ڈاکٹر رفیق سندیلوی کی نظم ”اگر مَیں واقعی غائب ہُوا ہوں“
از، سلطان ناصر
جدید نظم کی مثال اُس اجنبی حُسن کی سی ہے جو اپنی جانب کھینچتا تو ہے، مگر اپنی حقیقت آسانی سے آشکار نہیں کرتا۔ گویا کمالِ سپردگی میں بھی ایک گُریز رکھتا ہے، کمالِ عنایت میں بھی ایک تغافل۔ چناں چِہ ادب کو وقت گزاری اور شاعری کو تفریح کے لیے پڑھنے والے بے مروّتوں پر جدید نظم خود کو نہیں کھولتی۔
جدید نظم کے حُسنِ شیریں تک پہنچنے کے لیے ایک ایسے مشقتی کی جاں فشانی چاہیے جو کوہ کَنی بھی جانتا ہو اور ”سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود“ بھی نہ ہو۔ زیرِ نظر سطور میں خالص جدید نظم کے نمائندہ شاعر ڈاکٹر رفیق سندیلوی کی ایک پُر معانی، مگر گنجلک نظم ”اگر مَیں واقعی غائب ہُوا ہوں“ کی تفہیم اور اس کے تجزیے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ نظم بہت suggestive ہے اور اِسے کئی سطحوں پر پرکھا جا سکتا ہے۔ پہلے نظم ملاحظہ کیجیے:
ایک شب مَیں
گھومتی کرسی پہ بیٹھا تھا
سفیدی اور سیاہی میں گِھری
رنگوں بھری سکرین کے آگے
اُفق پر
دھیرے دھیرے
اِک سنہری
ریشمیں تصویر
بے صوت و صدا
اپنے ہی اَجزاء کے تحیّر میں
عموداً کُھل رہی تھی
سیدھے کونے میں
کسی دُنیا کا نقشہ
چوکھٹے میں
عاجزانہ سی روانی سے
مسلسل گُھومتا تھا!
ایک کھڑکی میں نئی کھڑکی
نئی کھڑکی میں
آگے اور کھڑکی
کھڑکیوں کا سلسلہ تھا
مرکری لہروں میں
کتنے پیکروں کا
رَس بھرا
مخلوط و مُدغم رقص تھا
اِس رقص میں
اِک شخص تھا
جو چند لمحے قبل تو
اِس گُھومتی کُرسی پہ بیٹھا تھا
مگر اَب وُہ بھی غائب ہو گیا تھا
جس جگہ پر
وقت اور تاریخ
دونوں ہی نُمایاں تھے
وہاں
یا پھر کہاں
تحلیل کی کس سمت میں
کچھ کہہ نہیں سکتا!
اگر مَیں واقعی غائب ہُوا ہُوں
تو سفیدی اور سیاہی میں گِھری
تصویر کا سایہ
زیادہ دیر تک
رنگوں بھری سکرین کے نُقطوں میں
قائم رہ نہیں سکتا!
پہلی قرأت میں نظم کا ظاہری منظر نامہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نظم کا متکلم ایک گھومتی کُرسی پر بیٹھا ہے اور سامنے میز پر کمپیوٹر کی سکرین کھلی ہے۔ وہ سکرین پر ایک ساتھ کئی وِنڈوز کھول کر مختلف کام کر رہا ہے؛ چُوں کہ وہ ساتھ ساتھ کئی لوگوں سے ویڈیو چَیٹ بھی کر رہا ہے لہٰذا سکرین پر ایک ایسی وِنڈو بھی کھلی ہے جس میں گھومتی کُرسی پر بیٹھے متکلم کا اپنا عکس نمایاں ہے۔
سکرین پر دُنیا کا نقشہ نظر آتا ہے اور مختلف خِطّوں میں موجود افراد جو اس متکلم سے ویڈیو چَیٹ کر رہے ہیں، نظر آتے ہیں۔ دُور دراز بیٹھے یہ لوگ گویا ایک ہی رقصِ انبوہ کا حصّہ بن جاتے ہیں۔
سکرین پر کھلتی کھڑکیاں بصری، جب کہ مرکری لہریں سمعی اثر ظاہر کرتی ہیں۔ یہاں اچانک کچھ غیر متوقع مسئلہ واقِع ہو جاتا ہے۔ واضح نہیں کہ یہ مسئلہ کیا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ یہ مسئلہ متکلم کے ذہن میں پیدا ہُوا ہے یا پھر کمپیوٹر کے سافٹ ویئر میں۔
بہ ہر حال اس مسئلہ کے باعث متکلم کی کلام کرتی تصویر، سکرین کے اُس مقام پر جا کر غائب ہو جاتی ہے جہاں وقت اور تاریخ نظر آ رہے ہوتے ہیں (جیسا کہ عموماً کمپیوٹر سکرین کے دائیں زیریں حصّے میں وقت اور تاریخ نظر آتے ہیں)۔ غالباً رات گئے کا وہ لمحہ ہے جب متکلم نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں ہے۔ وہ ٹھیک سے اندازہ نہیں لگا پاتا کہ وہ خود اپنی گھومتی کُرسی سے غائب ہُوا ہے یا فقط اُس کا عکس ہی ہے جو غائب ہُوا ہے۔ متکلم سوچتا ہے کہ اگر وہ خود اپنے مقام سے غائب ہُوا ہے تو پھر سکرین پر اُس کا عکس بھی زیادہ دیر نہ رہ پائے گا۔
اب نظم کو استعاراتی اور علامتی سطح پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہانی ”ایک شب“ سے شروع ہوتی ہے۔ شب کا تعلق تنہائی، غور و فکر، مراقبے اور تخلیقی عمل سے ہے۔ ”گھومتی کُرسی“ نظم کے متکلم کے ابنُ السّبیل ہونے کی علامت بھی ہو سکتی ہے اور شش جہات کو دیکھ سکنے کی آئینہ دار بھی۔ یہ ایک ایسی پُرکار بھی ہے جو خود کو مرکز مان کر گھومتی ہے۔ ”سفیدی اور سیاہی“ دن اور رات یا خوب و زشت ہیں، جب کہ ”رنگوں بھری سکرین“ یہ جہانِ رنگ و بو ہے۔ شاعر ”کسی دُنیا کا نقشہ“ دیکھ رہا ہے۔
آبِ روانِ کبیر، تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
(مسجدِ قرطبہ)
مگر یہ نیا زمانہ ہے۔ یہاں نقشہ بھی ایک مقام پر قائم نہیں رہتا، بل کہ کُرسی کی طرح گھومتا چلا جاتا ہے۔ گویا کہ متکلم خود ہی چکر میں نہیں، بل کہ وہ جس دُنیا کا باشندہ ہے وہ دُنیا خود بھی چکر میں ہے۔ کھڑکیوں پہ کھڑکیاں اور منظروں پہ منظر کھلتے چلے جاتے ہیں۔ مگر دیکھنے نہ دیکھنے کی یہ صورت زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ متکلم من حیثُ الفرد اگر چِہ فنا کے گھاٹ اُتر جاتا ہے مگر وہ مِن حیثُ النّوع اپنی بقاء کی اُمید رکھتا ہے۔ نظم کا اختتام ایک بار پھر اُس قدیم تصور کی جانب لے جاتا ہے جہاں انسان کو ہی مرکزِ کائنات سمجھا گیا اور خارج میں موجود جملہ جلوہ سامانیوں کو اسی کے وجود سے مشروط کر کے دیکھا گیا۔
انسان کے لیے اُس کا اپنا وجود ایک ایسا پیمانہ ہے جس میں وہ اپنے سمیت ہر شے تولتا ہے۔ اپنے وجود سے ہی انسان دُنیا کے وجود کا اندازہ لگاتا ہے۔ خود کو منفی کر لے تو اُس کے لیے اشیاء اپنے معانی کھو دیتی ہیں۔ یہیں سے یہ بحث سر اُٹھاتی ہے کہ کیا حقیقت نامی کوئی شے واقعی وجود رکھتی ہے؟ اگر ہاں، تو کیا انسان کے باطن میں وجود رکھتی ہے یا اس کے خارج میں؟ کیا انسان کے لیے اپنے تصوّر کے بغیر کسی معروضی سچائی کا تخیل ممکن ہے؟ نظم کا اختتام شاعر کے اِس اعتقاد پر ہوتا ہے کہ اگر متکلم (یا انسان) صفحۂ ہستی سے مٹنے لگا تو پھر کچھ بھی باقی رہنے والا نہیں۔ اور اس کا استدلال اِس امر سے کیا گیا کہ user کے غائب ہونے کے بعد screen سے اس کی تصویر بھی جلد ہی غائب ہو جائے گی۔
اگر مَیں واقعی غائب ہُوا ہُوں
تو سفیدی اور سیاہی میں گِھری تصویر کا سایہ
زیادہ دیر تک
رنگوں بھری سکرین کے نُقطوں میں
قائم رہ نہیں سکتا
گویا حقیقت وہی ہے جسے انسان نے حقیقت مان لیا۔ یہ کچھ ایسی ہی بات ہے جیسے علمِ معانی (semantics) میں دال (signifier) اور مدلول (signified) کا باہمی تعلق سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ جس پر انسانی معاشرہ سمجھوتہ کر لے۔ یعنی یہ سب من مانا (arbitrary) ہے۔ انسان صدیوں کے اُلٹ پھیر میں موت کی پہیلی کا حل نہیں ڈھونڈ پایا مگر اس کی توجیہات میں لگا رہتا ہے۔
ظاہری منظر نامے اور استعاراتی و علامتی سطح کے بعد اب نظم کو مابعدِ جدید صورتِ حال کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ مابعدِ جدید دَور نے سیاہی و سفیدی کی تفریق کی بجائے سُرمئی منطقوں کی اہمیت کو اُبھارا ہے۔ چناں چہ اس میں حقیقت و مجاز، خوب و زشت، حق و باطل اور صدق و کّذب کے امتیاز کو ختم کرنے کا رجحان ہے۔ آئن سٹائن کا نظریۂ اضافت اگر چِہ بنیادی طور پر طبیعیاتی تھا مگر فلسفہ و ادب میں بھی اس کے اثرات آن پہنچے جن سے حقائقِ اشیاء کو لگے بندھے زاویوں سے دیکھتے رہنے کی حوصلہ شکنی کی گئی۔
زیرِ نظر نظم میں ”سفیدی اور سیاہی“ کو اِسی پسِ منظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ سفیدی سے مُراد حقیقت، خوب، حق اور صدق ہیں جب کہ سیاہی سے مراد مجاز، زشت، باطل اور کِذب ہیں۔ اگرچہ سفیدی اور سیاہی باہم نقیضین یعنی ایک دوسرے کی نفی کرنے والے ہیں مگر ما بعدِ جدید صورتِ حال میں متضاد تو کیا نقیضین بھی ایک دوسرے میں مدغم نظر آتے ہیں۔
یہ سفیدی اور سیاہی تو انتہائیں ہیں جن کے بیچ کئی دوسرے رنگوں سے بھری یہ سکرین متکلم کے سامنے کھلی ہے۔ ما بعدِ جدید انسان محض اپنی اقدار و روایات میں ہی نظریۂ اضافت کی الجھنوں کا شکار نہیں ہُوا، بل کہ خود اُس کا وجود ہی سوالیہ نشان بن گیا اور وہ اپنے ہی وجود کے غیاب و حضور کے مخمصے میں الجھ کر رہ گیا۔
گھومتی کُرسی پر بیٹھا انسان ظاہر ہے کہ مابعدِ جدید دَور کا انسان ہے۔ پُرانے ادوار میں ایسی گھومتی کُرسی کا رواج نہ تھا۔ ما بعدِ جدید مفکرین کے نزدیک پُرانے انسان کی مثال تانگے میں جتے اُس گھوڑے کی سی ہے جس کی آنکھیں صرف سیدھ میں دیکھ سکتی ہیں، دائیں بائیں نہیں دیکھ سکتیں۔ اسے tunnel vision بھی کہا جاتا ہے، یعنی جیسے سُرنگ میں چلتا شخص صرف ایک ہی سمت میں دیکھ پاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ما بعدِ جدید انسان بڑے فخر سے 360 ڈگری منظر دیکھ سکنے کا دعویٰ دار ہے۔ گھومتی کُرسی اِس 360 ڈگری منظر کا اظہاریہ ہے جو جسم کی ہلکی سی جنبش سے گھوم کر سمت بدل لیتا ہے۔ ہماری اکثر توانائیوں سے ہی ہمارے کم زور پہلو جنم لیتے ہیں۔ چناں چِہ شش جہاتی منظر کا ناظر ہونے کے زعم میں مبتلا ما بعدِ جدید انسان ایک نہایت قیمتی متاع گنوا بیٹھا جس کا نام ہے اِرتکاز۔ شاید اب تک اسے اِس رائیگانی کا کامل شعور حاصل ہی نہیں ہُوا۔
پھر آوازوں اور صورتوں کا ”مخلوط و مدغم رقص“ بھی مابعدِ جدید صورتِ حال کا اظہاریہ ہے۔ ایک ایسی صورتِ حال جس میں مختلف اصوات و مناظر یوں باہم آمیز ہیں کہ کوئی ایک صوت یا کوئی ایک منظر اپنی جداگانہ پہچان پیش کرنے سے قاصر ہے۔ بِلا شُبہ پہچان کی بحث مابعدِ جدید صورتِ حال کی اہم ترین ابحاث میں سے ہے۔ یوں تو ”سراب“ کے مظہر نے قدیم زمانے سے ہی فلسفیانہ و طبعیاتی ابحاث کو جنم دیا جس نے ایک طرف تو انسانی حواس پر بھروسے کو مشکوک قرار دیا تو دوسری طرف یہ نکتہ بھی اُٹھایا کہ ضروری نہیں جو نظر آتا ہے وہی سچ ہو۔
مابعدِ جدید صورتِ حال انسان کو سراب سے آگے hyper reality تک لے آئی جہاں حقیقت اور مجاز کا امتیاز مزید مشکل ہو گیا۔ یہ نظم بھی ایک طرح سے پہچان کی موت اور حقیقت و مجاز کے امتیاز کے خاتمے کا اشارہ کرتی ہے۔ یوں نظم کمال مہارت سے مابعدِ جدید انسان کی
صورتِ حال اور کیفیت کو پینٹ کرنے میں کام یاب دکھائی دیتی ہے۔