شورائیت اور ملوکیت
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
نظمِ اجتماعی انسان کی سماجی ضرورت ہے۔ سماجی تعامل کے حدود و قوانین اور تنازِعات کے فیصلے کے لیے مُتفِقّہ اتھارٹی کا قیام نا گزیر ہے، جس کے فیصلوں کے آگے خواہی نہ خواہی سرِ تسلیم خم کر دیا جائے۔ یہ نہ ہو تو دوسری صورت انارکی ہے، جسے معقُولیّت گوارا نہیں کر سکتی۔ نظمِ اجتماعی کے قیام کا تقاضا کچھ انسانوں کا اختیار دوسرے انسانوں پر قائم کرنے کا سبب ہے، اس لیے ضروری ہے کہ یہ اختیار ان کی مرضی اور انتخاب سے ان پر قائم کیا جائے۔ شُورائیت یا جمہوریت کی اصل حقیقت یہی ہے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پسند کیا ہے۔
قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ (شوریٰ، 42: 38)
اور اُن کا نظام اُن کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔
شورائیت سے ما وَراء یا بے پروا ہو کر اقتدار کو کسی فرد، خاندان یا جماعت میں محدود کرنا صاحبانِ اقتدار کا تجاوُز ہے۔ اس سے نہ صرف عوام کا حقِّ انتخاب غصب ہوتا ہے، بل کہ دیگر با صلاحیت لوگوں کو اقتدار میں آ کر اپنے جوہر دکھانے کے مواقِع بھی مسدُود ہو جاتے اور اقتدار کے حریفوں کے درمیان تصادُم پیدا ہو جاتا ہے۔ بادشاہتو ں کے دور میں طالِع آزماؤں کے درمیان ک٘شا کَش کی ساری تاریخ اسی کا نتیجہ ہے۔ حکم رانوں کے عَزْل و نَصْب کے کسی مُتفِقہ دستور کے بغیر صدیوں تک یہی ہوتا رہا، یہاں تک کہ دستوری حکومتوں کا دور آیا اور انتخابات کی راہ سے حصولِ اقتدار کے مسئلے کا سیاسی حل عمل میں آ گیا۔
شُورائِیت کی اس اہمیت کے با وجود اللہ تعالیٰ نے اسے شرَعی حکم کا درجہ نہیں دیا؛ چُناں چِہ اس کی خلاف ورزی کسی شرعی حد کی پامالی نہیں کہلائے گی۔ حالات کا تقاضا ہو تو شرَعی احکام میں بھی رخصت دے دی جاتی ہے، شورائیت کا معاملہ تو شرعی بھی نہیں، حکمتِ عملی سے متعلّق ہے، چُناں چِہ اگر حالات کے تقاضے سے حکومت کی کوئی دوسری صورت اختیار کر لی جائے تو اس پر کفر و ضلالَت کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا، اور نہ جان و مال کی قربانیاں دے کر مثالی صورت قائم کرنے کی کوشش کوئی دینی جواز رکھتی ہے۔ خود بنی اسرائیل کے لیے اللہ تعالی نے ملُوکیت ہی کو اختیار کیا تھا، کیوں کہ ان کے حالات کا تقاضا یہی تھا۔ بنی اسرائیل کے درمیان قبائلی رقابت انھیں کسی متفقہ قیادت پر مجتَمع نہیں ہونے دے سکتی تھی، انھیں تو طالُوت کے انتخاب پر اعتراض تھا، جسے اللہ نے خود ان کے لیے منتخب کیا تھا۔ اللہ کو ان کی اجتماعیّت مقصود تھی جو شُورائیت کی صورت میں حاصل نہیں ہو سکتی تھی، چُناں چِہ انبیاء کی موجودگی میں ان کے ہاں مورُوثی بادشاہت جاری رہی۔
گویا، انتخاب اگر شورائیت اور ملُوکیّت میں ہو تو شُورائیّت کو منتخب کرنا ہی علم و عقل کا فیصلہ ہونا چاہیے، لیکن انتخاب اگر ملوکیّت اور انارکی میں ہو تو ملوکیّت کا انتخاب نا گزیر ہے۔ جمہوریت کے جدید دور میں بھی ہنگامی حالات کے دوران جمہوری اقدار معطّل کر کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔
حکومت منتخب ہو یا غیر منتخب، اگر ظلم اور نا انصافی سے کام لے، تو اس کی مذمت اور اصلاح فقط زبانی طور پر ہی کی جا سکتی ہے۔ انفرادی جہاد کا یہی میدان ہے۔ یہاں کلمۂِ حق کہنا افضل جہاد ہے۔ اس میں جان بھی چلی جائے تو افضل شھادت کہلاتی ہے۔ اس سے زیادہ کسی اقدام کا کوئی حکم نہیں دیا گیا، بل کہ دین کی رُو سے کسی غیر عادل حکومت کے خلاف بغاوت کرنا یا اسے بَہ زورِ بازو تبدیل کرنے کی کوشش کرنا ممنوع ہے، کیوں کہ اس سےنظمِ اجتماعی مُختَل ہو سکتا ہے، جو انارکی اور فسادِ فی الارض پر مُنتج ہو گا۔ البتہ حکومت کے غیر اخلاقی احکام میں اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ پُر امن احتجاج کا حق یہیں تک ہے۔
حکومت کا ظلم فساد فی الارض کی نوعیّت اختیار کر لے تو اس صورت میں ہجرت کر جانے کا حکم ہے۔ یہ چارہ بھی میسر نہ ہو ہابیل کے اُسوہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی جان دے کر بھی دوسرے کی جان نہ لینے کو زیادہ بہتر عمل قرار دیا گیا ہے۔ اس بارے میں رسول اللہ کے ارشادات نقل ہوئے ہیں۔
حدثني ابو كامل الجحدري فضيل بن حسين، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا عثمان الشحام، قال: انطلقت انا وفرقد السبخي إلى مسلم بن ابي بكرة وهو في ارضه، فدخلنا عليه، فقلنا: هل سمعت اباك يحدث في الفتن حديثا؟، قال: نعم سمعت ابا بكرة يحدث، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إنها ستكون فتن، الا ثم تكون فتنة القاعد فيها خير من الماشي فيها، والماشي فيها خير من الساعي إليها، الا فإذا نزلت او وقعت، فمن كان له إبل فليلحق بإبله، ومن كانت له غنم فليلحق بغنمه، ومن كانت له ارض فليلحق بارضه “، قال: فقال رجل: يا رسول الله، ارايت من لم يكن له إبل ولا غنم ولا ارض؟، قال: ” يعمد إلى سيفه فيدق على حده بحجر، ثم لينج إن استطاع النجاء، اللهم هل بلغت، اللهم هل بلغت، اللهم هل بلغت ” قال: فقال رجل: يا رسول الله، ارايت إن اكرهت حتى ينطلق بي إلى احد الصفين او إحدى الفئتين، فضربني رجل بسيفه او يجيء سهم، فيقتلني، قال: ” يبوء بإثمه وإثمك ويكون من اصحاب النار ” (صحیح مسلم، 7250)
“رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”عَن قریب فتنے برپا ہوں گے سن لو! پھر (اور) فتنے برپا ہوں گے، ان (کےدوران) میں بیٹھا رہنے و الا چلنے والے سے بہتر ہو گا، اور ان میں چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا یاد رکھو! جب وہ نازل ہو گا یا واقِع ہوں گے تو جس کے (پاس) اونٹ ہوں وہ اپنے اونٹوں کے پاس چلا جائے، جس کے پاس بکریاں ہوں وہ بکریوں کے پاس چلا جائے اور جس کی زمین ہو وہ اپنی زمین میں چلا جائے۔” (حضرت ابو بکر ۃ رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو ایک شخص نے عرض کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس کےبارے میں کیا خیال ہے جس کے پاس یہ اونٹ ہوں، نہ بکریاں، نہ زمین؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “وہ اپنی تلوار لے، اس کی دھار کو پتھر سے کُوٹے (کُند کر دے) اور پھر اگر بچ سکےتو بچ نکلے!”
پھر آپ نے فرمایا: “اے اللہ! کیا میں نے (حق) پہنچا دیا؟ اے اللہ! کیا میں نے (حق) پہنچا دیا۔ اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا۔” ایک شخص نے کہا: “اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر مجھے مجبور کر دیا جائے اور لے جا کر ایک صف میں یا ایک فریق کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے اور کوئی آدمی مجھے اپنی تلوار کا نشانہ بنا دے یا کوئی تیر آئے اور مجھے مار ڈالے تو”؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: “(اگر تم نے وار نہ کیا ہوا) تو وہ اپنے اور تمھارے گناہ سمیٹ لے جائے گا اور اہلِ جہنم میں سے ہو جائے گا۔”
مسلمانوں کی حکومت اگر ظالم نہیں، اپنے دینی فرائض سے غافل نہیں، یا کسی بڑے انحراف یا کھلّم کھلّا کفر پر مُصِر نہیں، تو کسی فرد یا جتھے کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے تئیں نظمِ اجتماعی کی کسی بہتری یا اسے کسی مثالی صورت میں بحال کرنے کے لیے ہتھیار اٹھا لے اور نظمِ اجتماعی کو مُختل کرنے کی کوشش کرے، اگر چِہ اسے اکثریت کی حمایت بھی حاصل ہو، اس لیے کہ یہ کوئی دینی فریضہ یا خدا کا مطالبہ نہیں ہے، جس کے لیے لوگوں کی جان کو خطرے میں ڈالا جائے، بل کہ یہ فسادِ فی الارض کے جرم عظیم کا ارتکاب ہے، خواہ یہ کتنی ہی نیک نیتی سے کیا جائے۔
کسی مُصلِح کو اپنے اصلاحی اقدام کے لیے اگر اکثریت کی حمایت بھی حاصل نہیں تو اسے خدائی فوج دار بننے کا خبط سرے سے پالنا ہی نہیں چاہیے۔ حکومت کی اصلاح یا کسی مثالی صورت میں اس کی بحالی کے لیے تعلیم اور ابلاغ کے پُر امن طریقوں سے رائے عامہ ہم وار کرنے کے سوا کسی کارِروائی کی کوئی گنجائش دین میں نہیں ہے۔
اربابِ حکومت سے مثالی رویے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اختیارات کے ساتھ تجاوُزات کا ہونا غیر متوقّع نہیں ہوتا۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ کوئی دوسرا شخص یا سیاسی گروہ اختیارات کے تجاوُزات سے مبرّا رہے گا، یا اس کے جان نشین لازماً ایسے نیک لوگ ہوں گے جو کوئی تجاوُز نہیں کریں گے۔ اس خوش گمانی کی جب کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی تو حکومت کی تبدیلی کے لیے بَہ راہِ سازش یا بَہ زورِ بازو اسے تبدیل کا کوئی عقلی جواز بھی دست یاب نہیں رہتا۔
مسلمانوں سے مطلوب سیاسی رویے کے سلسلے میں رسول اللہﷺ کے ارشادات درج ذیل ہیں:
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن الجعد ابي عثمان، حدثني ابو رجاء العطاردي، قال: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:” من راى من اميره شيئا يكرهه فليصبر عليه، فإنه من فارق الجماعة شبرا فمات إلا مات ميتة جاهلية”. (بخاری، 7054)
“رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:” جس نے اپنے امیر کی کوئی نا پسندہ چیز دیکھی تو اسے چاہیے کہ صبر کرے، اس لیے کہ جس نے جماعت سے ایک بالِشت بھر جدائی اختیار کی اور اسی حال میں مرا تو وہ جاہلیّت کی سی موت مرے گا۔“
حدثنا احمد بن عبد الرحمٰن بن وهب بن مسلم ، حدثنا عمي عبد الله بن وهب ، حدثنا عمرو بن الحارث، حدثني بكير ، عن بسر بن سعيد، عن جنادة بن ابي امية، قال: دخلنا على عبادة بن الصامت وهو مريض، فقلنا حدثنا: اصلحك الله بحديث ينفع الله به، سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: دعانا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبايعناه، فكان فيما اخذ علينا، ” ان بايعنا على السمع والطاعة في منشطنا ومكرهنا، وعسرنا ويسرنا، واثرة علينا، وان لا ننازع الامر اهله، قال: إلا ان تروا كفرا بواحا عندكم من الله فيه برهان “. (مسلم، 4471)
عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے جن چیزوں پر بیعت لی وہ یہ تھیں کہ ہم خوشی اور نا خوشی میں اور مشکل اور آسانی میں اور خود پر ترجیح دیے جانے کی صورت میں بھی اطاعت کریں گے، اور یہ کہ ہم اقتدار کے معاملے میں اس کی اہلیت رکھنے والوں سے تنازع نہیں کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” البتہ، اگر تم کھلّم کھلّا کفر دیکھو جس کے خلاف تمھارے پاس واضح دلیل موجود ہو، (تو اس صورت میں معصیّت کے کاموں میں حکم رانوں کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔)
تاہم، اس بنا پر ہتھیار اٹھانے کی اجازت یا حکم نہیں دیا گیا۔
ایک روایت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ برائی کو ہاتھ سے روکنےکا حکم دیا گیا ہے، اس لیے حکومت کی کسی برائی یا فِسق کو روکنے کے لیے ہاتھ اور ہتھیار اٹھائے جا سکتے ہیں۔
روایت یہ ہے:
فقال ابو سعيد : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: ” من راى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك اضعف الإيمان “. (مسلم، 117)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” تم میں سے جو شخص منکر (نا قابلِ قبول کام) دیکھے اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ (قوّت) سے بدل دے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اسے برا کہے، اگر اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو، اپنے دل سے اسے برا سمجھے،اور یہ سب سے کم زور ایمان ہے۔“
اس ارشاد میں برائی کو روکنے یا بدلنے کی ہدایت انسان کی استطاعت سے مشروط ہے۔ یعنی انسان کے دائرۂِ اختیار کے اندر منکر یا برائی کو روکنے کی ہدایت اور اس سے اغماض برتنے پر ایمان کی کمی کا الزام دیا گیا ہے۔ اپنے دائرۂِ اختیار سے باہر کسی کام کا انسان کو مکلّف نہیں ٹھیرایا گیا۔ ہر شخص یا جتھا اگر اصلاحی ایجنڈا لے کر حکومتیں تبدیل کرنے نکل کھڑا ہو تو یہ خانہ جنگی اور فساد کا سبب بنے گا۔
اسی بناء پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد سیاسی تبدیلی کی کوشش میں فتنے پیدا کرنے والوں سے خبر دار کرتے ہوئے مسلمانوں کو تاکید کی تھی کہ وہ کسی جتھے کا حصہ بن پر ہتھیار نہ اٹھائیں۔