس سے غیر اخلاقی یا غیر قانونی اُمُور تک رسائی مقصود ہو، شرعاً ممنوع ہے۔ وی پی این کا استعمال اس نیّت سے کہ غیر قانونی مواد، یا بلاک شدہ ویب سائٹس تک رسائی حاصل کی جائے، شرعی لحاظ سے ناجائز ہے… مزید بَرآں اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے ملک کے قوانین کی پاس داری کرے بہ شرط یہ وہ قوانین اسلامی اصولوں سے متصادم نہ ہوں۔
یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں کہ اس ملک میں مذہبی طبقے نے مذہب کو ہمیشہ حکم ران طبقے کے مفادات اور طاقت پر اُن کی گرفت مضبوط کرنے کے لیے اور عوام کو مذہب کے نام پر کنٹرول میں رکھنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ فتویٰ یا ہدایت بھی ایسے اقدامات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
جب اس سال جنوری میں ایکس(سابقہ ٹویٹر) جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر عوامی غم و غصہ پسِ پردہ مسلّط حکم رانوں کی عوام کُش پالیسیوں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنا رہا تھا تو ایکس کو بند کردیا گیا، اور جب لوگوں نے وی پی این کا استعمال کر کے ایکس تک رسائی برقرار رکھی تو اسلامی نظریاتی کونسل کے سرکاری عُلَماء، خصوصاً اس کے چیئرمین جناب راغب حسین نعیمی کا مُندرجۂِ بالا فتویٰ آیا تا کہ مذہب کا ایک بار پھر استعمال کرکے عوامی نفرت اور غصے کو قابو میں لایا جا سکے اور عوامی تنقید پر نکیل کسی جا سکے۔
مگر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اگر وی پی این کا استعمال کر کے ایکس اور باقی سوشل میڈیا پلَیٹ فارمز تک رسائی حاصل کر کے حکومت اور اس کے آقاؤں کی غیر قانونی اور غیر آئینی پالیسیوں پہ تنقید کرنا حرام ہے تو:
کیا سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کا استعمال کر کے عوام کو بے وُقوف بنانا حلال ہے؟وی پی این حرام اور باقی سب حلال
کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ملکی سرحدوں پر رشوت لینا، عوام کو زد وکوب کرنا اور ان کی تذلیل کرنا حلال ہے؟
کیا ملٹری آپریشنز کے نام پر عوام کو گھروں سے بے دخل کر کے آئی ڈی پیز بنانا، اُن کے کاروبار تباہ کرنا، ہزاروں کی تعداد میں اُن کو قتل کرنا، اور سکولوں پہ قبضہ کر کے مورچے بنانا حلال ہے؟
کیا سابقہ قبائلی علاقوں میں لینڈ مائنز بِچھانا، اُن سے معصوم بچیوں اور بچوں کا ہاتھوں اور پیروں سے معذور ہونا حلال ہے؟
کیا ہزاروں کی تعداد میں پختون اور بلوچ نوجوانوں کو لا پتا کرکے سالوں تک ٹارچر کرنا اور پھر جان سے مار دینا حلال ہے؟
کیا عبادت گاہوں (مسجدوں، چرچ، مندر)، عوامی مقامات، جنازوں، پولیس سٹیشنز اور تعلیمی اداروں میں خود کُش دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کرکے اپنے ہی ہم مذہب اور ہم وطن شہریوں کو موت کے گھاٹ اُتارنا حلال ہے؟
کیا فوج کا سیاسی جماعتیں بنانا، توڑنا، مارشل لاء لگا کے منتخب عوامی حکومتوں کو گھر بھیجنا، نا پسندیدہ سیاسی جماعت اور عوامی تحریکوں کے خلاف میڈیا کو کنٹرول کر کے پروپیگنڈہ کرانا اور عوامی رائے ایک ادارے کی منشاء کے مطابق بنانا حلال ہے؟
کیا عدلیہ میں اصلاحات (رِیفارمز) کر کے فعّال بنانے کی بجائے اکیسویں آئنی ترمیم کرکے ملٹری کورٹس کی تشکیل حلال ہے؟
کیا ملک کو سات عشروں سے نازک موڑ سے نکلنے نہ دینا حلال ہے؟
کیا فوجی سربراہان کی مدّتِ ملازمت میں پانچ سال کی توسیع حلال ہے؟
کیا وزیراعظم کو پانچ سال حکومت مکمل نہ کرنے دینا حلال ہے؟
کیا خواتین کو جبر کا نشانہ بنانا، ذہنی کوفت اور خوف میں رکھنا اور اُن پر گھریلُو تشدد کرنا حلال ہے؟
کیا بہنوں اور بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے محروم رکھنا، بوجھ سمجھنا، اور زبردستی کسی سے بھی بیاہ دینا حلال ہے؟
کیا بہوؤں کو مارنا پیٹنا، اُن پر تیل چھڑک کر آگ لگانا، یا قتل کرکے سر دھڑ سے الگ کر کے چُولھے پہ جلا کے پہچان کے قابل نہ چھوڑنا اور لاش کے ٹکڑے کرنا حلال ہے؟
کیا سندھ میں چھوٹی چھوٹی ہندو بچیوں کو اّغواہ کرنا، مذہب تبدیل کرانا اور اپنی عمر سے کئی گنا بڑی عمر کے مردوں سے زبردستی بیاہ دینا حلال ہے؟
کیا فوج کا سینکڑوں کاروباری ادارے چلانا اور ملکی رقبے کا بارہ فیصد اپنے قبضے میں رکھنا حلال ہے؟
کیا توہینِ مذہب کے نام پہ ہجوم کا کسی کو بھی شک کی بنیاد پہ بے دردی سے قتل کرنا، لاش جلانا، اور پھر تدفین نہ ہونے دینا حلال ہے؟
کیا تحریکِ لبیک یا رسول اللّہ پارٹی بنانا، اس کو منتخب حکومتوں کے خلاف استعمال کرنا، ٹی ایل پی کے بُلوائیوں میں پُر تشدّد احتجاج کرنے اور حکومت کو گُھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے پر انعام کے طور پر ہزار ہزار کے نوٹ بانٹنا حلال ہے؟
کیا اوجھڑی کیمپ کو اُڑانا اور راول پنڈی میں سو کے قریب شہریوں کو قتل کرنا، اور ہزار تک کو زخمی کرنا حلال تھا؟
کیا پندرھویں، سترھویں، اکیسویں، اور چھبیسیویں آئینی ترامیم حلال ہیں؟
کیا نیب بنانا، اور اپنی مرضی کا جانب دار احتساب کرنا حلال ہے؟
کیا آئی جے آئی بنانا (مہران بینک سکینڈل)، ایم ایم اے بنانا، پی ایم ایل (ق) بنانا، بی اے پی (باپ، بلوچستان میں) بنانا سب حلال ہے؟
کیا سوِیلین اداروں پر حاضر سروس یا رٹائرڈ فوجی سربراہان مسلّط کرنا حلال ہے؟
کیا پاپا جونز کے ننانوے فرنچائز بنانا اور آسٹریلیا میں جزیرے خریدنا حلال ہے؟
کیا کوئٹہ کے پریس کلب سے متصل ماما قدیر کا گزشتہ پندرہ سال سے لا پتا افراد کی بازیابی کے لیے لگائے گئے کیمپ کو اُکھاڑنا، اور جلانا حلال ہے؟
کیا جی ایم سید، باچا خان، ولی خان، فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، فاطمہ جناح، منظور احمد پشتین، علی وزیر، ارمان لونی، عثمان کاکڑ، گِلہ من وزیر اور ڈاکٹر ماہ رنگ جیسے لوگوں کو غدار قرار دے کر اُن کے بنیادی حقوق سلَب کرنا، غداری کے جھوٹے مقدمے بنا کر جیلوں میں ڈالنا، اور جان سے مارنا یا مارنے کی کوشش کرنا حلال ہے؟
کیا چارسدہ میں بھابھڑہ کے مقام پر، وزیریستان میں خڑقمر کے مقام پر، بلوچستان میں چمن کے مقام پر، پنجاب میں اوکاڑہ کے مقام پر، اور خیبر میں پشتون جرگے کے مقام پر اپنے حقوق کے حصول کے لیے پُر امن احتجاج کرتے نہتے عوام پر گولیاں برسا کر جان سے مارنا حلال ہے؟
کیا امریکہ بہادر سے تینتیس ارب ڈالر لے کر اپنے ہی لوگوں کو غلام رکھنا، طالبان بنانا اور اُن کو پالنا، اپنے ہی عوام کے خلاف طالبان کو ختم کرنے کے نام پہ آپریشنز کرنا، عوام کو در بدر کرنا، اور پھر افغانستان جا کر افغان طالبان کے ساتھ مل کر ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو دوبارہ پختون خوا میں آباد کرنا حلال ہے؟
کیا مدرسوں اور مسجدوں میں بچیوں اور بچوں کو جنسی جرم کا نشانہ بنانا، سکولوں میں بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی جرم کر کے ویڈیوز بنانا بھی حلال ہے؟
کیا بچوں کے دودھ، اور خوراک کی ہر چیز میں ملاوٹ کرنا بھی حلال ہے؟
عوام، اسلامی نظریاتی کونسل سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ اگر مُندرجۂِ بالا اعمال حرام ہیں تو ان کے بارے میں بھی ایک عدد فتویٰ صادر کیجیے، تا کہ اس ظلم و جبر اور نا انصافی سے چھٹکارا پانے میں مدد مل سکے، اور اگر اسلامی نظریاتی کونسل کے نزدیک یہ حلال کام ہیں اور اس (وی پی اینز سے متعلق) فتوے کی روشنی میں چُوں کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے ملک کے قوانین کی پاس داری کرے بہ شرط یہ کہ وہ قوانین اسلامی اصولوں سے متصادم نہ ہو (ابھی تک مُندرجۂِ بالا کاموں پہ غیر اسلامی ہونے کا اسلامی نظریاتی کونسل کا کوئی فتویٰ اس نا چیز کی نظروں سے نہیں گزرا) تو بھی ایک فتویٰ دے دیجیے کہ یہ سب حلال کام ہیں، اور عوام کو صبر وشکر کا دامن تھام کے اس اسلامی ریاست میں اس اسلامی حکومت اور اس اس کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچانے والے اسلامی اسٹیبلشمنٹ کے اِن اقدامات پہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر اپنی اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے کہ جب ذِلتوں بھری اس زندگی سے ان کو بھی مار کر چُھٹکارا دلایا جائے کیوں کہ سکون تو صرف قبر میں ہے۔