ارسلان احمد راٹھور
بیسویں صدی کے اواخر اوراکیسویں صدی کی ابتدائی دہائی میں علمی اور نظری سطحوں پر،مختلف شعبوں میں جس طرزفکر اور طریق کار نے اپنی جگہ بنائی ہے، اسے’ بین العلومیت‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔بین العلومیت ، دراصل مختلف اور متنوع علوم میں ربط تلاش کرنے کا نام ہے؛دوسرے لفظوں میں اسے علم کی وسیع اقلیم میں،’کثرت میں وحدت‘ڈھونڈنے کے عمل کا نام دیا جا سکتا ہے۔ بین العلومیت کے سلسلے میں جامعات کا کردار، جو کسی بھی معاشرے کی فکری اور دانش ورانہ تجربہ گاہیں ہوتی ہیں،انتہائی اہم اور کلیدی ہوتا ہے۔بد قسمتی سے ہماری جامعات میں مختلف شعبہ ہائے علوم کا باہمی رشتہ و عِلاقہ نہ ہونے کے برابر ہے؛لیکن،’’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘‘ کے مصداق بین العلومیت کی ایک عملی مثال “Indigenising Knowledge Forum(IKF)” کاوہ پہلا اجلاس ہے، جو جامعہ پنجاب ،لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز ،میں گیارہ اگست، ۲۰۱۶ء کو منعقد ہوا، اور تین گھنٹے تک جاری رہا۔ڈاکٹر زکریا ذاکر (ڈائریکٹرانسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز)اور ڈاکٹر احمد عثمان اس اجلاس کے میزبان تھے۔ اس اجلاس کی اہم اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اس میں مختلف شعبہ ہائے علوم کے ماہرین اور طلبا و طالبات نے شرکت کی، جن میں سے چند ممتاز نام یہ ہیں: ڈاکٹر ناصر عباس نیّر(شعبۂ اُردو، اورینٹل کالج)، شاہ زیب خان (شعبۂ انگریزی )،ڈاکٹر احمد عثمان (انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز)،ڈاکٹر امجد مگسی،(پاکستان سٹڈی سنٹر)،اراحیلہ راحت ،فوزیہ صدف،ڈاکٹر ثمین(نسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز)کرم سومرو(انسٹی ٹیوٹ آف کمیونی کیشنز سٹڈیز)، ڈاکٹر ضیغم عباس( مائیکرو بائیالوجی اینڈ مالیکیولر جینیٹکس)،ڈاکٹر احمد عثمان(انسٹی ٹیوٹ آف ساشل اینڈ کلچرل سٹڈیز)،ڈاکٹر محمد اسلام(انگلش لیگوئچ ٹیچنگ اینڈ لنگوئسٹکس) ،میر وحید (ساؤتھ ایشین سٹدیز)،تیمور کیانی ،ارم شکور خاں (شعبہ انگریزی)،ڈاکٹر محمد امتیاز شفیق(آئی بی بی)،اکمل سومرو،اقرا طارق (سٹی ۴۲،چینل )،عروسہ یوسف (آئی ایس سی)سمیرا سلیم (شعبہ انگریزی )،حسن جمیل (پی ای ای ایف)رضوان انور(شعبۂ انگریزی، جی سی یو) اور مِس ماہ رُخ نشاط(شعبۂ انگریزی، جی سی یو) ، عمارہ رشید(شعبۂ اُردو، سیال کوٹ ویمن یونی ورسٹی) اور ارمغان احمد(یو ای ٹی ، ٹیکسلا) وغیرہ۔راقم کو بھی اس اوّلین اجلاس میں شرکت کا موقع ملا۔
مختلف شعبوں کے لوگوں کا مشترکہ اہداف کے لیے ایک فورَم تلے جمع ہونا اپنی مثال آپ ہے اور اس کی جتنی بھی حوصلہ افزائی کی جائے کم ہے۔آئی کے ایف ،جسے ۱۹، جولائی ۲۰۱۶ ء کو پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ: شاہ زیب خان(محرک اوّل)،ناصر عباس نیرّ ، احمد عثمان ،ضیغم عباس،امجد مگسی،محمد اسلام ،اکرم سومرو نے مل کر قائم کیا۔یہ اپنی نوعیت کا ایک جداگانہ اور ممتاز فورَم ہے،اس فورَم کا بنیادی مقصد پاکستان میں، علم کی موجودہ صورتِ حال کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ و ہم آمیز کرتے ہوئے ،دیسی بنانا یعنی Indigenise کرنا ہے(مقاصد اور اہداف کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کا مضمون،’’آئی کے ایف:علم کو کیوں کر مقامی ضرورتوں سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے؟‘‘ مشمولہ آن لائن میگزین’ایک روزن‘،۲۵ جولائی ۲۰۱۶ء) ۔
آئی کے ایف،کے پہلے اجلاس میں ڈاکٹر ناصر عباس نیّرنے(جن کی حیثیت اردو نے اہم نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ، اُردو زبان وادب میں نوآبادیاتی مطالعات کے حوالے سے استناد کا درجہ اختیار کر گئی ہے)اپنا تفصیلی لیکچر بہ عنوان’متبادل بیانیہ:ردّ نوآبادیات کے تناظر میں‘(Alternative Narrative in the context of Decolonization) پیش کیا۔اس لیکچر کے ماڈریٹر شاہ زیب خان تھے ۔ڈاکٹر نیر کا لیکچر دراصل تین حصوں پر مشتمل تھا :یعنی، (۱)بیانیہ کیا ہوتا ہے؟ (۲)بیانیہ کا ردّ نوآبادیات سے کیا علاقہ ہے؟(۳)متبادل بیانیہ کیا ہے، اس کی ضرورت و افادیت کیا ہے اور یہ کِن خصائص کا حامل ہوتا ہے؟ اس لیکچر ا ور اس پر بعد میں ہونے والی گفتگو کے اہم نکات پیشِ خدمت ہیں :
متبادل بیانیہ ہی کیوں؟ اس فورَم کے پہلے اجلاس میں متبادل بیانیہ کو کیوں زیرِ بحث لایا جارہا ہے، بیانیہ اور اس فورَم کے اہداف میں کیا ربط ضبط ہے؟ اس حوالے سے گفت گو کرتے ہوئے ڈاکٹر نیّر کا کہنا تھا کہ بیانیہ کوئی زیادہ پرانی اصطلاح نہیں ہے(خصوصاً اُردو زبان و ثقافت کے حوالے سے)لیکن اس اصطلاح نے اُردو کے لسانی نظام میں بہت جلد اپنی جگہ بنا لی ہے، اور اپنا حلقہ خلق کرلیا ہے اور آج کل یہ اصطلاح بغیر کوئی غرابت اور اجنبیت کا احساس پیدا کیے، خواص وعوام(خصوصاً الیکٹرونک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر) کی زبان پرہے۔بیانیہ کو سمجھنے کے لیے رولاں بارت کے خیالات بہت اہم ہیں؛جن کے مطابق ادب سے لے کر صحافت،کلچر سے لے کر تہذیب۔۔روزمرہ زندگی۔۔یہ سب بیانیوں سے معمور ہے؛ بیانیہ ہر عہد، ہر دَور میں مختلف شکلوں اور ہئیتوں میں موجود رہا ہے۔بیانیہ قدیم ہے، البتہ اس کا بہ طور اصطلاح رواج نئی چیز ہے ،اور علمی دنیا سے لے کر عام روزمرہ دنیا میں اسی اصطلاح کو رواج ملتا ہے ،جس کی گہری نسبت سماج کی حقیقی صورتِ حال سے ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ بیانیہ میں کیا خصوصیت ہے، کہ یہ بہ طورِاصطلاح رائج ہو گیا ہے،؛اس ضمن میں ہمیں سمجھنا ہو گا کہ انسانی علم کی ترسیل کیوں کر اور کن کن ذرائع سے ہوتی ہے؟اس سوال کا ایک سیدھا سا جواب ہے:’کہانی‘ ۔ ہماری تاریخ میں تبدیلیوں اور تغیرات کا علم ہم تک کہانی اور اس کی گوناگوں صورتوں کے ذریعے پہنچتا ہے۔کہانی خود عبارت ہے ،واقعہ اور بیانِ واقعہ سے، واقعہ اور بیانِ واقعہ کا موضوع ایک لیکن معنی مختلف ہو سکتے ہیں؛بیانِ واقعہ کے درجنوں مضمرات سہی، لیکن اس کا کہانی پَن اسے مقبول بناتا ہے، سو بیانیہ کے مقبول ہونے کا سبب بھی یہی ’کہانی پَن‘ ہے۔اگلا اہم سوال جو ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے یہ ہے: کہ علم کی ترسیل تو بیانیہ کے ذریعے ہوتی ہے، کیا علم کی ساخت یا دوسرے لفظوں میں علم کی وجودیات کی بنیاد بھی بیانیوں پر اُستوار ہے؟سو اس ضمن میں ملحوظ رکھنا چاہئے کہ بیانیہ کی ساخت(= وجودیات)میں دونوں چیزیں(واقعہ+بیانِ واقعہ) شامل ہیں؛اور یوں بیانیہ سازی کے عمل میں دو عناصر شامل ہونے چاہیءں:یعنی(۱) بیانیہ کو بنانا/ رائج کرنا اور(۲) بیانیوں کا لمحہ بہ لمحہ تنقیدی شعور سے جائزہ لینا، اس ساری بحث کے تناظر میں دیکھیں تو دُنیا اور سماج میں سب جنگیں’بیانیوں کی جنگیں‘ ہیں، سب علوم اور ان کی ترویج کے لیے کی جانے والی (بے شک مخلصانہ) کوششیں بیانیوں ہی کی محتاج ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمارا اپنا بیانیہ جسے ہم،’متبادل بیانیہ‘ کہہ رہے ہیں ، کیا ہے یا کیا ہونا چاہیے، یا اگر ہمارا اپنا خلق کردہ بیانیہ مفقود و ناموجود ہے تو اُس کی جگہ ہم حاوی/عصری بیانے سے کیوں کر معاملہ کر سکتے ہیں؟ کسی بھی حاوی یا عصری بیانیہ کے مقابلے میں دو طرح کے ردِعمل کا مظاہرہ ہو سکتا ہے؛ اول، یا تو حاوی بیانیے کو ہی assimilate کیا جائے ، اس کے نتیجے میں بیانیہ کی ایک انتہائی مجہول(یا اُدھارلی گئی )شکل وجود میں آئے گی ، دوّم یہ کہ حاوی بیانیے کے بالمقابل ایک مزاحمتی بیانیہ تشکیل دیا جائے، لیکن ایک بات جو ذہین میں رکھنے کی ہے کہ مزاحمتی بیانیہ خود اس کو تشکیل دینے والے کے ذہن کو کنٹرول کر سکنے کی پوری استعداد رکھتا ہے، کیوں کہ یہ بیانیہ دراصل ، حاوی بیانیہ کے ردّ ہی میں اپنی توانائی کو صَرف کرتا ہے سو ہمیں نہ تو مجہول بیانیہ درکار ہے، نہ ہی مزاحمتی، بل کہ ہمارے مسائل کا حل متبادل بیانیہ میں ہے، اسی کے ذریعے ہم ثقافتی و سیاسی سطحوں پر ’ردّ نوآبادیات‘ کے پراسس کا آغاز کر سکتے ہیں
اس موقع پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ متبادل بیانیہ اور ردّ نوآبادیات کا کیا تعلق ہے؛ اس ضمن میں سعادت حسن منٹو کے تحریر کردہ،’انکل سام کے نام خطوط‘ (۱۹۵۴ء) نہایت اہمیت کے حامل ہیں، یہ خطوط اس حقیقت کو طشت از بام کرتے ہیں کہ۱۹۴۷ء میں برطانوی نوآبادیات سے نکل کر ہم ایک نئے نوآبادیاتی نظام(امریکی نوآبادیات؛ جو محض اپنی شکل میں اول الذکر سے مختلف ہے)میں داخل ہوئے، یعنی ابتدا ہی سے ہم نے ردّنوآبادیات کے عمل کا آغاز ہی نہیں کیا، سو اس ردّنوآبادیات کے پراسس کا آغاز نہ کر پانے کی وجہ سے ہنوز ہماری نسلیں، نفسیاتی استعماریت کا بری طرح شکار ہیں، جو نوآبادیات کا سب سے گھناؤنا نتیجہ ہوتی ہے۔اُردو کلچر میں حامی(=انجذابی) بیانیہ کی واضح مثال سرسید وآزاد ہیں، اس کا صریح ثبوت سر سید کا وہ مضمون ہے جس میں وہ مسلمانوں کو اپنی زبان کو بھول کر انگریزی اور فرانسیسی میں گُم ہونے کا مشورہ دیتے ہیں( البتہ سرسید اس مشورے کی ذیل میں مذہب کو استثنائی صورت خیال کرتے ہیں، جو ہر بڑے آدمی کے طرح سرسید کے اپنے داخلی تضاد، یا نفسیات کی زبان میں دو جذبیت/ Ambevilance کی عکاسی کرتا ہے)۔اسی دَور میں متوازی طور پر مزاحمتی بیانیہ کی مثال بھی موجود ہے؛اور وہ ہیں اکبرالہ آبادی، جو شاعری کے ذریعے بڑی شدّومد سے حاوی بیانیہ(اور سرسید کے خیالات) کی نفی کر رہے تھے، ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ انھی خیالات پر مبنی ہے۔سو اس سارے تناظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ متبادل بیانیہ چہ معنی دارد؟ متبادل بیانیہ کی معمولی مثال بھی اسی عہدکے ایک مشہور ادیب ، ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ’توبہ النصوح ‘کے بہ ظاہر معمولی کردار’کلیم‘ سے سمجھی جا سکتی ہے، جو اپنی رائے کو، منجمد اور معاشرے میں رائج ناکارہ افکار پر ترجیح دیتا ہے اور اپنی دُنیا آپ بسر کرتا ہے؛لطف کی بات ہے کہ کلیم کی اس رائے کو مشرقی علوم کی انھی کتابوں کے پیدا کیا ہے، جن کے بارے میں، لارڈ میکالے کا یہ کہنا تھا کہ مغربی لٹریچر کا ایک شلف، مشرقی علوم کی اِن سب کتابوں کو ساقط العلم کر دینے پر قادر ہے، لہذا یہ کردار، داخلی دلیل ہے اس امر کی کہ ،خود اپنے سرمائے سے اپنی زبان میں بیانیہ تشکیل دینا ممکن ہے۔
اب آخر میں سوال ہے کہ متبادل بیانیہ کے خدوخال/خصائص کیا ہیں؛
(۱)متبادل بیانیہ کسی خاص بیانیہ کا جواب نہیں ہوتا، یعنی یہ جوابی بیانیہ( Counter Narrative )نہیں ہوتابل کہ اس کی بُنیاد میں خالصاً تخلیقی جوہر موجود ہوتا ہے اور اس کا جنم مقامی ودیسی وسائل کی مددسے( Indeginously )ہوتا ہے۔
(۲)متبادل بیانیہ صرف اور صرف اپنی زبان(دیسی) میں ہوتا ہے کیوں کہ مقامی زبان میں نہ صرف کسی سماج کا پورا تصور کائنات مضمر ہوتاہے،بلکہ کسی شخص کے تخلیقی جوہر کا مکمل اور کثیر الجہاتی اظہار بھی اس کی اپنی زبان میں ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ مقامی زبان ہی کسی شخص کو ثقافتی اجنبیت سے محفوظ رکھ سکتی ہے،اور اپنے ہم زبانوں سے جذباتی، تخیلی، فکری اور ابلاغی سطح پر وابستہ کرسکتی ہے۔
(۳)مقامی بیانیہ تہذیبی اجنبیت کو ختم کرکے اپنے کلچر کی بازیافت(نہ کہ احیا) کرتا ہے، بازیافت دراصل اپنی جڑوں کو اپنا کر ان کو موجودہ دور میں بامعنی بنانے کی کوشش سے عبارت ہوتی ہے۔
چوں کہ اس سارے اجلاس کا ماحول بنیادی طور پر جامعات کے درسی لیکچروں سے مختلف رہا ، لہذا اس لیکچر کی غالب صورت ایک ’مکالمے‘ کی رہی، جس کے دورا ن سامعین اپنے خیالات کا اظہا راور فاضل پروفیسر (ڈاکٹر ناصر عباس نیّر)سے استفسارات کرتے رہے، البتہ گفت گو کے اختتام پر سوال جواب کا ایک طویل اور بھرپور سیشن بھی ہوا جو اس اجلاس کی زبردست کامیابی اور سامعین کی موضوع سے دل چسپی پر دال تھا۔ان میں اکثر سوالات کے جواب خاصے طویل بھی دیے گئے، لیکن کسی مقام پر بھی اکتاہت کا شائبہ تک نہ ہوا۔چند اہم سوال اور ان کے جواب مختصراً پیش کیے جاتے ہیں۔
س: متبادل بیانیہ کے سامعین کون ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ بیانیہ انگریزی سے مکمل طور پر منقطع رہے؟
ج(ن،ع،ن):متبادل بیانیہ کے حقیقی سامعین تو ہماری بائیس کروڑ عوام ہے، لہذا اسے عوام ہی کے لیے ہونا پڑے گا، ہاں ایک ایسا اِدارہ/فورَم ایسا ضرور ہونا چاہیے جو ہمارے خیالات کو ترجمے کے وسیلے سے انگریزی کا قالب دے کر دُنیا تک پہنچائے کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں، ہماری طرزِ فکر کیا ہے، لیکن متبادل بیانیہ کی زبان، بہ ہر حال دیسی ہی ہو گی۔
س:کیا یہ ممکن ہے کہ متبادل بیانیہ کی تشکیل رائج حاوی بیانیہ کی مزاحمت کیے بغیر یعنی مزاحمتی بیانیہ تشکیل دیے بِنا ہو؟
ج(ن،ع،ن):کسی بھی متبادل بیانیہ کی تشکیل سے پہلے مزاحمتی بیانیہ کی تشکیل انتہائی اہم ہے اور اس کی اہمیت اپنی جگہ مسّلم ہے، لیکن میرا خیال ہے، کہ مزاحمتی بیانیہ صرف ایک مرحلہ ہے، جس پر رکنا نہیں چاہیے، اگر ہم صرف مزاحمتی بیانیوں پر ہی اکتفا کر لیں، تو ہم نہ صرف مسلسل رد عمل کی نفسیات میں جئیں گے ،یعنی دوسروں کو مسلسل غلط ثابت کرنے ، دوسروں پر غصہ ،دوسروں سے نفرت ،دوسروں کے خلاف احتجاج کرتے رہیں گے ،اور یوں دوسرے ہماری زندگی جئیں گے،بلکہ اپنی تخلیقی توانائیوں کا ضیاع کر دیں گے، لہذا اس کے جبر کا قطعاً شکار نہیں ہونا چاہیے۔
س: متبا دل بیانیہ میں ایک مسئلہ یہ ہے، کہ یہ چوں کہ حاوی بیانیہ کی نفی کرتا ہے اور یوں حاوی بیانیہ کے ساتھ جڑے مختلف ثقافتی ہیروز کو بھی مسمار کرتا ہے، جن سے عوام کی جذباتی وابستگی ہوتی ہے،سوال یہ ہے کی اس وابستگی کا کیا کِیا جائے؟
ج(ن،ع،ن):یہ یقیناً اہم اورحساس مسئلہ ہے، لیکن اس کا دانش ورانہ حل یہ ہے، کہ ہر نظریے اوراسی طرح ہر بڑے ذہن یا ہیرو کے ساتھ جذباتی وابستگی کی بہ جائے ایک ’جمالیاتی بُعد‘(Aesthetic Distance) رکھا جائے، اور ان کا جائزہ لیا جائے ،کہ وہ کیسے ہمارے ہیرو بنے ،خود ہیرو بننے کا عمل ہے کیا۔سب ہیرو سماجی وتاریخی ضرورتوں کے تحت وجود میں آتے ہیں،ہمیں ان ضرروتوں کو سمجھنا چاہیے ،اور یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا کوئی تاریخی ضرورت یا صورت حال حتمی اور مطلق ہوسکتی ہے ؟ اگر نہیں تو پھر کوئی ہیرو بھی مطلق قدر کا حامل نہیں ہوتا۔
س:اگر ہم علم کو دیسی بنانے کا سوچ رہے ہیں، تو پھر اُردو ہی کیوں؟پنجابی، پشتو، سندھی،بلوچی، ہندکَو وغیرہ کیوں نہیں؟ متبادل بیانیے کے تناظر میں مادری زبانوں کو کس ذیل میں رکھا جائے گا؟
ج(ن،ع،ن):زبانوں کے حوالے سے یہی وہ اُلجھاؤ ہے، جس کا شکار ہماری پوری قوم ہے، میں اس بات کو بھارت جیسے کثیر السانی ملک کی حکمتِ عملی سے سمجھاتا ہوں،؛آزادی کے فوراً بعد بھارت میں لینگوئچ کمیشن بنایا گیا ، جو آج تک موجود ہے، اس کا مقصد پورے ملک کی سینکڑوں زبانوں کا ڈیٹا اکھٹا کرنا، اور معاشرے میں ان کی موجودہ صورتِ حال کا تجزیہ کرنا ہے۔بھارت کا سہ لسانی فارمولہ ہماری راہ نمائی کر سکتا ہے؛ اس کے مطابق، ہر علاقے میں سبھی علوم اور معلومات کم از کم تین زبانوں میں دستیاب ہوں گے: یعنی انگریزی، ہندی اور مقامی زبان(مثلاً مراٹھی،ہندی ، اردو، تلگو، ملیالم ،بنگالی وغیرہ)، اس سہ لسانی فارمولے نے ان کے مسائل کو کافی حد تک کم کیا ہے، ہمارے ہاں بھی زبان کے حوالے سے اگر ذہن واضح ہو اور ہم اپنے بچوں کو ان کی مقامی مادری زبان، قومی زبان اور عالمی زبان سکھا سکتے ہیں،شرط یہ ہے کہ ان میں کوئی زبان استعمار نہ بنے ،یعنی ایک زبان دوسری زبان کو اس کی حیثیت سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ آدمی کی اپنی زبان کو بہ ہر حال اولیت ملنی چاہیے۔انگریزی سیکھنا اور پڑھنا قابلِ تحسین ہے، لیکن اسے دیسی علم پیدا کرنے کا وسیلہ بنانا درست نہیں ہے۔
س:بتبادل بیانیہ کے لیے، رائج بیانیہ کے Stereotypes کو ردّ کرنا ضروری ہے، ایک اُستاد اس عمل سے کیوں کر نبرد آزما ہو سکتا ہے؟کیا اُسے نصاب میں شامل حاوی بیانیہ کو واضح طور پر مسترد کر دینا چاہیے، اور طلبا کے سامنے ا پنی ذ اتی آرا کو پیش کر دینا چاہیے؟
ج(ن، ع،ن):میرا خیال ہے کہ یہ سوال کہ کیا اُستاد کو اپنی اصل آرا کو طلبا کے سامنے جوں کا توں پیش کرنا چاہئے ، خاصی نازک نوعیت کا ہے؛ اس سلسلے میں ہمیں زبان میں موجود اظہار کے مختلف اورمتبادل ( Alternative )پیرایوں سے مدد لینی ہوگی، زبان کے اندر کسی آئیڈیا کو بیان کرنے کے لاتعداد طریقے ہو سکتے ہیں، ہم اپنی کسی بھی بات کو لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں، اگر ہم دو چیزیں سیکھ لیں:استدلال اور شائستگی۔
آئی کے ایف، بے سمتی اور خود فراموشی کی فضا میں وہ کوہِ نداہے، جو ہمیں ’اپنی دُنیاآپ پیدا‘ کرنے کی دعوت دے رہا ہے، اور اس سے اہم بات کیا ہو سکتی ہے:
بلبل از فیضِ گُل آموخت سخن ورنہ نہ بود
ایں ہمہ قول وغزل تعبیہ در منقارش
یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم اور عمدہ فورم ہے. کہ جس کا آغاز (جیسا بیان کیا گیا) 1947 میں ہونا چاہیے تها. مگر دیر آید درست آید. ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ آزادی کے 70 سال بعد بهی ہم ذہنی، علمی، سماجی، معاشی اور سیاسی غلامی کا کیوں شکار ہیں. یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی نسل کو اپنی زبان میں یہاں کی ضرورتوں سے ہم آہنگ بیانیے سے متعارف کروایا جائے. اللہ آپ سب کو ہمت اور جذبہ عطا فرمائے.