ضمیر قیس ، تحرک اور تجدد کا شاعر
از، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
ایک زمانہ تھا کہ شاعر رسائل و جرائد کے توسط سے پہچانے جاتے تھے۔ اب فیس بُک کا زمانہ ہے۔ ہر شاعر ایک “رسالہ” اور ایک “جریدہ” بنا ہُوا ہے۔ اُس کی اپنی “دیوار” ہے جس پر اس کا نوِشتہ روزانہ کی بنیاد پر ظہور میں آتا رہتا ہے۔ ضمیر قیس سے میرا تعارف فیس بُک ہی کے ذریعے ہُوا۔ اُس کی وال ہی پر میں نے اسے بہ طورِ شاعر اُبھرتے اور پھر تیزی کے ساتھ مستحکم ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ لائکس اور کومنٹس کا سلسلہ تو بڑی حد تک مصالحانہ داد و تحسین کا ایک مظہر بھی ہو سکتا ہے تاہم اس میں کچھ نہ کچھ سچائی بھی ضرور ہوتی ہے جس کی توثیق جینوئن اور بے لوث تخلیق کاروں کی طرف سے آنے والی باقاعدہ قسم کی آراء سے ہو جائے تو اس میں ذرا سنجیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔
ایسی آراء “عمود” کی آمد سے پیش تر ہی ضمیر قیس کی غزلوں کے اثر و نفوذ کی ضامن بن گئی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب یہ مجموعہ شائع ہُوا تو اسے پذیرائی ملی اور شاعر کے مزید کلام کی طلب میں اضافہ بھی ہوا تا وقت یہ کہ “طلسم” کا اشتہار آ گیا جس میں اسّی فیصد نئے کلام کی نوید دی گئی جسے ابھی تک فیس بک کی زینت نہیں بنایا گیا تھا۔
اِس حوالے سے “طلسم” کو ایک ایسا مجموعہ کہا جائے جس سے قارئین کی توقعات تجسس اور انتظارکی حد تک وابستہ ہیں تو کچھ غلط نہ ہو گا۔
غزل گوئی میں ضمیر قیس کا انہماک اور استغراق دیکھتے ہوئے خود میں بھی “طلسم” کی غزلیں پڑھنے کا آرزو مند تھا کیوں کہ “عمود” کی اشاعت کے موقعے پر میں نے بڑی محبوبیت کے ساتھ اس خواب اندانم فقیر کا استقبال کیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ ضمیر قیس نے اپنی غزل کو جس طرز کے لسانی متن میں ڈھالا ہے اُس کے کم یاب ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ اُس کے شعری وسائل مختلف بھی ہیں اور وافر بھی۔ اُس نے اِن وسائل کو فن کی سیّال سطح پر اِس طرح برتا ہے کہ تشکیل کی کسبی و وہبی صورتوں میں تفریق کرنا ممکن نہیں رہا۔ یُوں لگتا ہے جیسے اس کا قلب و ذہن اپنے وجود و عدم کے ساتھ یکتائی کے مُعارف میں تحلیل ہو گیا ہے ۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شعروں میں قائم کیے گئے منطقوں کی تکمیل کے لئے اُس کے وجود میں کتنی اُتھل پُتھل ہُوئی ہو گی۔ زبان و بیان کا تال میل کیسے بنا ہو گا۔ جمال اور تاثیر کی لہریں کیسے آمیز ہوئی ہوں گی۔ وجودی اور مظہری احساسات میں اتصال کی کن کن منزلوں تک رسائی عمل میں آئی ہو گی۔
میرا مؤقف یہ تھا کہ بہ طورِ تخلیق کار ضمیر قیس کے پاس ایک گہری اور روشن آنکھ موجود ہے اور وہ جانتا ہے کہ تخلیقی کرب میں مسلسل مبتلا رہنے والی آنکھ ہی اُس نظارے کو گرفت میں لا سکتی ہے جو تخیل و وجدان کی یک جائی اور حیات و کائنات کی جوہری آمیزش سے ترتیب پاتا ہے۔ ایسی آنکھ ہر تخلیق کار کو کہاں میسر آتی ہے! اصل بات تو یہ ہے کہ ضمیر قیس کی غزل کا مطالعہ قارئین کے لیے ایک سلسلۂ دید، ایک وسیلۂِ نظر بن جاتا ہے جس میں امکانات کی ایک نئی اور انوکھی دُنیا کی تفہیم کے دروازے کُھلتے ہیں۔ غور کیجیے تو اس کا شعر لفظوں کی ثنویّت اور دوئی کی مختلف دھاریوں سے متشکّل ہوتا ہےاور پھر از خود ایک تخلیقی سٹرِنگ میں بندھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں ترکیبوں، استعاروں، اور تلازموں کا پورا ایک نظام ہے جو اپنی پرواز میں معنی اور تشکیلِ معنی کی جستجو و جسارت کا احساس دلاتا ہے۔
“طلسم” کی غزلوں کے مطالعے سے مجھے باور آیا کہ میں نے تخلیق کی جس سٹرِنگ کی بات کی تھی وہ فزکس کی سٹرنگ سے اتنی مختلف نہیں ہے اور یہ تھیوری کے طور پر شاعر کے فنی یا تخلیقی تجربے میں ویسا ہی کردار ادا کر سکتی ہے جو طبیعات دان کو “یُونی فِکیشن” کے تجربے میں ہو سکتا ہے یعنی کائنات کی چاروں قوتوں کو یک جا اور متحد کرنے کی ایک کوشش۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ کائنات لا متناہی مرتعش تاروں سے بنے ہوئے انرجی کے چھوٹے چھوٹے ذرّات پر مبنی ہے جو اپنے منفرد کمپن پیٹرن کے اندر اختیار و انسلاک کی آزادی کے ساتھ ایک دوسرے سے تعامل کرتے رہتے ہیں۔ یہی تعامل فطرت اور کائنات کی سائنسی تفہیم میں نئی بصیرتیں وا کرنے کا داعی ہے۔
سٹرنگ تھیوری اسی تعامل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تخلیقی عمل میں بھی تاروں کا یہی وائبریشن سٹیٹس کارِ فرما ہوتا ہے جس کے تحت الفاظ، خیالات، اصوات، الوژن، رمز، کنائے، تلازمے اور استعارے جیسے عناصِر جو خود مختار بھی ہوتے ہیں اور باہم مربوط بھی، جذبہ و احساس کو مہمیز کرتے ہُوئے اوراس اصول کی پیروی کرتے ہُوئے جو اثر و اتحاد کو جنم دیتا ہے، اپنے انصرام سے شعری تجربے کو ایک ایسی ہیئت میں ڈھال دیتے ہیں جسے فن پارہ کہتے ہیں۔
فن کی یہ ہیئت اصلاً نئی بصیرت پر مبنی ایک ہیئت ہوتی ہے۔ معاصر ادب کے منظر نامے میں کتنے شُعَراء ہوں گے جو ایسی ہیئت کی تشکیل کے لئے سرگرداں ہیں اور پھر ہیئت بھی غزل کی جو مضامین کے بندھے ٹکے زمروں کے ساتھ بحر اور ردیف قافیے کا ایک مخصوص سانچہ رکھتی ہے او ریزہ خیالی کی ایک روش بھی جو روایتی طور پر شعَراء کے لاشعورمیں بسی ہُوئی ہے۔ ہیئت کی اس جستجو میں “طلسم” کی غزلیں الل ٹپ توجہ کھینچ لیتی ہیں تو یہ بہت بڑی بات ہے۔
تجلیلِ ذات کا رویہ “طلسم” غزلوں کا وہ بنیادی رویہ ہے جس کے تحت انسان محض مخلوق نہیں، دیوتا جیسی آسمانی پرواز بھی رکھتا ہے۔ وہ مکیالِ وجود و شہود بھی ہے اور پیمانۂ احوال و امکان بھی۔ اخلاقی فضائل اس کا مسئلہ نہیں۔ اس کی کثیر الجہتی مقامیت سے لے کر آفاقیت تک اور آفاقیت سے لے کر مقامیت تک تقافتی اور تہذہبی آثار کو اپنی وجودی جَست سے گرفت میں لینے کی طرف مائل رہتی ہے۔
ان غزلوں میں انسانی اور الوہی رشتوں کے خمیر میں گندھا ہوئے ایک ایسے سورما کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جو کائنات کو اپنے راستے کا پتھر نہیں، اپنی تگ وتاز کا میدان خیال کرتا ہے۔ خاص طور پر لمبی بحور والی غزلوں کا تصویری کینوس ان کے لغوی کینونس کی طرح بہت وسیع و عریض ہے۔ بین الاقوامی، بین الثقافتی، بین المذہبی، بین الفکری رنگ باہم گھلے ملے ہیں۔ ان میں دریائی، حجری، بحری، اساطیری، نباتاتی، فلزاتی، حدیدی، جنگلی، دیو مالائی، صحرائی، داستانوی، طلسماتی، فلکی، زمینی اور ساحلی بُو باس گیرائی اور گہرائی کے ساتھ رچی ہوئی ہے۔
یہاں دانشِ قدیم و افکارِجدید کی لہریں ایک دوسری کو کاٹتی ہوئی گزر جاتی ہیں۔ مظاہر و اشیاء، فضا و ماحول اور لفظیات وتراکیب کا اتنا تنوع شاید ہی کسی معاصر غزل گو کے حصے میں آیا ہو۔ پینگ کی طرح ہلکورے لیتی ہوئی یہ غزلیں حسیات کو بھی مہمیز لگاتی ہیں۔ تخلیقی وفور گمان اور یقین کو آمیخت کرتا ہے توان کی نظارگی اور بھی دیدنی ہو جاتی ہے۔ یہاں انسان کے لطیف اور کثیف دونوں وجود متحرک ہیں۔
ان غزلوں کا متکلم جو راوی بھی ہے اس کی شخصیت چکر ویو کی طرح مدور بھی ہے اور پیاز کی طرح پرت دار بھی۔ اس کا تعلق کسی ایک تہذیب سے نہیں، متعدد تہذیبیں اس کے خون میں گرداں ہیں۔ فکر و فلسفہ اور احساسات و جذبات کے کئی دھارے اس کے اندر بہتے ہیں۔ ان غزلوں کے ہیرو کی رسائی اکاب و اکشک، فنیقی اور زدونی، متعدد اشہار و اقوام تک ہے۔ وہ دینیاتی ہے، مکاشفوں کا آمن ہے، ہوس کا دیوتا ہے، یوسف کی طرح پاک دامن ہے۔ زلیخا کی تڑپ بھی اس کی روح میں سمائی ہوئی ہے۔ وہ کبھی منصور کا نعرہ لگاتا ہے کبھی فرعون بن کر مغرور ہونے کے واردے کو محسوس کرتا ہے۔ بہلول کی خوش نظری بھی اسے عطا ہوئی ہے۔ چرچ کی دعا، زبور کا ترانہ حتیٰ کہ انترہ اور استھائی بھی اس کے قلبِ حزیں میں نشوونما پاتے ہیں۔ گنجِ مخفی بھی وہی ہے اور دخانِ افعی بھی۔ وہ تیر زن کو بانسری اور پھول بھیجتا ہے۔ وہ ایسی فضا کو خلق کرتا ہے جہاں شاخ پر چراغ اور طاق پر پھول رکھا ہوا ہے۔ چیزیں بازیگرانہ ادا سے ایک شے سے دوسری شے میں بدل جاتی ہیں۔ وہ شاعری ہی کیا ہے جو کایا پلٹ نہ کرے اور بصیرتوں کا عکس در عکس سلسلہ نہ قائم کر سکے۔
یہ وہ شاعری ہے جہاں پیڑ بولتے ہیں۔ حیرت کو منظر اور نیند کو رستہ مل جاتا ہے۔ ان غزلوں کی پیش آگہی سے دامن نہ بھرنا زندگی کی عطا کو ٹھکرانے کے مترادف ہو گا۔ ضمیر قیس ایسا شاعر ہے کہ اگر کوئی اس کے سامنے انا مندی کے ساتھ جھولی پھیلا کر کھڑا ہو یا عِجز و نیاز کے ساتھ دامن پسارے بیٹھا ہو وہ عطا کرنے کے معاملے میں ایک دیالو سے کم نہیں گو کہ اسے اپنی خست کا بھی پورا پورا ادراک ہے۔ اس کی غزل کا متکلم یا کبیری کردار بہت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس کے عقب میں خود شاعر کی اپنی ذات ہی چھپی ہوئی ہے جو کئی ذوات کا مجموعہ ہے اور اسی لیے اس کا میزان اس کے اوسط سے زیادہ نظر آتا ہے۔
ذرا غور فرمائیں، اسمائے صفات کی رم جھم میں بھیگی ہوئی یہ ہستی کس کی ہے؟ یہ آدمی کون ہے جو اثبات و نفی اور ترادف و تضاد سے اپنی سبھا جماتا ہے۔ نقیضین و ضدین کے امتزاج اور توحید و تکثیر کے مضافین سے نئی راہیں نکالتا ہے۔ یہ اپنے عوالم میں عین بھی ہے اعیان بھی، دہقان بھی ہے فن کار بھی، مرید بھی ہے مرشد بھی، فقیر بھی ہے بادشاہ بھی، قوی بھی ہے کم زور بھی۔ حرص اورلالچ اس کی گھٹی میں ہے لیکن کفرانِ نعمت بھی اس کا شیوہ نہیں۔ ہیرو شپ کا المیہ بھی اس کو درپیش ہے۔ فیض احمد فیض نے تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کا ذکر کیا تھا۔ ضمیر قیس نے ان شہیدوں کی جھلک دکھائی ہے جو منظرِ عام پر نہ آ سکے، جن کو خاکروبوں نے دفنا دیا۔ جب نظام ابتر ہو جاتا ہے تو غلاموں پر داشتاؤں کو فوقیت ملتی ہے اور سگانانِ اشراف کے راتب کی توقیر بڑھ جاتی ہے۔
ضمیر قیس کی آنکھ تاریخ کے ایک لمحے پر نہیں، وقت کی پوری تاریخ پر مرکوز ہے۔ لگتا ہے وہ صدیوں کا بیٹا ہے۔ کہیں وقت اس کے قدموں کے نیچے سے گزرتا ہے اور کبھی سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے “آگ کا دریا” کے گوتم نیلمبر کی ایک جھلک بھی اس کے اندر نظر آتی ہے۔ ضمیر قیس کے گوتم میں یہ وصف بھی ہے کہ وہ صدیوں کے بوسیدہ نغموں کو سنتے سنتے ایک دن تازہ لے کھینچ کر خود ساز بن جاتا ہے۔ گوتم کے اندر بھی ایک جنگل ہے اور اس کے ارد گرد بھی ایک جنگل ہے۔ اس کی بے گھری اور گھر داری جنگل سے جُڑی ہوئی ہے اور شہر سے بھی۔ اس کی کہانی ایک ایسے شہر کا کچا چٹھا کھولتی ہے جو اب ملبہ بن چکا ہے۔ زینے جو آباد تھے اب اجڑ چکے ہیں۔ کھڑکیاں جو خوش وضع تھیں، اینٹیں جو کبھی رنگوں سے معمور تھیں اب ان پر اداسی کا دھواں پھیلا ہے۔ ہجرت کے آشوب میں اس گوتم کو لوکی کا شوربہ اور انگوروں کی شراب یاد آتی ہے۔ پھولوں کی باڑھیں اسے اپنی طرف کھنچتی ہیں اور روشنی کے فوارے اس کی آنکھوں میں تَیر جاتے ہیں۔ اس کی دانش جانتی ہے کہ پیڑ سایہ نہ دے تو رائیگاں ہوتا ہے۔ سالار کی زرہ ہی میں اس کا سارا حُسن ہوتا ہے۔ کشتی کی دوستی دریا سے ہوتی ہے اسی لئے وہ اس کی رازداں ہوتی ہے۔
ضمیر قیس نے لمبی بحور والی غزلوں میں جن منظروں کو دریافت کیا ہے اور جن دنیاؤں کی بازیافت کی ہے ان کی تفہیم کے لئے لازم ہے کہ انہیں ایک تسسلسل میں پڑھا جائے۔ “عمود” کی لمبی بحروالی غزلیں بھی شامل کر لی جائیں تو نشہ دو آتشہ ہو جائے گا۔
ضمیر قیس پوری غزل کا شاعر ہے۔ اکثر اوقات اس کی پوری کی پوری غزل متوجہ کرتی ہے۔ اس کے اشعار بھی جہاں الگ الگ اکائیوں کی طرح اپنی حیثیت برقرار رکھتے ہیں وہاں اپنے تناظر کا احساس دلاتے ہوئے ایک دوسرے سے جڑ کر بھی غزل کو اکائی کی وحدت میں ڈھالتے ہیں۔ گویا اس کی غزل نظم کی موضوعیت کے متوازی جُز (یعنی شعر جو اپنی اکائی میں ایک کُل ہوتا ہے) اور کُل (یعنی پوری غزل جو متعدد اشعار کی اکائیوں پر مبنی ایک کُل ہوتی ہے) دونوں کے تعامل میں اپنے اختیار اور انسلاک کو قائم رکھتے ہوئے بہ یَک وقت موضوعیت کا ایک متنوع اور متحد سلسلہ خلق کرتی ہے۔ از راہِ امتثال یہ غزل ملاحظہ کیجیے:
مٹی ہاتھ لگا لیتی ہے ، پانی مَس ہو جاتا ہے
چاک پہ آتے آتے کوزہ خود بے بس ہو جاتا ہے
دن بھر کرنوں کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں دل میں
شام کے بعد یہ گرجا عیسیٰ کا محبس ہو جاتا ہے
اچھا تو اس کیکر پر زیتون کی شاخیں جھکتی ہیں ؟
اچھا تو یہ ہجر ہے جو ہجرِ اقدس ہو جاتا ہے
قندیلیں سی جل اٹھتی ہیں، اشتر پھرنے لگتے ہیں
بعض اوقات یہ ٹاٹ یہ خرقہ سب اطلس ہو جاتا ہے
پہلے میں ماحول میں لے کر آتا ہوں اک خارج کو
پھر وہ خود ماحول کا جزو و پیش و پس ہو جاتا ہے
چورس ہو جاتی ہیں سب قوسیں میری پُرکاروں کی
کاغذ پر جو پھول بناتا ہوں کرگس ہو جاتا ہے
گودی کرتا ہوں تو مدفن صدیوں کے مل جاتے ہیں
وقت اُگاتا ہوں تو مشتِ گرد و خس ہو جاتا ہے
گِرتا ہوں تو بڑھ جاتی ہے اِک مایوسی لشکر میں
سانس اگر لیتا ہوں تو دشمن چوکس ہو جاتا ہے
دھیرے سے اک قرآت سی ہوتی ہے مجھ میں اور ہر کام
کیسے کا تو علم نہیں ہے مجھ کو بس، ہو جاتا ہے
آدھی قیمت پر لے آتا ہوں سنگِ بنیاد ضمیر
اک چوتھائی نرخ پہ یہ کتبہ واپس ہو جاتا ہے
لا ریب اس غزل کا اپنا ایک مقام اور اپنا ایک مدار ہے۔ ٹھہراؤ اور استقرار کی اپنی حالتیں ہیں۔ وجود کے رموز بھرے احساسات کی پیش کش کا اپنا ایک تقلیبی نظام ہے۔ خیال کو ردیف اور قافیے کے مشکل ترین انسلاک میں بھی کروٹ دے کر جُزوِ فن بنا لینا اور پھر شعر کو اپنے باطن کے غم میں بھگو کر ہرا بھرا کر دینا، یہ ایک وصف ہے جو بہ طورِ غزل گو ضمیر حسن کے حصّے میں آیا ہے۔ اصلاً یہ غزل اپنی ڈائمینشن اور ڈائریکشن میں جُز اور کُل، دونوں سطحوں پرایک فن پارہ ہے۔ کیا ان سطحوں کے مطابق اس غزل کی تشریح کی جا سکتی ہے؟ چاہے شارح خود شاعر ہو یا کوئی ناقد۔ ایک اورغزل دیکھیے جس کے بارے میں جلیل عالی نے ب٘ہ جا طور پر کہا تھا کہ یہ غزل بھی ضمیر قیس کی بر تر سطح کے تخلیقی فکر و احساس کی زائیدہ غزلوں کی ہم قامت ہے:
تنہائی کو رحل بنایا، حیرت کو فانوس کِیا
پہلی بار خدا کو ہم نے یاد نہیں، محسوس کِیا
غیب کے باغ کا نقشہ کھینچا کچھ نادیدہ رنگوں سے
اک منظر کے اندر لا کر اک منظر محبوس کیا
بے تابی کے زہر میں گھولا صبر کی میٹھی بوندوں کو
تب جا کر سمجھے کیوں رب نے نبیوں کو مبعوث کیا
مجذوبوں میں کاٹی وہ جو رات اہانت والی تھی
رقص برہنہ ہو کر ہم نے تا صبحِ ناموس کیا
سوز لیا داؤد سے تو جھل٘اہٹ اسرافیل سے لی
اک لہجہ مضراب بنایا اک لہجہ ناقوس کیا
کہتے ہیں اک ساتھ زمیں پر اُترے تھے انساں اور پھول
اک نے شبنم اوڑھی اک نے مٹی کو ملبوس کیا
روز پرندے چھت پر آکر تسبیحیں سن جاتے تھے
آخر بستی والوں نے دن گریے کا مخصوص کیا
اپنی مَیں کو مارا، روٹھے لوگوں کو آوازیں دیں
آج تو اپنے آپ کو مَیں نے جی بھر کر مایوس کیا
عمرِ ضمیر نہ ضائع ہونے دی وحشت کے جنگل میں
سوکھے پتوں کا دکھ سمجھے، پیڑوں کو مانوس کیا
ضمیر حسن شعر گوئی کے مسلسل ٹرانس میں رہنے والا ایک غوطہ زن ہے جو ہر بار چمکتے ہوئے موتی ڈھونڈ کر لاتا ہے۔ اِس غزل میں اُس نے جس وفور کے ساتھ تجسیم میں تحلیل اور تحلیل میں تجسیم کا زاویہ خلق کیا ہے، اس کا جواب نہیں۔ اُسے تاریخی اور تمدنی و تہذیبی شعور کو اشاراتی انداز میں برتنے کا ہُنر آتا ہے۔ نئے اور انوکھے واردوں سے سجی ہُوئی یہ غزل اُس کی کلامی طاقت کا ایک بہترین نمونہ بن گئی ہے۔
چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر ہماری تنقید میں ایک کُل کے طور پر پوری غزل کے مدرکات کو سمجھنے کی کاوشیں نہیں کی گئیں۔ زیادہ تر اشعار ہی کو فنی و فکری حوالے سے زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ بعض ناقدین نے نظموں کے تجزیوں کی طرف دھیان تو دیا ہے لیکن عمومی طور پر پوری نظم کے بَہ جائے اس کے اقتباسات کے ذریعے موضوع یا اسلوب کی طرف اشارہ نمائی ہی کو کافی سمجھا گیا ہے۔ میں یہاں بہ طورِ مثال ضمیر قیس کی ایک اور “پوری غزل” پیش کر رہا ہوں تا کہ اس کا نظریۂِ فن بھی واضح ہو سکے:
دل میں تھی پاتال کی سیلن، ریشہ ریشہ گارے میں
سوچا تھوڑی آگ جلا لوں اِس ٹھنڈے سی٘ارے میں
فقر مصلےٰ کوزے چلمن، پھول کتابیں تسبیحیں
کتنے زینے ہو سکتے ہیں آخر اس مینارے میں
اک مشکیزہ، جَو کی روٹی، عورت کا مَس کافی ہیں
اور میں کتنے برِ٘ اعظم دھرتا اک پشتارے میں
اِن کھپریلی سرخ چھتوں سے چٹیل سر میدانوں تک
تابوت و اعصاب چٹختے جاتے ہیں نظ٘ارے میں
اک فرتوت فرشتہ باہر کے ساحل پر جال لیے
اک تازہ دم کشتی کھیتا ہے اندر کے دھارے میں
سرکش اونٹ سدھائے میں نے، وحشی گھوڑے رام کئے
خیر لچک ممکن بھی کتنی ہو سکتی تھی پارے میں
پیتل، کانچ، درانتی، گھنٹی، نیزے، زنجیریں، زرہیں
اک اک اینٹ سے چَسپاں ہیں مجھ کاہن کے چوبارے میں
بادل گرجا، بارش برسی، پھول کھلا، تالاب ہنسے
شب جس نے بھی خواب یہ دیکھا، اب چپ ہے اس بارے میں
دشت کے تہہ خانوں میں گونجے قیس کا ہنکارا جیسے
گیت پہاڑی رق٘اصہ کا جوگی کے اکتارے میں
بلا شُبہ اس غزل کی فضا میں تہذیبوں کی ایک وسعت اور کشش ہے۔ فقیرانہ لب و لہجے کے ساتھ تلازماتی، استعاراتی اور سب سے بڑھ کر محاکاتی جمال نے یک جا ہو کر اپنا رنگ اور اثر دکھایا ہے۔ یہاں پشتارے مینارے اور چوبارے انسانی وجود کی مرئی اور غیر مرئی فتوحات کا اعلامیہ بھی ہیں اور عجز کے نشانات بھی۔ شاعر کا وجود پارے کی لچک یعنی خود اپنی سیمابیت سے مطمئن نہیں۔ وہ تو مزید زینے تعمیر کرنا چاہتا ہے، مگر مینارے میں اتنی گنجائش کہاں ہے۔ پُشتارے میں جَو کی روٹی اور مشکیزے کے پانی کے ساتھ عورت کا لمس کیا سمایا کہ کتنے ہی برِّاعظم چھوٹے پڑ گئے۔ اس غزل میں آگہی کا نقشہ چلمن کے اِس طرف بھی دیکھا جا سکتا ہے اور اُس طرف بھی۔
مجھے یاد ہے اس غزل کی فیس بک پوسٹ پر کسی صاحب نے اپنے کومنٹ میں لکھا کہ سر جی غزل پڑھی لیکن آدھی غزل تو کیا ایک شعر کا بھی پورا مفہوم ذہن میں نہیں آیا۔ رپلائی میں ضمیر حسن کا کہنا تھا کہ “شاعری یا زبان کا معاملہ بھی اس پانی جیسا ہے جسے بند برتن میں رکھ چھوڑنے سے بُو پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے، اس لیے اس پانی کو ہلانا ضروری ہے۔ یعنی شاعری اگر اپنے لگے بندھے روایتی انداز و اسالیب میں رہے گی تو اکتاہٹ پڑھنے ہی نہیں لکھنے والے کو بھی ہو جاتی ہے۔ یہ غزل جدید و تجرید کا آمیزہ ہے۔ اس میں قدرے نظمیہ زبان کا استعمال ہے۔ استعارات و علائم اور تزئین میں یہ شاعری نیکسٹ لیول ہے۔ آپ ن م راشد، مجید امجد، رفیق سندیلوی کو پڑھیں گے تو پھر میرا شعر آپ پر آسان ہو جائے گا۔”
یہاں میرے نام کی شمولیت کو “جرآتِ مدحِ عدو” کا شاخسانہ ہی سمجھا جائے تو بہتر ہو گا البتہ ضمیر قیس کے شعری سفر کی سمت بالکل درست ہے۔ اصلاً وہ تحرک اور تجدد کا شاعر ہے۔ اس کا اپنی شاعری کو شاعری نیکسٹ لیول کہنا تعلّی نہیں، ایک ادراک ہے بل کہ ایک حقیقت ہے جسے کُھلے دل سے قبول کرنا چاہیے۔
شروع ہی سے میرا یہ مؤقف رہا ہے کہ غزل ایک خون آشام صفِ سخن ہے۔ خون پی کر بھی یہ خوش نہیں ہوتی۔ شاعر اسے خون پلاتے پلاتے مر جاتے ہیں۔ ان کی جگہ نئے شاعر لے لیتے ہیں۔ مجموعوں کے انبار لگتے چلے جاتے ہیں لیکن کڑے انتخاب میں چند ایک اشعار یا اکا دکا غزلیں ہی بہ مشکل سما پاتی ہیں۔ زیادہ تر شعراء کا دامن تو خالی ہی رہتا ہے۔ جب کوئی نیا یا توانا غزل گو نئی بصیرتیں اور انوکھی حیرانیاں لئے جلوہ گر ہوتا ہے تو غزل کے رسیا پروانوں کی طرح اس کے اردگرد جمع ہو جاتے ہیں۔ دُعا گو ہوں کہ ضمیر حسن کی شاعرانہ تجلی کبھی تیرگی کی زد پر نہ آئے اور وہ اس طرح کے اشعار کہتے رہیں جو اپنی “ہستی” میں زندہ رہ جانے کا اعلامیہ بننے کا عندیہ دیتے ہوں۔
“طلسم” کے اشعار کا یہ انتخاب ملاحظہ کیجیے جو اپنے دروں میں ایک ایسا کمپن پیٹَرن رکھتا ہے جو منفرد بھی ہے اور اپنے وائبریشن سٹیٹس کے باعث قرأت کی سٹرِنگ کو مرتعش بھی کرتا ہے:
میں نقش تھا مرے رنگوں کو چھو لیا کس نے
یہ کس کی آگ میں جل جل کے صندلیں ہُوا میں
٭٭٭
روز مسمار بھی کرنے میں چلا جاتا ہوں
خواب میں کوئی عمارت بھی نہیں ہوتی ہے
٭٭٭
عکس در عکس ٹھکانہ بھی بنا لیتا ہوں
خواب کو آئنہ خانہ بھی بنا لیتا ہوں
اک خزانے کا میں کرتا ہوں تصور اور پھر
اس تصور کو خزانہ بھی بنا لیتا ہوں
نقش کرتا ہوں اگر ہونٹ دلاسے کے لیے
سر کہیں رکھنے کو شانہ بھی بنا لیتا ہوں
جو نہ چھپتا ہو چھپاتا ہوں اسی راز کو میں
جی میں آئے تو فسانہ بھی بنا لیتا ہوں
پھول کی ڈھال بناتا ہوں اور اس عرصے میں
پھول کو اپنا نشانہ بھی بنا لیتا ہوں
٭٭٭
میں جزیرے کا آخری دل ہوں
عورتیں خوش نہ دیوتا مجھ سے
٭٭٭
میں پھول بھیج دوں لیکن یہی اذیت ہے
ہراز وسوسے ذہنِ عدو میں آتے ہیں
اگر نہ ڈھونڈنے جاؤں چراغ میں کچھ دن
تو پھر چراغ مری دسترس میں آتے ہیں
٭٭٭
میں جانتا تھا کہ ہنستے ہیں دیکھ کر مجھ کو
پُرانے پیڑ تھے یوں بھی انھیں معافی تھی
یہ زہر آج اگ اُگلنے نہیں لگا ہوں میں
ازل سے مجھ کو ودیعت کلام بافی تھی
٭٭٭
کشتیاں جشن مناتی ہیں کہ جاری ہے سفر
آدمی دور کنارے سے بھی ہو جاتا ہے
اینٹیں ملبے سے سلامت بھی نکل آتی ہیں
کچھ نہ کچھ نفع خسارے سے بھی ہو جاتا ہے
٭٭٭
روح کے زخم چھپانے میں لگا ہوں لیکن
مجھ سے باہر مری آواز چلی جاتی ہے
راستہ دیکھتے رہنا بھی اذیت ہے ضمیر
بعض اوقات تو بینائی چلی جاتی ہے
٭٭٭
پہاڑ کے اس طرف ندی میں بہت سی پریاں نہا رہی تھیں
مگر گدڑیے کو حکم تھا کہ وہ اپنی آنکھوں کو بند رکھے
میں ایک لشکر سے دوجے لشکر میں جا نکلتا ہوں دیکھنے کو
کوئی تو سالار ہو جو سینے میں دل ذرا درد مند رکھے
٭٭٭
پھر ہُوا یوں کوئی دیوار نظر آئی مجھے
میں سمجھتا تھا مرا دیکھنا الہامی ہے
٭٭٭
جو نہیں بنتی تھی اک روز بنی وہ تصویر
پھر جو تصویر بناتا تھا وہی بنتی تھی
٭٭٭
اک تیر کہ ہو جس کو ضرورت بھی گلو کی
اک زخم کہ شہ رگ سے پرے بھی ہوقریں بھی
اک قرب نہ ہو جس میں تکلف بھی ذرا سا
اک ربط کہ جس پر ہو ذرا شک بھی یقیں بھی
ممکن ہی نہیں ایسی اذیت کا ازالہ
جب عشق کسی سے ہو ضمیر اور نہیں بھی
٭٭٭
کہ اب تو ہارے تھکے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں
بلا کا فقر مرا حرص بے پناہ مری
٭٭٭
اس طرف بھی کسی کھڑکی میں تجسس تھا کوئی
بے سبب پردۂِ امکان اٹھایا میں نے
موج تو خیر توجہ نہ کبھی کھینچ سکی
کشتیوں سے بھی مگر دھیان ہٹایا میں نے
٭٭٭
مگر میں ہل کی مرمت کا کام سیکھوں گا
اگر چِہ ربط دُعا سے بحال ہوتا ہے
٭٭٭
مرا ارتقاء یہی ہل چلاتی مشین ہے، یہی پیڑ ہیں
میں مثال اپنی قدامتوں کی میں خیال عصرِ جدید کا
٭٭٭
قید ہونے کو بناتا ہوں
کوئی خود میں سرنگ
بچ نکلنے کو دہانہ بھی بنا لیتا ہوں
٭٭٭
میں خود سرنگ سے نکلا ہوں بے سراغِ ضمیر
تلاش ختم نہیں کی سرنگ نے میری
٭٭٭